(کتاب نما) تعارف و تبصرہ - ادارہ

10 /

تعارف و تبصرہتبصرہ نگار:پروفیسر حافظ قاسم رضوان

نام کتاب : مسئلہ فلسطین
تالیف: مولانا زاہد الراشدی مرتب: حافظ خرم شہزاد
اشاعت : نومبر ۲۰۲۳ء ناشر :القاسم اکیڈمی ‘ جامعہ ابوہریرہؓ‘ خالق آباد‘ نوشہرہ

یہ کتاب دراصل مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ کے مسئلہ فلسطین پر چھپنے والے بیانات‘ مضامین اور کالموں کا ایک انتخاب ہے جو کہ مختلف جرائد اور اخبارات میں شائع ہوتے رہے ہیں۔
فلسطین کا مسئلہ مغرب بالخصوص برطانیہ کا چھوڑا ہوا ایک ناسور ہے جس نے اب خصوصاً عالم عرب اور عموماً عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ اگر اس مسئلے کی شروعات کو دیکھا جائے تو اولاً۱۹۱۷ء کے اعلانِ بالفور (اس وقت فلسطین برطانیہ کے زیرنگیں تھا)کے بعد یہودیوں نے فلسطین میں اپنا وطن بنانے کی خاطر زمینیں خریدنی شروع کر دیں۔ اس وقت کے مفتی اعظم فلسطین امین الحسینی ؒو دیگر علماء اور علمائے ہند نے بھی فتویٰ دیا کہ عرب‘ یہودیوں کو زمین فروخت نہ کریں‘ کیونکہ اس طرح حصولِ زمین کے بعد یہ فلسطین کو اپنا قومی وطن بنا لیں گے۔ بدقسمتی سے وہاں کے عربوں نے اس فتویٰ کی پرواہ نہ کی۔ یہودیوں نے بھی منہ مانگے داموں زمین حاصل کرنا شروع کر دی۔ یوں ارضِ فلسطین یہودیوں کے قبضے میں جانا شروع ہو گئی۔
دوسرا ظلم یہ ہوا کہ صہیونی دہشت گرد تنظیموں نے برطانیہ کی خاموش سرپرستی میں ان زمینوں پر جو عرب مالکان نہیں بیچ رہے تھے‘ جبراً قبضہ کرنا شروع کر دیا‘ اور وہاں کے مسکینوں کو مارنے یا زبردستی بے دخل کرنے لگے۔ تیسرا ستم یہ ہوا کہ اس وقت ہمسائے میں جو عرب حکمران تھے‘ انہوں نے اقتدار کے نشے میں اندھے ہوتے ہوئے اور انگریزوں اور یہودیوں سے ساز باز کر کے فلسطینیوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ اس طرح یہ مسئلہ عربوں کی بزدلی اور نااہلی سے بڑھتے بڑھتے عقدئہ لاینحل کی صورت اختیار کرتا چلا گیا۔
روزنامہ اوصاف‘ اسلام آباد(۸ مارچ۲۰۰۲ء) میں مولانا زاہد الراشدی کا ایک مضمون بعنوان’’ مسئلہ فلسطین کا تاریخی پس منظر اور عالم اسلام کا اصولی موقف‘‘ شائع ہوا۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورِ خلافت میں۱۷ھ کے دوران بیت المقدس فتح ہوا اور آہستہ آہستہ فلسطین مکمل طور پر اسلامی حکومت کی عمل داری میں آگیا۔ پانچویں صدی ہجری کے آخر (۱۰۹۹ء)میں متحدہ صلیبی فوجوں نے بیت المقدس پر قبضہ کرلیا۔ ۸۰ سال بعد سلطان صلاح الدین ایوبی ؒ نے ۱۱۸۷ء میں دوبارہ اسلامی حکومت کو بحال کیا۔ اس کے بعد فلسطین عالم اسلام کا حصہ رہا۔ سلطانِ ترکی‘ سلیم اوّل نے۱۵۱۷ء میں اس پر قبضہ کر کے اسے خلافت ِعثمانیہ میں شامل کیا۔ سلطان عبد الحمید ثانی کے دور میں یہودیوں کی عالمی تنظیم نے خلافت عثمانیہ کو باقاعدہ پیشکش کی کہ اگر یہودیوں کو فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی جائے تو وہ عثمانی حکومت کے سارے قرضے ادا کرنے کو تیار ہیں‘ مگر غیور خلیفہ نے اس پیشکش کو سختی سے مسترد کر دیا اور یہودیوں کی فلسطین میںآباد کاری سے مکمل انکار کیا۔ اس کے نتیجے میں بالآخر خلافت عثمانیہ کا بوریا بستر لپیٹ دیا گیا۔ پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں نے جرمنی اور ترکی کے خلاف برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کا ساتھ اس شرط پر دیا تھا کہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن تسلیم کیا جائے۔ جنگ عظیم اوّل میں ترکی کی شکست کے بعد فلسطین پر برطانیہ قابض ہو گیا۔ اس نے۱۹۱۷ء کے اعلانِ بالفور کے بعد ایک برطانوی یہودی کو فلسطین کا ہائی کمشنر مقرر کر دیا جس نے وہاں یہودیوں کی آباد کاری کی راہ ہموار کی۔ ۱۹۴۰ء میں برطانیہ کے قبضہ چھوڑنے پر اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا گیا‘ جبکہ بیت المقدس اور دریائے اردن کا مغربی کنارہ اردن کے تسلط میں چلا گیا۔ ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ میں دریائے اردن کا مغربی کنارہ‘ بیت المقدس ‘ شام کی گولان کی پہاڑیوں اور مصر کا صحرائے سینا اسرائیل کے قبضہ میں چلے گئے۔ ۱۹۷۳ء کی عرب اسرائیل جنگ میں صرف مصر نے اپنا کچھ مقبوضہ علاقہ واپس لیا۔ بعد میں باہمی معاہدے کے تحت مصر کو سارا صحرائے سینا مل گیا۔
اس وقت مسئلہ فلسطین کے حوالے سے تین موقف عالمی رائے عامہ کے سامنے ہیں۔ ایک موقف اسرائیل کا ہے جس کے مطابق وہ سارے مقبوضہ علاقوں کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے اور کچھ بھی چھوڑنے کو تیار نہیں۔ یہاں تک کہ بیت المقدس کو اس نے اپنا دارالحکومت قرار دے رکھا ہے۔ اس نے بھی بڑھ کر’’ عظیم تر اسرائیل‘‘ کے جو مستقبل کے نقشے شائع ہو رہے ہیں ان میں مصر‘ شام‘ عراق‘ اردن‘ لبنان اور سعودی عرب کے مدینہ منورہ اور خیبر سمیت بہت سے علاقوں کو اسرائیل کا حصہ دکھلایا گیا ہے۔ دوسرا موقف اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق ہے جس میں۱۹۶۵ء کے دوران فلسطین کے دو حصوں میں تقسیم ہونے کی حیثیت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اسرائیل نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے‘ اسرائیل سے ان کے خالی کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ گویا ان قرار دادوں کے مطابق اسرائیل کی ریاست کو جائز تسلیم کرتے ہوئے اس سے تقاضا کیا گیا ہے کہ وہ فلسطین کی آزاد ریاست کو تسلیم کرے اور۱۹۶۷ء کی جنگ میں جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے‘ انہیں خالی کر دے۔ ترکی‘ اردن‘ مصر سمیت بہت سے اسلامی ممالک کا موقف یہی ہے اور اسی بنیاد پر انہوں نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے۔ تیسرا موقف پاکستان‘ سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک کا ہے کہ اسرائیل کا قیام سرے سے ہی ناجائز ہے‘ کیونکہ فلسطینیوں کو ان کے گھروں اور علاقوں سے جبراً بے دخل کر کے اس پر انگریزوں نے یہودیوں کا غاصبانہ قبضہ کرایا تھا۔ اس لیے عرب اسرائیل تنازع کا فیصلہ ۱۹۴۸ء کی صورت حال کے مطابق نہیں بلکہ ۱۹۱۷ء کی صورت حال کے مطابق کیا جانا چاہیے۔ اس موقف کو سعودی عرب کے بانی ملک عبد العزیز آل سعود نے امریکہ کے صدر ٹرومین کے ایک دھمکی آمیز خط کے جواب (فروری۱۹۴۸ء) میں دوٹوک واضح کیا تھا۔ صدر ٹرومین نے اپنے خط میں ملک عبد العزیز سے کہا تھا کہ وہ عربوں سے اسرائیل کو تسلیم کرانے اور تقسیم فلسطین کو منوانے کے لیے اپنا اثر ورسوخ استعمال کریں‘ ورنہ سعودی عرب‘ امریکہ تعلقات متاثر ہو سکتے ہیں اور اس مسئلے سے متعلقہ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تسلیم نہ کرنے والے ممالک پر فوج کشی بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے جواب میں سعودی عرب کے والی نے صدر امریکہ کو لکھا: ’’فلسطین کی جنگ کوئی پرانی جنگ نہیں جیسا کہ آپ کا خیال ہے‘ بلکہ یہ اس کے اصل حقدار عرب قوم اور ان صہیونی جنگجوئوں کے درمیان لڑائی ہے جو فلسطینیوں کی چاہت کے برعکس عالمی سلامتی کا دعویٰ کرنے والے چند ایک ملکوں کی مدد سے اپنا قبضہ جمانے کی کوشش میں ہیں۔ نیز فلسطین کو تقسیم کرنے کی عالمی قرار داد جس کو مختلف ملکوں سے منظور کرانے میں آپ کا رول نمایاں رہا ہے‘ محض ظلم و ناانصافی پر مبنی ایسی قرار داد ہے جس کو ابتدا ہی سے تمام عرب ممالک نےاور ان ممالک نے بھی روک دیا تھا جو حق کا ساتھ دے رہے ہیں۔ لہٰذا حالیہ لڑائی کے ذمہ ارعرب نہیں جس پر آپ ہمیں محتاط ہونے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ‘‘
اس پس منظر میں سعودی ولی عہد شہزادہ عبد اللہ (۲۰۰۲ء)کی اس پیشکش کا جائزہ لیا جائے کہ اگر اسرائیل عربوں کے مقبوضہ علاقے خالی کر دے تو سعودی عرب اسے تسلیم کرنے کو تیار ہے۔ گویا اس کے بعد باقی عالم اسلام سے اسرائیل کو تسلیم کرانے میں کوئی بنیادی رکاوٹ نہیں رہتی۔ اس سے واضح مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ سعودی عرب اپنے بانی کے موقف سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ فلسطین اور یہودیوں کے حوالے سے عالم اسلام کے اصولی اور جائز موقف کی اب تک جرأت مندانہ قیادت کرنے والے سعودی عرب کی طرف سے یہ پیشکش بذاتِ خود عالمی اور اسلامی ممالک کی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہے۔ ؎
یہ ڈرامہ دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ
اس کتاب کو پڑھنے سے قاری مسئلہ فلسطین سے بخوبی آگاہ ہو جاتا ہے۔ یہ موجودہ دور کی اہم ضرورت بھی ہے ۔ ان مضامین کے معیار و مقام کے لیے مولانا زاہد الراشدی کا نام ہی کافی ہے۔ البتہ اتنی اہم کتاب کے لیے استعمال ہوئے کاغذ کا ہلکا پن نگاہ میں کھٹکتا ہے۔ اس تالیف کو ہر کتب خانے کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔