(اسلام اور سائنس) سائنسی علوم کی ایک مثالی اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت(۷) - ڈاکٹر محمد رفیع الدین

10 /

سائنسی علوم کی ایک مثالی
اسلامی یونیورسٹی کی ضرورت(۷)
ڈاکٹر محمد رفیع الدین

طبیعیاتی علوم کی تشکیل ِجدید
طبیعیاتی علوم (Physcial Sciences) میں نصابی کتب کو نئے سرے سے ترتیب دینے کے لیے ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا چاہیے کہ عیسائی مغرب کی سائنس میں علم طبیعیات کی تعریف ان الفاظ میں کی جاتی ہے: ’’طبیعیات مادّہ کا علم ہے‘‘ ( Physics is the Science of matter)۔لیکن اسلام کے نقطہ نظر سے یہ تعریف غلط ہے کیونکہ اس کے اندر یہ خیال مضمر ہے کہ مادّہ کوئی ایسی چیز ہے جو خودبخود موجود ہے اور جس کا علم ہمیں اس کو جاننے کی خاطر حاصل کرنا چاہیے‘ حالانکہ یہ بات صحیح نہیں۔
یہ تعریف دَہریت کے امکان کو تسلیم کرتی ہے اور اس کے لیے راستہ کھلا چھوڑتی ہے لیکن قرآن کی تعلیمات کے مطابق مادّہ حتمی طور پر خدا کی خالقیت اور ربوبیت کی وجہ سے موجود ہے‘ وہ اپنا کوئی بالذات وجود نہیں رکھتابلکہ اپنے خالق کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک نشان (یاآیت اللہ) ہے۔ لہٰذا اس کا جو علم ہو گا وہ پہلے اس کے خالق اور ربّ کا علم ہو گا اور بنیادی طور پر ہمیں اس کا علم حاصل کرنے کی ضرورت اس لیے ہو گی تاکہ ہم اس کے خالق کی خالقیت اور ربوبیت کو جانیں اور پہچانیں۔ لہٰذا قرآن کے فلسفہ علم کے مطابق طبیعیات کی صحیح تعریف یہ ہوگی:’’طبیعیات خدا کے اس تخلیقی اور تربیتی عمل کی سائنس ہے جو مادّی دنیا میں ظہور پزیر ہوا ہے۔‘‘
" Physics is the Science of the creative activity of God as it manifests itself in that part of His creation which is the world matter."

اگر طبیعیات کی درسی کتاب لکھنے والا ماہر طبیعیات اس تعریف کو مدنظر رکھے گا تو پھر وہ ہر طبیعیاتی حقیقت کو خدا کی صفاتِ خالقیت و ربوبیت کا مظہر سمجھے گا اور اس کو طالب علم کے سامنے اسی حیثیت سے پیش کرے گا۔ عیسائی سائنس دان کی تحقیقات کے مطابق مادّہ کے وجود اور مادّی دنیا کے ارتقا کا باعث برقی قوت ہے۔ برقی رو کے مثبت اور منفی قطبوں کی باہمی کشش ہر قدم پر مادّی دنیا کی تعمیر اور ترقی کا سبب بنتی رہی یہا ں تک کہ مادّی دنیا اپنی موجودہ حالت تکمیل تک پہنچ گئی۔ مادّہ کے تمام قوانین برقی قوت کے عمل کی مختلف شکلیں ہیں۔ سب سے پہلے کسی نامعلوم قوت کے زیر اثر برقی روشنی کی کرنیں کائناتی شعاعوں کی صورت میں وقت اور فاصلہ کی ایک بسیط فضا میں پھیل گئیں۔ پھر ان کائناتی شعاعوں نے برقی لہروں کی چھوٹی چھوٹی گٹھڑیوں کی صورت اختیار کرلی جنہیں الیکٹران اور پروٹان کہا جاتا ہے۔ پھر ان گٹھڑیوں کی باہمی کشش کی وجہ سے مختلف ترکیبوں کے یعنی مختلف عناصر کے جواہر (ایٹم) تیار ہوئے او ر بعد کے طبیعیاتی ارتقا کی ساری منزلیں طے ہوئیں۔ ان منزلوں کے طے ہونے کے بعد ہی مادّہ کے اندر وہ اَسرار و خواص پیدا ہوئے جن میں سے بعض کو آج ہم جانتے ہیں اور جن کی پوری تحقیق علم طبیعیات کا موضوع ہے۔ لیکن عیسائی مغرب کے ماہرین طبیعیات یہ نہیں بتا تے کہ برقی قوت کہاں سے آئی تھی اور جن تخلیقی اور تربیتی خصوصیات کی وہ حامل ثابت ہوئی ہے وہ اس میں کہاں سے آگئی تھیں!
بیسویں صدی کے بعض مقتدر ماہرین طبیعیات ایک قدم آگے بڑھ کر اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ برقی توانائی بھی مادّہ کی آخری حقیقت نہیں اور خود برقی توانائی کی حقیقت ایک شعوری یا ذہنی قوت ہے۔ چنانچہ اس نتیجہ کی وضاحت کرنے کے لیےایڈنگٹن اور جیمز جینز ایسے نامور ماہرین طبیعیات نے کتابیں لکھی ہیں۔ لیکن یہ سائنس دان بھی ہمیں نہیں بتاتے کہ اس ذہن یا شعورکے اوصاف وخواص کیا ہیں جو ان کے نزدیک مادّہ کی آخری حقیقت ثابت ہوا ہے۔ ایڈنگٹن اسے شعوری مواد(Mind-stuff) کہتا ہے گویا اسے شعور قرار دینے کے بعد پھر بھی مادّہ سے الگ نہیں کرتا بلکہ ایک قسم کا مادّہ ہی سمجھتا ہے اور جیمز جینز یہ کہہ کر بات ختم کر دیتا ہے کہ یہ شعور ایک ریاضیاتی ذہن (Mathematical Mind)ہے یعنی ریاضیات جانتا ہے۔
دراصل چونکہ عیسائی دنیا کے سائنس دان اس نامعقول عقیدہ یا تعصب سے آغاز کرتے ہیںکہ خدا کے عقیدہ کو سائنس سے الگ رہنا چاہیے وہ اپنے مشاہدات کی واضح دلالت کے باوجود اس نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے کہ شعور جو حقیقت کائنات ثابت ہوتا ہے‘ محض شعور ہی نہیں بلکہ ایک شخصیت ہے جو کائنات کی خالق اور ربّ ہے‘ اور شخصیت کی دوسری صفات کی مالک ہے ۔ انسانوں کے مشاہدات کے مطابق ایسا شعور ایک شخصیت ہی کا خاصہ ہے اور ضروری ہے کہ وہ جہاں بھی ہو شخصیت کی صفات کا مالک ہو۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کو ئی سائنس دان اپنے تجربات اور مشاہدات سے اس نتیجہ پر تو پہنچ جائے کہ فلاں جگہ دھواں موجود ہے لیکن اس نتیجہ پر پہنچنے سے گریز کرے کہ وہاں آگ بھی ہے‘ حالانکہ انسانوں کے مشاہدات کے مطابق دھواں کبھی آگ کے بغیر نہیں ہوتا۔ اور وہ گریز اس لیے کرے کہ اس نے یہ اصول پہلے ہی سے طے کر لیا ہے کہ وہاں آگ کو نہیں ہونا چاہیے۔ مغربی سائنس دانوں کا یہ تعصب اس بات کا ثبوت ہے کہ سائنس دان جس تصوّرِ حقیقت سے اپنی سائنسی تحقیق کا آغاز کرتا ہے آخر تک اس کے دائرہ سے باہر نہیں جاسکتا۔ اور یہ بات قرآن کے اس ارشاد کی صداقت کی بھی ایک دلیل ہے کہ جب آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود انسان صحیح نتائج پر نہ پہنچ سکے تو اس کی وجہ سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتی کہ تعصب نے دلوں کو اندھا کر دیا ہے۔
{فَاِنَّھَا لَا تَعْمَی الْاَبْصَارُ وَلٰکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ (۴۶)}(الحج)
’’پس حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘
قرآن کی تعلیم
اس کے بر عکس قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ خدا نے کائنات اور کائنات کی ہر چیز کو اپنے حکم سے پیدا کیا ہے۔ وہی کائنات اور کائنات کی ہر چیز کا پرورش کنندہ اور کارساز ہے۔
{اَللّٰہُ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ءٍ ز وَّ ہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ وَّکِیْلٌ (۶۲)}(الزمر)
’’اللہ ہر چیز کا خالق ہے اور وہ ہر چیز کا کارساز بھی ہے۔ ‘‘
{اِنَّمَآ اَمْرُہٗٓ اِذَا اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۸۲)} (یٰسٓ)
’’بے شک اُس کے حکم کی کیفیت یہ ہے کہ جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اسے کہتا ہےہوجا اور وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
لہٰذا جب ہم عقیدئہ توحید کی روشنی میں موجودہ طبیعیاتی علوم پر نظر ثانی کریں گے تو ہمیں ان تمام علوم کا بنیادی تصوّر یہ قرار دینا پڑے گا کہ بیسویں صدی کے ماہرین طبیعیات مثلاً جیمز جینز اور ایڈنگٹن کا یہ خیال درست ہے کہ حقیقت کائنات ایک ریاضیاتی شعور ہے‘ لیکن ریاضیاتی شعور شخصیت کے باقی اوصاف کے بغیر نہیں ہو سکتا‘ لہٰذا وہ ریاضیاتی شعور خدا ہے جو کائنات کا خالق اور ربّ ہے اور حکیم و علیم ہے۔ برقی قوت از خود موجود نہیں ہوئی تھی بلکہ خدا کے حکم سے اور قولِ ’’کن‘‘ سے پیدا ہوئی تھی۔ گویا خدا کے ارادۂ تخلیق کی قوت یا اس کے قولِ ’’کن‘‘ کی قوت نے ہی برقی قوت کی صورت اختیار کی تھی۔ ادھر خدا نے قولِ’’ کن‘‘ کہا اور ادھر برقی قوت کارفرما ہو گئی۔ اور برقی قوت کی صفا ت بھی ایک عمل تخلیق میں سے گزری ہیں اور اس عمل کے دوران میں اس کی ہر خا صیت بروقت ضرورت‘ ایک خاص مقصد کے ماتحت مادّہ کی مکمل تدریجی تخلیق اور تربیت کے لیے خدا کے حکم سے وجود میں آئی تھی اور اس وقت سے لے کر مستقل طور پر اس میںموجود چلی آتی ہے۔ پھر الیکٹرانوں اور پروٹانوں کا مل کر مختلف عناصر کو ترتیب دینا اور مادّہ کی دوسری خاصیتوں کا مادی ارتقا کے قدم قدم پر ایک ایک کر کے ظہور پانا خدا کے حکم سے ممکن ہوا ہے‘ ورنہ مادّہ کے اندر اس قسم کے ارتقا کی منزلیں خود بخود طے کر لینے کی کوئی صلاحیت موجود نہ تھی۔ مثلاً آکسیجن(Oxygen) اور ہائیڈروجن(Hydrogen) میں کوئی ایسی خصوصیت نہیں تھی جس سے وہ مل کر پانی بنادیں اور پانی کے وجود میں آنے سے پہلے کوئی سائنس دان آکسیجن اور ہائیڈروجن کی خاصیت کا مشاہدہ اور مطالعہ کر کے یہ نتیجہ اخذ نہ کر سکتا تھا کہ ان کا ایک خاص نسبت سے کیمیاوی ترکیب پانا ممکن ہے اور ان کی ترکیب کا نتیجہ پانی ایسے ایک سیال کی صورت میں رونما ہوگا۔ ان کا مل کر پانی بن جانا خدا کے حکم سے ممکن ہوا ہے۔ ارتقائے ابداعی(Emergent Evolution) کا نظریہ قرآن کے اس نظریہ کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے اگرچہ اس کے عیسائی قائلین اپنے مخصوص عیسائیت نواز فلسفہ علم کی وجہ سے اس بات کا اعتراف نہیں کرتے کہ کائنات کے عمل ارتقا کے ہر قدم پر جو غیر متوقع لیکن معنی خیز تغیرات اس کو وجود میں لاتے رہے ہیں اور لارہے ہیں ان کا آخری سبب کسی قادرِ مطلق خدا کے ارادۂ تخلیق کی قوت ہے۔
حیاتیاتی علوم کی تشکیل ِجدید
اسی طرح سے حیاتیاتی علوم (Biological Sciences) میں درسی کتابوں پر نظر ثانی کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے حیاتیات کی تعریف پر نظر ثانی کرنا چاہیے۔ مغربی عیسائی سائنس دانوں نے حیاتیات کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے:
Biology is the Science of life

’’حیاتیات زندگی (یعنی زندہ اجسام) کی سائنس ہے۔‘‘
لیکن طبیعیات کی تعریف کی طرح اس کی یہ تعریف بھی غلط ہے کیونکہ اس میں بھی اس بات کو نظر انداز کیا گیا ہے کہ زندگی خودبخود موجود نہیں بلکہ خدا نے پیدا کی ہے اور خدا کی خالقیت اور ربوبیت کا ایک مظہر ہے۔ لہٰذا حیاتیات کی صحیح تعریف اس طرح سے کی جائے گی:
" Biology is the Science of the creative activity of God as it manifests itself in the world of life."

’’حیاتیات خد اکے اس تخلیقی اور تربیتی عمل کی سائنس ہے جو خدا کی تخلیق کے اس حصّہ میں جسے ہم جاندار اجسام کی دنیا کہتے ہیں‘ ظہور پزیر ہوا ہے۔‘‘
حیاتیاتی علوم کے دائرہ میں مغرب کے عیسائی ممالک کے سائنس دانوں کی تحقیق یہ ہے کہ جب مادّہ اپنے ارتقا کی انتہا کو پہنچ گیا تو بعض نامعلوم اسباب کے ماتحت سمندروں کے کناروں پر کسی جگہ کیچڑ میں ایک زندہ خلیہ نمودار ہوا جسے اب امیبا(Amoeba) کہا جاتا ہے۔ یہ خلیہ خودبخود خوراک حاصل کرنے اور زندہ رہنے کے لیے جدوجہد کرنے لگا‘ لہٰذا زندہ رہا اور اس کی نسل ترقی کرتی رہی۔ اس کی نسل کے افراد کی جسمانی ساخت میں بغیر کسی وجہ کے قدرتی طور پر ہر قسم کی تبدیلیاں ہوتی رہیں جن کے جمع ہو جانے سے بعض نئی قسم کے جاندار ظہور میں آتے رہے۔ وہ جاندار جن کی جسمانی تبدیلیاں ایسی تھیں کہ وہ ان کو اتفاقاً کشمکش حیات (Struggle for Existence) کے لیے موزوں بناتی تھیں‘ زندہ رہے اور باقی کشمکش حیات کے اس امتحان میں ناکام ہو کر موت کے گھاٹ اُتر گئے۔ گویا کشمکش حیات کی ضرورت کی وجہ سے قدرت خودبخود بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کی وجہ سے زندہ رہنے کے قابل جانداروں کا انتخاب کرتی رہی۔ یہ کشمکش حیات ‘ بقائے اصلح اور قدرتی انتخاب کے بے مقصد اور بے پرواہ اصولوں کی کارفرمائی تھی۔ اس طرح سے جو نئی نئی انواعِ حیوانات وجود میں آتی رہیں ان میں سے ایک انسان ہے‘ جو قدرت کی محولہ بالا اندھا دھند قوتوں کے عمل سے اتفاقاً پیدا ہو گیا ہے۔ ان سائنس دانوں کا خیال ہے کہ نوعِ انسانی اتفاقاً جن حیاتیاتی تغیرات میں سے گزری ہے چونکہ وہ اس کی حیاتیاتی تعمیرکے اندر راسخ ہو گئے ہیں‘ لہٰذا انسانی جنین ماں کے رحم کے اندر ان کا اعادہ کرتا ہے۔ چونکہ یہ نظریہ جو انیسویں صدی میں پیش کیا گیا تھا‘ عیسائیت کے لادینی فلسفہ علم کے عین مطابق تھا اس لیے اسے اپنے زمانہ میں بڑی مقبولیت حاصل ہوئی ۔یہ نظریہ اب تک بھی جولین ہکسلے (Julian Huxley) ایسے نامور ماہرین حیاتیات کے نزدیک حیاتیاتی ارتقا کا معیاری نظریہ ہے‘ لیکن چونکہ یہ مشاہدہ میں آنے والے بعض قدرتی حالات اور واقعات کے خلاف تھا لہٰذا بعض عیسائی سائنس دانوں نے ہی جن میں برگساں (Bergson) اور ڈریش (Driesch) زیادہ مشہور ہیں‘ اس کی تردید کی اور اس کے بالمقابل دوسرے نظریات پیش کیے۔ ان میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ خود جاندار کے جسم کے اندر ایک باشعور تخلیقی قوت کارفرما ہے جسے قوتِ حیات کہنا چاہیے۔ ڈریش نے بالخصوص جانداروں کے جنین پر تجربات کر کے یہ دریافت کیا کہ یہ قوتِ حیات مزاحمتوں کے باوجود اپنی طے کی ہوئی سمت میں جاندار کی نشوونما کرتی ہے‘ لہٰذا اپنے مقصدکو جانتی ہے اور اس کے حصول پر قدرت رکھتی ہے۔ اس کا مقصد جاندار کی تربیت اور جسمانی نشوونما کرنا ہے جس میں اس کی صحت اور تندرستی کو قائم رکھنا بھی شامل ہے۔ ماں کے رحم کے اندر انسانی جنین کے بامقصد اور با معنی تغیرات اسی قوت کی کارفرمائی کا نتیجہ ہیں۔ یہی قوت جاندار کی جسمانی ساخت کو بہتر بنا کر اسے ایک اور زیادہ ترقی یافتہ جاندار کی صورت میں بدلنے کا موجب ہوتی ہے۔ اسی قوت کے عمل کی وجہ سے ہی انواعِ حیوانات میں وہ حیاتیاتی ارتقا ہوتا رہا ہے جس کا منتہائے کما ل انسان کا ظہور ہے۔ برگساں اور ڈریش نے اپنے ان نتائج سے جو آخری نتیجہ نکالا ہے وہ یہ ہے کہ یہی باشعور قوتِ حیات‘ حقیقت ِکائنات ہے۔ البتہ ان کے نتائج یہیں ختم ہو جاتے ہیں۔ ماہرین حیاتیات بھی اس نتیجہ پر پہنچنے کے بعد کہ حقیقت ِکائنات شعور ہے‘ یہ کہنے سے گریز کرتے ہیں کہ یہ شعور ایک شخصیت ہے جو قادر مطلق ہے اور کائنات کی خالق اور رب ہے ۔ اس کی وجہ پھر مغرب کی عیسائی دنیا کا وہی غیر سائنسی عقیدہ ہے کہ سائنس کو خدا کے عقیدہ سے الگ رہنا چاہیے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں مغرب کا علم حیاتیات اپنے صحیح راستے سے ہٹ گیا ہے اور یہ امرنفسیاتی اور انسانی علوم کی ترقی کے لیے ایک بہت بڑی رکاوٹ کا موجب ہوا ہے۔ ان نظریات کے بالمقابل قرآن کا نظریہ یہ ہے کہ وہ قوتِ حیات جو حیاتیاتی ارتقا کا باعث ہے‘ جو جاندار کے جسم کے اندر اس کی تخلیق و تربیت کے لیے کارفرماہے اور جورحم مادر کے اندر انسانی جنین کے بامقصد اور بامعنی تغیرات کا باعث ہے‘ خدا کے ارادۂ تخلیق و تربیت کی قوت ہے۔
{ثُمَّ جَعَلْنٰہُ نُطْفَۃً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ(۱۳) ثُمَّ خَلَقْنَا النُّطْفَۃَ عَلَقَۃً فَخَلَقْنَا الْعَلَقَۃَ مُضْغَۃً فَخَلَقْنَا الْمُضْغَۃَ عِظٰمًا فَکَسَوْنَا الْعِظٰمَ لَحْمًا ق ثُمَّ اَنْشَاْنٰہُ خَلْقًا اٰخَرَط فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ(۱۴)}(المؤمنون)
’’پھر ہم نے اسے نطفہ بنایا ایک ٹھہر جانے اور جمائو پانے کی جگہ میں۔ پھر نطفہ کو ہم نے علقہ بنایا‘ پھر علقہ کو ایک گوشت کا ٹکڑا سا کر دیا‘ پھر اس میں ہڈیوں کا ڈھانچہ پیدا کیا‘ پھر ڈھانچے پر گوشت کی تہہ چڑھا دی‘ پھر دیکھو اسے کس طرح ایک دوسری ہی طرح کی مخلوق بنا کر نمودار کر دیا۔ تو کیا ہی برکتوں والی ہستی ہے اللہ کی‘ پیدا کرنے والوں میں سب سے بہتر پیدا کرنے والا۔‘‘
{وَاِذَا مَرِضْتُ فَھُوَ یَشْفِیْنِ(۸۰)}(الشعراء)
’’جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ (خدا) مجھے شفا بخشتا ہے۔‘‘
ظاہر ہے کہ قرآن کے نقطہ نظر کے مطابق سبب ارتقا کا پہلا نظریہ جسے ڈارون اور اس کے ہم خیالوں کی حمایت حاصل ہے‘ قطعی طور پر غلط ہے‘ لیکن برگسان اور ڈریش کے نظریات قرآن کے نظریہ سے زیادہ قریب ہیں۔ قرآن کے اس نظریہ کے مطابق جب ہم حیاتیاتی علوم میں درسی کتابوں کی تشکیل کریں گے تو ہمیں ان علوم کا بنیادی تصوّر یہ قرار دینا پڑے گا کہ برگساں اور ڈریش ایسے ماہرین حیاتیات کا یہ خیال درست ہے کہ جاندار کے جسم کے اندر ایک باشعور اور بامقصد قوتِ حیات کارفرما ہے جو ایک خاص طے شدہ شکل و صورت اور مقصد اور مدّعا کے مطابق جانداروں کی نشوونما کرتی ہے۔ اس قوت کا عمل اگرچہ جاندار کی نشوو نما کے لیے ظہور پاتا ہے‘ تاہم وہ جاندار کے اپنے اختیار اور ارادہ سے باہر ہوتا ہے ۔اس سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ یہ قوت کوئی مادّی یا حیاتیاتی قوت نہیں جو اتفاقاً جاندار کے جسم کے اندر پیدا ہو گئی ہے بلکہ ایک قادرِ مطلق رحیم و کریم‘ خالق اور رب خدا کے ارادۂ تخلیق و تربیت کی قوت ہے جو محض اس کے قولِ کُن سے کارفرما ہو گئی ہے۔ یہی قوت مادّی مرحلہ ارتقا میں برقی قوت کی صورت میں اپنا کام کر رہی تھی اور حیاتیاتی عمل ارتقا کو لاکھوں برس تک ایک خاص سمت میں متواتر آگے دھکیلتی رہی یہاں تک کہ جسم انسانی ظہور پزیر ہوا۔ حیاتیات میں اس تصوّر کے داخل کرنے سے علم حیاتیات پھر اپنی ترقی کے صحیح راستہ پر آجاتا ہے اور انسانی اور نفسیاتی علوم کی صحیح راہ نمائی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ (جاری ہے)