(تعلیم و تعلم) مباحث ِعقیدہ (۲۰) - مؤمن محمود

10 /

مباحث ِعقیدہ(۲۰)مؤمن محمود

کلام اللہ کا اطلاق :صفت ِقدیمہ اور بَیْنَ الدُّفَّتَین دونوں پر
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت ِکلام اصلاً کلامِ نفسی ہے کہ جو قدیم ہے اور اسی پر کلام اللہ کا اطلاق ہوتا ہے۔ پھر اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنے احداث ‘اپنی تخلیق ‘ اپنی ترکیب اور تالیف سے کچھ الفاظ اتارے ہیں جس میں کسی انسان کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ وہ الفاظ بھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے ہیں اور اس کی صفت ِکلام جو صفت ِقدیمہ ہے‘ کے بعض مدلولات پر دلیل بنتے ہیں۔ تو یہ صفت ِکلام ہے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی۔ علماء نے کہا کہ قرآن مجید کے حروف‘ اصوات اور الفاظ پر بھی کلام اللہ کا اطلاق ہوگا‘ کیوںکہ ہو سکتا ہے کوئی شخص یہ کہے کہ ہم نے تو اس کو کلام نہیں مانا بلکہ صفت قدیمہ کو کلام مانا ہے۔ چنانچہ علماء نے کہا کہ چونکہ یہ الفاظ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے براہِ راست اپنی جناب سے اتارے ہیں‘ اپنے احداث‘ تخلیق اور ترکیب سے یعنی الفاظ کی جو ترکیب قرآن کی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے یہ بھی اللہ کی طرف سے ہے‘لہٰذا اس پر بھی کلام اللہ کا اطلاق ہوگا۔ علماء فرماتے ہیں کہ اس پر اجماعِ اُمّت ہے کہ یہ جو قرآن ہمارے سامنے موجود ہے بَیْنَ الدُّفَّتَین اس پر بھی کلام اللہ کے لفظ کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس کی دلیل سورۃ التوبہ کی وہ آیت ہے جس میں فرمایا گیا کہ یہ جو مہلت دی گئی ہے مشرکین مکہ کو کہ اسلام لے آؤ یا چلے جاؤ یا قتل کر دیے جائو گے جب یہ چار مہینے گزر جائیں تو اس کے بعد اگر کوئی شخص کہے کہ میں مزید مہلت چاہتا ہوں تو: { فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللہِ } (التوبۃ:۶) ’’ اُسے پناہ دے دو یہاں تک کہ وہ اللہ کا کلام سن لے۔‘‘ تو جو شے وہ سنے گا وہ تو الفاظ ‘ حروف اور اصوات ہی ہوں گے۔ لہٰذا اس مسموع کو بھی اللہ تعالیٰ نے ’’کلام اللہ‘‘ کہا ہے۔ لہٰذا امت کا یہ اجماع ہو گیا کہ یہ بھی کلام اللہ ہے۔چنانچہ کلام اللہ کا اطلاق صفت قدیم پر بھی ہوتا ہے۔اسی طریقے پر وہ الفاظ جو صفت قدیمہ پر دلیل بنتے ہیں جن کے ذریعے ہمیں اس صفت کے بعض معانی پر خبر حاصل ہو جاتی ہے‘ ان کو بھی کلام اللہ کہتے ہیں۔یہ وضاحت ہمارے ذہنوں میں رہنی چاہیے ۔کبھی یہ ہرگز نہ سمجھ لیجیےگا کہ جو قرآن بَیْنَ الدُّفَّتَین ہے‘ یہ کلام اللہ نہیں ہے۔
انسانی تناظر میں لفظ بڑا ہے ‘معنی چھوٹا
لفظ اللہ کی مخلوق ہے اور اللہ کی صفت کلام قدیمہ ہے اور بے انتہا ہے۔تمام صفت قدیمہ کا ہمیں ادراک حاصل بھی نہیں ہو سکتا‘ اطلاع بھی نہیں ہو سکتی۔ حقیقت نفس الامری میں لفظ چھوٹا ہے‘ معنی بڑا ہے‘کیونکہ لفظ مخلوق ہے اور معنی اللہ تعالیٰ کی صفت کلام ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے لفظ چھوٹا اور معنی بڑا ہے لیکن علماء نے کہا کہ ہمارے اعتبار سے لفظ بڑا ہے ‘معنی چھوٹا ۔ وہ اس اعتبار سے کہ ہم لفظ کے ذریعے (اسے اصولِ فقہ اور کتب عقیدہ میں نظم قرآنی کہا جاتا ہے) جس جس معنی تک بھی پہنچیں گے‘ لفظ میں مزید معنی دینے کی گنجائش ہوگی ۔ ہم کبھی بھی لفظ کے ذریعے ان تمام معنی تک نہیں پہنچ پائیں گے کہ جن معنی پر یہ لفظ دال تھا اور جو معنی اس لفظ کےمدلولات تھے ۔وہ تو اللہ تعالیٰ کی صفت ِقدیمہ ہے۔ ہم جتنی بھی انسانی طاقت استعمال کریں گے‘ جتنا بھی انسانی جوہر استعمال کریں گے اس کے نتیجے میں بعض مدلولات تک پہنچیں گے‘ کل مدلولات تک کبھی بھی نہیں پہنچ سکیں گے۔ لہٰذا ہم کبھی بھی لفظ کو ایگزاسٹ نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے ‘جملےاللہ کی طرف سے ہیں۔ لفظ اور جملوں کے اندر ہمیشہ مزید معنی کی‘ مزید حکمتوں کی اور مزید آفاق کی گنجائش رہے گی۔ ہمارے اعتبار سے معنی ہمیشہ چھوٹا رہے گا اور لفظ ہمیشہ بڑا رہے گا ‘کیونکہ اس لفظ کے اندر ‘ان جملوں کے اندر ‘اس کلام الٰہی کے اندر مزید معنی کی گنجائش پائی جاتی ہے جو آنے والے زمانوں میں کھلتے چلے جاتے ہیں۔ جیسے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا :((لَایَشْبَعُ مِنْہُ الْعُلَمَاءُ))’’علماء کبھی اس سےسیر نہیں ہوں گے‘‘ اور ((لَا تَنْقَضِیْ عَجَائِبُہُ)) ’’اس کے عجائب کبھی ختم نہیں ہوں گے‘‘۔ یہاں سے ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے اعتبار سے لفظ بڑا ہے‘ حقیقت میں لفظ بڑا نہیں ہے‘ کیوں کہ وہ تو بہرحال ایک مخلوق ہے اور لفظ جس پر دلیل ہے وہ اللہ کی صفت قدیمہ ہے۔ چنانچہ حقیقت میں معنی بڑا ہے لیکن انسانی جہت سے ‘انسانی اعتبار سے ‘انسانی زاویہ نگاہ سے لفظ ہمیشہ بڑا رہے گا‘ کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے ہے۔
اس میں پھر علماء نے فرق کیا کہ لفظ میں ہمارا یعنی انسانی کوئی عمل دخل نہیں ہے‘ یہ اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ کی اپنی ذاتی تالیف اور ترکیب نہیں ہے بلکہ محض اللہ کی طرف سے اس طرح کے الفاظ اُترے ہیں۔ یہی ہمارا عقیدہ ہے ۔ پس اس لفظ کی تالیف میں ‘اس نظم قرآنی کی ترکیب اور احداث میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے‘البتہ جن معنی تک ہم پہنچتے ہیں اس میں ہمارا عمل دخل ہوتا ہے ‘اس لیے کہ اس میں انسانی تعقل شامل ہوتا ہے۔ اس بات سے غلط معنی مت نکالیں کہ اصل چیز تو بس متن ہے ‘باقی تو سب انسانی کوشش ہےجو مقدس نہیں ہے‘ یہ سب زمان و مکان کے ساتھ بدلتی رہے گی اور جو شے باقی رہے گی وہ لفظ ہے۔ ایک لحاظ سے یہ بات تو برحق ہے لیکن اس کا معنی ٹھیک نہیں ہے ۔
لفظ کے ذریعے مراداتِ الٰہی تک پہنچنے کی صلاحیت وہبی ہے
جو معنی ہم لفظ کے ذریعے حاصل کرتے ہیں ان میں ہمارے فہم ‘ہماری عقل ‘ہماری ذہنی حرکت کا عمل دخل ہوتا ہے جبکہ لفظ میں ہماری ذہنی حرکت کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ۔ اس اعتبار سے بھی لفظ خالصتاًمن اللہ ہے اور معنی ہم جہد ِ انسانی کے ذریعے حاصل کرتے ہیں۔ تفسیر کلام اللہ میں اللہ تعالیٰ کی مراد بقدر طاقت بشری بیان کرنا ہے۔ لہٰذا اس معنی میں بھی لفظ معنی سے بڑا ہے اور معنی سے زیادہ مقدس ہے‘ کیونکہ لفظ میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے اور معنی میں بہرحال ہمارا عمل دخل بھی ہے۔
پچھلے دنوں ایک صاحب نے فیس بک پر ایک پیراڈوکس بنانے کی کوشش کی تھی کہ نص تو بہرحال محفوظ کر دی گئی ہے لیکن اس کے جتنے بھی معانی حاصل ہوتے ہیں وہ تو انسانی کاوش اور انسانی جدّوجُہد کا نتیجہ ہے ‘تو وہ ہمیشہ انسانی فہم ہی رہے گا ۔ انسانی فہم وقت کے تقاضوں کے ساتھ بدلتا بھی رہتا ہے اور اس اعتبار سے نئے نبی کی حاجت محسوس ہوتی ہے۔پرانا فہم ٹھیک تھا‘ یا یہ فہم ٹھیک ہے ‘یا اس کے بعد جو مستقبل میں نئےمفاہیم آتے رہیں گے وہ ٹھیک ہوں گے؟ تو کوئی توآ کر بتائے کہ کون سا فہم ٹھیک ہے۔ اس اعتبار سے نئے نبی کی ضر ورت پڑتی ہے۔ البتہ جب ہم ٹیکسٹ کو دیکھتے ہیں تو وہ محفوظ کر دیا گیا ہے ۔ الفاظ بھی محفوظ ہیں اور اللہ کے نبی ﷺ کی سُنّت بھی الفاظ کی شکل میں محفوظ ہے۔ وہاں جب ہم دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ نئے نبی کی حاجت نہیں ہے ۔یہ ایک پیراڈوکس ہے کہ ایک اعتبار سے دیکھ رہے ہیں تو نئے نبی کی حاجت محسوس ہو رہی ہے ‘دوسرے اعتبار سے دیکھ رہے ہیں تو حاجت نہیں ہے۔ وجہ یہ ہے کہ اصل تو لفظ ہے بس‘ باقی معنی تو انسانی فہم ہے۔وہ تو وقت کے ساتھ بدلتا رہے گا۔
علماء نے کہا کہ یہ فضول بات ہے‘ ایسا نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جب لفظ اتارا ہے یعنی نظم قرآن اتارا ہے‘ کلام اللہ اتارا ہے تو ایسے اسباب بھی مہیا کیے ہیں کہ جن سے ہم ان قطعی مرادات تک پہنچ سکیں جن پر نجات کا دارومدار ہے۔ یعنی کلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اُتارا ہے ‘نجات کے لیے نبی ﷺکو بھیجا ہے‘ تاکہ انسان ہدایت حاصل کر کے نجات پا لے۔ اگر آپ اس کا نتیجہ یہ نکالیں کہ چونکہ اترنے والا لفظ ہوتا ہے جو اپنے معنی میں کبھی بھی واضح نہیں ہوتا اور فہم انسانی ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی گویا عاجز ہوئے (نعوذ باللہ) کہ انہوں نے ہدایت کے لیے اتارا تھا اور یہ مقصود کبھی حاصل نہیں ہو سکتا کیونکہ وہ تولفظ ہے؟ علماء نے کہا کہ ایسا نہیں ہے!ہاں کچھ باتیں ظنیات اور کچھ قطعیات ہیں اور یہ تقسیم اصولِ فقہ میں بھی ہے‘ عقیدے میں بھی ہے ۔ قطعیات وہ چیزیں ہیں جن میں اللہ تعالیٰ نے کچھ حدود بتا دی ہیں‘ کچھ طریقے فہم نص کے بتا دیے ہیں‘ جس میں اللہ کے نبی ﷺکا عمل بھی ہے ‘ آپﷺ سے ثابت شدہ تواتر بھی ہے ‘آپﷺ کے اقوال بھی ہیں‘ اُمت کا اجماع بھی ہے اور کچھ اصولِ استنباطات بھی ہیں جو صحابہؓ سے مروی ہیں۔ان کے ذریعے ہم کچھ قطعی مرادات تک پہنچ جائیں گے ۔ مثال کے طور پر اگر قرآن میں آیا ہے: {اَقِیْمُواالصَّلوٰۃ} تو اب ہمیں اس کی قطعی مراد معلوم ہو چکی ہے۔ وہ اُمّت کے تعامل سے معلوم ہوئی ہے‘ نبی مکرم ﷺکے تواتر سے معلوم ہوئی ہے کہ ’’اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃ‘‘ سے مراد یوں دعا مانگنا نہیں ہے بلکہ تکبیر تحریمہ سے شروع ہو کر اور تسلیم پر ختم ہونے والے ایک عمل کو ’’صلوٰۃ‘‘ کہتے ہیں۔ یا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے فرمایا:{اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ} یہ تو تمام انبیاء کی دعوت تھی۔ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ کےالفاظ سے ہمیں قطعی طور پر توحید کا علم حاصل ہو رہا ہے‘ وغیرہ وغیرہ۔
علماء نے جواب دیا کہ یہ معنی اس طرح سادہ نہیں ہے بلکہ لفظ کے ذریعے کچھ قطعی مرادات حاصل ہوتی ہیں جن پر دین کا دارومدار ہوتا ہے۔ وہ معلوم من الدین بالضرورۃ ہوتی ہیں اور اس بنیاد پر اسلام اور کفر کی تقسیم ہوتی ہے۔ باقی ظنیات کا دائرہ ہے تو وہاں واقعی ہم یہ نہیں کہہ رہے ہوتے کہ ہم نے اللہ کی مراد قطعی حاصل کر لی ہے بلکہ ظن غالب حاصل ہو جاتا ہے۔وہاں یقیناً انسانی فہم کا ایک عمل دخل ہوتا ہے‘ لہٰذا بہت سی فرعیات زمان و مکان کے تغیر سے بدلتی بھی رہتی ہیں۔ چنانچہ ہمارے دین ہی میں ہمیں پورے اصول دیے گئے ہیں کہ کیا قطعی ہے کیا ظنی ہے۔کچھ لو گوں نے پہلی دفعہ آ کر یہ نہیں بتایاکہ یہ تو فہم انسانی ہے۔ یہ سب پتہ تھا یعنی تفسیر کی تعریف میں بھی یہ بات لکھی ہوتی ہے کہ بقدر طاقت بشری اور پھر بتائیں گے کہ کیا قطعی ہوتا ہے کیا ظنی۔ اب اگر قطعی اورظنی کی یہ تقسیم ختم کر دی جائے تو دین پورے کا پو را dilute ہو جائے گا اور اس کی کوئی حقیقت باقی نہیں رہے گی۔ دین مکمل طور پر انسانی فہم بن جائے گا۔لہٰذا ہم قطعیات کے بارے میں یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ یہ انسانی فہم نہیں ہے بلکہ اس پر اللہ کی طرف سے ایسے دلائل قائم ہو چکے ہیں جن کی بنیاد پر چاہے یہ فہم ہمیں حاصل ہو رہا ہے لیکن اس شعور کے ساتھ کہ ہمارا یہ فہم اللہ کی مراد تک پہنچنے میں قطعی ہے۔
قرآن کے الفاظ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت
واضح رہے کہ اس وقت میری گفتگو کا مقصد یہ ہے کہ جس طرح ہم قرآن کے معنی سے تعلق جوڑتے ہیں اسی طرح قرآن کے لفظ سے بھی ہمیں تعلق جوڑنا چاہیے۔ پچھلے زمانے میں جوتحریکیں تھیں جن کو فہم قرآن یا رجوع الی القرآن بھی کہتے ہیں ان میں قرآن دانی پر‘ قرآن فہمی پر بہت زیادہ فوکس کیا گیا ہے کہ قرآن سے ہم نے کچھ لینا ہے۔ قرآن کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہاں سے ہم کچھ فکر حاصل کر لیں‘ کچھ سمجھ لیں ‘ افکار لے لیں۔ یہاں تک کہ ایک صاحب سے پوچھا گیا کہ وقت کی کمی کے باعث تلاوت کر لیں یا ترجمہ پڑھ لیں ؟تو انہوں نے کہا اصل مقصد چونکہ قرآن کی ہدایت حاصل کرنا ہے تو صرف ترجمہ پڑھ لیا کرو‘ تلاوت کی ضرورت نہیں ہے۔ اس طرح کے ڈسکورسز اب وجود میں آنا شروع ہوگئے ہیں۔میں اس موقف کی طرف اشارہ کر رہا ہوں کہ جس میں لفظ ِقرآن سے صرف ِنظر کیا جاتا ہے۔ اس وقت گفتگو کا دائرہ یا ڈومین یہ ہے کہ لفظ ِقرآن سے بھی تعلق اسی طرح ضروری ہے جس طرح معنی ٔ قرآن سے۔ اس کے بہت سے شواہد ہیں ۔ یہ میری اس وقت کی گفتگو کا تناظر ہے۔ یہ مقصد نہیں ہے ‘نعوذ باللہ ‘ جو ماڈرنسٹ حضرات کا ہوتا ہے کہ اصل میں تو لفظ ہےاور معنی تو بس انسانی فہم ہے۔ اس وقت کی گفتگوکا پیغام یہ ہے کہ لفظ سے خصوصی تعلق پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
اللہ کے نبی ﷺ کے وظائف یا آپﷺ کی تربیت کا طریقہ اور منہج قرآن مجید میں چار مقامات پر بتایا گیا ہے۔ ایک سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دُعا ہے جو سورۃ البقرۃ(آیت۱۲۹) میں ہے ‘ پھر سورۃالبقرہ میں{کَمَآ اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلًا.......} (آیت ۱۵۱)‘ پھر سورئہ آل عمران میں {لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ} (آیت۱۶۴) ‘ اورپھر سورۃ الجمعہ میں{ہُوَ الَّذِیْ بَعَثَ فِی الْاُمِّیّٖنَ رَسُوْلًا}
ان تمام وظائف نبویؐ میں سب سے پہلا ’’تلاوتِ آیات‘‘ ہے:
{ لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} (آل عمران:۱۶۴)
’’درحقیقت اللہ نے یہ بہت بڑا احسان کیا ہے اہل ایمان پرجب اُن میں اٹھایا ایک رسولؐ ان ہی میں سےجو تلاوت کر کے انہیں سناتا ہے اُس کی آیات اور انہیں پاک کرتا ہےاور تعلیم دیتا ہے انہیں کتاب و حکمت کی۔‘‘
تعلیم کتاب و حکمت سے پہلے الفاظ کی تلاوت ہوتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ تلاوت معنی کی نہیں ہوتی۔ اگر آپ ترجمہ یا تفسیر کھول کے اس کی تلاوت شروع کر دیں تو اصلاً یہ تلاوت جائز بھی نہیں ہے ۔اگر ایسا کریں گے بھی تو وہ قرآن مجید کی تلاوت شمار نہیں ہوگی ‘کیونکہ قرآن کی تلاوت وہی ہوگی جو الفاظ کی تلاوت ہے‘ معانی یا ترجمے کا مطالعہ تلاوت نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کوئی شخص یہ کہے کہ { یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ}سے مراد معنی ہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے وضاحت سے تلاوتِ آیات اور تعلیم کتاب و حکمت کو الگ کر کے بیان فرمایا ہے:{یَتْلُوْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج}۔ تعلیم کتاب و حکمت جو اصلاً الفاظ قرآنی ہی کے معنی ہیں‘ ان کو الگ بیان کیا گیا ہے اور تلاوتِ آیات کہ جو الفاظ کی ہوتی ہے اس کو الگ۔
اس سے ہمارے علماء نے یہ بالکل درست نتیجہ اخذ کیا ہے کہ نبی اکرمﷺ کے وظائف اربعہ میں اوّلین تلاوتِ آیات ہے۔ گویا قرآن کا نظم یعنی قرآن کے الفاظ فی نفسہٖ مقصود ہیں‘ صرف وسیلے کے اعتبار سے مقصود نہیں ہیں۔ وسیلے کے اعتبار سے اگر مقصود ٹھہرائیں گے تو مطلب ہوگا کہ الفاظ بس اس لیے ہیں کہ معنی تک پہنچ جاؤں ۔ اصل مقصود معنی ہے جبکہ لفظ وسیلہ ہے ۔ عام انسانی کلام میں ایسے ہی ہوتا ہے۔ یعنی میں آپ سے بات کروں گا تو میرا اصل مقصود یہ نہیں ہے کہ آپ میرے الفاظ کو حفظ کر کے بیٹھ جائیں بلکہ جو معنی میں آپ تک پہنچانا چاہ رہا ہوں اس کو حاصل کر لیں اور سمجھ لیں۔ الفاظ اگر بھول بھی جائیں تو فرق نہیں پڑتا۔ البتہ قرآن مجید کے حفظ کی فضیلت آگئی کہ اس کے الفاظ کو حفظ کرو‘ الفاظ کو پڑھو ‘الفاظ پڑھنے میں ثواب ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی مشہور حدیث ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
((مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ کِتَابِ اللّٰہِ فَلَہُ بِہٖ حَسَنَۃٌ، وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِھَا، لَا اَقُوْلُ ’’الم‘‘ حَرْفٌ ولٰکن اَلْفٌ حَرفٌ وَلامٌ حَرْفٌ وَمیمٌ حَرفٌ )) (سنن الترمذی:۲۹۱۰)
’’جس نے کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھا اسے اس کے بدلے میں ایک نیکی ملے گی‘ اور ایک نیکی دس گنا بڑھا دی جائے گی۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ’’الم‘‘ ایک حرف ہے‘ بلکہ الف ایک حرف ہے‘ لام ایک حرف ہے اور میم ایک حرف ہے۔‘‘
یہاں سے یہ بھی پتہ چلا کہ اس سے مراد فہم نہیں ہے ‘ کیونکہ ’’الف لام میم‘‘ کا فہم بھی ہمیں حاصل نہیں۔چنانچہ {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ} میں اللہ کے نبی ﷺ کے وظائف میں سے اولین لفظ قرآنی کی تلاوت کی تلقین ہے۔
{اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰـہُمُ الْکِتٰبَ یَتْلُوْنَہٗ حَقَّ تِلَاوَتِہٖ ط} (البقرۃ:۱۲۱)
’’وہ لوگ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ اس کی تلاوت کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے۔‘‘
کوئی شخص بھی تلاوتِ معنی نہیں کر سکتا۔ تلاوت ہمیشہ الفاظ ہی کی کریں گے۔ یہاں سے تو صرف ایک دلیل آپ کے سامنے پیش کی گئی۔
اس میں علماء نے ایک اور بات بھی کہی۔ اللہ کے نبی ﷺکے وظائف میں تزکیہ بھی ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعا میں تزکیہ سب سے آخر میں آتا ہے۔ یہ قرآن میں غور کرنے کی بات ہے۔یعنی جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی:
{رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْہُمْ یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِکَ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُزَکِّیْہِمْ ط} (البقرۃ:۱۲۹)
’’اور اے ہمارے پروردگار! ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول خود انہی میں سے‘جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے‘اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے‘اور ان کو پاک کرے۔‘‘
تو اللہ تعالیٰ نے جہاں جہاں بیان کیا وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس دعا میں کچھ ترمیم کردی ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تزکیہ کو آخر میں رکھا تھا‘ اللہ تعالیٰ نےاسے تلاوتِ آیاتِ کے فوری بعد رکھا ہے جبکہ تعلیم کتاب و حکمت بعد میں۔ قرآن مجید میں تین جگہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی جو ترتیب بیان کی ہے وہ یہی ہے۔
علم ِحروف :تزکیہ کے بغیر خطرناک
{یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَجمیں تعلیم بھی تزکیہ کے بعد آ رہی ہے۔ اس میں ایک تواشارہ ہے جو ہمارے بزرگ اور صوفیاء اخذ کرتے ہیں کہ تعلیم کتاب وحکمت اگر تزکیہ کے بغیر ہو گئی تو وہ یقیناً وبال جان بھی ہو سکتی ہے۔ علماء سوءانہی کو کہتے ہیں کہ تزکیہ نہیں ہوا اور علم حاصل ہو گیا۔حروف کا علم حاصل ہوگیا‘ معلومات حاصل ہوگئیں جبکہ تزکیہ حاصل نہیں ہوا۔اس سے عالم سوء پیدا ہوتا ہے ‘لہٰذا تزکیہ مقدم ہے تاکہ پتا چل جائے کہ علم کا رُخ کیا ہے۔ علم میں خدا تک پہنچنا ہے۔ {یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ} کاایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیاکہ اللہ کے نبیﷺ تزکیہ فرما رہے ہیں۔ پہلی بات یہ کہ صرف قرآن سے تزکیہ نہیں ہوتا۔ یہ بھی ہمارے ہاں ایک تصوّر ہے کہ محض قرآن تزکیہ کرتا ہے۔ یہ بات ایک لحاظ سے درست ہے لیکن قرآن میں تزکیہ کی نسبت ہمیشہ نبی کی طرف ہے‘ محض قرآن کی طرف نہیں ہے۔ البتہ اشارہ یہ ضرور ہے کہ{یَتْلُوْا عَلَیْہِمْ اٰیٰتِہٖ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَج} میں کہ اللہ کے نبی ﷺجو تزکیہ فرما رہے ہیں اس میں لفظ ِقرآنی کا بہت عمل دخل ہے۔قرآن کی تلاوت کا‘ قرآن کی قراءت کا‘ تہجد میں قرآن کو پڑھنے کا۔ سورۃ المزمل کی آیات سے بھی ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے۔چنانچہ معنی بھی یقینا ًتزکیہ کرتے ہیں لیکن یہ تجربے کی بات ہو سکتی ہے۔ اگر آپ لفظ ِقرآنی سے اپنے آپ کو جوڑ یں کہ یہ چونکہ اللہ کی طرف سے ہے اور اس میں انسانی عمل دخل کوئی نہیں تو صرف لفظ چاہے آپ سمجھ کر پڑھ رہے ہیں یا نہیں‘ اگر اس سے تعلق جوڑا ہے تو لفظ خود تزکیہ کرتا ہے۔ یعنی اچھی آواز سے قرآن مجید کی تلاوت اور استماع تزکیہ کا باعث ہے۔ لہٰذا ان آیات میں اس کی طرف بھی اشارہ ہے۔
ہوا یہ کہ قرآن فہمی سے ہمارا تعلق ٹوٹتا چلا گیا تو کچھ لوگوں نے صحیح نشان دہی کی کہ قرآن فہمی بہت ضروری ہے۔ اللہ نے قرآن اس لیے اتارا ہے کہ لوگ اس کو سمجھیں‘جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :{وَلَقَدْ یَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلذِّکْرِ } (القمر)’’اور ہم نے تو اس قرآن کو آسان کر دیا ہے سمجھنے کے لیے ‘‘اور:{کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ اِلَیْکَ مُبٰرَکٌ لِّیَدَّبَّرُوْٓا اٰیٰـتِہٖ}(صٓ:۲۹) ’’(اے نبیﷺ!) یہ کتاب جو ہم نے آپؐ پر نازل کی ہے بہت بابرکت ہے‘تا کہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریں۔‘‘تو قرآن کے نزول کا مقصد تدبر و تذکر ہے۔ کچھ لوگوں نے صحیح کہا کہ لوگوں کی توجہ نہیں رہی اور قرآن فہمی سے وہ دور ہوتے چلے گئے تو عوامی سطح پر قرآن فہمی کی تعلیم کا بندوبست بھی ہونا چاہیے‘ معنی سکھائے جائیں۔ وہ اپنی جگہ ایک درست بات ہے‘لیکن اس کے نتیجے میں کئی دفعہ انتہائیں پیدا ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ ایسی انتہائیں بھی پیدا ہو گئیں جن میں لفظ کونظر انداز کرنا شروع کر دیا گیا اور قرآن محض ایک فکری کتاب بن کے رہ گیا کہ جس سے کچھ افکار حاصل ہوتے ہیں۔ کئی دفعہ صحیح اور کئی دفعہ غلط۔ غلط افکار بھی اصلاً لفظ سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے حاصل ہوتے ہیں۔ واللہ اعلم! بس اس میں توازن پیدا کرنا مقصود ہے کہ قرآن فہمی کی اپنی جگہ ایک اہمیت ہے۔یہ قرآن کے مقاصد میں سے ہے لیکن ایسا لفظ کی قیمت پر نہیں ہوگا۔ لفظ سے تعلق الگ ضروری ہے‘ معنی سے تعلق الگ ضروری ہے۔
اگرچہ ہم نے کلام کی حقیقت پر جو گفتگو کی تھی اس میں لفظ (معاذ اللہ!) بالکل ڈی گریڈ نہیں ہو رہا تھا لیکن شاید اس کی اہمیت تھوڑی کم نظر آرہی تھی ‘تاہم ہمارے اعتبار سے لفظ (text)ہی اصل ہے۔ اسی سے ہم نے حقیقت تک پہنچنا ہے اور لفظ ہی سے خدا کے ساتھ تعلق جڑے گا۔ لفظ سے یہ تعلق کیسے جڑے گا‘یعنی قرآن کے الفاظ سے؟ لفظ سے مراد کوئی ایک لفظ نہیں بلکہ نظم قرآنی ہے‘یعنی قرآن کے الفاظ یا کلمات۔ لفظ نہیں کلمہ بہتر رہے گا‘ کیونکہ کلمہ کے لغوی اور قرآنی استعمال میں فرق ہے۔ ’’قطرالندیٰ‘‘ میں بتایا گیا ہے کہ کلمہ نحویین ایک الگ معنی میں بولتے ہیںجبکہ قرآنی استعمال اور ہے۔جب کلمہ نحوی بولیں گے تو ان سے مراد ایک لفظ ہوتا ہےجیسے زید‘بکر‘ اسم ‘ فعل ‘حرف۔ کلمے کی اقسام ہم نے بھی پڑھی ہیں۔ پھر وہ کلمے کا قرآنی استعمال بتاتے ہیں۔ جیسے اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا: ((کَلِمَتَانِ خَفِیْفَتَانِ.....)) یہ دو الفاظ پورا جملہ ہے: ((سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ))(صحیح البخاری) ۔ اسی طرح قرآن مجید میں سورۃ المومنون میں آیا کہ:{ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِ(۹۹)} ’’ وہ کہے گا: پروردگار ! مجھے ذرا واپس بھیج دے۔‘‘تو اللہ تعالیٰ کہیں گے:{اِنَّہَا کَلِمَۃٌ ہُوَ قَآئِلُہَاط} (آیت۱۰۰)’’یہ محض ایک بات ہے جووہ کہے گا۔‘‘ یہاں کلمہ جملے کےمعنی میں ہے۔لہٰذا بہتر ہے کہ ہم کہیں کلماتِ قرآنیہ!
علم ِتجوید :قرآنی الفاظ سے جڑنے کا علم
لفظ سے جڑنے کے لیے ہمارے ہاں پورا ایک علم ہے جس کو علم تجوید کہتے ہیں۔ اس میں معنی کا کوئی عمل دخل ہے ہی نہیں اور پوری ایک سائنس ہے۔ تجوید یہ ہے کہ لفظ ِقرآنی کو ٹھیک کیسے پڑھنا ہے۔ اس میں آپ معنی سے نہیں جڑ رہے‘ ابھی صرف لفظ سے جڑر ہے ہیں کہ اللہ نے جیسا اتارا ہے جبرائیل علیہ السلام پر اور انہوں نے جیسے پڑھا ہے اللہ کے نبیﷺ پر‘ ویسے ہم پڑھیں۔ تجوید کے یہ اصول ابھی اختراع نہیں ہوئے بلکہ اگر آپ تجوید کے اصول کے تحت پڑھتے ہیں تو آپ ویسا پڑھ رہے ہیں جیسا کہ اللہ کے نبیﷺ پڑھتے تھے ۔ اللہ کے نبیﷺ ویسے پڑھ رہے ہیں جیسے آپؐ کو تلقین کی گئی ہے جبرائیل علیہ السلام کی طرف سے۔ جبرائیل علیہ السلام ویسے پڑھتے تھے کہ جس طریقے پر ان پر اُترا ہے لوحِ محفوظ سے۔ لہٰذا لفظ ِقرآنی سے جوڑنے کے لیے تو علم تجوید کا پورا فن ہے۔ وہ لوگ جو معنی سے بہت زیادہ جڑ جاتے ہیں ان کے ہاں پھر اس کی اتنی اہمیت نہیں رہتی کہ اگرقرآن کا لفظ ہم صحیح نہیں پڑھ رہے اور تحسین صوت کے ساتھ نہیں پڑھ رہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہے‘ کیونکہ قرآن کا اصل مقصود تو الفاظ نہیں بلکہ معنی ہیں۔
البتہ خود تجوید کا علم اور اچھی آواز سے قرآن پڑھنے کی تلقینات اللہ کے نبیﷺ سے کثرت سے وارد ہوئی ہیں۔جیسا کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ((زَیِّنُوا الْقُرْآنَ بِاَصْوَاتِکُمْ)) (رواہ احمد وابوداوٗد)’’قرآن کو اپنی آوازوں کے ذریعے مزین کرو۔‘‘اسی طرح حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نےارشاد فرمایا:((مَا اَذِنَ اللّٰہُ لِشَیْءٍ مَا اَذِنَ لِنَبِیٍّ حُسْنَ الصَّوْتِ یَتَغَنّٰی بِاْلْقُرْآنِ یَجْھَرُ بِہٖ))(متفق علیہ)) ’’اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس قدر پسندیدگی سے نہیں سنتا جس قدر اُس نبی کی زبان سے قرآن سنتا ہے جو اسے خوش الحانی کے ساتھ بلندآواز سے پڑھتا ہو۔‘‘یہاں اَذِنَ سننے کے معنی میں ہے۔ یہاں اچھی آواز سے تلاوتِ قرآن کیا ہے؟ اگر صرف معنی پر غور و فکر کرنا ہو تو پھر یہ ایک فضول سی بات لگتی ہے‘ نعوذ باللہ کہ اس میں اتنا ٹائم خرچ کیا جائے۔کچھ لوگوں نے پوری زندگی صرف تجوید کے فن کی مہارت میں گزاردی ہے۔تجوید سے پڑھنے کی تلقین ہے‘ خاص طور پر نماز میں۔ تجوید آپ کو لفظ سے جوڑرہی ہے ‘ نظم قرآنی اور کلمات قرآنی سے جوڑرہی ہے۔ چنانچہ ایک فن تو ہو گیا تجوید اور اس میں پھر آگے بڑھتے چلے جائیں گے تو تجوید کے ساتھ قراءت ہے۔ وہ بھی لفظ ہے سارا۔ یعنی قراءتِ عشرہ یا سبعہ میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس طرح بھی پڑھا گیا‘ اس طرح بھی پڑھا گیا۔ وہ بھی تواتر سے ثابت ہے۔وہاں بھی آپ لفظ سے جڑ رہے ہیں۔ پھر قراءت سے آگے بڑھ کے آپ لفظ کو اچھے طریقے سے ادا کرنے کے لیے حسن صوت کے ساتھ کوئی پریکٹس کرتے ہیں وہ سب اس میں آ جاتا ہے۔ وہ سب کا سب لفظ ہے۔ ہم اچھی آوازوں میں بڑے بڑے قراء سے جو تلاوت سنتے ہیں وہ سب لفظ ہوتا ہے۔ اس کی ایک تاثیر ہوتی ہے جوہر سننے والا محسوس کرتا ہے‘ چاہے قرآن اسے سمجھ آ رہا ہو یا نہ آ رہا ہو۔ بلکہ کئی دفعہ قرآن کا فہم ( یہ صرف اسی سیاق و سباق میں سمجھیے گا‘ جنرلائز نہ کیجیے گا) اس لفظ کی تاثیر میں بھی مانع ہو جاتا ہے۔ یعنی وہ لفظ جو تاثیر وجودِ انسانی پر رکھنا چاہتا تھا یا اس کی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو پاتی ‘کیونکہ لفظ سنتے وقت اور لفظ پڑھتے وقت ہم ذہن کو حرکت زیادہ دے رہے ہوتے ہیں۔
تلاوتِ قرآن مجید کا طریقہ
یہ قرآن پڑھنے کے آداب میں سے ہے جو بزرگوں نے نقل کیا۔ جب آپ قرآن مجید کی تلاوت کر رہے ہیں تو یہ وقت آپ کا فہم‘ ترجمے اور تفسیر کا نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے لیے کوئی اور ٹائم رکھیں۔ تفسیر اور ترجمے سے قرآن پڑھنا بھی بہت ضروری ہے لیکن اس کے لیے الگ وقت ہونا چاہیے۔ جب آپ قرا ءت کے ساتھ قرآن مجید ناظرہ پڑھ رہے ہیں تو اس میں اپنے ذہن کو اتنی حرکت دینی ہے جو بے تکلفانہ ہو جائے‘ بس۔ یعنی پڑھتے وقت لفظ پر غور نہیں کرنا کہ اس کا کیا معنی ہے۔ صرف ونحو کے ساتھ ترجمہ قرآن پڑھاتے وقت یہ غور کرنے سے کہ اس میں فاعل کون بن رہا ہے مفعول بہٖ کون ہے؟ یہ الفاظ فتحہ‘ نصب یا جر میں کیوں ہیں ؟ لفظ قرآنی کی تاثیر نہیں رہے گی۔ لہٰذا انسان تلاوت کرتے وقت اپنے ذہن کو تکلف کے ساتھ حرکت نہ دے تاکہ لفظ کی تاثیر ختم نہ ہو۔ اس کے بعد اگر انہی آیات پر غور و فکر کرنا ہے یا تفسیر پڑھنی ہے تو اب تلاوت روک کر تفسیر کھول کے بیٹھ جائیں اور انہی آیات کی تفسیر پڑھ لیں۔ ناظرہ پڑھنے والے وقت کو اس ذہنی حرکت میں ضائع نہ کیجیے گا۔یہ ایک اہم اصول ہے اوریہ قرآن مجیدکی تلاوت سنتے وقت بھی ہے۔ ذہن کو حرکت نہ دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ توجہ نہیں کریں گے۔ توجہ اور ہے جبکہ فہم حاصل کرنے کے لیے حرکت دینا اور ہے۔
عربی زبان کے علم کی ضرورت
لفظ ِقرآن سے تعلق جوڑنے کے لیے اگلی بات عربی زبان ہے۔ یعنی قرآن مجید کا لفظ جو اللہ نے اتارا ہے وہ عربی ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :{اِنَّــآ اَنْزَلْنٰــہُ قُرْئٰ نًا عَرَبِیًّا لَّـعَلَّـکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲)} (یوسف)’’ہم نے اس کو نازل کیا ہے عربی قرآن بنا کر‘تاکہ تم لوگ اسے اچھی طرح سے سمجھ سکو۔‘‘ اللہ چاہتا تو یقیناًکوئی اور بھی بنا سکتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب کے لیے اگر ایک زبان منتخب کی ہے تو یقینا ًاس میں بہت سی حکمتیں ہیں۔ عربی زبان سے تعلق کا مطلب ہے ‘قرآن کے لفظ سے تعلق۔ آپ کہیں گے کہ عربی زبان میں تو معنی بھی ہیں۔ یقیناً معنی ہیں لیکن وہ لفظ سے پیدا ہو رہے ہیں۔ لفظ کے ذریعے آپ معنی تک پہنچ رہے ہیں۔میں یہ نہیں کہہ رہا کہ عربی زبان سیکھنا سب کے لیے لازماً ضروری ہے لیکن ایک کم از کم لیول جو ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے وہ تجوید کا ہے۔ یعنی جس نے بھی قرآن کی تلاوت کرنی ہے اس کے لیے لحن جلی سےپاک ہوناضروری ہے۔مزید ترقی کے لیے عربی زبان کا علم حاصل کریں جس میں لغت کا علم ہو ‘اور لغت اور صرف کا تعلق لفظ سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد نحو کا علم حاصل کریں گے تو وہ جملے سے ہے۔ پھر جملہ اس طریقے پر کیوں آیا اور یوں کیوں نہیں آیا‘ یہ فصاحت و بلاغت کا موضوع ہے ۔ لغت عربی زبان کے علوم میں سے ایک ہے جس کو ڈکشنری کا علم کہتے ہیں کہ لفظ کے حقیقی معنی کیا ہیں! لغت‘ صرف‘ نحو‘ علم بلاغت‘ یہ علوم بھی لفظ سے جوڑ رہے ہوتے ہیں۔ علماء نے کہا کہ تفسیر کہتے ہی اس کو ہیں جس میں لفظ کو کھولا گیا ہو۔ یعنی جس میں لفظ ِقرآنی کو لغوی طور پہ کھولا گیا ہو‘ اصلا ًوہی تشریح تفسیر کہلوانے کی مستحق ہے۔ بعد میں اس میں تاویل بھی ہوتی ہے۔ اسی لیے بہت سے علماء نے ایسی متعدد کتابوں کو جن میں لفظ سے کوئی بحث نہیں ہوتی‘قرار دیا کہ یہ تفسیر نہیں بلکہ ایک تاثراتی اور فکری کتاب ہے۔تفسیر میں لفظ سے تعلق جڑنا ضروری ہے اور اس کے لیے علوم لغت چاہئیں۔
دوسری بات یہ تھی کہ اگر قرآن کے لفظ سے جڑنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے عربی زبان کا کچھ علم حاصل کریں اور پھر کوشش کریں کہ اس علم میں آگے بڑھتے چلے جائیں ۔ عربی زبان ایک ایسا علم یا ایک ایسی لغت ہے کہ جتنا اس میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں‘اسے نہ جاننے کا تاثر بڑھتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ بہت وسیع زبان ہے۔ کوئی اسی پر وقت گزار دے تو شاید قبر تک اسی میں ہی لگا رہے گا۔ بہرحال وہ علم آلیہ ہیں‘ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے۔ یعنی ترجیحات قائم رہنی چاہئیں کہ علم آلیہ پر ہی پوری زندگی نہ خرچ ہو جائے کہ اس میں علومِ عالیہ کی باری نہ آئے۔ علومِ عالیہ تک پہنچنے کے لیے خاص اعتبار سے علم لغت اور لغۃ العربیہ کا علم ضروری ہے۔
علم فروقِ لغویہ
ہم کئی دفعہ قرآن سے اس معنی میں تعلق قائم نہیں کرتے کہ ہمیں لفظ سے یااس کو پڑھنے اور سننے سے دلچسپی ہو۔ ہمارے لیے دلچسپی یہ ہوتی ہے کہ قرآن ہمارے لیے کچھ افکار کے حصول کےلیے بس ایک آلہ ہے۔ہم نے اس کو اختیار کیا ہوا ہے۔چنانچہ وہ افکار ہمارا اصل مقصود ہو جاتے ہیں جبکہ قرآن کے الفاظ ہمارا اصل مقصود نہیں رہتے۔ اس کی مثالیں آپ اپنےگرد و پیش میں دیکھ سکتے ہیں۔ قرآنی علوم میں سے ایک علم فروق لغویہ کا ہے جو پورا ایک فن ہے کہ قرآن مجید کے الفاظ چونکہ اللہ کی طرف سے ہیں تو ہم معنی الفاظ بظاہر جو مترادفات لگتے ہیں‘ ان میں کیا کیا فروق ہوتے ہیں۔ اس پر کتابوں کا ایک پورا مجموعہ وجود میں آیا جن کو الفروق اللغویہ کہتے ہیں۔ وہ پڑھنا شروع کریں گے تو اس میں مزید دلچسپی کے امور ملیں گے۔ یہ لفظ سے جڑنا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے ایک جگہ خشیت کا لفظ استعمال کیااور دوسرے مقام پر خوف کا تو یہاں خوف کیوں آیا اور یہاں خشیت کی وجہ کیاہے! یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے‘ انسانی عمل دخل نہیں ہے کہ بولتے ہوئے کبھی خوف بول دو‘ کبھی خشیت بول دو۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے یہاں خوف کہا ہے اور وہاں خشیت کہاہے تو اس کی کوئی وجہ ہے جسے تلاش کرنا چاہیے۔ یہ سب باتیں بھی اس علم میں ڈسکس کی جاتی ہیں۔
ایک اور بات سے لفظ کی اہمیت واضح ہوتی ہےکہ قرآن کاجو لفظی اعجاز ہے‘ یعنی جب اللہ کے نبی ﷺ چیلنج کر رہے تھے کہ اس جیسا قرآن لے آؤ تو یقیناً چیلنج معنی کے اعتبار سے بھی تھا کہ قرآن کے اندر جو معنی اور ہدایت ہے وہ کہیں اور نہیں مل سکتی‘ لیکن جو فوری طور پر سمجھا مشرکین مکہ نے اور بعد میں آنے والے علماء نے بھی کہ اس وقت چیلنج لفظ کے اعتبار سے تھا۔ اس قرآن کے الفاظ یعنی نظم ِقرآنی جیسا کوئی نظم لے کے آؤ چاہے معنی الٹے سیدھے ہی کیوں نہ ہوں۔ فصاحت و بلاغت میں اس قرآن کے مانند کوئی کلام لے کر آؤ۔ چنانچہ اس وقت جو چیلنج کیا جا رہا تھا وہ بھی لفظ کا تھا۔ یہ جو اللہ نے نظم اتارا ہے‘ لفظ اتارا ہے یہ اپنی ذات میں معجزہ ہے۔ اگرچہ قرآن کے وجوہ اعجاز بہت سے ہیں‘ صرف لفظ نہیں ہے لیکن مشرکین مکہ کو اس وقت جو چیلنج کیا جا رہا تھا وہ لفظ کے اعتبار سےتھا۔ اگرچہ باقی اعتبارات بھی ملحوظ خاطر تھے لیکن لفظ کا چیلنج سب سے اوپر تھا۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ لفظ اپنے اندر ایک ایسی شے رکھتا ہے کہ جس لفظ کو سننے سے وہ روک رہے ہیں کہ جو اس کو سنتا ہے اس پر کوئی تاثیر ہو جاتی ہے۔اللہ تعالیٰ نے ان کا قول نقل فرمایا ہے :
{ لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ} (حٰم السجدۃ:۲۶)
’’ مت سنو اس قرآن کو اور اس (کی تلاوت کے دوران) میں شور مچایا کرو‘‘
صحیح معنی تک رسائی :لفظ سے تعلق ہی کا نتیجہ
لفظ سے تعلق کے نتیجے میں آپ خدا کی صحیح مراد تک پہنچتے ہیں‘ وگرنہ لفظ پر زبردستی معنی چڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی مرادیں کہیں اور سے حاصل ہو رہی ہوتی ہیں‘ کسی اور آسمان سے نازل ہوتی ہیں۔ آج کل آسمانِ مغرب سے کچھ معنی اتر رہے ہوتے ہیں ‘اگرچہ وہ اتر نہیں رہےبلکہ درحقیقت پاتال سے اوپر آ رہے ہیں۔ ان میں الفاظ کو چڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس میں لفظ کی کوئی معرفت نہیں ہوتی بلکہ معنی کی معرفت دقیق ہوتی ہےجو آسمانِ مغرب سے آتے ہیں۔ ان معنی کو لفظ کے اوپر خول پہنا کے چڑھا دیا جاتا ہے اگرچہ لفظ اس کا متحمل نہیں ہوتا۔ یہ تفسیر جس کو آپ مضمون کہتے ہیں‘ اس طرح کی ہوتی ہے جس کو علماء یوں کہتے ہیں :حمل اللفظ علی مالایحتمل یعنی لفظ پر وہ معنی حمل کرنا جس کا لفظ متحمل نہیں ہوتا۔ لفظ کی مراد حاصل کیے بغیر یہ کام ہو رہے ہوتے ہیں ۔ کہیں اور سے معنی لیے جاتے ہیں۔ آپ نے تو لفظ سے معنی تک پہنچنا تھا‘ معنی پہلے سے لے کر کچھ pre-conceived آئیڈیاز کو لفظ پر تھوڑی چڑھاناہے۔ باطل فرقوں یا گمراہ لوگوں کا طریقہ واردات یہی ہوتا ہے۔ وہ معنی کہیں اور سے حاصل کرتے ہیں لیکن مسلمان بھی ہوتے ہیں تو اب وہ معنی چڑھاتے ہیں الفاظ پر تاکہ پتہ چلے کہ ہمارے معنی قرآن و حدیث سے ثابت ہو رہے ہیں۔ قرآن اور حدیث کے الفاظ پر وہ معنی چڑھا دیے جاتے ہیں جن کا لفظ سے کوئی دور دراز کا تعلق بھی نہیں ہوتا۔ قاری محمد طیب علیہ الرحمہ کا مجموعہ ہے کتابوں کا چھ سات جلدوں میں۔ غلام جیلانی برق صاحب نے’’ دو قرآن ‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی تو ایک رسالے میں وہ اس پر نقد فرما رہے ہیں۔اس میں انہوں نے یہی بات کی تھی ۔یعنی قرآن مجید اور اللہ کے نبیﷺ کی تربیت و تزکیہ سے ایک صحیح قسم کا ذوق پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں آپ لفظ سے صحیح معنی حاصل کرتے ہیں۔ اگر آپ وہ ذوق نہ پیدا کر سکیں‘نبوی منہج اور طریقے پراپنا تزکیہ نہ کروا سکیں اور الفاظ کو دیکھنا شروع کریں تو پھر آپ الفاظ کے ساتھ وہی وارداتیں کرتے ہیں جو غلام جیلانی برق صاحب نے کی ہیں۔ وہ واردات یہ ہے کہ مغرب نے جو ترقی وغیرہ کی ہے وہی قرآن کا اصل مقصود ہے لیکن مسلمان تواس کو بالکل بھول گئے ہیں ۔انہیں چاہیے کہ وہ مغرب کے پیچھے لگ جائیں اور اصلاً مرادِ قر آنی تو ان کے ہاں ہے۔ چاہے لفظ ِقرآنی وہاں نہیں ہے لیکن مراد وہاں پائی جاتی ہے۔ یہ ہوتاہے جب لفظ کے اوپر خول چڑھایا جاتا ہے۔
لفظ سے درست تعلق :اللہ سے صحیح تعلق کا نتیجہ
لفظ سے صحیح تعلق اللہ تعالیٰ سے صحیح تعلق کے نتیجے میں پیدا ہوگا۔ لفظ سے صحیح تعلق ہی صحیح مراد تک پہنچائے گالیکن اس سے پہلے خدا سے تعلق ہونا چاہیے۔ خدا کے ساتھ اخلاص درکار ہے تاکہ لفظ سے تعلق میں صحیح نہج پر رہیں۔ اس کو ایک آیت میں یوں بیان کیاگیا:
{اَللہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ ......} (الزمر:۲۳)
’’اللہ نے بہترین کلام نازل کیا ہے.....‘‘
اس سے ہوتا کیا ہے ؟
{تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ج}
’’اس (کی تلاوت) سے اُن لوگوں کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔‘‘
یعنی شرط بتائی جارہی ہے کہ لفظ ِقرآنی اتارا ہے جس کی انسانی وجود پر تاثیر ہوتی ہے اور اس کے لیے ایک معیار چاہیے ‘جو خشیت ِالٰہی ہے۔ لہٰذالفظ سے صحیح تعلق ضروری ہے۔چونکہ لفظ اللہ کی طرف سے آیا ہے اوراس میں کوئی انسانی عمل داری نہیں ہے لہٰذا اس لفظ سے صحیح تعلق خدا سے صحیح تعلق کے بغیر نہیں ہو سکتا‘ وگرنہ لفظ سے محض ایک لغوی تعلق رہ جائے گا۔لغت کی گہرائیاں ہیں ‘عربی گرامر ہے ‘صرف ونحو ہے اور بلاغت کے قصے ہیں ۔ اس حوالے سے مستشرقین نے بھی بڑے تعلق قائم کیے ہیں ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ لغت انہوں نے بھی بڑی جانی ہے‘سارا کچھ ہے لیکن صاحب ِکلام سے تعلق نہیں ہے۔ صاحب ِکلام یعنی متکلم اللہ سبحانہ وتعالیٰ ہے۔اس کاکلام بہت عالی کلام ہے‘کوئی انسانی کلام نہیں ہے ۔وہ ہر ایرے غیرے کو اپنا پلو نہیں پکڑاتا۔ اس کے لیے کچھ شرائط ہیں۔اللہ کے سامنے انقیادِتام ہے ‘جھکنا ہے۔
{لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (۷۹)} (الواقعہ)
’’اسے چھو نہیں سکتے مگر وہی جو بالکل پاک ہیں۔‘‘
یہاں سے بھی آپ یہ دلیل اخذ کرسکتے ہیں کہ قرآن کے لفظ سے صحیح معنی تک پہنچنے کے لیے تطہیر ضروری ہے‘جواللہ تعالیٰ سے ایک سچا تعلق ہے۔
آج اصلاً گفتگو تھی لفظ کے اعتبار سے جس میں بتانا یہ مقصود تھاکہ لفظ فی نفسہٖ کتناا ہم ہے ۔ لفظ سے کسی قسم کی بے تعلقی اور اعراض بھی ہمیں برداشت نہیں کرنااور قرآن کے معنی سے اپنے آپ کو جوڑنا ہے لفظ کے ساتھ جڑنے کے نتیجے میں۔لفظ کو بائی پاس کرکے اور اس سے بے اعتنائی برت کے معنی سے جڑنا مقصود نہیں ہے۔ معنی سے جڑناپہلی ترجیح ہے۔ ’’ یَتْلُوْا عَلَیْھِمْ اٰیٰتِہٖ‘‘ کا بھی یہی پیغام ہے۔قرآن کی تلاوت کے جتنے فضائل احادیث میں آگئے ہیں وہ سب شواہد کے طور پر یہاں پیش کیے جا سکتے ہیں۔
(جاری ہے)