رسالۃ ’’ظہور العدم بنور القدم‘‘ (۲)از: مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل و تعلیق:مکرم محمود
یہ رسالہ مسئلہ وحدت الوجود پر ہے۔اس قسط کو پچھلے حصے کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا تو بات زیادہ واضح ہو گی۔مندرجہ ذیل عبارت تسہیل شدہ عبارت ہے‘ اصل متن یہاں نقل نہیں کیا گیا۔بریکٹس میں تسہیل شدہ عبارت کی مزیدشرح و وضاحت کی گئی ہے۔آغاز تسہیل سے پہلے موضوع کی دقت و حساسیت کے پیش نظر چند باتوں کی وضاحت ان شاء اللہ مفید ہو گی۔
مولانا اشرف علی تھانوی کا مقصود اس رسالے میں اس مسئلہ وحدت الوجودوالشہود کا صرف بیان ہے تاکہ منکرین و ناقدین کے افراطی و تفریطی رویوں سے بچا جا سکے اور قائلین وحدت الوجود و الشہود کے باہمی اور ان دونوں کے اصحابِ ظاہر یعنی متکلمین کے موقف سے اختلاف کو علمی و کلامی ثابت کیا جائے۔یہ بتایا جائے کہ اگر اعتدال پر رہا جائے تو ان میں اصلاًکسی قطعی عقلی یا نقلی دلیل کی مخالفت نہیں ہوتی۔باقی اس کا مطالعہ بعض حضرات کے لیے باعث توحش ہو سکتا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے حضرت تھانوی کی ایک وصیت اس رسالہ کے آخر میں پڑھنے کے لائق ہے۔ترتیب کے اعتبار سے تو وہ اگلے شمارے کا حصہ بنے گی لیکن اس کے بعض نکات عرض کیے دیتا ہوں۔حضرت تھانوی کہتے ہیں کہ ذات و صفات سے متعلق مسائل میںکسی قطعی عقلی یا نقلی دلیل کے بغیر ظنی دلیل کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کن یا بلا ضرورت بات کرناسخت محل خطر ہے اور سلف صالحین کے مسلک کے خلاف ہے۔احتیاط اسی میں ہے کہ نصوص سے تجاو زنہ کریں۔ اگر کوئی حقیقت نص کے بیان سے زائد کسی ظنی دلیل سے معلوم ہواور وہ خلافِ نص بھی نہ ہو تو اس میں زیادہ غور و خوض نہ کیا جائے بلکہ دونوں جانب کے احتمال کو ممکن جانیں۔چونکہ اس رسالے میں مذکور مسائل بھی انہی معاملات میں شامل ہیں جن کا تعلق ذات و صفات اور حادث و قدیم کے مابین ربط سے ہے اس لیے اس کے ساتھ بھی اصولًا یہی معاملہ رکھا جائے گا۔اجمالًا یہی اعتقاد رکھا جائے گا کہ اس عالم کو اللہ تعالیٰ نے عدم سے اپنی قدرت و ارادہ و علم سے پیدا فرمایا ہے ۔ کیسے پیدا فرمایا ہے‘ اس میں نہ غورو خوض کرنا چاہیے نہ بلا ضرورت کلام کرنا چاہیے۔باقی یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ یہاں بھی تو اسی کو موضوع بنایا گیا ہے تو اس کا کیا جواز ہے۔جواباً عرض ہے کہ اس رسالہ میں اس مسئلہ پر کلام کی حاجت کی وجہ رسالہ کے آغاز میں بیان کر دی گئی ہے۔
تسہیل الرسالہ
حضرت شیخ ِاکبرابن عربی یہ کہتے ہیں کہ اس عالم کی تخلیق سے قبل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہی حقیقتاً موجود تھی جو دو مراتب رکھتی تھی(ذات واحد ہی تھی۔ مراتب اعتباری ہوتے ہیں یعنی حقیقی نہیں ہوتے بلکہ کسی اعتبار کرنے والے کے اعتبار پر موقوف ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ یہاں اعتبار کرنے والی ذات خود اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ہی تھی)۔ پہلے مرتبہ میں ذات اپنے اسماء و صفات کے ساتھ تھی اور دوسرے مرتبہ میں انہی اسماء و صفات میں سے علم کو الگ حیثیت حاصل ہوگئی تھی‘یعنی تمام کائنات کے علمِ تفصیلی کا اللہ کے علم میں ہونا جسے اعیانِ ثابتہ کہا جاتا ہے(یہ تمام ممکنات کی ماہیات ہیں جو اللہ کے علم میں ثابت ہیں‘نہ خارج میں موجود ہیں نہ علم میں معدوم بلکہ ثابت فی العلم ہیں یعنی وہ علم میں متحقق اور متمیز ہیں لیکن خارج میں بلاواسطہ موجود نہیں ہیں)۔اگرچہ علمِ تفصیلی یا اعیانِ ثابتہ کا یہ مرتبہ انہی اسماء و صفات میں داخل ہے مگر اس مرتبہ کی دو حیثیتیں ہیں۔ایک یہ کہ یہ وہ صفت علم ہی ہے جس کے ساتھ ذات متصف ہے اور اس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ عالم ہے درست قرار پاتا ہے۔اس مرتبہ کی دوسری حیثیت اس کے معلوم ہونے کی ہے یا دوسرے لفظوں میں علم کے متعلق ہونے کی (معلومات صفت علم کی متعلقات ہوتی ہیں)۔ پہلی حیثیت کے اعتبارسے اس مرتبہ کو موجود عینی یا موجود خارجی کہتے ہیں(کیونکہ ذاتِ حق مع اپنی صفات کے خارج میں موجود ہے) مگر دوسری حیثیت کے اعتبار سے اس مرتبہ کو موجود علمی کہتے ہیں (کیونکہ معلومات کا وجود یا اعیانِ ثابتہ کا ثبوت علم ازلی میں ہی ہے‘ خارج میں تو ان کا وجود نہیں ہے)۔مثال کے طور پر جیسے علمِ حادث میں (یعنی ہمارے علم میں )جو صورت ذہن میں موجود ہوتی ہے اس کی دو حیثیتیں ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ ذہن کے لیے عرض کی طرح ہے(یعنی ذہن جوہر ہے اور وہ عرض)یعنی وہ ذہن کے ساتھ قائم ہے‘ وہ ذہن کے لیے صفت ہے اور ذہن اس سے متصف ہے۔اس اعتبار سے گویا وہ صفت علم ہی ہے اور خارج میں موجود ہے(کیونکہ ذات اپنی صفات کے ساتھ خارج میں موجود ہے)۔ذہن میں موجود صورت کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ ذہن سے قطعِ نظر صرف اسی صورت کو دیکھا جائے تو اس اعتبار سے وہ معلوم ہے اور ذہن میں موجود ہے نہ کہ خارج میں۔اسی طرح معلوماتِ الٰہیہ یا اعیانِ ثابتہ اس دوسری حیثیت کے اعتبار سے موجود فی العلم کہلاتے ہیں‘خارج میں موجود نہیں کہلاتے۔
یہ شبہ ہو سکتا ہے کہ جب یہ علمی موجودات (اعیانِ ثابتہ)علمِ الٰہی میںموجود ہیں اور علمِ الٰہی تو ذات کے ساتھ خارج میں موجود ہے تو یہ علمی موجودات بھی اس واسطہ سے خارج میں موجود ہوئے۔
جوابِ شبہ:اس کا جواب یہ ہے کہ ہم جو یہاں موجود خارجی کی بات کر رہے ہیں تو اس سے مراد اصطلاحی معنی ہے یعنی جو خارج میں بلا واسطہ موجود ہو(یہاں پر یہ اعتراض وارد کیا جا سکتا ہے کہ ان معنوں میں ایک اعتبار سے تو صفات بھی خارج میں موجود نہیں کیونکہ وہ ذات کے واسطے سے موجود ہوتی ہیں۔اس کے جواب میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ غالباً ان کے مابین یہ فرق ہے کہ صفات براہ راست ذات کے واسطے سے موجود ہیں جبکہ معلومات صفت علم کے واسطے سے۔واللہ اعلم!) اور جو خارج میں موجود علم کے واسطے سے موجود ہو وہ موجود خارجی نہیں کہلاتی بلکہ ایسے موجود کو ذاتِ واجب کے حوالے سے موجود علمی کہا جاتا ہے اور ذات ممکن کے حوالے سے موجود ذہنی(اس کو وجود ظلی یا غیر اصیل وجود بھی کہتے ہیں۔وجود خارجی مبدأ آثار ہوتا ہے جبکہ وجود ذہنی مستقل وجود رکھنے کے باوجود مبدأ آثار نہیں ہوتا اور اس کا ظرف ذہن ہوتا ہے۔وجود ذہنی کے حوالے سے ہمارے حکماء اور متکلمین کے ہاں مختلف مواقف پائے جاتے ہیں۔بہرحال جمہور اس کے قائل ہیں )۔اگر موجود خارجی کو(بجائے ان اصطلاحی معانی کے جن کا ابھی ذکر کیا گیا)عام لیا جائے تو پھر وہ ذہنی موجودات کو بھی شامل ہوجائے گا(کیونکہ ذہن کے واسطے سے وہ بھی خارج میں موجود ہیں)اور قسیم کا قسم ہونا لازم آئے گا جو کہ باطل ہے(کسی بھی تصور کی دو اقسام ہوں تو وہ دونوں اقسام آپس میں ایک دوسرے کی قسیم ہوتی ہیں اور وہ دونوں اس بڑے تصور کی قسم ہوتی ہیں۔ مثلاً لفظ کی تین قسمیں ہیں: اسم‘فعل اور حرف۔یہ تینوں آپس میں قسیم ہیں اور لفظ کی ہر کوئی اپنی ذات میں قسم ہے۔قسیم قسم نہیں ہو سکتی جیسے اسم کبھی فعل کی قسم نہیں ہو سکتا بلکہ دونوں آپس میں قسیم ہیں۔اسی طرح اوپر والی مثال میں وجود کی دو قسمیں کی گئی ہیں ۔ایک وجود ذہنی‘دوسرا وجود خارجی ۔وجود خارجی کی اصطلاحی تعریف یہ کی گئی کہ جو بلا واسطہ خارج میں موجود ہے۔یہاں وجود خارجی اور ذہنی ایک دوسرے کی قسیم ہیں۔ اگر بلا واسطہ کی قید ہٹا دی جائے تو پھر وجود ذہنی بھی خارج میں ذہن کے واسطے سے موجود کہلائے گا اور یہ وجود خارجی کی ایک قسم بن جائے گا‘ حالانکہ ہم دیکھ آئے ہیں کہ موجود خارجی اور موجود ذہنی آپس میں قسیم ہیں اور قسیم قسم نہیں بن سکتا)۔ یہ اس شبہ کا جواب ہے۔
یہ اعیانِ ثابتہ پہلی حیثیت سے اسماء و صفات میں داخل ہیں اور خارج کے ذکر کردہ معنی کے اعتبار سے خارجی ہیں(کیونکہ صفات خارج میں موجود ہیں)اور یہ موجود خارجی کا مرتبہ ہے۔دوسری حیثیت سے اعیانِ ثابتہ صفت علم کے مغائر ہو کر‘اگرچہ یہ تغایر اعتباری ہے‘ذات و صفات کے قسیم بن جاتے ہیں اور خارج کے ذکرکردہ معنی کے اعتبارسے موجود خارجی نہیں کہلاتے بلکہ موجود کے دوسرے مرتبہ یعنی موجود علمی پر فائز ہوتے ہیں۔غرض عالم کی تخلیق سے پہلے موجود حقیقی صرف ایک ذات تھی جس میں دو اعتبارات سے دو مراتب تھے۔ ایک موجود عینی (موجود خارجی‘موجود حقیقی)یعنی ذات مع اپنے اسماء و صفات کے اور کل موجود خارجی بھی اسی میں منحصر ہے۔اس کو (صوفیاء کی اصطلاح میں)ظاہر وجود بھی کہا جاتا ہے۔وجود اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ صوفیاء کے نزدیک وجود عینِ ذات ہے(ذات سے مراد اگرماہیت لی جائے تو واجب میں صوفیاء اور کچھ حکماء و متکلمین کے ہاں وجودو ماہیت میں عینیت ہے۔ واجب کی کوئی ماہیت نہیں ہے کہ وجود اس کو عارض ہوتا ہو بلکہ ذات ہی وجود ہے اور وجود ہی ذات ہے‘جبکہ ممکنات میں ماہیت و وجود میں غیریت ہے۔ اب صوفیاء اور حکماء میں اس میں اختلاف ہے کہ ممکنات کی ماہیات کو وجود حقیقتاًعارض ہوتا ہے یا اعتباراً ۔صوفیاء دوسرے موقف کے قائل ہیں۔واللہ اعلم!) ظاہر وجودکی اصطلاح اگلے مرتبے یعنی وجود علمی سے تقابل کے لیے استعمال کی گئی ہے کہ اس موجود علمی میں ایک گونہ پوشیدگی ہے اور اس لیے اس پر اصطلاحی طور پرموجود خارجی کا حکم نہیں لگایا جاتا۔پس ایک مرتبہ تو اس موجود حقیقی کا یہ تھا۔
دوسرا مرتبہ اعیانِ ثابتہ کا تھا یعنی موجود علمی کا۔جب اللہ تعالیٰ نے عالم کو تخلیق کرنا اور عدم محض سے اس کو وجود بخشنا چاہا تو اپنے ارادے سے موجود علمی یعنی اعیانِ ثابتہ کو ظاہر وجود پر تجلی یا ظہور کے مراتب کے فرق کے اعتبار سے جن کو تنزلات بھی کہا جاتا ہے‘متجلی اور منعکس فرمایا(تنزلات شیخ اکبر ابن عربی کے نظریہ وحدت الوجودمیں اساسی اہمیت کے حامل ہیں۔وحدت الوجود کے بارے میں غلط فہمی کا ایک منشا تنزلات اور مراتبِ وجود کو نہ سمجھ پانا ہے۔ تنزلات کل چھے ہیں۔پہلا مرتبہ ذات کا ہے جس کو مقام احدیت بھی کہتے ہیں۔یہ’’ لا بشرط شئے‘‘ کا درجہ ہے یعنی کسی قسم کی کوئی شرط نہیں پائی جاتی‘ نہ وجودی اور نہ عدمی۔ جو منقطع الاشارات اورغیب الغیب ہے‘قید اطلاق سے بھی ماوراء ہے۔تنزلِ اوّل وحدت میں ہوتا ہے‘ اس کو حقیقت ِمحمدیہ بھی کہا جاتا ہے۔یہی وجود مطلق ہے جو’’ بشرطِ لا‘‘ کا مرتبہ ہے یعنی صرف عدمی یا سلبی شرط پائی جاتی ہے۔تنزلِ ثانی کو واحدیت کہتے ہیں۔ یہ ظہور علمی یا اعیانِ ثابتہ کا مقام ہے۔تنزلِ ثا نی اور اس سے آگے کے تنز لات’ ’بشرطِ شئے‘‘ کے مراتب ہیں‘ یعنی کچھ ایجابی شرائط بھی ہیں۔ تنزلِ ثالث‘رابع‘ خامس اور سادس بالترتیب روح‘ مثال‘جسم اور انسان ہیں۔ صوفیاء کے تصوّرِ تنزلات و مراتب کو اگر دیکھا جائے تو لا بشر ط شئے کے درجے پر ذات ماورائے وجود ہے۔ وجود تنزلِ اوّل ہے)۔ اس تجلی اور انعکاس سے ظاہرِ وجود میں ان اعیانِ ثابتہ کے عکوس کچھ اس طرح ظاہر ہو گئے کہ نہ ان عکوس کو ہم موجودِ خارجی کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ظاہرِ وجود میں انہوں نے حلول کیا۔صرف ایک طرح کا تخیلاتی وجود ان کو حاصل ہوا جو سرسری نظر میں وجود خارجی سمجھاجانے لگا۔اس موقف کے مطابق ممکنات کا وجود کے ساتھ متصف ہونا ایسا ہی ہے جیسا کہ پہلے بیان کی گئی مثال میں آئینہ کے اندر سورج کی ٹکیا کے عکس کا وجود کے ساتھ متصف ہونا۔ آئینہ کے اندر کوئی واقعی شئے تو موجود نہیں اور نہ ہی اس کو وجود خارجی حاصل ہے۔آنکھوں کی شعائوں کے ٹکرانے سے وہی جسم آئینہ میں نظر آتا ہے جو آئینہ کے سامنے ہے اور آئینہ کے اندر نہ تو وہ بذاتِ خود پایا جاتا ہے اور نہ اس کی مثال پائی جاتی ہے۔اس وجہ سے یہ کہنا بھی درست ہوگا کہ آئینہ میں نظر آنے والا عکس اپنی ذات میں محض وہم اور خیال ہے‘ اس کا کوئی حقیقی وجود نہیں۔اس کی حقیقت تو وہی جسم ہے جو آئینہ کے سامنے پایا جاتا ہے۔اسی طرح یہ حضرات کہتے ہیں کہ اعیانِ ثابتہ کے ظاہر وجود پر تجلی و انعکاس سے اس ظاہروجود میں جو عکوس و نقوش محسوس ہونے لگے ان کا اپنی ذات میں کوئی مستقل وجود نہیں‘محض خیالات ہیں مگر غیرموجود ہونے کے باوجود موجود معلوم ہونے لگتے ہیں ۔ ان کی حقیقت وہی اعیانِ ثابتہ ہیں(اعیانِ ثابتہ نے بذاتِ خود تخیلی وجود حاصل نہیں کیا۔یہ محض اس کے عکوس ہیں۔اعیانِ ثابتہ جہاں تھے‘ جیسے تھے‘ ویسے ہی رہے)۔ بہرحال یہ مطلب ہے وجودی صوفیاء کے اس قول کا کہ عالم کل کا کل ذات واجب کے اسماء و صفات سے عبارت ہے جنہوں نے مرتبہ علم میں تمییز پیدا کرلی ہے‘اپنی شناخت حاصل کر لی ہے اور ظاہر وجود کے آئینہ میں ایک قسم کا تخیلی اور اعتباری ظہور حاصل کر لیا ہے۔
وجودی صوفیاء کا ایک اور قول کہ اعیانِ ثابتہ نے وجود کی بو بھی نہیں پائی‘ کا مطلب بھی اس سے واضح ہوجاتا ہے(یہ شیخ اکبر کے ایک قول کی طرف اشارہ ہے۔اعیانِ ثابتہ کو وجود خارجی قطعاً حاصل نہیں ہوابلکہ ان کے عکوس ظاہرِ وجود میں منعکس ہو کر صرف ایک تخییلی وجود حاصل کرتے ہیں ۔خارج میں ظاہر وجود کے سوا کچھ نہیں ۔)اور اس قول کی حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے کہ عالم جو ظہورِاسماء و صفات کے نتیجے میں ظاہر ہوا ہے‘کو ظاہر وجود سے نہ اتحاد کا تعلق ہے اور نہ حلول کا(کہ یہاں دو الگ الگ وجود نہیں ہیں کہ ایک ہو جائیں یا آپس میں حل ہو جائیں۔وحدتِ وجود میں وجود کی دوئی کا کلی انکار ہے اس لیے نہ حلول کا کوئی امکان ہے نہ اتحاد کا)۔حضرات صوفیاء صرف وحدت کے قائل ہیں کہ سوائے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ واحد کے کسی کو مستقل وجود حاصل نہیں ‘ ممکنات کا وجود محض خیالی ہے۔صوفیاء اتحاد کے بھی قائل نہیں کہ عالم حقیقتاً موجود ہو‘پھر ذاتِ حق کے ساتھ وجود میں ایک ہو جائے۔اسی طرح حلول کی بھی نفی ہو جاتی ہے کہ حلول میں حال اور محل(حل ہونے والا اور جس میں حل ہو)دونوں موجود ہوتے ہیں۔پھر اس حلول کے نتیجے میںان کا ایک طرح کا اتحاد و یکجائی پیدا ہوجاتی ہے۔یہ وجودی صوفیاء کے موقف وحدت الوجود کا مکمل بیان ہے اور اس کو وہ دو مختلف عبارتوں سے بیان کردیتے ہیں۔ ایک اس طرح کہ عالم بالکل معدوم ہے‘ جیسے جو صورت آئینے میں نظر آتی ہے اس کو معدومِ محض کہنا بھی درست ہے کہ خارج میں جو مستقل موجودات ہیں ان کے مقابلے میں وہ معدومِ محض ہی ہے۔کبھی اس طرح کا عالم حقیقت واحدہ کا عین ہے(یعنی کوئی دوئی نہیں ہے‘ صرف وحدت ہے)جیسے آئینہ میں جو صورت نظر آتی ہے اس کو آئینہ کے سامنے موجود جس جسم کی وہ صورت ہوتی ہے اس کا عین بھی کہا جاسکتا ہے کہ آنکھ نے تودر حقیقت اسی جسم کا ادراک کیا ہے۔ اب تک کی بات سے وحدت الوجود کی حقیقت تو واضح ہو گئی ہے اور اس پر کوئی اشکال نہیں رہا‘ ہاں البتہ بعض انسانی عادت اور تجربہ سے بعید باتوں پر کچھ اعتراضات شبہات کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔ ان کو جواب کے ساتھ عرض کرتا ہوں۔
پہلا شبہ: اعیانِ ثابتہ کو ظاہر وجود پر متجلی فرمانے کا کیا مطلب ہے؟
جواب: علم معقولات میں بھی بہت سے مقامات پر ایسا ہوتا ہے کہ اس فن کے ماہرین دلیل کی بنیاد پر ایک حکم کے قائل ہو جاتے ہیں اور جب اس کی حقیقت کے بارے میں ان سے پوچھا جاتا ہے تو اس کی حقیقت کے ادراک سے عذر کر دیتے ہیں۔ (یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے ۔معقولات پر تنقید کرتے وقت بہت سے حضرات اس کو ملحوظِ خاطر نہیں رکھتے۔دلیل سے کسی حکم کے وجوب‘امکان یا امتناع کا پتہ لگا لینا یہ لازم نہیں کرتا کہ آپ اس کی حقیقت کا بھی ادراک رکھتے ہیں۔قطعی عقلی دلائل سے خدا کے وجود کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن خدا کی ذات کا ادراک یا حقیقت کو جان لینا عقل کے لیے ناممکن ہے۔)میبذی(شرح ہدایت الحکمۃ)سے میں نے حکماء کا جو قول نقل کیا ہے اس کے آخر میں اس بات کی تصریح ہے کہ’’یہ نسبت مختلف وجوہ اور مختلف طریقوں پر ہوتی ہے جس کی ماہیت کا جاننا ممکن نہیں‘‘(وجود کے جزئی اور موجود کے کلی ہونے کی نسبت۔ یہ وجود کی حقیقت کے بارے میں حکماء کا مذہب ہے۔دیکھیے حکمت قرآن کا پچھلا شمارہ)اور کشف میں تو یہ بات کرنے کا زیادہ حق ہے کہ کشف کی راہ عقل کے طریقے سے دور ہے ‘یہاں تک کہ فلاسفہ جیسے عقل کا دعویٰ رکھنے والے تحقیق کے لمبے چوڑے دعوئوں کے بعد کچھ اس طرح کے مسائل میں صاف کہہ دیتے ہیں کہ’’یہ طریقہ عقل کے طریقہ سے ماوراء ہے ‘اس کا ادراک قوتِ قدسیہ(کشف ِحقائق کی صلاحیت جو تزکیہ نفس اور صفائی باطن سے حاصل ہو) کے حاملین ہی کر سکتے ہیں۔‘‘البتہ عادت اور عقل سے اس کی جو ظاہری دوری ہے اس کو کم کرنے کے لیے عرض کرتا ہوں کہ تجلی کے معنی ظہور کے ہیں۔پس اعیانِ ثابتہ کو ظاہر وجود پر متجلی فرمانے کا مطلب یہ ہو گا کہ اعیانِ ثابتہ کو ظاہر وجود پر ظاہرو منکشف فرما دیا۔جہاں تک یہ بات ہے کہ اعیانِ ثابتہ جو کہ علم تفصیلی کا ہی دوسرا عنوان ہے‘ پہلے بھی ظاہر وجود پر یعنی ذاتِ حق پر ظاہر تھے‘ کیونکہ کوئی علم بھی ذات پر مخفی نہیں‘ تو اس ظاہر کرنے کے کیا معنی ہوئے جبکہ وہ پہلے ہی ظاہر تھا؟تو اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ یہاں ظہور سے مراد مطلق ظہور نہیں ہے بلکہ ایک خاص طرح کا ظہور ہے جس سے ان اعیانِ ثابتہ کوایک تخیــّلی وجود حاصل ہو جائے۔ اہل ِ حق کے نزدیک اللہ تعالیٰ علت ِموجبہ (ایسی علت جس سے معلول کا وجود لازماً ظاہر ہو اور علت و معلول میں کبھی انفکاک و علیحدگی نہ ہو سکے)نہیں ہے بلکہ فاعلِ مختار ہے(کہ اپنے ارادہ و اختیار سے عمل کرتا ہے۔اس بات کو کلامی انداز سے بیان کیا جائے تو یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی واجب نہیں )اس لیے اس کے باوجود کہ اعیانِ ثابتہ اور ظاہر وجود دونوں پہلے سے موجود ہیں اور اعیانِ ثابتہ ظاہر وجود کے لیے ظاہر بھی ہیں‘ مگر چونکہ ایک خاص طرح کا ظہور نہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں اعیانِ ثابتہ کو ایک تخیلی وجود حاصل ہوجائے۔وجہ اس کی یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ارادہ ہی نہ فرمایا گیا تھا۔پھر جب اس خاص ظہور کا ارادہ فرمایا تو وہ خاص ظہور بھی ہو گیا(جس کو اعیانِ ثابتہ کو ظاہر وجود پر متجلی فرمانے سے تعبیر کیا گیا ہے اور یہی شبہ بھی تھا کہ اس تجلی کا مطلب کیا ہے۔اس جواب سے ایک اور اعتراض بھی کسی حد تک رفع ہو گیا کہ نظریہ وحدت الوجود میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور ارادہ پر حرف آتا ہے۔صوفیاء اس کا جواب دیتے ہیں‘ چاہے اس جواب سے متکلمین کی تسلی نہ ہو لیکن اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو اس طرح کے اعتراضات ان کی اپنی تعبیر پر بھی وارد ہوتے ہیں۔واللہ اعلم!)اس سے علم میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی‘ بس اس ظہور میں ایک اضافی تغیر ہوا ہے۔یعنی پہلے اس کے متعلق یہ علم تھا کہ یہ خاص طرح کا ظہور نہ ہوا‘اب یہ علم ہے کہ ہو گیا‘کیونکہ علم معلومات کے خلاف نہیں ہوتا۔سو یہ تبدیلی یا تغیر معلوم میں ہے‘ علم میں نہیں۔مفسرین نے لِیَعْلَمَ اللہُ کی تفسیر میں اس کو علم ظہور سے تعبیر فرمایا ہے (لہٰذا یہاں سے اللہ تعالیٰ کے علم کے حادث ہونے پر استدلال نہیں کیا جاسکتا)۔ اسی ظہورِ خاص کو عارف جامی نے شاعرانہ رنگ میں کچھ یوں بیان کیا ہے کہ( ترجمہ): ’’تمام اعیانِ ثابتہ(مرتبہ علم میں موجود) تھے اور بغیر کہاں ‘کیسے اور کتنے کے تھے‘کسی بھی قسم کے علمی اور خارجی امتیاز سے پاک تھے‘ کہ اچانک سخاوت کے سمندر میں ایک جنبش ہوئی اور تمام اعیان اپنے آپ میں اپنے آپ سے نمودار ہو گئے۔‘‘
دوسرا شبہ: جب عالم کا وجود محض خیالی ہے تو خیال کے نہ رہنے سے اس کو معدوم ہو جانا چاہیے۔ اسی طرح خیالی وجود کو مکلف بنانے اور ان کو ثواب و عذاب دینے کا کیا مطلب ہے؟
جواب:خیال کے مختلف درجات ہو سکتے ہیںاور درجات کا یہ تفاوت بھی صاحب قدرت و ارادہ فاعل کے ہاتھ میں ہے۔ایک خیال تو اس نے ایسا پیدا کیا کہ خیال کے ختم ہونے سے وہ بھی ختم ہو جائے‘ اور ایک خیال ایسا پیدا کیا کہ رفعِ خیال سے وہ مرتفع نہ ہو۔عالم کا وجودِ خیالی اسی دوسری طرح کا ہے‘ اس لیے احکاماتِ شرعیہ اور جزا و سزا میں کوئی اشکال نہیں۔(شیخ اکبر ابن عربی کے ہاں خیالِ متصل اور خیالِ منفصل کی اصطلاحات ملتی ہیں۔عالم کا تخیلی وجود خیالِ منفصل ہے نہ کہ متصل جو کہ مستقل نہیں ہوتا۔ مولانا مناظر احسن گیلانی کے شیخ مولانا محمد حسین صاحب حیدرآبادی کی تعبیر کو اختیار کیا جائے تو قیومیت کا مطلب ہی یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مستقل اپنی توجہ سے اس عالم کو تھاما ہوا ہے۔انسان اپنے خیال سے خیالی مخلوقات کو وجود دیتا ہے مگر چونکہ اس کا خیال ناقص ہے اور صفت ِ استقلال سے محروم ہے اس لیے جیسے ہی خیال ہٹا‘ خیالی مخلوقات بھی معدوم‘ لیکن حق تعالیٰ کا خیال کامل ہے‘ جب تک چاہے گا مخلوقات کو تھامے رہے گا۔دوسرے شبہ میں حق تعالیٰ کے خیال کو انسانی خیال پر قیاس کیا جا رہا ہے‘ اسی وجہ سے اشکال پیدا ہو رہا ہے۔ویسے وحدت الوجود کی اس تعبیر کومولاناگیلانی نے ایک خط میں حضرت تھانوی کے سامنے بیان کیا تھا مگر اس میں تشبیہی رنگ کی زیادتی کی وجہ سے حضرت تھانوی کے ذوق نے اس کو ناپسند فرمایا اور جوابی خط میں لکھا کہ ’’فَلَا تَضْرِبُوا لِلہِ الْاَمْثَالَ‘‘)
تیسرا شبہ: جب عالم کے حقائق وہی اعیانِ ثابتہ ہیں اور وہ ذاتِ واجب کے مراتب میں سے ایک مرتبہ ہے‘ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا کہ وہ بھی اسماء و صفات میں داخل ہیں اور ظاہر ہے کہ وہ تمام نقائص سے منزہ ہیں‘ تو اس عالم میں جو کہ اسی مرتبہ کا عکس اور ظہور ہے‘ شر اور نقص کہاں سے آیا؟
جواب: وہ کہتے ہیں کہ کسی چیز میں کوئی شر اور نقص ذاتی نہیں(یعنی اس کی اپنی ذات سے پیدا نہیں ہوتا)۔وجود کل کا کل خیر ہے ۔جس میں بھی کوئی شر اور نقص پایا جاتا ہے وہ نسبی اور اضافی ہے۔ مثلاً سانپ کا زہرانسان کے لیے شر ہے مگر خود سانپ کے لیے قوام حیات ہے۔(یہ شبہ مسئلہ شرproblem of evilہی کا بیان ہے اور یہ شبہ صرف یہاں وارد نہیں ہوتابلکہ حادث و قدیم کے ربط کی جملہ تعبیرات پر وارد ہوتا ہے۔ہاں تعبیر کے بدلنے سے اعتراض کی نوعیت میں کچھ تبدیلی واقع ہو سکتی ہے مگر وہ اعتراض بہر حال مسئلہ شر پر ہی مبنی ہوتا ہے۔)
چوتھا شبہ: ہم جانتے ہیں کہ اعیانِ ثابتہ علم تفصیلی کا ہی دوسرا عنوان ہے تو اس کی تجلی سے عالم میں صرف علم ہی کا ظہور ہونا چاہیے تھا‘ دوسرے کمالات کا ظہور کیسے ہوا؟
جواب: اعیانِ ثابتہ میں تما م معلومات شامل ہیں اور ان معلومات میں ظاہر ہے کہ علم کے علاوہ دوسرے کمالات بھی موجود ہیں۔اعیانِ ثابتہ کی تجلی اس طرح فرمائی گئی کہ اس کے ضمن میں دوسرے کمالات کی بھی تجلی ہوگئی۔
پانچواں شبہ:شیخ اکبر ابن عربی کا یہ مذہب مشہور ہے کہ اسماء و صفات آپس میں بھی اور ذات کے ساتھ بھی عینیت رکھتی ہیں ۔جس چیز کی تجلی ہو وہی ہو اور جس پر ہو رہی ہو ان میں تغایر ضروری ہے۔ پھر یہ تجلی کس طرح ہوئی؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ شیخ اکبر کا یہ موقف ہے یا نہیں‘ یہی بات طے نہیں ہے۔اگر ذات و صفات واسماء کی عینیت کا یہ موقف ہو بھی تو وہ اس طرح کی عینیت کے قائل نہ تھے کہ جس کے فلاسفہ قائل تھے اور اس کا نتیجہ صفات کی نفی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ان فلاسفہ کو صفات کے انکار سے کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ وہ ذاتِ حق کو علت ِ موجبہ(ایسی علت جس سے معلول کا وجود لازماً صادر ہوتا ہے)مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ واحد سے واحد ہی صادر ہو سکتا ہے(یہ بھی فلاسفہ کا ایک اصول ہے کہ واحد سے بطریق ایجاب یعنی بغیر ارادہ و اختیار کے واحد ہی صادر ہو سکتا ہے۔اسی طرح اگر علت ِموجبہ نہ مانیں تو ارادہ و قدرت جیسی صفات کو ماننا پڑے گا۔علت موجبہ اگر مان لیا گیا تو صفات کی نفی کوئی مسئلہ نہیں)۔صفات کے ذات کے ساتھ متحد ہونے کے باوجود وہ ایک جہت سے تغایر اعتباری کے قائل ہیں مگر یہ مغائرت معتبر نہیں۔جیسے وہ ذاتِ واجب کو واحد ہونے کے باوجود ایک اعتبارسے عاقل کہتے ہیں‘ ایک اعتبار سے معقول اور ایک اعتبار سے عقل کہتے ہیں۔وہ اعتباری مغائرت قابل اعتبار ہے جہاں ذات کی وحدت کے ساتھ تغائر اعتباری کی حیثیت ایسی ہو کہ اس تغائر کا تحقق یا وجود متغائرین پر صادق آنے سے پہلے کا ہو۔مثال کے طور پر جیسے اپنے نفس کے مسائل کا علاج ہے۔یہاں معالج اور معالَج کا تغائر ہے (علاج کرنے والے اور جس کا علاج کیا جارہا ہوان کا الگ الگ ہوناپہلے سے متحقق ہے۔اب اگرانسان اپنا علاج خود کر لے تو وہی علاج کرنے والا ہے اور وہی جس کا علاج کیا جا رہا ہے وہ بھی ہے۔ذات تو واحد ہے مگر ایک اعتبار ی مغایرت پیدا ہو گئی ہے مگر معالج اور معالَج کی مغایرت یہاں صادق آنے سے پہلے سے موجود و متحقق ہے۔عاقل و معقول و عقل کی مغایرت میں ایسا نہیں ہے۔ واللہ اعلم!)
وہ تغایر اعتباری معتبر نہیں جہاں تغایر کی حیثیت کا تحقق متغایرین پر صادق آنے کے بعد ہو۔فلاسفہ واجب کی ذات میں تغایراعتباری کے پہلے معنی کے منکر ہیں۔چنانچہ میر زاہد نے حواشی رسالہ قطبیہ میں ان کا موقف صراحت کے ساتھ نقل کیا ہے(میر زاہد الہروی مشہور معقولی عالم ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ ؒکے والد شاہ عبد الرحیم ؒنے معقولات کی کتابیں انہی سے پڑھی تھیں۔ درسِ نظامی میں شامل’’ زواہد ثلاثہ‘‘ کی وجہ سے معروف ہیں ۔ میر زاہد ملا جلال ‘ میر زاہدحواشی رسالہ قطبیہ اور میر زاہد امور عامہ کو زواہد ثلاثہ کہا جاتا ہے۔رسالہ قطبیہ تصور و تصدیق پر ملا قطب الدین کا رسالہ ہے) ترجمہ:’’ذاتِ واجب کی صفات کے ساتھ عینیت کا معنی یہ ہے کہ وہاں اتحاد محض ہے اور ان کے قول کے مطابق ذاتِ واجب کی یہ حیثیت کہ وہ انکشاف کا مبدأ ہے علم کہلاتی ہے اور یہ کہ وہ آثار کا مبدأ ہے قدرت کہلاتی ہے اور (تغایر کی) یہ حیثیت علم اور قدرت کے مفہوم کے اعتبار سے متاخر ہے‘ نہ کہ ان دونوں کے صادق آنے سے پہلے کی ہے کہ ذاتِ واجب میں ایک اعتبار سے کثرت ثابت ہو جائے۔‘‘(اوپر حضرت تھانوی نے فلاسفہ کے حوالے سے جو کہا ہے کہ تغایر اعتباری کے پہلے معانی کے منکر ہیں‘میر زاہد کی یہ عبارت اور اس میں آگے آنے والی عبارت اسی کا بیان ہے۔)اس سلسلے میں میر زاہد یہ بھی کہتے ہیں کہ’’یہ معاملہ جس کے بارے میں ہم بات کر رہے ہیں ویسا نہیں ہے جیسا کہ معالج اور معالَج کا معاملہ ہوتا ہے کہ معالج میں قوتِ فعلیہ کی حیثیت پائی جاتی ہے اور معالَج میں قوتِ انفعالیہ کی۔لیکن عاقل‘عقل اور معقول جو ذات مجردہ کے ہاں حاضر ہیںوہ ایک ہی ہیں۔ ان میں کسی قسم کا کوئی تغایر نہیں پایا جاتا‘ نہ اصلی نہ اعتباری۔‘‘
یہاں پر تجلی کرنے والے اور جس پر تجلی کی جا رہی ہے اس میں اتحاد ذاتی کے باوجود تغایر اعتباری کے پہلے معنی (جہاں تغایر کی حیثیت متغایرین پر صادق آنے سے قبل ہو)کا انکار ان حضرات صوفیاء وجودیہ سے کہیں ثابت نہیں۔یہ تغایر اعتباری ان احکامات (تجلی)کے لیے کافی ہے۔البتہ جس تغایر کے متکلمین قائل ہیںکہ صفات کو ذات کے ساتھ متحد نہیں کہتے بلکہ ذات پر زائد بتاتے ہیں جیسا کہ یواقیت میں ہے (الیواقیت والجواہر امام عبدالوہاب شعرانی)اگرچہ صفات کو لازم ذات بھی کہتے ہیں اور ادب کی وجہ سے ان پر غیریت کا اطلاق نہیں کرتے۔صوفیاء ان کے اس موقف کا انکار کرتے ہیں(تمام متکلمین کی جانب اس مسلک کی نسبت محل نظر ہے۔ متکلمین کا مسلک’’لا عین ولا غیر‘‘ کا ہے کہ ذات کے اعتبار سے غیریت نہیں ہے‘ مفہوم کے اعتبار سے غیریت ہے۔سعید فودہ کہتے ہیں:’’صفات وجودی ہیں اور وہ ذات پر زائد ہیں‘زائد کہنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ ذات کے مغائر ہیں۔صفات کے لیے ذات سے الگ وجود کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں ہے اور نہ ہی ذات صفات کے بغیر پائی جا سکتی ہے… اس میں کو ئی شک نہیں کہ صفت کا مفہوم ذات کے مفہوم سے الگ ہے‘لیکن جیسا کہ واضح ہے کہ مفہوم کا الگ ہونا وجود خارجی میں تغایر کو مستلزم نہیں ہے بلکہ واجب کا وجود حقیقت میں ایک ہے‘ اس میں کسی بھی قسم کی کوئی کثرت نہیں ہے۔‘‘[شرح الخریدہ البہیہ] یعنی یہ وہی بات کہ جو پہلے کی گئی کہ وجوداً عینیت ہے اور مفہوماً غیریت۔ اسی کو اعتباری غیریت بھی کہتے ہیں۔اس انداز سے دیکھیں تو یہ موقف قریب قریب صوفیاء والا ہی ہو جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!)
خلاصہ یہ ہے کہ فلاسفہ ذات و صفات میں تغایر اعتباری کے بھی قائل نہیں ہیں‘ متکلمین تغایر بالذات کے بھی قائل ہیںاور صوفیاء اتحاد ذاتی اور تغایر اعتباری کے قائل ہیں ۔ تغایر اعتباری ایک کی دوسرے پر تجلی کے لیے کافی ہے۔تو یہ وجودیہ کے موقف کا حاصل ہے اور اس سے معلوم ہو گیا ہوگا کہ اور علمی مسائل کی طرح یہ بھی ایک علمی مسئلہ ہے اگرچہ اس میں کشف کا بھی عمل دخل ہو۔اس کو میں مقدمے میں تفصیل کے ساتھ بیان کر چکا ہوں ۔البتہ ایسا ممکن ہے کہ کبھی کسی مسئلے کے اضطراری کشف(خودبخود منکشف ہو جانے)یا اس کے اختیاری مراقبہ اور استحضار سے کسی کیفیت یا حال کا ایسا غلبہ ہو جائے کہ بغیر اختیا ر کے اس مسئلہ کا اظہار کچھ اس طریقے سے اور ایسے عنوان سے ہو جائے کہ وہ اس مسئلہ کا مکمل طور پر احاطہ کرنے کے لیے کافی نہ ہو اور ایک ناتمام عبارت سامنے آئے جس کی وجہ سے سننے والوں میں غلط فہمی پیدا ہو جائے۔ اس مسئلے میں وہم پیدا کرنے والی نامکمل عبارات جو بعض کے کلام میں پائی جاتی ہیں‘ اس کی وجہ عام طور پر یہ ہوتی ہے۔ حسن ظن یہی تقاضا کرتا ہے کہ اگر اس فن میں مہارت ہو تو ان عبارات کو حقیقت کی روشنی میں سمجھے اور اگر مہارت نہ ہو تو خاموشی اختیار کر لے۔صرف مسائل ِتصوف میں ہی نہیں‘ عام روزمرہ کے واقعات میں بھی کسی وجہ سے ایسا غلبہ ہوجاتا ہے کہ کسی ایک جانب مشغول ہو جانے سے دوسری جانب سے ذہول ہوجاتا ہے۔جیسا کہ مشکوٰۃ کی ایک روایت میں آتاہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے نبی ﷺ کی وفات ہوئی تو اصحاب شدید غمگین تھے یہاںتک کہ بعض کو وساوس آرہے تھے‘ تو میں بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا گزر ہوا اور انہوں نے سلام کیا اور مجھے اس کا علم ہی نہ ہوا‘ تو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکایت لگائی۔پھر وہ دونوں آئے اور انہوں نے اکٹھے سلام کیا۔ پھر روایت کے آخر میں ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا کہ تم کیا کسی خیال میں مشغول تھے(کہ تمہیں سلام کا پتا نہ چلا)؟تو میں نے کہا: ہاں۔الحدیث رواہ احمد۔اس روایت سے پتا چلتا ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلام کی خبر نہ ہوئی جس کا جواب دینا واجب تھا۔تو اکثر خوشی‘غم یا غصے کی حالت میں ایسا ہوجاتا ہے کہ ذہن قابو میں نہیں رہتا یا زبان قابو میں نہیں رہتی۔اسی طرح اگر کسی باطنی حال سے مغلوب شخص تکلم کے وقت‘ خاص طور پر تب جب وہ ہو بھی غیر اختیاری‘ عبارت میں تمام جہات کا احاطہ نہ کر سکے اور وہ نامکمل رہ جائے تو اس میں کیا عجیب بات ہے۔اس کو تو ظاہر ہے کہ معذور ہی سمجھنا چاہیے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ حال کے غلبہ سے نکلنے کے بعد اس کو اپنی اس عبارت کی اصلاح کر دینی چاہیے تھی تاکہ گمراہی نہ پھیلتی تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان عبارات کی اطلاع صرف خواص کو ہوا کرتی تھی اور وہ حقیقت جانتے تھے ۔اسی طرح کتابیں بھی خواص کے لیے لکھی جاتی ہیں تاکہ وہ اپنے باطنی واردات کو ان پر منطبق کر کے ان کی صحت یا فساد کا اندازہ کر سکیں۔ان بزرگوں کو ان مطابع (چھاپہ خانوں)کی کیا خبر تھی جن کے ذریعے ہر ظاہر و خفی مضمون عام ہو گیا۔پھر انہوں نے غیر اہل کے لیے فتویٰ بھی دیا تھا کہ ہماری کتابوں پر نظر ڈالنا حرام ہے۔اس سے زیادہ وہ کیا کرتے! (جاری)
tanzeemdigitallibrary.com © 2024