دورنگی او ر عملی تضاد!!!
ڈاکٹر ابصار احمد
ماہنامہ ’’عالمی ترجمان القرآن‘‘ بابت جنوری ۲۰۲۵ء اس کے نائب مدیر جناب سلیم منصور خالد کی ذرّہ نوازی سے موصول ہوا تو محترم و مکرم پروفیسر خورشید احمد صاحب کے تحریر کردہ اشارات بعنوان’’مسلم خاندان: امڈتے خطرات سے تحفظ ؟‘‘ پر نظریں جم گئیں۔ جریدہ ہذا آغازِ اشاعت ہی سے مولانا مودودیؒ اور ان کی مؤسسہ احیائی انقلابی جماعت کے قرآن و سُنّت ِ نبوی کی روشنی میں پیش کردہ افکار کا ترجمان رہا ہے اور کم و بیش نوے سال سے پاک و ہند کے مسلمانوں کی دینی راہنمائی اور اسلامی انقلاب کے لیے مؤثر تحریکی عمل کی ایک زور دار آواز بنا ہوا ہے۔ پروفیسر خورشید صاحب کی یہ چشم کشا اور مبسوط تحریر پڑھ کر (خاکسار نے اس کا بلامبالغہ متعدد بار بالاستیعاب مطالعہ کیا ہے)اندازہ لگایا تو خوش گوار احساس ہوا کہ صاحب ِتحریر اس پیرانہ سالی اور جملہ عوارض کے باوجود ذہنی طور پر بالکل توانا اور فعال ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے افکار عالیہ سے مستفیض ہونے کا مزید موقع نصیب فرمائیں اور حق تعالیٰ انہیں اس کے بہترین اجر سے آخرت میں نوازیں۔ آمین !
قبل ازیں کچھ عرصہ قبل ڈاکٹر انیس احمدصاحب نے بھی ملک عزیز میں معاشرتی خرابیوں اور عدم تحفظ کے موضوع پر اسی ماہنامہ میں اپنا تجزیہ تحریر کرتے ہوئے لکھا تھاکہ معاشرتی اور خانگی انتشار پر ہر محب وطن اور دین سے تعلق رکھنے والا شخص شدید پریشانی میں مبتلا ہے۔ سیاسی‘ معاشی اور اخلاقی زبوں حالی کے ساتھ بالخصوص خاندان کا نظام بھی انتشار اور انتہائی تکلیف دہ صورت حال کا منظر پیش کرتا ہے۔ جولائی ۲۰۲۳ء کے ’’ٹریبیون‘‘ کی اطلاع کے مطابق صرف لاہور میں ۲۰۱۹ء سے تاحال(جولائی ۲۰۲۳ء تک کے عرصے میں۔ ان میں اب اغلباً زیادتی ہی ہوئی ہو گی۔) طلاق کے مقدمات کی تعداد ۲۴۱۵۷ہے۔ ۹۸۱۱ خلع کی درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ یہ معاملہ محض شہری زندگی کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ تحصیل کی سطح پر ۱۱۸۷۹ طلاقیں دی گئیں‘ جن سے۶۰۰۰۰بچوں کا مستقبل شدید متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ طلاق میں کثرت کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ ۲۰۰۵ء سے ۲۰۰۸ء تک کی مدت میں ۷۵۰۰۰ طلاقیں واقع ہوئیںجبکہ ۲۰۰۸ء سے ۲۰۱۱ء کے عرصہ میں۲۴۱۳۹ طلاقیں دی گئیں۔ خلع کے واقعات میں بھی ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ چنانچہ ۲۰۱۶ء میں ایک سال کے دوران یہ تعداد ۱۸۰۹۱ تک پہنچ گئیـ ۔ یہ وہ واقعات ہیں جو قانون کی نگاہ میں آ گئے۔ پاکستان میں بے شمار مقامات پر ایسے واقعات کا افشاسخت معیوب سمجھا جاتا ہے‘ اور ان کی کوئی رپورٹ درج نہیں کرائی جاتی۔ لہٰذا معلوم یہی ہوتا ہے کہ شوہر و بیوی میں علیحدگی (فسخ نکاح) کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ اور ان میں اضافہ روز افزوں ہے۔
پروفیسرخورشید صاحب کامبسوط مقالہ ذیلی عنوانات کے ساتھ مسلم خاندان کی نوعیت و مزاج اور مرد و زن کے تعلقات کے ضمن میں بہت جامع مسلمات اور توضیحات پر مبنی ہے۔ مسلم خاندان کی امتیازی خصوصیات بیان کرتے ہوئے وہ بجاطور پر لکھتے ہیں کہ یہ نظام دوسری تہذیبوں اور معاشروں میں پائے جانے والے خاندانی نظام سے بہت مختلف ہے۔ چونکہ یہ ایک دینی اور شرعی ادارہ ہے‘ چنانچہ اس کی حدبندی اور کارکردگی خود الہامی ہدایت کی روشنی میں اور آخرت میں فوز و فلاح کے جذبے سے کی جاتی ہے۔ یہ عصمت و عفت کی حفاظت کے لیے ایک مضبوط قلعہ ہے۔ انسانی فطرت کے تقاضوں کی تسکین اور تکمیل کے لیے ایک موزوں اور دلکش انتظام ہے۔ نئی نسلوں کی پرورش اور ان کی تعلیم و تربیت کے لیے بہترین گہوارہ ہے۔ یہ جسم اور روح کومحبت‘ مودت اورسکینت سے شادکام کرنے اور اس پاکیزہ فضا میں نئی نسلوں کو پروان چڑھانے کا ادارہ ہے۔ اپنے دین‘ تہذیب وتمدن اور انسانی معاشرے کے علوم و فیوض سے روشناس کرانے کا ایک نظام ہے۔
اسلام نے عورت کو بھرپور دینی و اخلاقی شناخت کے ساتھ پورا پورا قانونی تشخص بھی عطا کیا ہے۔ وہ مرد کی طرح اپنی ذاتی ملکیت رکھ سکتی ہے۔ اس کو حق ِملکیت کے ساتھ اس پر تصرف کا اختیار بھی دیا گیاہے ۔البتہ معاشرتی و قانونی سطح پر مرد و عورت کو ہر پہلو سے مساوی اور برابر نہیں رکھا گیا‘ اور اس کا سبب بھی بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ وہ یہ کہ اسلام معاشی کفالت کا تمام بوجھ مرد کے کاندھوں پر ڈالتا ہے۔ اپنی جسمانی ساخت‘ توانائیوں اور صلاحیتوںکے لحاظ سے وہی اس بوجھ کے اٹھانے کے لائق اور قابل بھی ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرائض و وظائف ِ حیات کی جو تقسیم حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما کےدرمیان فرمائی‘ اس سے اس خیال کی تائید ہوتی ہے کہ انہوں نے خارجی معاملات کی انجام دہی کا ذمہ دار حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جبکہ داخلی و خانگی امور کی انجام دہی کی ذمہ دار حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو قرار دیا۔ ایامِ جاہلیت میں عورتیں بن سنور کر باہر نکلتیں اور اپنے حسن و جمال کی نمائش کرتی تھیں۔ قرآن کریم نے ’’قرار فی البیت‘‘ کا حکم دیا‘ جس سے ظاہر ہے کہ عورت کا اصل دائرۂ عمل اس کا گھر قرار پاتا ہے۔ صدرِ اسلام میں خاتونِ خانہ کا اصل مقام گھر اور نسلوں کی پرورش و پرداخت تھا اور یہی نظامِ گھر داری اس کے وقار کا ضامن تھا۔ علماء و صلحاء ِ اُمّتِاسلامیہ کے نزدیک عورت کا شرف و امتیاز ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جو قومیں امومت (حق ِمادری) کے آداب نہیں بجا لاتیں ان کا نظام ناپائیدار اور بے اساس ہو جاتا ہے۔ خاندانی امن و سکون درہم برہم ہو جاتا ہے اور بالآخر اقدارِعالیہ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں۔
جدیدیت اور معاشی وسائل کی حرص میں اب خواتین شادی اور اولاد کی پیدائش سے جان چھڑا رہی ہیں۔ دوسری طرف مسلمان خاندان اور خصوصیت سے ’’مسلمان ماں‘‘ وہ اہم ترین جائے پناہ رہی ہے‘ جس نے اس امت کو راہِ صواب پر قائم رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دشمن انہی چیزوں کو خاص نشانہ بنا رہا ہے‘ یعنی وحی اور الہامی ہدایت (قرآن و سنت اور عائلی نظام)۔ اس کا ہدف مسلمان عورت کو اس کے دین سے برگشتہ کرنا ہے۔ اقوام متحدہ کے عالمی پروگراموں (UNDP) سے لے کر مخصوص ایجنڈے کی حامل ملکی اور غیر ملکی این جی اوز تک اس تخریبی کام میں مصروف ہیں اور مغربی بے خدا تہذیب و ثقافت کے تاریک سائے ہماری بنیادی اقدار اور روایات کو تہس نہس کرنے کے درپے ہیں۔ مغرب میں اخلاقی تباہی‘ خاندانی نظام کی زبوں حالی‘ بے حیائی اور بے وفائی‘ بے باپ گھرانوں (single-parent families)میں بچوں کی کسمپرسی‘ طلاقوں کی فراوانی‘ شادی کے بغیر جنسی تعلق اور اسقاطِ حمل کو دیکھ کر ہر حساس اور دل سوزی رکھنے والے فرد کے ذہن میں ’’ضربِ کلیم‘‘ کے یہ اشعار گونجنے لگتے ہیں: ؎
تہذیب فرنگی ہے اگر مرگِ امومت
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اُسی علم کو اربابِ نظر موت
بے گانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت
علامہ اقبالؒ کے یہ اشعار بڑے منفرد مقام کے حامل اور قرآن و سنت کی ہدایات پر مبنی ہیں جو نام نہاد آزادیٔ نسواں‘ عورت و تعلیم کے موضوعات پر چشم کشا ہیں اور تہذیب جدید کے زہرناک ‘ انسانیت سوز حقائق کاپردہ چاک کرتے ہیں۔ قرآن سے مستفاد ہونے کے باعث اہل ِنظر کے لیے بامعنی ‘ آفاقی اور ہمہ گیر مفہوم لیے ہوئے ہیں اور ہمارے پُرآشوب دور کے لیے تریاق کا کام کرتے ہیں۔ مغرب کا اخلاقی بحران اس لیے رونما ہوا ہے کہ وہاں ماں کا احترام اور صنفی پاکیزگی ختم ہو گئی ہے۔
زیر ِنظر تحریر کے صفحات ۱۶ اور ۱۷ پر دو جگہوں پر کچھ ایسی سطریں ہیں جن سے پروفیسر صاحب خواتین اور گھر کے scenarioمیں خاتونِ خانہ کو اُجرت پر کام کر کے کمانے کا کھلا لائسنس دیتے نظر آتے ہیں اور یوں وہ پچھلے صفحات میں بیان کردہ قرآن و سنت کی روشنی میں خواتین کے کردار اور مطلوبہ وظائف سے کچھ ہٹتے نظر آتے ہیں۔ وہ سطور بالترتیب یہ ہیں:
(i) عدل و انصاف کے اس نظام کو مستحکم کرنے کے لیے مسلمان خاندان کی بنیاد فرد کی معاشی آزادی اور اجتماعی تکافل کا ایک ایسا نظام ہے‘ جو مرد اور عورت کی عزت ِنفس اور آزادی کی مکمل ضمانت کے ساتھ ان کے درمیان تعاون اور شراکت کارشتہ استوار کرتا ہے۔ دونوں کو اپنی اپنی مِلک پر پورا اختیار دیتا ہے۔ مرد کو نان نفقہ کا ذمہ دار قرار دیتا ہے اور عورت کو محض بچوں کی پرورش کرنے والی اور جبری طور پرگھر کا کام کاج کرنے والی نہیں بناتا‘بلکہ ان تمام معاملات کو ان کی اہمیت اور خاندانی نظام کی ضرورت کے مطابق حقوق کی باہم پاس داری کے ساتھ انجام دلانا چاہتاہے۔
(ii) یہ معاشی تکافل اور سوشل سکیورٹی کا ایک فطری نظام ہے‘ جس میں عزتِ نفس کی مکمل پاس داری کے ساتھ خاندان کے افراد ایک دوسرے کے لیے سہارا بنتے ہیں اور سب کو معاشی دوڑ میں شرکت اور وسائل سے استفادے کا موقع دیتے ہیں۔
معاشی طور پر کمانے والی اور ’’بااختیار عورت‘‘ (empowered woman) کا تصور ہمارے ہاں جدید انسان کے نظریات اور تصورات کے زیراثر آیا ہے جو استعمار (colonialism) کے جدیدیت کے ایجنڈے کے تحت برصغیر کے مسلمانوں میں تعلیم اور معاشرت کے مغربی اسلوبِ حیات کے ڈھب پر یہاں پروان چڑھائے گئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جدیدیت اور نیولبرل ازم کی علمیت‘ مابعد الطبیعیات اور اقدار ماضی کی اکثر مذہبی روایتوں سے نسبت ِتضاد رکھتی ہیں ‘ جس کے نتیجے میں ایک بالکل مختلف انسان نے جنم لیا ہے جو اپنے تئیں بہت خود آگاہ مگر حقیقتاً خود و خدا فراموش‘ خود مختار و خود مکتفی اور روایت سے قطعی مختلف شعورِ خویش کا حامل ہے۔ اس کے نزدیک دنیا کی عارضی زندگی کے بعد آخرت کی ابدی زندگی اور اعمال کا محاسبے کا کوئی تصور نہیں ہے۔ اس کی کُل دلچسپی لمحہ ٔموجودکے مسائل اور احوال و ظروف سے ہوتی ہے۔
محترم پروفیسر خورشید صاحب جماعت اسلامی کے مؤسس مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی متعدد تصانیف کی روشنی میں بحمداللہ اہل سنت کے روایتی اور متوارث عقائد پر یقین رکھتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
’’اگر ہماری منزل اسلام ہے ‘اور یقیناً اسلام ہی ہے ‘تو پھر دو رنگی اور تضاد کو ترک کرنا ہوگا۔ ایمان اور جہل ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔....... ہماری پہلی ضرورت منزل کے صحیح تعین اور اس کے حصول کے لیے یکسو ہوکر جدّوجُہد کرنے کی ہے۔ مغربی ثقافت کی نقالی اور تہذیب ِنو کی یلغار کے آگے ہتھیار ڈالنا ہمارے لیے موت کے مترادف ہے۔ ‘‘
جماعت اسلامی کے موجودہ امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے ’’بنوقابل‘‘ پروگرام میں بڑے زور شور سے نئی نسل خصوصاً لڑکیوں کو کمپیوٹر سکلز سیکھ کر معاشی میدان میں آگے بڑھنے اور حصولِ زر کے لیے ابھارا گیا ہے۔ راقم آثم نے اس کا تنقیدی جائزہ ’’حکمت قرآن‘‘ کے شمارہ بابت جنوری- جون ۲۰۲۳ء میں لیا تھا۔ جماعت کے اس پورے پروگرام میں یہ تضاد روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ وہ تحریر قارئین کے مطالعہ اور غور و فکر کے لیے پیش کی جارہی ہے:
’’پچھلے دنوں الخدمت فائونڈیشن(جماعت اسلامی کا ایک ذیلی فلاحی ادارہ) کے زیرانتظام ’’بنوقابل‘‘ پروگرام کے تحت منعقدہ بچیوں (میٹرک اور اس سے اوپر تعلیم یافتہ) کے لیے آئی ٹی ٹریننگ کورسز کے لیے ٹیسٹ میں شہر بھر سے نوجوان لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ پورے کراچی اور مضافات میں ’’بنوقابل‘‘ اور ’’کراچی کی بیٹیو! پڑھو‘ آگے بڑھو‘‘ کے نعروں پر مبنی اس ٹیسٹ کی بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی۔ چنانچہ پچاس ہزار طالبات نے ٹیسٹ کے لیے رجسٹریشن کروائی اور ہزاروں پر مشتمل جم غفیر نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمٰن اور ان کے معاونین معروف تعلیمی اداروں کے ذمہ داران اور پیشہ ور افراد کے علاوہ کئی ٹی وی آرٹسٹ اور اینکرپرسنز کے ساتھ ’’بنوقابل میگا پروجیکٹ‘‘ کے اس پروگرام میں کنٹینروں پر قائم کیے گئے وسیع سٹیج پر جلوہ افروز ہوئے۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کراچی کو ملک اور خطے کی ایک اہم انفارمیشن ٹیکنالوجی سٹی بنانے کے عزم اور شہر میںIT یونیورسٹی کے قیام کو یقینی بنانے کا اظہاربھی فرمایا۔ کراچی کے لڑکے اور لڑکیوں کے بعد اب وہ گھریلو خواتین کی فنی تعلیم کے لیے بھی پروگرام بنا رہے ہیں اور ان کو بھی آئی ٹی کورس کروانے کا اعلان کیا۔ سٹیج پر انٹرٹینمنٹ شخصیات‘ اہم بزنس اور سوشل influencers کا جمگھٹاتھا جو ظاہر ہے طالبات کو متاثر کرنے اور ان کا ذوق وشوق بڑھانے کے لیے تھا۔ اس پورے پراجیکٹ کے حوالے سے معروف اینکر خاتون شائستہ لودھی کو الخدمت کی سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ کامیاب طالبات کو چار سے چھ ماہ مدّت کے مختلف آئی ٹی کورس مفت کروائے جا ئیں گے اور پھر جماعت اور الخدمت ملازمت کی تلاش میں بھی مدد فراہم کریں گی۔ موقر انگریزی اخبارات نے بالخصوص بڑے سائز کی تصاویر کے ساتھ اس اہم پروگرام کی کوریج کی۔ طالبات سے ایک عہد بھی لیا گیا جس کے دو جملے قابلِ ذکر ہیں:’’پاکستان اور اس کے اسلامی نظریے کی وفادار رہوں گی ....اپنے اخلاق و کردار سے خاندان اور ملک و ملت کی عزت میں اضافے کا سبب بنوں گیـ۔‘‘ جماعت اسلامی اسلام آباد کی اہم شخصیت میاں محمد اسلم نے بھی کراچی کی طرح پچاس ہزار لڑکے لڑکیوں کو عالمی معیار کی بہترینIT ٹریننگ سے گزار کر پروفیشنل ڈویلپمنٹ کے لیے تیار کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی مؤسسہ جماعت اسلامی کو پاکستان کے اسلامی سیکٹر میں امکانات کے لحاظ سے یہاں کے سب سے زیادہ باوسائل اور سب سے زیادہ اثر انداز ہونے والے گروہ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ مؤسس ِجماعت کے خلاق ذہن‘ عام فہم نثر‘ غیرمعمولی لسانی شعور کے ساتھ ادبیت اور قرآن و سُنّت سے علمی و انجذابی وابستگی نے وقیع و شاندار علمی دینی لٹریچر اور تفسیر قرآن میں ظہور کر کے لاتعداد خواتین و حضرات کو اسلام کی حقیقت سے روشناس کرایا۔ ان کی زندگیوں میں ایمان و یقین کی جوت جگا کر شروع کے عشروں میں بڑی تبدیلی برپا کی۔ انہوں نے اپنی تحریروں اور تحریکی جماعتی مساعی کے ذریعے اپنے قارئین اور سامعین کے ذہن میں یہ بات پختگی کے ساتھ بٹھائی کہ ہر قوم اور تہذیب کا طرزِ زیست اس کے تصوّرِ حقیقت ِاعلیٰ یعنی عقیدئہ الٰہ‘ تصورِ انسان اور تصورِ کائنات کے تابع ہوتا ہے۔ دنیا کی زندگی عارضی ہے اور موت ہرفرد کے لیے وقت مقررہ پر آ کر اسے ایک دوسرے جہان میں منتقل کر دینے والی ہے جہاں اس کے ایمان اور اعمال کا محاسبہ ہو گا۔
کلام اللہ کا ہر صفحہ دین ِاسلام کے اس بنیادی مقدمے کو انتہائی مؤثر انداز میں پیش کر کے انسانوں کو مرید ِدنیا اور مرید ِآخرت کے دو گروہوں میں تقسیم کرتا ہے: {مِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الدُّنْیَا وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرِیْدُ الْاٰخِرَۃَ}(آل عمران:۱۵۲) ۔ چنانچہ دین کی حقیقت پوری زندگی اور ہمہ جہت آئین ِبند گی ہے۔ اس پورے تناظرمیں اصل‘ حقیقی اور نافع علم وہ ’’العِلم‘‘ہے جو وحی پر مبنی ہے‘ یعنی ما قال اللّٰہ وقال الرسولﷺ۔ چنانچہ مسلمانوں کے لیے کلام اللہ اور سُنّت ِرسولﷺ کا علم بنیادی اہمیت کا حامل ہے جو ہماری انفرادی و اجتماعی ہر قسم کی اقدار‘ اہداف اور اخلاق و روحانی تحرک کا منبع اور سرچشمہ ہے۔ ایمان و عمل کی اس عظیم دعوتی اور ربانی فہم کو توسیع دینے اور عمومی بنانے کے لیے ضروری خیال کیا گیا کہ ہر جگہ تذکیر بالقرآن‘ سیرتِ نبویؐ اور اُسوئہ صحابہ کرامj کے سنجیدہ دعوتی و تربیتی حلقے قائم کیے جائیں ‘کیونکہ نبی مکرمﷺ کی سُنّت اور اتقیاء و صلحاء کی سیرت سے بڑھ کر کوئی فلسفہ و فکر اور آئیڈیالوجی نہیں جو انسانیت کے لیے حیات بخش ثابت ہو۔ مولانا مودودیؒ کے فکر کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ خدا پرستی اور اتباعِ رسولؐ پر مبنی دینی و روحانی کلچر وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ مولانا مودودیؒ کے فکر شہادتِ حق علی الناس اور غلبۂ دین سے انسپیریشن لے کر بانی تنظیم اسلامی اور موسس انجمن خدام القرآن برادر محترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ نے پاکستان کے طول و عرض اور کئی بیرونی ممالک میں دروسِ قرآنی کے ذریعے ’’رجوع الی القرآن‘‘ کے عنوان سے پانچ چھ دہائیوں کے دوران شدید محنت کر کے عوام کی سطح پر اور تعلیم یافتہ حضرات و خواتین میں بھی مسلم شناخت کی حقیقی معنویت اور قرآن وسُنّت کے حوالے سے مسلمانوں کے فرائض کا شعور پیدا کیا۔
راقم کا خیال تھا (اور خواہش بھی!) کہ جماعت کے کثیر الاشاعت ہفتہ وار ’’فرائیڈے اسپیشل‘‘ میں جناب شاہنواز فاروقی صاحب جو نظریاتی طو رپر ایک باریک بین اور نکتہ شناس مصنف اور علامہ اقبالؒ کے الفاظ میں ’’مرد خبیر‘‘ ہیں‘ وہ حافظ نعیم الرحمٰن کے ’’بنوقابل‘‘ میگا پراجیکٹ اور طالبات و خواتین کی empowermentاور معاشی آسودگی و خود مختاری (جو تحریک نسواں کے نعرےہیں) کے حوالے سے مؤسس تحریک اسلامی کے بنیادی اسلامی عائلی نظام کے نقیض پروگرام اور تہذیبی وفکری تحولِ عظیم پر ناقدانہ تبصرہ کریں گے۔ لیکن معاملہ ع ’ ’اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘‘ والا ہوا۔ اس اہم پروگرام کے فوری بعد شائع ہونے والے شمارے میں فاروقی صاحب کی دو تحریریں قارئین کے مطالعے میں آئیں: ایک ’’معاشرے میں کرداری نمونوں کا بحران‘‘ کے عنوان سے اور دوسری ’’کفر تک لے جانے والی غربت‘ خود کشی تک لے جانے والا معاشی دبائو۔‘‘ فاروقی صاحب نے اشارتاً بھی یہ نہیں کہا کہ یہ پورا پراجیکٹ ہمارے دینی و ملی مواقف ‘ روایت کی قربانی اور مغربی استعماری جدیدیت (modernity)کے عزائم کی تکمیل کا باعث بنے گا۔ عیسائی دنیا میں مارٹن لوتھر اور بعد ازاں کئی دوسرے مفکرین کے زیراثر عیسائیت میں دین اور دنیا کی ثنویت اور دنیا پرستی پر ارتکاز اپنی پوری شدت کے ساتھ ظہور پزیر ہوا ہے اور عیسوی زمین سماوی ہدایت کے چشمہ فیضان سے منقطع ہو کر خالص مادہ پرستانہ دلدل میں اتر گئی۔ یورپ نے حلال و حرام کی تمیز اٹھا دی اور جوع الارض اور مادی فوائد اس کے لیے سب سے پُرکشش مقاصد حیات ٹھہرے۔ اسلامی تصور ِایمان و علم انسان میں خدا خوفی کا احساس راسخ کرتا ہے‘ جبکہ جدیدیت کا کج نظر اور بوداتصورِ علم اس کی آنکھ بے نم اور دل پتھر کا کر دیتا ہے۔
جماعت اسلامی سے وابستہ اصحابِ فکر و دانش بخوبی جانتے ہوں گے کہ جدید ٹیکنالوجی انسان اور انسانیت کو کس طرح تبدیل کر رہی ہے۔ جدید فکر انسان کو محض ایک جبلی اور نفسی خواہشات کو پورا کرنے والے ارتقائی ’’ہیومن‘‘ کی صورت میں پیش کرتی ہے ‘جبکہ قرآنی ہدایت کے تناظر میں ہمارا بنیادی وصف یا essence’انسان‘ (اس لفظ سے ہی انسانیت نوازی یا humanismکا پورا فلسفہ اور نظریۂ اخلاق وضع کیا گیا ہے جبکہ بحیثیت مسلمان ہماری اصل اور بنیادی فکری کیٹیگری صرف انسان ہونا نہیں‘ بلکہ ’’بندہ‘ ‘ہونا ہے۔ ہیومن ازم کے مطابق آدمی کی پہچان‘ اس کی وابستگی‘ اس کی برادری اور اسے پابند کرنے والی شریعت آدمی کی ’’انسانیت‘‘ہے جس کا تعلق اس زمین سے ہے نہ کہ آسمان سے اترنے والی کوئی حقیقت جو کسی خدائی شریعت اور کسی مافوق الفطرت وحی پر قائم ہو۔ اس کی وجہ سے انبیاء پر اُتری ہوئی ہدایت کوئی معنی نہیں رکھتی۔) ہونا نہیں بلکہ ’’بندہ‘‘ ہونا ہے‘ کیونکہ اسلامی وجودیات میں وجود دو ہی ہیں :ایک اللہ اور دوسرے ماسوا اللہ ‘یعنی اول الذکر خالق‘ الٰہ یا معبود اور ثانیاً مخلوقات یا بالفاظ دیگر اللہ کے تمام بندے۔ چنانچہ جمادات‘ نباتات ‘چرند پرند اور انسان سب اللہ کےبندے اور مخلوق ہیں۔ انسانوں کے سوا تمام مخلوقات کی ’’بندگی‘‘ بالاجبار یا بالتسخیر ہے جبکہ انسان (مرد و عورت دونوں) کو تکوینی بندگی میں محدود اختیار بھی دیا گیا ہے جس کی بنیاد پراسے تشریعاتِ الٰہی کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے۔ چاہے تو وہ انہیں قبول کر کے ان پر عمل کرے اور چاہے تو انکار کر کے کفر کا ارتکاب کرے۔ قصہ آدم و ابلیس اسی انسانی اختیار(Human free-will) کا بیان ہے۔ اس حوالے سے ہم مسلمانوں کی اصل اور بنیادی شناخت (essential identity) تسلیم و رضا کے ساتھ اللہ کے بندے اور رسول اللہﷺ کے اُمتی ہونے کی ہے۔دین اسلام اس اعتبار سے آئین بندگی کا نام ہے۔اس کے لیے سہولت جہاں ایک جانب نوعِ بنی آدم میں روحِ ربانی کا پھونکا جانا اور دین ِفطرت پر ہر بچے/بچی کی پیدائش ہے‘ تو دوسری جانب سلسلۂ نبوت اور اس کی آخری کڑی ختم المرسلینﷺ کے ذریعے اُمورِ دینی کا پورا ضروری علم اور عملی نمونہ ہے جو محفوظ شکل میں سلف صالحین سے چلا آ رہا ہے۔
آئی ٹی اور جدید ٹیکنالوجی کی طرف دعوت دینے والے حضرات کے علم میں ہونا چاہیے کہ اس وقت دنیا کے اکثر بڑے مفکرین اور صاحبانِ عقل و دانش کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عصری گلوبل مسائل مثلاً نیوکلیئر تباہی کا خطرہ‘ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تبدیلیاں‘ انسان کا احساسِ بیگانگی یا ذہنی مسائل اور الجھنیں وغیرہ کے پیچھے اصل ہاتھ سائنس اور ٹیکنالوجی کا ہےاور وہ اس کو زیربحث لا کر problematize کر رہے ہیں ۔واقعہ یہ ہے کہ جرمن فلسفی کانٹ سے شروع ہونے والی تحریک تنویر (Enlightenment project)نے تقریباً تمام ادیانِ عالم میں پائی جانے والی انسانی مابعد الطبیعیاتی عظمت کو پاش پاش کرکے اسے نفس‘ خودی‘ قلب اور روح سے تہی دست (dehumanize) کر دیا۔ مغرب میں واقع ہونے والے صنعتی انقلاب کے سماجی و اخلاقی اثرات کو ہمارے وژنری شاعر علامہ محمد اقبالؒ نے تقریباً ایک صدی قبل اس شعر میں بیان کیا تھا ؎
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
اسلامی سیکٹر کے اہل ِعلم کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہوناچاہیے کہ جس طرح انسان کی روحانی مابعدالطبیعی فطرت کو ڈارون‘ فرائیڈ یا ایلن ٹورنگ نے چیلنج کیا تھا ‘وہ پرانا قصہ ہے اور بات اب بہت آگے نکل گئی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ سائبر سپیس ‘ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور ان کے زیراثر پروان چڑھنے والے سماجی علوم نے مل کرایک بالکل نیا تصوّرِ انسان وضع کیا ہے۔ نہ صرف انسان بلکہ وجود کو بھی ایک بالکل نئے انداز سے ڈیفائن کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ ایک اہم مغربی دانشور کے مطابق ٹیکنالوجی اب ہماری ontologyہی نہیں بلکہ ecologyبھی بن گئی ہے‘ یعنی فرد اور پورا ماحول عالمگیریت کے سائے اور ڈیجیٹل دنیا کا عکاس اور پروردہ ہے۔ بائیو ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس (AI)کے اشتراک سے انسان کی فطری تخلیق میں تبدیلی کر کے ایک طرح کا ٹرانس ہیومن وجود میں لانے کی سکیم تیار کی جا رہی ہے۔ اینڈرائڈ (سمارٹ موبائل فون) نے جس طرح ہمارے نوجوانوں کے ذہن اور لائف سٹائل کو تبدیل کیا ہے وہ سب ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آج ہم بے حیائی اور فحاشی میں جکڑے جا چکے ہیں۔ ہمارا وقت فیملی‘ عبادت گاہ یا نیچرل بیوٹی کی سیرگاہوں سے لطف اندوز ہونے کی بجائے مختلف قسم کی سکرینوں کو دیکھنے میں صرف ہوتا ہے۔ ہم صورتوں(images) کے سحر سے نکل کر کبھی کچھ لمحات خود احتسابی اور دروں بینی کے لیے نہیں نکال پاتے۔ جدید انسان کے لیے اب اصل علم وہ ہے جو وہ مغرب سے آئے ہوئے افکار میں دیکھتا ہے۔ بالعموم اس کے لیے جدیدیت اور لبرل ازم کے ڈسکورس میں کسی روحانی یافطرت سے ماوراء عنصر کی کوئی گنجائش نہیں۔ انسان اب جبلی خواہشات اور سفلی جذبات کے تحت حرکت و عمل کرنے والا معاشی حیوان (Homo economicus) بن چکا ہے۔سکرینز پر دیکھے جانے والا امیج کلچر شہوات کو بڑھاوا دینے کا مؤثر ذریعہ ہے اور نتیجتاً اس دور کا سب سے بڑا فتنہ ہے۔
مندرجہ بالا منظر نامے کاتقابل اگر ہم اپنے دینی مسلمات اور معتقدقات سے کریں تو ہمیں واضح تضاد اور ٹکرائو نظر آتا ہے۔ معروف تابعی حضرت حسن بصریؒ کے بقول دنیاسب کی سب اجاڑ ہے سوائے علماء کی مجالس کے‘ اگر یہ نہ ہوں تو لوگ بالکل چوپائوں کی طرح ہو جائیں۔ بلاشبہ قرآن و سُنّت نے لوگوں کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اقتصادی فلاح و انصاف اور سوشل جسٹس پر زور دیا ہے اور اس ضمن میں مرفہ الحال مسلمانوں کو کم وسائل اور کمزور وں کی مالی مدد کی بالصراحت تاکید کی ہے ۔ فرض زکوٰۃ ‘ صدقات و خیرات اورانفاق فی سبیل اللہ کی مدات سے غرباء و مساکین کی مدد کرنے پر صاحب ثروت حضرات کے لیے عظیم اجر و ثواب کی بشارت دی گئی ہے۔ چنانچہ شاہ نواز فاروقی صاحب نے پاکستان اور بالخصوص کراچی میں غربت و عسرت سے تنگ آئے لوگوں کے انتہائی منفی اقدام کو یقیناً بجا طور پر اُجاگر کیا ہے اور اس کا تدارک حکومتی سطح پر بھی اور اہل ِخیر حضرات کی جانب سے بھی ہونا چاہیے۔ اسی طرح اگر کم آمدنی والے خاندان میں سربراہ خانہ کی دو ملازمتوں کی تنخواہ سے بھی گزارا نہیں ہوتا تو خاتونِ خانہ اور بیٹی بھی شرعی حدود اور حجاب کا اہتمام کرتے ہوئے گھر میں یا باہر بھی جز وقتی جاب کر کے گھر کے اخراجات میں حصہ ڈال سکتی ہیں۔ لیکن جس طرح سوشل میڈیا پر موٹیویشنل سپیکرز کی طرف سے IT کے ذریعے کمائی اور مرفہ الحالی کا حصول اور دولت کی اندھی پرستش ایک باقاعدہ ٹرینڈ بن گیا ہے وہ انتہائی خطرناک اور غیراسلامی ہے۔ ویسے بھی کارپوریٹ بزنس دفاتر میںنوجوان خواتین کا ملازمت کرنا ہمارے روایتی خاندانی نظام کے لیے انتہائی مہلک ہے۔ لگتا ایسا ہے کہ ہم اس پورے مخلوط سسٹم کے تحت مغرب میں فیملی لائف اور خاندانی یونٹ کے ٹوٹنے سے سبق حاصل نہیں کرنا چاہتے۔ المیہ یہ ہے کہ مذہبی لیڈر شپ بھی اس حقیقت سے اغماض برتتے ہوئے طالبات کو آگے بڑھنے اور ’’قابلیت‘‘ بڑھا کر کمائی کرنے کی پُرکشش نفیرعام دے رہی ہے اور ہمارے دینی لٹریچر کی اہم اصطلاحات قوتِ لا یموت‘ قناعت اور رزقِ کفاف کو پس ِپشت ڈال کرحقوق النفس سے آگے بڑھ کر حظوظ النفس اور تنعم و تلذذ کی طرف دعوت دے کر آخرت میں ان کا حساب مشکل بنا رہی ہے۔ حدیث نبویؐ ہے: ((اِنَّ الْبذاذۃ مِنَ الْاِیْمَان)) (رواہ ابوداوٗد و ابن ماجہ و احمد)یعنی سادگی‘ خستہ حالی اور کھردری زندگی بسر کرنا ایمان سے ہے یا اس کی نشانی ہے۔ ’’قرون مشہود لھا بالخیر ‘‘ میں ہماری یہی اعلیٰ قدریں تھیں جن کی طرف توجہ بدقسمتی سے اب اہل ِدین کی بھی نہیں ہے۔ یہ نیرنگی ٔسیاست ِدوراں نہیںتو اور کیا ہے؟
گویاہم بحیثیت ِمعاشرہ دین اور دین داری میں اصلاح اور ترقی کی بجائے جس طرح دنیاداری اور مادی سوچ کی طرف بگ ٹٹ بھاگ رہے ہیں اسے ہر فہیم ذہن اور دینی سوجھ بوجھ والا شخص دیکھ سکتا ہے ۔ ایمان اور یقین قلبی میں افزائش جو تلاوت ِکلام پاک ‘ اس کے معانی و مطالب کے مطالعے اور پنج وقتہ نماز کی پابندی سے حاصل ہوتی ہے‘ وہ اب ہماری ترجیحات اور مصروفیات میں کم سے کم ہوتی جا رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اسلامی سیکٹر بھی اب جس قسم کی اسٹریٹجی اپنا کر اپنے آپ کو عوام میں پاپولر اور معاشرے میں مؤثر بنانا چاہ رہا ہے‘ وہ سراسر مغربی بے خدا‘ لبرل تہذیب کی فاتحانہ پیش قدمی کا آئینہ دار ہے۔‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2025