پروفیسر خورشید احمد: فکری استقامت کا استعارہ
Gone but not forgotten, remarkable man!
ڈاکٹر ابصار احمدپروفیسر خورشید احمد صاحب کی دارِفانی سے دارِ بقا کی طرف کوچ کرنے کی اطلاع سے جہاں ایک طرف طبعی و فطری رنج و الم کی کیفیت ہوئی‘ دوسری جانب گزشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی کے اوائل میں ان کے ساتھ فکر ِمولانا ابوالاعلیٰ مودودی سے متاثرہ و وابستہ کراچی کے دوسرے تحریکی بزرگوں سے تعارف و ملاقات کی بہت سی یادیں بھی ذہن کے پردے پر فلم کی طرح چلنے لگیں۔
اسرار بھائی کی ہدایت و راہنمائی کے مطابق جب راقم نے گورنمنٹ کالج‘ منٹگمری (حال ساہی وال) سے اگست ۱۹۶۳ء میں بی اے (فرسٹ ایئر) پاس کر کے فلسفہ میں آنرز اور ماسٹرز کے لیے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا تو یہ تمام حضرات ایم اے کی ڈگری کے ساتھ اپنے تدریسی کیریئر کے ابتدائی دور میں تھے۔ خورشید صاحب تو شعبہ معاشیات میں غالباً اسسٹنٹ پروفیسر ہو گئے تھے جبکہ ان کے برادرِاصغر انیس احمد اسلامی تاریخ کے شعبہ میں اسسٹنٹ لیکچرر تھے (یہ کیڈر بھی اُس وقت کراچی یونیورسٹی میں تھا)۔ جناب خرم جاہ مراد کے تین بھائیوں سے ملاقات ہوئی۔ قاسم حسن مراد تو یونیورسٹی ہی کے شعبہ اسلامی تاریخ میں استاد تھے جبکہ مسلم سجاد صاحب اور ان کے سب سے چھوٹے بھائی کے ساتھ اسلامی جمعیت طلبہ کے درس قرآن اور دوسرے اجتماعات میں ملاقات ہوتی رہی‘ جو شہر میں سٹریچن روڈ پر واقع جمعیت کے دفتر میں ہوتے تھے۔ یہ ہمارے قریبی عزیز بھی اس طرح تھے کہ ان کے والد جناب منظور علی مراد میرے والد کے فرسٹ کزن (پھوپھی زاد بھائی) تھے۔ اس کا تذکرہ برادر مکرم اسرار بھائی نے اپنی تحریروں میں بھی کیا ہے۔ ظفر اسحٰق انصاری بھی شعبہ تاریخ میں لیکچرر تھے۔ ان کی شخصیت کو راقم نے اُس وقت بھی پُرکشش اور متاثرکن پایا‘ حالانکہ انہیں ابھی مستقبل میں میک گل (کینیڈا) اور دوسری معروف بیرونی جامعات میں اپنے علمی و تعلیمی کریئر کو polish کرنا تھا۔ مزید یہ کہ انگریزی اور عربی میں شریعہ لاء کی تدریس اور تحقیقی تصنیفات و مقالات کے ذریعے اسلامی تہذیب پر شان دار کام بھی کرنا تھا۔ یوں انہیں یورپ اور امریکہ کے مشتشرقین کے ساتھ مثبت ڈائیلاگ کر کے اسلام کی حقانیت ثابت کرنا تھی۔ ان کے چھوٹے بھائی ظفر آفاق انصاری‘ جن کا تعلق شعبہ نفسیات سے تھا‘ سے تعارف اور تفصیلی ملاقات بہت بعد میں ہوئی۔ پھر کئی بار سیمینارز میں ملنا ہوا‘ جہاں ایک بار لاہور میں منعقدہ ایک ورک شاپ میں ڈاکٹر برہان احمد فاروقی بھی شریک ِبزم تھے۔ ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری نے امریکہ اور پھر اٹھارہ سال سعودی عرب کی جامعات میں اسلامی قانون کی تدریس کے بعد وطن واپسی پر اسلام آباد میں ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے تین چار بار کسی علمی موضوع پر سیمینار میں شرکت کی دعوت دی تو لاہور سے اسلام آباد پہنچ کر راقم کی ان دونوں بھائیوں سے ملاقات ہوتی رہی۔ گھر پر دعوتِ طعام اور بیسمنٹ میں ظفر اسحٰق انصاری صاحب کی شان دار لائبریری دیکھنے کا موقع بھی ملا۔ انگلینڈ سے چارلس گائی ایٹن (حسن عبدالحکیم ) برادر محترم صدر مرکزی انجمن خدام القرآن کی دعوت پر سالانہ محاضراتِ قرآنی کے سلسلے میں چار وقیع خطبات کے لیے لاہور تشریف لائے تو اسرار بھائی کی دعوت پر ڈاکٹر ظفر اسحٰق انصاری صاحب اسلام آباد سے مارچ ۱۹۹۲ء میں آخری خطبے کی صدارت کے لیے لاہور آئے اور قرآن آڈیٹوریم میں ازحد علمی گفتگو اور صدارتی کلمات ارشاد فرمائے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ ماضی میں گہرے تعلق اور نظریاتی وابستگی کی وجہ ہی سے تھا۔
خورشید صاحب کے انتقال کی خبر کے فوراً بعد سوشل میڈیا پر ان کے قریبی فعّال دینی ساتھیوں کی تعداد کے حوالے سے کئی وی لاگ اور اخبارات کے کالم پڑھنے میں آئے۔ ان میں ۱۹۳۲ءکے اپریل یا چند ماہ آگے پیچھے دنیا میں آنکھ کھولنے والوں کی تعداد تین اور پھر چار بھی گنوائی گئی‘ جو سب ہی مولانا مودودیؒ کی فکر اور جماعت اسلامی کے بیانیے (narrative) سے متاثر ہو کر اس کے ساتھ جڑ کر متحرک رہے۔ راقم آثم اس سلسلے میں ایک استدراک کی جرأت کر رہا ہے‘ اور وہ یہ کہ کم از کم کراچی کے قیام کے دوران اسلامی جمعیت طلبہ اور کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فلسفہ میں لیکچرر کی حیثیت سے ایک پانچویں صاحب بھی خورشید صاحب کے ساتھیوں میں شامل تھے‘ اور وہ تھے منظور احمد۔ اسرار بھائی کے ذریعے سے ان کے ساتھ تعارف ہوا‘ اور واقعہ یہ ہے کہ وہ میرے محسن اس اعتبار سے ہیں کہ انہوں نے شعبہ فلسفہ میں داخلہ کروانے اور تین سالہ آنرز کے پروگرام میں ایک سال کا استثناء (exemption) دلوا کر میرا ایڈمشن سیکنڈ ایئر میں کروایا۔ اسی سال ستمبر ۱۹۶۳ء میں جاوید اکبر انصاری شعبہ اکنامکس میں آنرز کے سال اوّل میں داخل ہوئے تھے۔ منظور صاحب اُس وقت باریش تھے اور تحریک اسلامی سے ان کی وابستگی کا یہ عالَم تھا کہ خورشید صاحب نے ماہ نامہ ’’چراغِ راہ‘‘ (جس کے وہ ایڈیٹر تھے) کے جولائی/اگست ۱۹۵۸ء کے شمارے میں اعلان کیا کہ قارئین کی خدمت میں پرچہ باقاعدگی سے نئے حسن انتظام اور حسنِ ترتیب سے پہنچے گا۔ حسنِ ترتیب کی سلسلہ میں کراچی کے چند نہایت ذی علم‘ جانے بوجھے اور تجربہ کار افراد کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ ادارۂ تحریر میں سب سے اوپر منظور احمد اور پھر خود اُن کا اور محمد عزیر کے نام تھے۔
مَیں فلسفہ میں منظور احمد صاحب کا باقاعدہ طالب علم اس لیے نہیں رہا کہ وہ شعبہ میں میرے داخل ہونے کے فوراً بعد ہی لندن روانہ ہو گئے اور وہاں کے بربیک کالج میں ڈاکٹریٹ کے لیے تحقیقی کام شروع کر دیا۔ تین سال بعد وہ ڈاکٹر منظور احمد بن کر کراچی یونیورسٹی واپس آئے تو داڑھی صاف ہو گئی تھی‘ اور ان میں ذہنی و فکری تحولِ عظیم واقع ہو چکا تھا۔ فرنگیت زدگی‘ عقل و فکر کی تیز روشنی‘ نئے تجربات اور جدیدیت کی فضا سے وہ اس قدر مسحور ہوئے کہ اسلام کو نہایت ترقی پسند سمجھنا اور بنانا شروع کر دیا۔ اپنے کئی مقالات میں یہ فکر پیش کی کہ اجتہاد کے ذریعے سے ہم اسے جمود سے نکال کر حالات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ مغرب کی خداناشناس فکر و تہذیب سے مرعوبیت کے زیر ِاثر انہوں نے یہاں تک بھی برملا یہ نامحمود جملہ ارشاد فرمایا کہ: ’’نقل کے پیادے مغرب یا امریکہ کو شکست نہیں دے سکتے۔‘‘ انہوں نے ’’روشنی ٔ طبع‘‘ کے تحت اپنا کم و بیش پندرہ سالہ پڑھا ہوا روایتی اسلام بھلا کر جدید لسانیاتی فلسفے اور ہرمینیات (hermeneutics) کے اصول تفسیر قرآن پر لاگو کر دیے‘ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہرمینیات کے اصول اور اسلامی علم تفسیر کے اصول اپنی بنیاد سے اطلاق تک یک سر مختلف ہیں کیونکہ وہ دو متضاد مابعد الطبیعیات سے ماخوذ ہیں۔ کراچی کے سکالر جناب محمد ظفر اقبال نے اپنی مبسوط کتاب ’’اسلام اور جدیدیت کی کشمکش‘‘ میں مدلل تفصیل اور اطناب کے ساتھ ڈاکٹر منظور صاحب کے افکار کا جائزہ لیا ہے کیونکہ وہ بہت بعد تک کراچی اور پھر اسلام آباد میں اہم مناصب پر فائز رہے اور تجددپسند گمراہ کن خیالات پیش کرتے رہے ہیں۔ میرا گمان ہے کہ ان کی پیدائش۱۹۳۱ء کی ہو گی‘ کیونکہ انہوں نے سکول کی تعلیم (اغلباً میٹرک) کے بعد رام پور کے ایک مدرسے میں بھی سال کے لگ بھگ تعلیم حاصل کی تھی۔ اس طرح وہ اب ۹۴ سال کی عمر کے ساتھ بقید حیات ہیں۔
پروفیسر خورشید صاحب کا صدر میں کوئنز روڈ پر واقع اپنی رہائش گاہ سے کراچی یونیورسٹی پہنچنے کا وی آئی پی انداز بھی میری یادداشت سے محو نہیں ہو سکتا۔ ظاہر ہے کہ ۱۹۶۳ء کے اواخر تک وہ ذی علم اور اسلامی اقدار کے حامل ایک باوقار استاد کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ڈاکٹر امیر حسن صدیقی (ڈین‘ فیکلٹی آف آرٹس)‘ پروفیسر ڈاکٹر ایم ایم احمد (صدر‘ شعبہ فلسفہ)‘ خورشید صاحب اور دو ایک مزید اصحاب فاکس ویگن (VW) ڈبے میں تشریف لاتے تھے‘ جو اُس زمانے میں ایک معتبر اور آرام دہ سواری تھی۔ خورشید صاحب کی تالیف ’’اسلامی نظریۂ حیات‘‘ بھی اسی زمانے میں شائع ہو کر پہلی مرتبہ وہیں مطالعے میں آئی‘ جس کو یونیورسٹی میں آنرز کے کورس میں لازمی اسلامیات کے پرچے کے لیے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی صاحب نے نہ صرف تجویز کیا بلکہ پروموٹ بھی کیا۔ یہ کتاب بھی مولانا مودودیؒ کے تصوّرِ دین سے مستفاد عام فہم زبان میں علمی تفاصیل پر مبنی ہے اور طلبہ و طالبات کے ذہن میں فہم دین اور عمل و کردار میں اسلامی اقدار کے فروغ کا باعث بنی۔
خورشید صاحب نے اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستگی کے دور میں کراچی سے Students' Voice شائع کیا جبکہ اسرار بھائی نے اپنے دوست سید اسلم کے ساتھ مل کر ’’عزم‘‘ نامی پرچہ شائع کیا۔البتہ خورشید صاحب کی فتوحات مسلسل جاری اور روزافزوں رہیں۔ فوراً بعد ہی وہ Voice of Islam اور پھر ’’چراغِ راہ‘‘ کے ایڈیٹر بنا دیے گئے‘ جن میں ان کے رشحاتِ قلم کا سلسلہ جاری رہا۔ ’’چراغِ راہ‘‘ کے تین ضخیم خصوصی شمارے اپنے محتویات کے اعتبار سے معرکۃالآراء‘ خورشید صاحب کے ہمہ جہت وسیع مطالعہ اور ادارتی حسن کے آئینہ دار تھے: اسلامی قانون نمبر (دو جلدیں)‘ نظریہ پاکستان نمبر اور سوشلزم نمبر۔۱۹۶۲ء میں جماعت اسلامی کے اعاظم رجال نے کراچی میں علمی و تحقیقی کام کے لیے اسلامی ریسرچ اکیڈمی کی بنیاد رکھی‘ جس کے سرپرست (patron) اور صدر نشین مولانا مودودیؒ اور سیکریٹری جنرل خورشید احمد صاحب مقرر کیے گئے۔ اس ریسرچ اکیڈمی نے بہت سے موضوعات پر کتابیں شائع کیں۔ اسلامی تحریکی کارکنوں میں عالمی حالات اور وقائع کے شعور کی اہمیت اُجاگر کرنے اور اس سلسلے میں مختلف النظر تبصروں سے آگہی کا پروفیسر خورشید صاحب کا جو خیال تھا‘ راقم کی نظر میں وہ یہ ریسرچ اکیڈمی پندرہ روزہ ’’معارف فیچر‘‘ کی اشاعت سے بطریق احسن پورا کر رہی ہے۔ قارئین کو یہ بتانا بھی مفید رہے گا کہ قرآن اکیڈمی لاہور کے استاذ ڈاکٹر رشید ارشد کو بھی کچھ عرصے سے وہاں متعدد موضوعات پر لیکچر کے لیے دعوت دی گئی ہے۔ ریسرچ اکیڈمی کے منتظمین نے بعض اہم تعلیمی‘ تہذیبی‘ تاریخی اور نوآبادیاتی مسائل پر بھی ان سے آن لائن لیکچرز کی درخواست کی‘ جو وہ باقاعدگی سے ہفتہ وار لگ بھگ ڈیڑھ گھنٹے کے discourse کی صورت میں لاہور میں واقع ’’غزالی فورم‘‘ سے کر رہے ہیں۔ پروفیسر خورشید صاحب کے ایما پر لندن سے جناب حاشر فاروقی انگریزی ماہ نامہ Impact شائع کرتے رہے‘ جس میں دنیائے اسلام اور اس سے باہر بھی کلچرل اور سیاسی تبدیلیوں کے پس پردہ حقائق اور نظریاتی مباحث پر بصیرت افروز علمی شذرات پڑھنے میں آتے رہے۔ یہ ۱۹۷۱ء سے ۲۰۰۴ء تک چھپتا رہا‘ لیکن پھر مالی وسائل کی کمی کے باعث اسے بند کرنا پڑا۔
خرم مراد صاحب کے چھوٹے بھائی قاسم حسن مراد ہمیشہ مشرقی روایات کے پیکر چوڑے پائنچوں والے پاجامے اور شیروانی میں ملبوس یونیورسٹی آتے تھے اور انہیں کبھی انگریزی لباس میں نہیں دیکھا گیا۔بڑے بھائی کے نقش قدم پر وہ بھی پوری طرح جماعت اسلامی کے فکر میں رنگے ہوئے ایک آئیڈیل مسلمان استاد نظر آتے تھے۔ البتہ جب وہ ڈاکٹریٹ کے لیے کینیڈا گئے تو پھر وہیں کے ہو رہے اور خیالات و افکار میں بھی پہلے جیسی اسلامیت اور دین کے حوالے سے سرگرمی مفقود ہو گئی۔ دو ایک بار مختصر قیام کے لیے پاکستان آئے بھی تو ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ شنید ہے کہ انہوں نے بھی ذہنی و فکری طور پر لبرل ہیومن ازم‘ غرب زدگی اور عقلیت پرستی کا رویہ اپنا لیا تھا۔ ترجمان القرآن کے مدیر سلیم منصور خالد صاحب سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ پانچ چھ برس قبل کینیڈا میں انتقال کر گئے تھے اور وہیں پر تدفین ہوئی۔ اللّٰھم اغفرلہ وارحمہ!
ایک اہم واقعہ جو راقم کبھی نہیں بھلا سکے گا‘ وہ جولائی/اگست ۱۹۷۱ء میں پاکستان کے دگرگوں سیاسی حالات اور الیکشن کی ہماہمی سے بچنے کے لیے اسرار بھائی کی میرے قیام کے دوران انگلستان آمد تھی۔ خورشید صاحب بھی وہیں تھے۔ مجھے جماعت اسلامی سے اسرار بھائی کے علیحدہ ہونے اور بعد کے سالوں میں جماعت کے سینئر ساتھیوں اور طالب علمی کے زمانے میں جمعیت کے احباب اور رفقاء سے تلخ مکالمات اور تحریری بحث و تمحیص کا علم تھا۔ چنانچہ اب مجھے یاد نہیں کہ کس طرح راقم اور برادر مکرم لندن سے ٹرین کے ذریعے برمنگھم پہنچ کر جمعیت کے ایک سینئر سابق رفیق (غالباً ڈاکٹر نسیم صاحب) کے ہاں پہنچے جہاں خورشید صاحب بھی موجود تھے۔ گمان غالب ہے کہ انہیں اسی ملاقات کے لیے بلایا گیا تھا۔ ماضی میں مولانا مودودیؒ کے افکار سے متاثر اور اقامت ِدین کے لیے بھرپور سعی و جُہد کرنے والے دونوں حضرات پُرتپاک اور گرم جوشی سے ملے۔ ہم تینوں نے چار بیڈ والے ایک بڑے کمرے میں شب بسری کی‘ اور رات گئے تک ماضی کے دریچوں میں جھانکنے کا عمل جاری رہا‘ جس کو سن کر مَیں بھی محظوظ ہوتا رہا اور میری معلومات میں اضافہ بھی ہوا۔ میزبان نے بھی بہترین مہمان نوازی کی‘ اور یوں دو پرانے دینی تحریکی رفقاء عرصے بعد مل کر ازحد خوش ہوئے۔ میرا خیال ہے کہ اسرار بھائی کی خورشید صاحب سے یہ آخری ملاقات تھی۔ برسوں بعد ۱۹۹۴ءمیں امریکہ سے واپسی پر لندن میں چند دن قیام کے دوران ’’امپیکٹ‘‘ کے حاشر فاروقی صاحب نے اپنے آفس میں بانی تنظیم اسلامی کا خاصا طویل اور مبسوط انٹرویو ریکارڈ کیا‘ جس کا انتظام بھی میرے توسط سے ہوا ‘چونکہ میں جناب حاشر فاروقی سے بیس بائیس سال قبل بھی لندن کے علاقے ’’فنس بری پارک‘‘ میں ملتا رہا تھا۔ تاہم‘ بعض نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہ انٹرویو یا اس کا کچھ حصہ بھی ’’امپیکٹ‘‘ میں اشاعت پزیر نہ ہو سکا۔
قارئین کرام! اب ہم مختصر طور پر جناب پروفیسر خورشید احمد کا سوانحی خاکہ پیش کرتے ہیں:
۲۳ مارچ ۱۹۳۲ء کو پیدا ہونے والے پروفیسر خورشید احمد کا نام برصغیر کی اسلامی فکری روایت میں ایک نمایاں اور درخشندہ مقام رکھتا ہے۔ ان کا انتقال صرف ایک فرد کی موت نہیں بلکہ ایک نظریے اور تحریکی فکر کا گہرانقصان ہے۔ ان کی زندگی بیک وقت ایک مفکر‘ معلم‘ محقق‘ منتظم اور پالیسی ساز کی تھی‘ جو کہ خال خال ہی دیکھنے کو ملتی ہے۔
۱۹۵۰ء کی دہائی میں جب برصغیر میں فکری بیداری کی نئی لہریں اٹھ رہی تھیں‘ جدید تعلیم یافتہ طبقے میں سے جو ممتاز شخصیات مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی فکر سے متاثر ہوئیں اور خود کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیا ان میں خورشید احمد آخری شخص تھے جو۱۳ اپریل ۲۰۲۵ء کو خالق حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر اسرار احمد‘ محترم نعیم صدیقی‘ ڈاکٹر ظفر اسحاق انصاری‘ خرم جاہ مراد اور پروفیسر خورشید احمد جیسے نابغہ ٔروزگار افراد نے مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے لٹریچر سے متاثر ہو کر ایک فکری و عملی جدّوجُہد کا آغاز کیا۔ اسلامی جمعیت طلبہ جیسی منظّم تنظیم سے ان کا رشتہ صرف وقتی یا دنیاوی فائدے کا نہ تھا بلکہ ایک مشن کی صورت میں دین کی سربلندی ان کی زندگی کا محور بن گئی۔
پروفیسر خورشید احمد نے دہلی کے ایک علمی‘ دینی اور اردو بولنے والے گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم دہلی کے اینگلوعریبک ادارے میں حاصل کی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور آ بسا‘ جہاں سے انہوں نے ۱۹۴۸ء میں گورنمنٹ کالج میں اکنامکس میں تعلیم کا آغاز کیا ہی تھا کہ نیوی میں بڑے بھائی کی ملازمت کے سلسلے میں یہ خاندان کراچی منتقل ہو گیا‘ اور پھر ان کے تمام تعلیمی مراحل کراچی میں طے ہوئے۔ ۱۹۵۲ء میں اکنامکس میں فرسٹ کلاس آنرز کے ساتھ بی اے مکمل کیا اور اسی دوران مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے افکار سے متاثر ہو کر پہلے اسلامی جمعیت طلبہ اور پھر جماعت اسلامی سے وابستگی اختیار کی۔ اسلامی قانون اور فقہ میں دلچسپی کے باعث ایس ایم لاء کالج سے ایل ایل بی بھی کیا۔ بعدازاں کراچی یونیورسٹی سے معاشیات اور اسلامیات میں ایم اے کی اسناد حاصل کیں۔ یونیورسٹی کے شعبہ اکنامکس میں کئی برس تدریسی فرائض انجام دیے۔ پھر ان کی علمی جستجو۱۹۶۶ء میں انہیں برطانیہ لے گئی‘ جہاں لیسٹر یونیورسٹی نے ’’اسلامی اقتصادیات‘‘ کے موضوع پر ان کی تحاریر کو سراہا۔ اسی یونیورسٹی اور ملائیشیا کی ایک یونیورسٹی نے بھی انہیں تعلیم میں خدمات کے اعتراف پر اعزازی ڈاکٹریٹ سے نوازا۔
پروفیسر صاحب کا میدانِ عمل محض درس و تدریس تک محدود نہ تھا۔ وہ ایک متحرک داعی‘ منتظم اور ادارہ ساز بھی تھے۔ انہوں نے اسلامی اقتصادیات کے میدان میں جو تحقیقی کام کیا‘ اسے عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا۔ اسی سلسلے میں۱۹۸۸ء میں انہیں اسلامی ترقیاتی بینک کا اعلیٰ ترین ایوارڈ دیا گیا۔ ۱۹۹۰ء میں سعودی حکومت کی جانب سے شاہ فیصل بین الاقوامی ایوارڈ اور ۱۹۹۸ء میں امریکن فنانس ہاؤس کا ’’لاربو پرائز‘‘ بھی عطا کیا گیا۔ ۲۳ مارچ ۲۰۱۱ء کو ’’نشانِ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا‘ جو کہ قومی سطح پر آپ کی ہمہ جہت خدمات کا اعتراف تھا۔ پروفیسر خورشید احمد نے ۱۹۷۸ء میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی کے طور پر ملکی معاشی پالیسی سازی میں بھی اہم کردار کیا۔ پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ البتہ ان کی اصل پہچان علمی و دینی خدمات ہی رہیں۔
ان کی کاوشوں کے نتیجے میں تین بڑے علمی اداروں یعنی انسٹیٹیوت آف پالیسی سٹڈیز (اسلام آباد)‘ اسلامک فاؤنڈیشن‘ لیسٹر (برطانیہ) اور اسلامک مشن‘ نیروبی (کینیا) کی بنیاد رکھی گئی۔ ان کے علمی ذخیرے میں سو سے زیادہ کتب‘ مضامین‘ رپورٹس اور متعدد بین الاقوامی رسائل و جرائد کی ادارت شامل ہیں۔ بطور سینیٹر ۲۲ سالہ پارلیمانی خدمات میں ان کی تقاریر آج بھی اسلامی فکر اور قومی حکمت عملی کے لیے مشعل راہ ہیں۔ وہ متعدد جامعات کے قیام اور ارتقا میں رہنما رہے‘ اور درجنوں جامعات میں ہزاروں طلبہ نے ان سے براہِ راست علمی استفادہ کیا۔ خرم جاہ مراد کے بعد انہوں نے مولانا مودودیؒ کے ماہ نامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھالی۔ ان کے اداریے اور تجزیے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں نہ صرف ملکی و علاقائی بلکہ عالمی حالات کو سمجھنے کا ایک منضبط اور مدلل فریم ورک فراہم کرتے رہے۔ ان کی تحریروں کا آخری سلسلہ فروری ۲۰۲۵ء کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں شائع ہوا‘ یعنی وفات سے محض ایک ماہ قبل۔یہ اس بات کا اظہار ہے کہ وہ آخری دَم تک اسلامی فکر و دعوت کی خدمت میں مشغول رہے۔
آج وہ ہمارے درمیان نہیں لیکن ان کی لکھی گئی اَن گنت کتابیں اور تحریریں‘ تربیت یافتہ اذہان اور قائم کردہ ادارے ان کے مشن کی تابندہ شمع ہیں۔ ان کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ علم‘ عمل اور اخلاص کا سفر کبھی رائیگاں نہیں جاتا۔ وہ ان شاء اﷲ آخرت میں اﷲ کی مقبولیت سے سرفراز ہو گا اور ان کی علمی میراث کا تسلسل ایک لمبے عرصے تک جاری رہے گا: ؎
یَلُوحُ الخطُّ فی القِرطَاسِ دھراً
و کاتبہٗ رَمیمٌ فی الترابِ
(نقش کتابت‘ کاغذ پر مدّتوں قائم و دائم اور تاباں رہے گا جبکہ لکھنے والے کی ہڈیاں خاک میں مل چکی ہوں گی۔)
اور افتخار عارف نے کیا خوب کہا ہے: ؎
ہم اپنے رفتگاں کو یاد رکھنا چاہتے ہیں
دلوں کو درد سے آباد رکھنا چاہتے ہیںاب میں قارئین کو ’’حکمت ِقرآن‘‘ کے جولائی- ستمبر۲۰۲۳ء کے شمارے میں شائع شدہ اپنی تحریر کی طرف لیے چلتا ہوں‘ جس میں راقم نے پروفیسر خورشید احمد صاحب کے داماد ڈاکٹر اسامہ حسن کا ذکر کیا تھا۔ موصوف نے انگلستان میں رہتے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے بہترین دینی و علمی ماحول میں تربیت پائی‘ لیکن پھر اپنے متواتر و متوارث دینی روایت اور عقائد سے پسپائی اختیار کی جو ازحد حیرت اور حزن و ملال کا باعث بنا۔ لیکن افسوس کہ نہ ان کے والد جناب ڈاکٹر صہیب حسن صاحب اور نہ حلقۂ خورشید میں سے کسی نے اس کا نوٹس لیا اور وضاحت کی زحمت گوارا کی۔ میری یہ تحریر اور اس میں محترم حامد کمال الدین کا استدراک اور انتہائی عمیق تجزیہ ملاحظہ فرمائیے:
’’اُمّت ِمسلمہ کے کثیر دانش وَر اور المیہ یہ ہے کہ کچھ تحریک اسلامی کی اعلیٰ قیادت کے قریبی عزیز بھی مغرب کے تہذیب و افکار سے متاثر ہو کر آسمانی ہدایت کو پس پشت ڈال رہے ہیں۔ تمدن‘ اجتماعِ انسانیت اور لیڈرشپ کے بارے میں قرآن و سُنّت سے ملنے والی روشن ہدایت کے مقابلے میں وہ جان لاک‘ ہابز‘ روسو اور دوسرے غیرمسلم اور سیکولر لبرل مفکرین کے خیالات کو فخر کے ساتھ اپنا رہے ہیں۔ یوں سیکولرائزیشن کا عمل تیزی سے عالمی سطح پر اپنے قدم جما رہا ہے۔ اعلانیہ مسلم اکثریتی ریاستوں (confessional Muslim states) کا سیاسی سٹرکچر اور داخلی حکومتی نظام پورے طور پر مغربی لادینی جمہوری اصولوں کے تحت اور سودی معیشت پر مبنی ہے‘ تاہم کم از کم اہل سُنّت کے منبر و محراب سے قرآن و سُنّت کی بے آمیز اصولی تعلیمات بیان کی جاتی ہیں‘ اور دین کو اصالت و صلابت (قرآن و سُنّت اور ورثہ سلف سے تمسک وکلیت) کے ساتھ سامعین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
راقم عالم اسلام اور ملت اسلامیہ پر کفر و الحاد کے سیلابِ بلاخیز کے بارے میں مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک پچاس (۵۰)صفحات پر مبنی ایک بہت ہی دھماکا خیز تحریر واٹس ایپ پر پی ڈی ایف شکل میں ملی‘ جس کا عنوان ہے:
Reclaim Political Islam from the Islamists to Raise Moderate Muslim Voices
یہ تحریر Tony Blair Institute for Global Change نے جون ۲۰۲۳ء میں جاری کی ہے۔ ٹائٹل پر مصنّفین کے دو نام اسامہ حسن اور میتھیو گوڈون دیے گئے ہیں۔ ڈاکٹر اسامہ حسن راقم کے دوست و استاذ ڈاکٹر مولانا صہیب حسن صاحب کے صاحب زادے ہیں‘ اور لیسٹر (انگلستان) میں مقیم پروفیسر خورشید احمد صاحب کے داماد ہیں۔
اسامہ حسن کی پیدائش اور پھر ساری تعلیم انگلینڈ میں ہوئی۔ اعلیٰ تعلیم ڈاکٹریٹ لیول تک انہوں نے لندن کے امپیریل کالج اور کیمبرج یونیورسٹی سے حاصل کی۔ حافظ قرآن ہیں اور مساجد میں خطابِ جمعہ اور امامت کرتے رہے ہیںـ۔ البتہ ٹونی بلیئر (سابق وزیراعظم برطانیہ) کے ادارے میں راہ و رسم کے بعد جو تحولِ عظیم ان کے افکار میں آیا ہے‘ وہ انتہائی حیران کن بلکہ تشویش ناک ہے۔ مذکورہ تحریر میں وہ پورے طور پر ’’فضائے مغرب‘‘ گزیدہ نظر آتے ہیں۔ موڈریٹ مسلم نقطہ نظر کو اپنانے میں انہوں نے اسلام کے چودہ سو سالوں کے دوران شان دار علمی و فکری کام (جو ہمارے مشاہیر اسلاف نے بہت محنت اور انتہائی گہری اور عمیق نظر کے ساتھ کیا) کو قرونِ وسطیٰ کا فرسودہ اور گھساپٹا (outdated) فکر کہہ کر ردّ کر دیا ہے۔ پھر یہ کہ دین کی بنیادی اصطلاحات مانند خلافت‘ شریعت اور جہاد کو بالکل سیکولر اور compromised انداز میں redefine کیا ہے‘ جو ایک روایتی عقیدے پر کھڑے مسلمان کے لیےقابلِ قبول نہیں ہو گا۔
میں یہاں اپنی طرف سے کچھ کہنے کے بجائے مدیر ’’ایقاظ‘‘ جناب حامد کمال الدین کے اس خیال کا ذکر کروں گا جو میرے اندازے میں عصر حاضر کی گلوبل صورت حال کی صحیح عکاسی کرتا ہے: ’’ہمارے اس دَور میں تہذیبوں اور ملتوں کے فرق تیزی کے ساتھ مٹ رہے ہیں‘ اور ایک یک رنگی انسانیت پراسس میں ہے۔‘‘ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ آسمانی ہدایت کو ماننے والے شخص کے لیے یہ قطعاً ممکن نہیں ہے کہ وہ اہل ِایمان اور اہل ِکفر و الحاد کے درمیان binary (فرق و تفاوت) کو کسی طور پر بھی ختم کر سکے۔
جناب حامد کمال الدین نے موجودہ سیاسی و عمرانی مسائل کے ضمن میں امام ابن تیمیہؒ کے مجموع الفتاویٰ میں سے خلافت و ملوکیت سے متعلق فصول کا بہت گہرا مطالعہ اور حواشی و تعلیقات کے ساتھ اردو ترجمہ کیا ہے۔ ’’خلافت و ملوکیت‘‘ کے عنوان سے کتاب کے آغاز میں عرض مترجم کے تحت انہوں نے دقت ِنظر سے بعض اہم اور قیمتی افکار پیش کیے ہیں‘ جو قارئین کے نظر و مطالعہ کے لیے من و عن نقل کیے جا رہے ہیں۔ میری دانست میں انہوں نے گلوبلائزیشن اور اس کے dynamics کی صحیح نباضی کرتے ہوئے تحریک اسلامی اور احیائے ملت کے کارکنوں کو بہت سنجیدہ اور وقیع رہنمائی دی ہے۔ وہ ایک خلاق ذہن کے ساتھ genuine inspirer ہیں‘ اور محض cultist نہیں ہیں:
’’ان فصول میں ہماری دلچسپی کی ایک خاص وجہ: ابن تیمیہؒ کے یہ مقالات اسلام کے تصوّرِ اجتماع کو ایک اعلیٰ ضبط دینے میں مفید ہیں۔ ہماری دانست میں اصحابِ نظر اس سے ایک ’’پیراڈائم شفٹ‘‘ کی بنیاد پا سکتے ہیں۔ ’’اجتماع‘‘ کے وہ تصورات جنہیں الحاد پر کھڑی ایک تہذیب نے اپنی تعلیم و تحقیق کی heavy industry کے ذریعے آج ’’بدیہات‘‘ کا رنگ دے ڈالا ہے‘ دورِ آخر کا ایک واقعہ ہیں‘ جس سے ماضی میں ہمیں واسطہ نہیں پڑا؛ پس یہ تو ممکن نہیں کہ ان (ہیومن اسٹ) ’’بدیہات‘‘ کے بطلان پر متقدمین سے کوئی باقاعدہ مواد لائیں۔ یہ کام تو ان معاصر عقول کے سر رہا جنہیں ’’سُنّت و جماعت‘‘ کے اوزاروں پر دسترس ہو۔ ابن تیمیہؒ کے یہاں‘ بس بعض جگہوں پر ہمیں کچھ touch ملتے ہیں جو اس کام کو ایک گونہ آسان کریں۔ کتاب کا یہی پہلو ہمیں سب سے اہم لگا۔ لہٰذا ترجمہ کے علاوہ کچھ کاوش ہم نے اسی حوالہ سے کی:
(۱) ہیومن اسٹ تصوّرات کے بطلان پر جہاں جہاں ابن تیمیہؒ کے کلام میں ہمیں کچھ ٹچ ملے‘ حاشیوں میں ہم نے اس کی تھوڑی نشان دہی کر دی۔
(۲) البتہ ایسے مقامات جو کسی قدرکھولنا ضروری تھے‘ یا کچھ مباحث جن پر ان مقامات کا کھلنا منحصر تھا‘ وہاں ہم نے ’’تعلیقات‘‘ کا سہارا لیا‘ جو ایک علیحدہ کتاب میں شائع ہوں گی‘ ان شاء اﷲ‘ بعنوان ’’مملکت ِ اسلام بموازنہ ماڈرن سٹیٹ‘ خلافت‘ ملوکیت مؤلفہ ابن تیمیہؒ کی روشنی میں۔‘‘
نوواردات کے حوالہ سے: آج عالم ِاسلام کے اندر ہمیں دو مسائل کا بیک وقت سامنا ہے:
(۱) ایک وہ مسلمان جو ہیومن ازم کے گھاٹ سے پی پی کر اسلام کی دریافت ِنو (rediscovering Islam) کی مشق فرماتے آ رہے ہیں۔ یہ درجہ بدرجہ کئی طبقے ہیں۔ حاشیوں اور تعلیقات میں ہماری زیادہ توجہ انہی کی طرف رہی‘ کیونکہ یہ اسلام کے مسخ ہی کا آلۂ کار بنے جاتے ہیں جبکہ اس وقت کا سب سے بڑا محاذ ہماری نظر میں اسلام کو خالص رکھنا ہے۔ یہ سمجھنا درست نہیں کہ یہ ’’ری فارمسٹ روش‘‘ دی گئی صورت حال میں مسلمانوں کو ایک حل نکال کر دینے کی کوشش ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ ’’اسلام کی تفسیرنو‘‘ کا ایک بھیانک عمل ہے‘ جس کے لیے ان کا استیحاء (inspiration) جدید تصورِ اجتماع سے ہو رہا ہے۔ جب بھی یہ اپنے تئیں پہلے کام کی طرف بڑھے گی (مسلمانوں کو اندریں حالات ایک راہ بنا کر دینا)‘ لامحالہ دوسرا کام کر آئے گی (اسلام ہی کا ایک نیا ورژن نکالنا)۔ اس لیے کہ کچھ ہیومنسٹ مسلّمات جو اسلام کے ساتھ اس کے صمیم (core) میں ہی متعارض ہیں‘ یہاں اذہان کی تہ میں اتر کر‘ دلوں میں کُھب گئے ہوئے ہیں (اُشْرِبُوْا فِیْ قُلُوْبِھِمُ الْعِجْلَ)۔ نتیجتاً ایک ’’دی گئی صورتِ حال‘‘ میں اسلام کو راہ بنا کر دینا ان کا مسئلہ نہیں رہا‘ اگرچہ یہ کسی وقت ایسا سمجھ رہے ہوں گے‘ بلکہ مسئلہ ہو گیا ہے الحاد کی کوکھ سے برآمد ہونے والے ایک جہانی عمل کو ’’اسلام‘‘ میں راہ بنا کر دینا۔ اس طبقے کا ہر ذہن اور ہرshade دانستہ یا نادانستہ‘ تھوڑی دیر میں عالم ِاسلام کے اندر ہمارے دشمن کیمپ ہی کا ہراول ہو کر رہے گا۔ لہٰذا اس سے ہوشیار رہنا ہماری اس وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے!
(۲) دوسرا‘ ہمارے اسلامی تراث سے وابستہ طبقوں میں پایا جانے والا وہ ایک جامد یا آئیڈیالسٹ عنصر جو کچھ اصول و قواعد کو لاگو کرنے میں زمانے اور احوال کے فرق کو قطعی غیرمتعلقہ جانتا ہے۔ تراث سے ملنے والے یہ اصول و قواعد جو بے شک حق ہیں‘ البتہ ایک الجھی صورتِ حال کے اندر جہاں حسنات و سیئات خلط ہوں‘ یا جہاں حق کے ان بہت سے ابواب کو قائم رکھنے کے لیے درکار ’’قدرت‘‘ مفقود ہو‘ اپنے اسلامی تراث سے ملنے والے یہ اصول و قواعد وہاں کتنے مختلف طریقوں سے لاگو ہوں گے اور وہاں ہمیں اسلام کے کس مطلوب کو کس مطلوب کی قیمت پر حاصل کرکے رہنا ہو گا‘ یہ سب مباحث ان حضرات کے کوچے میں داخلہ نہیں پاتے۔ نتیجتاً ’’الجماعہ‘‘ کے سب یا اکثر زریں مطالب ان کے یہاں ’’زورِ بیان‘‘ یا ’’امید و آرزو‘‘ (رومانس) کی چیز بن رہتے ہیں (جس کا ایک کلائمکس ’’انتظارِ مہدی‘‘ ہے)؛ جبکہ یہ نرے عزلت نشین‘ زندگی کی دوڑ سے باہر بلکہ زندگی کی روانی کے آگے بند باندھنے والے۔ اس (آئیڈیلسٹ) کے رُخ پر جانے والا ایک طبقہ ماضی کے محاکمہ کی طرف بڑھتا ہے اور نبیﷺ کی رحلت کے تیس سال بعد اسلام کا سیاسی وجود کرۂ ارض پر ختم ٹھہراتا یا اس پر کچھ سنگین سوالات اٹھاتا ہے‘ جبکہ اس (آئیڈیلسٹ) رُخ پر جانے والا ایک دوسرا طبقہ حال کی طرف متوجّہ ہوتا ہے جہاں مسلمانوں کے بہت پیچھے رہ جانے (نیز استعمار کا مفتوح ہو جانے) کے نتیجے میں زندگی کے اکثر ندی نالے سرے سے کفار کے رُخ پر بہنے لگتے ہیں؛ اور جنہیں پھر سے اسلام کے رُخ پر بہانے کے لیے شاید صدیوں کی جُہد اور صبر درکار ہو اور بیچ کا یہ عرصہ (خالص اسلام پر اصولی و اعتقادی طور پر جمے رہ کر) عمل کے میدان میں ’’مصالح اور مفاسد‘‘ کے ایک ہر دَم بدلتے موازنہ کی بنیاد پر راستہ بناتے چلے جانے کی ضرورت.... تو یہاں یہ (آئیڈیلسٹ) ذہن زمانے کو اپنے انہی زریں اصول و قواعد کی بنیاد پر بدل جانے کا ’’نوٹس‘‘ دیتا.... اور تاوقتیکہ زمانہ اس کی شرطوں پر نہیں آتا‘ یہ یہاں کے اجتماعی/ سیاسی عمل میں اسلام اور مسلمان کا کوئی کردار نہیں دیکھتا۔ نتیجہ: اہل عزلت‘ منفیت‘ یاسیت‘ سردمہری اور بے دلی۔ یا پھر ایک بھڑکیلی جذباتیت‘ کہ اس سے بھی بڑی فرسٹریشن کا پیش خیمہ۔ جبکہ اسلام کے اجتماعی مطالب‘ جن سے امت ایک دن لاتعلق نہیں رہ سکتی‘ ایک ’’غیرمعینہ‘‘ مدّت تک معطل! اس جامد یا آئیڈیلسٹ ذہن کے لیے بھی ابن تیمیہؒ کے ان مقالات میں بہت کچھ آیا ہے‘ جس پر ہم اپنے حاشیوں یا تعلیقات میںکچھ نشان دہی کریں گے۔ یہ ہر دو پہلو نظر میں رہیں تو یہ کتاب ہمیں دو متحارب تباہ کن راہوں سے بچ نکلنے کے لیے ایک محفوظ متوازن سمت دیتی ہے۔‘‘
یہاں ڈاکٹر اسامہ حسن کا موازنہ انگلستان ہی میں پلے بڑھے‘ پاکستان سے ۱۹۶۰ء کے اوائل میں بریڈفورڈ نقل مکانی کرنے والے بس ڈرائیور کے صاحب زادے ڈاکٹر شبیر اختر سے چشم کشا ہو گا۔ ان کا جولائی ۲۰۲۳ء میں صرف ۶۳ سال کی عمر میں انتقال ہو گیا۔اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلَہٗ وَارْحَمْہُ!ان کی متعدد تصنیفات میں سے کم از کم دو نے اکیڈیمیا میں اسلام کی پولیٹکل اور empowered religion کی حیثیت سے دھاک بٹھائی ہے:
٭ پہلی کتاب۲۰۰۸ء میں شائع ہوئی‘ بعنوان The Quran & The Secular Mind
٭ دوسری۲۰۱۱ء میں شائع ہوئی:
Islam as Political Religion: The Future of an Imperial Faith
یہ دونوں کتابیں خاصی ضخیم اور انتہائی علمی زبان میں کثیرالجہتی ٹھوس مواد لیے ہوئے ہیں۔ مصنف عبرانی اور کئی دوسری کلاسیکل زبانوں بشمول عربی سے واقفیت کے ساتھ ان میں چھپے ہوئے لٹریچر پر عبور اور ان کے مکمل ریفرنس دینے پر قادر تھے۔ انگلستان کی اعلیٰ تعلیم گاہوں کے لبرل‘ ہیومن اسٹ اور ملحدانہ ماحول اور بریڈفورڈ اور لندن کے بہت معمولی اور پس ماندہ ghettos میں بودوباش کے باوجود ڈاکٹر شبیر اختر نے نہ صرف مغربی فلسفہ اور سماجی علوم میں گہری بصیرت اور ناقدانہ نظر حاصل کی بلکہ اسلامی علوم اور معارف کا وسیع اور عمیق مطالعہ کر کے ’’اقتدا بر رفتگاں محفوظ تر‘‘ پر پختہ یقین و ایقان کا حصول کیا جو ان کی طبع شدہ تصنیفات میں بولتا ہے۔ مذکورہ بالا دونوں کتابیں کسی معمولی پبلشر نے نہیں بلکہ انگلینڈ‘ کینیڈا اور امریکہ میں شاخیں رکھنے والے عالمی سطح کے معروف اور بڑے پبلشر Routledge نے شائع کی ہیں۔ اہل ِعلم اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ بڑے پبلشر کسی بھی کتاب کو peer reviews کے سخت اور طویل مرحلے سے گزارنے کے بعد ہی قابلِ اشاعت قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر شبیر اختر نے اسلام کو امپیریل فیتھ کسی جبر اور استحصال اور مبنی بر شرک و الحاد کے نظام کے عالمی غلبے اور قتل و غارت کے معنی میں نہیں لیا‘ بلکہ دین حق کے نظریہ توحید‘ عبادتِ رب اور اُخروی فوز و فلاح کے پیغام کو پوری دنیا کے لوگوں تک پہنچانے اور انہیں ایک الٰہ واحد کے آگے جھکنے اور سجدہ ریز ہونے کے جہادکے مفہوم میں لیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ یہ ٹھیٹ قرآنی اور ختم نبوت کے بعد ہم اُمتیوں پر عائد فرائض کے عین مطابق ہے۔ راقم کا حسن ظن ہے کہ اگر ڈاکٹر اسامہ حسن نے ان دو کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ کر لیا ہوتا تو وہ ٹونی بلیئر انسٹیٹیوٹ کے تحت stateless domesticated Islam کے پیش کنندہ بننے سے بچ جاتے!‘‘
مولانا مودودیؒ نے جماعت اسلامی قائم کی تو بالکل آغاز ہی میں جو چند ثقہ‘ رسوخ فی العلم رکھنے اور تقویٰ و للّٰہیت پر فوکس کرنے والے علماء جماعت میں شامل ہوئے تھے انہوں نے مولانا مودودیؒ کے فکر میں باہر/ خارج کی دنیا اور نظام اجتماع کی تبدیلی پر زیادہ زور محسوس کر لیا تھا۔ چنانچہ انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ اسرار بھائی نے بھی اپنے طبع شدہ اختلافی بیان ’’تحریک ِجماعت ِاسلامی: ایک تحقیقی مطالعہ‘‘ میں کچھ ایسا ہی موقف اختیار کیا‘ جس کے بعد انہوں نے اپنے طور پر احیائے دین کے کام میں حقیقی ایمان اور عمل صالح بذریعہ قرآن و سنت کے گہرے مطالعے اور وجودی و احوالی کیفیات کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ گویا انہوں نے مولانا رومی کی ہدایت ؎
دست ہر نااہل بیمارت کند سوئے مادر آ کہ تیمارت کند!
کو ذہن و دِل میں اتارتے ہوئے مسلمانوں کے mother discourse یعنی کلام اﷲ اور روایت پر اپنے دروسِ قرآنی اور دینی موضوعات پر لاتعداد لیکچرز میں اس نکتے پر زور دیا کہ دینی و ایمانی حقائق و مسلّمات کو internalize کیے بغیر فرد میں ایمان پختہ یقین و ایقان اور عرفانی کیفیت کے ساتھ پیدا نہیں ہو سکتا۔ تحریکی اہل ِ اسلام نے دین کے ظواہر کو اہمیت دے کر اسے externalize کر دیا ہے جبکہ اصل ضرورت قبل ازیں بیان کردہ منہج کی ہے جو متوارث اور متعامل ہے ۔علم الفقہ و الحدیث کے الفاظ ’’علم نضج واحترق‘‘ کے مطابق علم و عرفان وہ ہے جو پختہ ہو جائے اور جس میں تبدیلی یا حک و اضافے کا امکان نہ رہے۔ اور یہی عرفانی علم و ایقان ہے جو عالمی سطح پر فضاؤں میں موجود تشکیک‘ الحاد‘ تکثیریت‘ لبرل ازم اور سیکولرازم کو counter کر کے مشرق و مغرب میں رہنے والے کلمہ گو افراد کو اﷲ کی حقیقی ’’عبدیت‘‘ پر قائم رکھ سکتا ہے!
٭٭٭
سالِ رواں کی پہلی سہ ماہی میں مارچ رمضان المبارک کا ماہ تھا۔ اس میں برادر مکرم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کا ۱۹۸۴ء سے شروع کیا گیا تراویح میں مختصر تشریح کے ساتھ پورے قرآن کا ترجمہ یا ایک پارے کے خلاصۂ مضامین کا بیان تنظیم اسلامی اور انجمن ہائے خدام القرآن کے زیراہتمام تمام بڑے شہروں میں منعقد ہوا۔ بحمداﷲ‘ راقم کے بھائی بہنوں کی اولاد بلکہ اب تیسری نسل کو بھی شامل کر لیا جائے تو ڈیڑھ درجن سے اوپر عزیزان حافظ قرآن ہیں‘ جن میں سے ایک بڑی تعداد مختلف مساجد میں تراویح میں قرآن سناتی ہے اور کچھ عزیزان مختصر خلاصۂ مضامین کا بیان یا مکمل دورئہ ترجمہ قرآن مجید کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ قرآن اکیڈمی کی مسجد ’’جامع القرآن‘‘ میں اس رمضان میں دورئہ ترجمہ کی ذمہ داری عزیزم حافظ عاطف وحید (ناظم اعلیٰ‘ مرکزی انجمن خدام القرآن) نے انجام دی۔ چونکہ اس جگہ مؤسس انجمن ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے اس مبارک کام کا آغاز کیا تھا اس لیے کثیر تعداد پرانے رفقاء و احباب کی اور بہت سے نئے حضرات بھی عاطف صاحب کے انتہائی مؤثر اور دِل نشیں انداز میں بیان کیے گئے ترجمے اور مختصر تشریح سننے کے لیے تشریف لاتے رہے۔ بحمداﷲ‘ عزیزم اسلامی علوم و معارف کا وسیع اور عمیق مطالعہ رکھتے ہیں۔ چنانچہ قرآن و سنت کے پیامِ حق کو روشن اور درخشاں کرنے کی امکان بھر کوشش کی۔ حاضرین کا انہماک اتنا دیکھنے میں آیا کہ چائے کے وقفے کے بعد بھی کثیر تعداد آخر تک مسجد میں موجود رہتی تھی‘ جس کا اندازہ باہر سڑکوں پر ہر چہارطرف کاروں اور موٹرسائیکلوں کی موجودگی سے ہوتا تھا۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عزیزم عاطف وحید کو صحت و عافیت کے ساتھ دین متین کی مزید خدمت کرنے کی توفیق ارزاں کیے رکھیں اور وہ قرآن اکیڈمی کے شعبہ تحقیق و تدریس اور جامعۃ القرآن کے جملہ کٹھن مسائل سے کامیابی کے ساتھ نبردآزما ہوتے رہیں۔ آمین!
بڑے بھائی وقار احمد صاحب کے صاحب زادے انجینئر حافظ عبدﷲ محمود (جو راقم کے داماد بھی ہیں) قرآن اکیڈمی کی مسجد کے نمازیوں کے لیے جانے پہچانے ہیں‘ کیونکہ صدرِ انجمن ڈاکٹر عارف رشید صاحب انہیں گاہے بگاہے جمعہ کے خطاب اور نماز کی امامت کے لیے دعوت دیتے رہتے ہیں ـ۔ تنظیم اسلامی کے حلقہ لاہور غربی کے سہ ماہی اجتماع میں بھی اکثر ان کا درسِ قرآن رکھا جاتا ہے۔ ایک خوش الحان حافظ قرآن ہونے کے علاوہ وہ تفسیر اور کتب ِاحادیث کا وسیع مطالعہ بھی رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے سال گزشتہ کی طرح اس رمضان میں بھی جوہر ٹاؤن میں پی آئی اے روڈ کے مشرقی حصے میں واقع پنجاب سوسائٹی کی مسجد میں عشاء کی نماز میں طویل قراءت اور آدھی تراویح کی نماز کے بعد تقریباً ایک گھنٹے پر مبنی پڑھے اور سنے جانے والے حصہ کا جامع خلاصہ ہر روز پیش کیا۔ عزیزم عبد ﷲ محمود پیشے کے اعتبار سے انجینئر ہیں اور ذاتی کاروبار کے ساتھ کارِجہاں بانی کے رموز سے بھی خوب واقف ہیں۔ مزیدبرآں‘ ملکی اور عالمی سیاست کے مسائل میں بھی دلچسپی اور قرآن و سُنّت کے حوالے سے مفید تبصرے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں۔ مختصر دورہ قرآن کی اس بابرکت محفل کی خاص بات یہ تھی کہ مسجد کے بالکل قریب رہائش رکھنے والے محترم احمد جاوید صاحب نے بھی اس پروگرام میں باقاعدگی سے شرکت کی۔ ۲۸ویں شب کو تکمیل ِقرآن کے موقع پر انہوں نے اپنی خواہش پر خطاب بھی کیا اور عزیزم کے بیان کو بہت سراہا۔ ساتھ ہی ان کے تایا ڈاکٹر اسرار احمدؒ کی تحریک رجوع الی القرآن کے لیے بھی تعریفی کلمات کہے اور اس کے مزید پھیلاؤ اور مؤثر ہونے کی دعا کی۔ راقم بھی انہیں اور ان کے والد محترم کو خیر و عافیت کی دعاؤں میں یاد رکھتا ہے۔
مکمل دورئہ ترجمہ قرآن کی تیسری اور آخری نشست جس کو راقم بیان کرنا ضروری سمجھتا ہے‘ وہ برادرگرامی ڈاکٹر صاحبؒ کے نواسے عزیزم استاذ مومن محمود کی تھی جو مختصر سی جگہ پر واقع ’’فاتح فاؤنڈیشن پاکستان‘‘ کے لاہور کیمپس میں قائم ’’غزالی فورم‘‘ کے تحت عزیزم استاذ ڈاکٹر رشید ارشد سلمہ نے منعقد کروائی۔ وہ خود بھی کلام پاک کے نسخے کے ساتھ اس پورے دورہ میں بیٹھتے اور استماع کرتے رہے۔ عزیزم مومن محمود صحیح معنوں میں قدیم جملہ علوم نبوت کے جدید شناور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ قرآن کے آفاقِ فہم کبھی ختم نہیں ہو سکتے‘نہ آفاقِ معانی اور نہ آفاقِ زمانی۔ وہ اپنی جگہ چشمہ ٔ صافی اور کافی ہے۔ اس چشمہ ٔ صافی کی عذویت سے وہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جس کے اور قرآن کے درمیان کسی اور کا عکس حائل نہ ہو۔ علم الکلام اور لغت کے قدیمی مباحث اب بہت سے جدید دانش وَروں کے نزدیک مندرس اور پیش پا افتادہ ہیں۔ عزیزم کی انتہائی پُرمغز اور ساتھ ہی مختصر اور اشاراتی زبان اور رُوح پرور انداز میں گفتگو اس کا مدلل ابطال تھی۔ عقل کو ایمانی بننے کے لیے جن دلائل کی ضرورت ہے‘ وہ بھی فراہم کیے گئے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ قرآن میں غوطہ زنی‘ گہرے تفقہ اور عمیق علم کے بغیر ممکن نہیں۔ محترم احمد جاوید صاحب کے الفاظ مستعار لوں تو یہ دورئہ قرآن ذاتی طور پر میرے لیے ’’قربِ جلالِ حق کا سفرنامہ‘‘ تھا۔ دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عزیزم کے علم و عرفان کو مزید بڑھائیں اور ان کے نانا اور ہم سب کے لیے آخرت میں اجر و انعام کا باعث بنائیں!
راقم کی درخواست پر قرآن اکیڈمی کے رجوع الی القرآن کورس (پارٹ ٹو) کے ایک طالب علم(جنہوں نے چند اور کلاس فیلوز کے ساتھ دورئہ قرآن کا استماع کیا) عزیزم عثمان عباس کی ایک تاثری تحریر بھی یہاں قارئین کے لیے پیش کی جا رہی ہے‘ جسے انہوں نے ایک ’’منفرد تجربہ‘‘ کہا ہے:
’’مجھے اس سال غزالی فورم لاہور میں منعقدہ ’’دورہ ترجمہ قرآن‘‘ میں شرکت کی سعادت نصیب ہوئی‘ الحمدللہ‘ جس کے مدرس استاد محترم مومن محمود صاحب تھے۔ آج کے دور میں‘ جب دین کا بنیادی ماخذ اکثر نوجوانوں کے لیے انٹرنیٹ‘ یوٹیوب چینلز اور پوڈکاسٹس جہاں درست باتوں کے ساتھ ساتھ بہت سی عجیب و غریب سائنسی تفاسیر‘ خود ساختہ تاویلات اور مذموم آرا کی ملونی ہوتی ہے‘ وہاں استاد محترم نے بغیر کسی تکلف اور بناوٹ کے قرآن کو اس طرح بیان کیا کہ ہر خاص و عام کو اس سے رہنمائی حاصل ہو۔ خاص طور پر ان نوجوانوں کے لیے یہ دورہ ایک نعمت ثابت ہوا‘ جن کے ذہنوں میں یہ بات راسخ ہوتی جا رہی تھی کہ قرآن صرف اس وقت ’’قابلِ فہم‘‘ ہوتا ہے جب اسے جدید سائنس یا محض دور حاضر کے تحت بیان کیا جائے۔ اگرچہ میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ من لم یعرف اھل زمانہ فھو جاھل مگر ہر چیز کا ایک نسبت تناسب ہونا چاہیے۔ جس چیز کی جتنی اہمیت ہو اسے اتنی اہمیت ہی دینی چاہیے اور یہ چیز مجھے اس دورہ میں نظر آئی۔ یہ بھی ایک عجیب رواج پڑتا جا رہا ہے کہ ایک شخص کا ایمان اس وقت تو بڑھے جب قرآن کی جدید تفسیرکی جائے لیکن جس پس منظر میں قرآن نازل ہوا اگر اس میں سنایا جائے تو وہ حجاب محسوس کرے۔اگرچہ قرآن مجید میں ہر طبقہ کے لیے ہدایت ہے مگر قرآن مجید کی بیشتر آیات انسان کو بدلنے‘ غفلت سے جگانے اور اللہ سے جوڑنے کے لیے نازل ہوئیں۔ جنت و دوزخ کی یاددہانی‘ انبیاء کرام علیہم السلام کے واقعات‘ آفاقی و انفسی آیات کا مرکزی پیغام ایک عام آدمی کے لیے یہی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کرے‘عبد منیب بنے اور عبودیت کی منازل طے کرے جیسا کہ اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا : {وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ (۵۶) }۔
اس دورے نے ہمیں اس بات کا قوی احساس دلایا کہ قرآن کا مقام اس سے کہیں بلند ہے کہ اس کی عظمت کو محض جدید سائنسی نظریات سے’’ثابت‘‘ کیا جائے۔ بہر حال یہ دورہ ایک بہت احسن انداز میں مکمل ہوا۔استاد مومن محمود صاحب نے قرآن فہمی کا کوئی نیا زاویہ پیش نہیں کیا — اور یہی اس دورے کا حسن تھا۔ انہوں نے ہمیں اسلاف کے طرزِ فہم پر قرآن کو سمجھانے کی سعی کی‘ یعنی وہی زاویہ جو اہل ِسُنّت کے علماء کے ہاں محفوظ چلا آ رہا ہے۔
ایک نمایاں پہلو تزکیہ ٔنفس تھا۔ استاد محترم نے بار بار ہمیں یاد دلایا کہ قرآن کا مقصد صرف معلومات نہیں‘ بلکہ قلوب کی اصلاح اور عرفانِ الٰہی کی طرف سفر ہے۔ بعض مواقع پر انہوں نے مختلف قراء جیسے شیخ صدیق منشاوی وغیرہ کی خاص تلاوت کا حوالہ دیا اور مختلف آیات جو دنیا کی حقیقت ہمارے سامنے کھولتی ہیں پر غور وفکر اور مراقبہ کرنے اور بار بار سننے کا کہا جو کہ ایک بہت اچھا تجربہ تھا اور اس سے قرآن سننے کا شوق بھی پیدا ہوا۔
استاد محترم کو ان آیات کا بھی بخوبی ادراک تھا جن سے لوگ غلط نظریات اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان مقامات پر انہوں نے اہل ِسُنّت کے محکم دلائل سے مختصر اور مدلل وضاحت کی‘ جس سے عقائد کی اصلاح ہوئی اوربہت سی الجھنیں دور ہوئیں اور زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنے اور علم کی گہرائی پیدا کرنے اور حفاظت دین کے وسیع تر مفہوم کو سمجھنے کا شوق پیدا ہوا۔اگرچہ اللہ کے فضل سے میں نے تمام نشستوں میں شرکت کی‘ لیکن انسانی کمزوریوں کے باعث کچھ نکات رہ گئے۔ غزالی فورم کا شکریہ کہ انہوں نے مکمل دورہ ریکارڈ کرلیا‘ جو اب ایک بڑا علمی ذخیرہ بن چکا ہے — نہ صرف میرے لیے بلکہ ان سب کے لیے جو کسی وجہ سے شریک نہ ہو سکے۔چونکہ دورہ یک طرفہ ہوتا ہے‘ اس لیے کچھ سوالات ذہن میں ابھرے جو کہ اس طرح کے دورہ کے نتیجے میں پیدا ہونے بھی چاہئیں۔ ہم کچھ شرکاء نے استاد محترم سے گزارش کی کہ عید الفطر کے بعد خصوصی وقت دیں تاکہ سوالات کی نشست ہو سکے‘ اور انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے وقت دینے کا وعدہ بھی کرلیا۔
یہ دورہ نہ صرف قرآن فہمی کا ایک خوبصورت موقع تھا‘ بلکہ تزکیۂ نفس کا ذریعہ بھی۔ اللہ تعالیٰ استاد محترم مؤمن محمود صاحب‘ غزالی فورم کی پوری ٹیم اور تمام منتظمین کی کاوشوں کو قبول فرمائے‘ اور ہمیں قرآن سے سچی محبت‘ سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔
اللّٰهُمَّ اجْعَلِ القُرْآنَ رَبِيعَ قُلُوبِنَا، وَنُورَ صُدُورِنَا، وَجَلَاءَ أَحْزَانِنَا، وَذَهَابَ هُمُومِنَا
’’اے اللہ! قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار‘ سینوں کا نور‘ غموں کا مداوا‘ اور پریشانیوں کا خاتمہ بنا دے!‘‘
tanzeemdigitallibrary.com © 2025