مِلاکُ التأوِیل (۴۰)تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسنسُورۃُ الْحَجّ(۲۵۷) آیت ۵
{یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ فَاِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَـیِّنَ لَـکُمْ ط وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ثُمَّ نُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّرَدُّ اِلٰٓی اَرْذَلِ الْعُمُرِ }
’’اے لوگو! اگر تمہیں دوبارہ جی اٹھنے میں شک ہے تو پھر (جان لو) کہ ہم نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا‘ پھر نطفے سے ‘پھر جمے ہوئے خون سے ‘پھر گوشت کے ایک لوتھڑے سے کہ ان میں سے کچھ پوری خلقت رکھتے ہیں اور کچھ نہیں‘ تاکہ تمہارے اوپر (اپنی کمال قدرت کو) واضح کر دیں ۔اور پھر ان میں سے جسے ہم چاہتے ہیں ایک مقررہ مدت تک رحم (مادر) میں رکھتے ہیں‘ پھر تمہیں بچہ بنا کر باہر نکالتے ہیں‘ پھر تمہیں اپنی قوی ترین حالت تک پہنچنے دیتے ہیں ۔اور تم میں کچھ وفات پا جاتے ہیں اور کچھ ایک نکمی عمر کی طرف لوٹا دیے جاتے ہیں۔‘‘
اور سورۃ المؤمن کی آیت۶۷ میں ارشاد فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ ثُمَّ مِنْ نُّطْفَۃٍ ثُمَّ مِنْ عَلَقَۃٍ ثُمَّ یُخْرِجُکُمْ طِفْلًا ثُمَّ لِتَبْلُغُوْٓا اَشُدَّکُمْ ثُمَّ لِتَکُوْنُوْا شُیُوْخًاج وَمِنْکُمْ مَّنْ یُّتَوَفّٰی مِنْ قَبْلُ وَلِتَبْلُغُوْٓا اَجَلًا مُّسَمًّی وَّلَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۶۷)}
’’وہی ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ‘پھر نطفے سے ‘پھر خون کے جمے ہوئے لوتھڑے سے ‘پھر وہ تمہیں بچے کی صورت میں نکالتا ہے ‘پھر (تمہیں موقع دیتا ہے )تا کہ تم اپنی قوی ترین عمر کو پہنچو‘ پھر تم بڑھاپے کو پہنچ جاتے ہو ۔اور تم میں سے کچھ لوگ اس سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ‘ اور (یہ سب اس لیے) تاکہ تم سب ایک مقررہ مدت تک (اپنی عمر میں) پہنچو اور شاید تم سمجھ سکو۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ پہلی آیت میں چند اضافی مراحل کا ذکر ہے ‘جو دوسری آیت میں بیان نہیں ہوئے‘جیسے:{ثُمَّ مِنْ مُّضْغَۃٍ مُّخَلَّقَۃٍ وَّغَیْرِ مُخَلَّقَۃٍ لِّنُبَـیِّنَ لَـکُمْ ط وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی}۔
اب ملاحظہ ہوکہ سورۃ الحج میں تخلیق ِانسان کے کئی ایسے مراحل بیان ہوئے ہیں جو سورۃ المؤمن میں بیان نہیں ہوئے۔ مثلاً سورۃ الحج میں بتایا گیا کہ نطفہ جب علقہ (جامد خون کا لوتھڑا) بن جاتا ہے تو پھر وہ اگلے مرحلہ میں مضغہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ مضغہ گوشت کی ایسی بوٹی کو کہا جاتا ہے جو چبائی جا سکے۔ اور یہ مضغہ بھی دو طرح کے انجام کو پہنچتا ہے‘ تام الخلق یا ناقص الخلق۔ یہاں پر اسقاطِ حمل کا بیان نہیں ہوا۔ اسے ہم آیت کے اس ٹکڑے سے سمجھ سکتے ہیں:{ وَنُقِرُّ فِی الْاَرْحَامِ مَا نَشَآئُ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی} ’’اور ہم رحم میں استقرار بخشتے ہیں جسے چاہیں ایک خاص مدت تک‘‘جس کا مفہوم یہ ہوا کہ جسے نہ چاہیں اسے پہلے ہی گرا دیتے ہیں۔ مضغہ کی نقش گری کا تذکرہ سورئہ آلِ عمران میں کیا گیا۔ فرمایا:
{ہُوَ الَّذِیْ یُصَوِّرُکُمْ فِی الْاَرْحَامِ کَیْفَ یَشَآئُ ط} (آیت۶)
’’وہی ہے جو تمہیں رحم میں ایک صورت سے نوازتا ہے جیسے چاہتا ہے۔‘‘
مراد شکل و صورت اوررنگ وغیرہ ہے اور اسی میں یہ بات بھی آ جاتی ہے کہ کسی کو پورے اعضاء اور حواس عطا ہوتے ہیں اور کسی کو نقص کے ساتھ پیدا کیا جاتا ہے۔
’’ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ‘‘کہہ کر واضح کر دیا کہ رحم مادر میں بچہ کتنی دیر رہے گا وہ بھی اللہ کے ہاتھ میں ہے‘ ولادت کب اور کیسے ہو گی‘ سب اللہ کی قدرت میں ہے۔ اور یہی وہ سوال ہے کہ جو پوچھا جا سکتا ہے کہ ان دونوں آیتوں میں یہ اختلاف کیوں واقع ہوا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ سورۃ الحج کی آیت کا اصل مقصد قیامت کے دن اٹھائے جانے پر دلیل قائم کرنا ہے تاکہ دوبارہ اٹھائے جانے کا انکار کرنے والوں پر حُجّت قائم کی جا سکے۔
اب دیکھئے کہ تخلیق ِانسان میں کتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے‘ ایک مرحلہ بتدریج دوسرے مرحلے میں منتقل ہو جاتا ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب کہ اس کے پیچھے ایک ایسی ہستی ہو جو فاعل ہو‘ قدرت رکھتی ہو‘ حکمت سے معمور ہو‘ پورا اختیار رکھتی ہو‘ ایک ایک بات کا علم رکھتی ہو۔ اس بات کی وضاحت کئی دوسری آیات میں بھی کی گئی‘ فرمایا:
{وَضَرَبَ لَنَا مَثَلًا وَّنَسِیَ خَلْقَہٗ ط } (یٰسٓ:۷۸)
’’وہ ہمارے لیے ضرب المثل پیش کرتا ہے لیکن اپنی خلقت کو بھول جاتا ہے۔‘‘
اور فرمایا:
{کَمَا بَدَاْنَآ اَوَّلَ خَلْقٍ نُّعِیْدُہٗ ط} (الانبیاء:۱۰۴)
’’جیسے ہم نے پہلے پیدا کیا ویسے ہی ہم دوبارہ اُسے لوٹائیں گے۔‘‘
اور پھر سورۃ الحج کی اگلی آیت سے بھی اس مقصود کی تاکید کی جاتی ہے:
{وَتَرَی الْاَرْضَ ہَامِدَۃً فَاِذَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْہَا الْمَآئَ اہْتَزَّتْ وَرَبَتْ وَاَنْبَتَتْ مِنْ کُلِّ زَوْجٍ بَہِیْجٍ(۵) }
’’اور تم زمین کو بنجر اور خشک دیکھتے ہو اور پھر جب ہم اس پر بارش برساتے ہیں تو وہ لہلہا اٹھتی ہے‘ اور خوب پھلتی اور پھولتی ہے اور پھر ہر طرح کی بارونق نباتات اگاتی ہے۔‘‘
تویہاں ذکر ہو گیا کہ مردہ زمین کو کیسے زندہ کیا ۔اور پھر ارشاد فرمایا:
{ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّہٗ یُحْیِی الْمَوْتٰی وَاَنَّہٗ عَلٰی کُلِّ شَیْ ئٍ قَدِیْرٌ(۶) }
’’یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی مُردوں کو زندہ کرتا ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
اب آپ اس آیت کے افتتاحی کلمات {یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ اِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّنَ الْبَعْثِ} کو دیکھ لیں اور پھر اس کے آخر تک پڑھتے جائیں تو اندازہ ہو جائے گا کہ منکرین بعث کا کس خوبصورتی سے ردّ کیا گیا ہے۔
سورۃ المؤمن میں خاص اس غرض کے لیے کلام نہیں کیا گیا‘ البتہ اختصار کے ساتھ ضمناً اس کا تذکرہ کیا گیاہے۔ سورۃ کا اصل مضمون یہ ہے کہ مخلوق کو اللہ کی وحدانیت کا سبق دیا جائے اور یہ کہ اللہ ہی پیدا کرنے والا اور حکم دینے والا ہے‘ اس کے ساتھ ان دونوں چیزوں میں کوئی شریک یا ہمسر نہیں ہے‘ اللہ کے سوا اور کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔ اس مضمون کی ابتدا اس آیت سے ہوتی ہے:
{ لَخَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ اَکْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ }
’’یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش لوگو ں کو پید اکرنے سے بڑی بات ہے۔‘‘
اور پھر مذکورہ آیت ۶۷ تک اسی مقصود کا احاطہ کیا گیا ہے‘ اور یوں واضح ہو گیا کہ سورۃ الحج میں وہ زائد تفصیلات کیوں دی گئیں جو سورۃ المؤمن میں نہیں دی گئیں۔ یعنی ہر دو سورتوں میں جو کچھ بیان کیا گیا وہ اس کے ساتھ ہی خاص تھا‘ واللہ اعلم!
(۲۵۸) آیت ۲۲
{کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَا مِنْ غَمٍّ اُعِیْدُوْا فِیْہَاق وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقِ(۲۲) }
’’اور جب کبھی وہ اس (جائے) غم سے نکل بھاگنے کی کوشش کریں گے توپھر اسی میں لوٹا دیے جائیں گے‘ اور (ان سے کہا جائے گاکہ) چکھو اب جلنے کا عذاب۔‘‘
اور سورۃ السجدۃ میں ارشاد فرمایا:
{ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (۲۰)}
’’جب کبھی وہ اس سے نکلنے کا ارادہ کریں گے تو وہ اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ چکھو آگ کا وہ عذاب جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں:
(۱) سورۃ الحج میں ’’مِنْ غَمٍّ‘‘ کے الفاظ ہیں جو سورۃ السجدۃ میں نہیں لائے گئے۔
(۲) دونوں آیتوں کے آخری الفاظ میں اختلاف واقع ہوا ہے۔
پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورۃ الحج میں طرفین (کُفّار اور مؤمنین) کی اُخروی جزا اور سزا یعنی ثواب اور عذاب کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے‘ اس لیے مناسب تھا کہ کُفّار کے تذکرے میں اس عذاب کی نوعیت کا واضح تذکرہ کردیا جائے۔ اس لیے ’’مِنْ غَمٍّ‘‘ کے اضافی الفاظ بیان ہوئے۔
ملاحظہ ہو کُفّار کے عذاب کا تذکرہ ان الفاظ کے ساتھ ہو رہا ہے:
{فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا قُطِّعَتْ لَہُمْ ثِیَابٌ مِّنْ نَّارٍط یُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُئُ وْسِہِمُ الْحَمِیْمُ(۱۹)}
’’اور جنہوں نے کفر کیاان کے لیے آگ ہی میں سے کپڑے کاٹ کاٹ کر بنائے گئے ‘اور ان کے سروں پر گرم پانی انڈیلا گیا۔‘‘
{یُصْہَرُ بِہٖ مَا فِیْ بُطُوْنِہِمْ وَالْجُلُوْدُ(۲۰) وَلَہُمْ مَّقَامِعُ مِنْ حَدِیْدٍ(۲۱)}
’’جس سے وہ سب کچھ گلا دیا جائے گا جوکچھ ان کے پیٹوں میں ہے اور ان کی کھالیں بھی۔ اور ان (کی سزا) کے لیے لوہے کے ہتھوڑے ہوں گے۔‘‘
اس کے بالمقابل اہل ایمان کی جزا اس تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی:
{اِنَّ اللہَ یُدْخِلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ یُحَلَّوْنَ فِیْہَا مِنْ اَسَاوِرَ مِنْ ذَہَبٍ وَّلُؤْلُؤًاط وَلِبَاسُہُمْ فِیْہَا حَرِیْرٌ(۲۳) }
’’بے شک اللہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ‘ ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی‘ وہاں انہیں سونے کے کنگن اور ہیرے پہنائے جائیں گے ۔اور وہاں ان کا لباس ریشم کا ہو گا۔‘‘
اسی طرح کی تفصیل سورۃ النساء میں بھی ہے ۔ کُفّار کے تذکرے میں ارشاد فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِنَا سَوْفَ نُصْلِیْہِمْ نَارًاط کُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُوْدُہُمْ بَدَّلْنٰہُمْ جُلُوْدًا غَیْرَہَا لِیَذُوْقُوا الْعَذَابَ ط اِنَّ اللہَ کَانَ عَزِیْزًا حَکِیْمًا(۵۶)}
’’بے شک جن لوگوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا‘ عنقریب ہم انہیں آگ میں تپائیں گے۔ جوں جوں ان کی کھالیں پکتی جائیں گی ہم انہیں دوسری کھالوں سے بدل دیں گے تاکہ وہ عذاب کا مزا چکھتے رہیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ غالب ہیں‘ حکمت والے ہیں۔‘‘
اور اہل ایمان کے بارے میں ارشاد ہوا:
{وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ سَنُدْخِلُہُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَآ اَبَدًاط لَہُمْ فِیْہَآ اَزْوَاجٌ مُّطَہَّرَۃٌ ز وَّنُدْخِلُہُمْ ظِـلًّا ظَلِیْلًا(۵۷)}
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے ہم انہیں عنقریب ایسی جنتوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی جس میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔ان کے لیے وہاں پاک و صاف بیویاںہوں گی اور ہم انہیں گھنی چھائوں کے اندر داخل کریں گے۔‘‘
چنانچہ جہاں کلام میں طوالت ہوتی ہے تو وہاں ہمیشہ تفصیلی خطاب ہوتا ہے۔ سورۃ السجدہ کی آیت ملاحظہ ہو جہاں کلام میں اختصار ہے‘ فرمایا:
{اَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَہُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰیز نُزُلًا بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۱۹)}
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے‘ ان کے لیے جنتیں ہیں جہاں وہ قیام کریں گے ۔ یہ ان کے لیے ضیافت ہوگی ان اعمال کی بنا پر جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
{ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰىہُمُ النَّارُط کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (۲۰)}
’’اور جن لوگوں نے حکم عدولی کی‘ ان کا ٹھکانہ آگ ہو گی۔ جب کبھی وہ وہاں سے نکلنے کی کوشش کریں گے تو وہ اس میں دوبارہ لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا : چکھو اس آگ کا عذاب جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
اب یہاں چونکہ کلام میں اختصار ہے‘ اس لیے ’’مِنْ غَمٍّ‘‘ کے اضافہ کی ضرورت نہیں تھی۔ اسی طرح کا اختصار سورۃ النازعات میں پایا جاتا ہے۔ دونوں اطراف (کُفّار اور اہل ایمان) کی جزا کے بارے میں ارشاد ہوا:
{فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ہِیَ الْمَاْوٰی(۳۹)} ’’تو پھر جہنم ہی ان کا ٹھکانہ ہے۔‘‘
اور
{فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ہِیَ الْمَاْوٰی(۴۱)} ’’بے شک جنت ہی ان کا ٹھکانہ ہے۔‘‘
ان دونوں آیتوں اور سورۃ السجدۃ کی آیت میں کوئی فرق نہیں ہے‘ اور یوں ظاہر ہو گیا کہ سورۃ الحج کی آیت میں بربنائے تفصیل وہ الفاظ آئے جو سورۃ السجدۃ میں بربنائے اختصار حذف کر دیے گئے۔ تو جو جس آیت میں مناسبت رکھتا تھا وہ اس میں لایا گیا اور جہاں مناسبت نہیں تھی وہاں نہیں لایاگیا‘ اور اگر اس کا اُلٹ کیا جاتاتو قطعاً غیرمناسب ہوتا۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ سورۃ السجدہ کی آیت کے آغاز میں کہا گیا:{ وَاَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا}۔ ’’فسق‘‘ بمعنی خروج ہے۔ یہ خروج صرف نافرمانی کی حد تک بھی ہو سکتا ہے اور کبھی کفر کی سرحد تک پہنچ جاتا ہے ۔ یہاں چونکہ یہ دوسرا معنی مطلوب ہے اس لیے آیت کے آخر میں وضاحت کر دی گئی کہ چونکہ انہوں نے اخروی انجام کو جھٹلایا تھا‘ اس لیےاب اس انجام کو بھگتو! فرمایا:
{وَقِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (۲۰) }
(ترجمہ گزر چکا ہے)
اور جہاں تک سورۃ الحج کی آیت کا تعلق ہے تو شروع ہی میں ان کے کفر کا تذکرہ بالفاظ {فَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا} آ چکا تھا‘ اس لیے سورۃ السجدۃ والا اسلوب وہاں مناسب نہ تھا۔
سورۃ السجدۃ سے مماثل ایک مقام سورئہ سبا کا بھی ہے جہاں آیت کے آخر میں آگ کے عذاب کا تذکرہ ہےاور ان لوگوں کا بھی جو اس میں جانے کے مستحق قرار دیے گئے تھے۔ فرمایا:
{ فَالْیَوْمَ لَا یَمْلِکُ بَعْضُکُمْ لِبَعْضٍ نَّفْعًا وَّلَا ضَرًّاط وَنَقُوْلُ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّتِیْ کُنْتُمْ بِہَا تُکَذِّبُوْنَ(۴۲)}
’’پس آج تم میں سے کوئی بھی ایک دوسرے کو نفع یا نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہوگا ۔اور ہم ان لوگوں سے کہیں گے جنہوں نے ظلم کیا تھا: چکھو اس آگ کاعذاب جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔‘‘
یہاں لفظ ’’ظلم‘‘ استعمال ہوا ہے اور فسق کی طرح وہ بھی دونوں معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ نافرمانی جو کفر تک نہ پہنچی ہو یا وہ معصیت جو جھٹلانے اور کفر کی حدوں تک پہنچ جائے‘ اور یہاں بھی آیت کے آخری ٹکڑے نے واضح کر دیا کہ اس سے مراد دوسرا معنی ہے۔
اب رہا دونوں آیتوں میں ضمیر کا اختلاف کہ ایک آیت میں {الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ} کہا گیا اور دوسری میں {الَّتِیْ کُنْتُمْ بِہَا} کہا گیا تو وہ اس وجہ سے ہے کہ سورۃ السجدہ میں ضمیر مذکر ہے اور اس کا مرجع لفظ ’’عذاب‘‘ ہے جو مذکر ہے‘ جبکہ سورۃ سبا میں ضمیر مؤنث ہے اور وہ لفظ ’’نار‘‘ کی طرف لوٹتی ہے جو کہ مؤنث ہے۔
یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورۃ السجدۃ میں خاص طور پر ضمیر مذکر کیوں لائی گئی تو اس کا جواب ہم سورۃ السجدۃ پر کلام کرتے ہوئے عرض کریں گے۔ ملحق نمبر ۲۹۴ (سورۃ السجدۃ)
----------------------------------------------------------------
(موضوع کی مناسبت سے ہم ان دونوں آیتوں کے موازنہ پر مشتمل کلام کو یہیں درج کیے دیتے ہیں‘ مترجم)
دونوں آیتوں میں ضمیر کے مرجع کا اختلاف ہے‘ چنانچہ سورۃ السجدۃ میں ضمیر مذکر لائی گئی ہے کیونکہ اس کا مرجع عذاب ہے اور سورۃ السجدۃ میں اس کا لانا اس لیے مناسب تھا کہ اس سورت میں خاص طور پر دو دفعہ عذاب کا ذکر آیا ہے‘ فرمایا:
{وَلَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ(۲۱) }
’’اور ہم انہیں ایک عذابِ ادنیٰ (قریب ترین اور کم ترین) چکھائیں گے اس عذاب سے پہلے جو بڑا ہو گا تاکہ وہ (حق کی طرف) لوٹ آئیں۔‘‘
تو ا س سے قبل آیت میں ’’عذاب النار‘‘ کا تذکرہ ہوا تھا تو مناسب تھا کہ سورت کے عمومی مضمون کو دیکھتے ہوئے ’’عَذَاب‘‘ ہی کی طرف ضمیر مذکر لوٹائی جاتی‘ لیکن سورئہ سبا میں ایسی کوئی بات نہ تھی اس لیے وہاں ’’النَّار‘‘ کی طرف ضمیر مؤنث لوٹائی گئی اور اس طرح ایک ہی حقیقت کو دوطرح بیان کر دیا گیا‘ واللہ اعلم!
(۲۵۹) آیت ۴۵
{فَـکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَہْلَکْنٰہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ }
’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے ہلاک کر دیا کہ وہ ظالم تھیں۔‘‘
اور اس کے بعد آیت ۴۸ میں ارشاد فرمایا:
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ }
’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں کہ جن کو ہم نے ڈھیل دی کہ وہ ظالم تھیں۔‘‘
سوال یہ ہے کہ ایک میں ہلاکت کا ذکر کیا گیا اور دوسری میں مہلت دینے کا تو اس اختلاف کا سبب کیا ہے؟
جواباً عرض ہے کہ پہلی آیت سے قبل کئی قوموں کا ذکر کیا گیا جنہوں نے اپنے اپنے رسولوں کو جھٹلایا تھا‘ اللہ نے ان کو مہلت بھی دی لیکن انہوں نے اپنی حالت نہ بدلی تو پھر ان کی ہلاکت مقدر ہو گئی۔ فرمایا:
{فَاَمْلَیْتُ لِلْکٰفِرِیْنَ ثُمَّ اَخَذْتُھُمْ ج} (آیت۴۴)
’’تو پھر میں نے کافروں کو مہلت عطا کی اور بعد ازاں انہیں آ دبوچا۔‘‘
ایسے ہی سورۃ الرعد میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدِ اسْتُہْزِیَٔ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِکَ فَاَمْلَیْتُ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثُمَّ اَخَذْتُہُمْ قف} (آیت۳۲)
’’اورآپ سے قبل بھی کئی رسولوں کا مذاق اڑایا گیا تو میں نے کفر کرنے والوں کو مہلت دی اور اس کے بعد انہیں آن پکڑا۔‘‘
لیکن سورۃ الحج کی دوسری آیت سے قبل ان کے ’’استعجال‘‘کا ذکر ہے یعنی ان کا یہ کہنا کہ یہ عذاب جس کا تم بار بار ڈراوادیتے رہتے ہو وہ جلد آکیوں نہیں جاتا؟ فرمایا: {وَیَسْتَعْجِلُوْنَکَ بِالْعَذَابِ}(آیت۴۷) ’’اور وہ عذاب کی جلدی مچائے ہوئے ہیں۔‘‘تو معلوم ہواکہ انہیں مہلت دی جا رہی تھی اس لیے جلد عذاب نہیں آیا۔
سورئہ آلِ عمران میں اس مہلت کا ایک سبب یہ بھی بیان ہوا:
{ اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ لِیَزْدَادُوْا اِثْمًاج} (آیت۱۷۸)
’’ہم انہیں اس لیے مہلت عطا کرتے ہیں کہ وہ اپنے گناہوں میں مزید اضافہ کر سکیں۔‘‘
(مطلب یہ ہے کہ مہلت تو اس لیے دی جا رہی تھی کہ وہ تائب ہو کر پاسداری کی راہ اختیارکریں لیکن انہوں نے اس مہلت کو گناہوں میں اضافے کا موقع بنا لیا: مترجم)
گویا یہ بتایا جا رہا ہے کہ جب یہ لوگ عذاب کی جلد ی مچا رہے تھے تو انہیں یاد دلایا گیا کہ تم سے قبل بھی ایسے لوگ گزرے ہیں جو عذاب آنے کو دور کی بات سمجھ رہے تھے لیکن بالآخر وہ عذابِ الٰہی سے کچلے گئے‘ اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں کہا:
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُھَا ج}
(ترجمہ گزر چکا ہے)
اور آیت کا آخری ٹکڑا بھی اس بات کی تاکید کرتا ہے:
{وَاِلَی اللہِ الْمَصِیْرُ (۴۸)} ’’اور اللہ ہی کی طرف لوٹنا ہے۔‘‘
گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جلدی تو وہ مچاتا ہے جسے اس بات کا خوف ہو کہ کہیں وہ رہ نہ جائے‘ لیکن اگر وہ یہ جانتا ہوکہ یہاں رہ جانے والا کوئی بھی نہ ہو گا‘ بلکہ دیر سویر ہر شخص نے بالآخر اللہ ہی کی طرف لوٹناہے تو پھر اسے جلدی کی کیا ضرورت ہے؟ اب یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کب کس کو اس کے جرم کی پاداش میں پکڑ لے‘ اور اگر چاہے تو کسی کو مہلت بھی دے کہ جس کی وجہ سے اس کی آزمائش میں مزید اضافہ بھی ہو جائے۔
اور یوں دونوں آیتوں کا مفہوم بالکل واضح ہوجاتا ہے اور ہر آیت میں جو لفظ استعمال ہوا ہے‘ وہ وہیں مناسب تھا اور اس میں ردّوبدل کا قطعاً کوئی مقام نہ تھا‘ واللہ اعلم!
(۲۶۰) آیت ۴۷
{وَاِنَّ یَوْمًا عِنْدَ رَبِّکَ کَاَلْفِ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(۴۷) }
’’تیرے رب کے نزدیک ایک دن‘ تمہاری گنتی کے حساب سے ایک سال کےبرابر ہے۔‘‘
اور سورۃ السجدۃ میں ارشاد فرمایا:
{یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآئِ اِلَی الْاَرْضِ ثُمَّ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(۵) }
’’وہ آسمان سے لے کر زمین تک ہر کام کی تدبیر کرتا ہے‘ پھر یہ (کارروائی) ایک دن میں اس کی طرف عروج کر جاتی ہے کہ جس کی مقدار تمہاری گنتی کے مطابق ایک ہزار سال کی بنتی ہے۔‘‘
اور سورۃ المعارج میں ارشاد فرمایا:
{تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ اِلَـیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗ خَمْسِیْنَ اَلْفَ سَنَۃٍ (۴)}
’’فرشتے اور روح (جبرائیلؑ) اس کی طرف اس ایک دن میں عروج کر جاتے ہیں کہ جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘
ان آیات میں ایک دن سے کیا مراد ہے اور اس کی مقدار میں اختلاف کیوں ہے؟
اس کا جواب یہ ہے (واللہ اعلم) کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے فعل میں کسی تکلف اور کارروائی کی ضرورت نہیں ہے:
{ اِنَّمَآ اَمْرُہٓٗ اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ (۸۲) } (یٰسٓ)
’’جب بھی وہ کوئی چیز چاہتا ہے‘ اس کا اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ ’’ہوجا‘‘ تو وہ چیز ہو جاتی ہے۔‘‘
گویا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر وہ تمہیں عذاب دینا چاہے تو وہ فوراً واقع ہو سکتا ہے‘ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کام میں کسی کی مدد‘ کسی کی حاجت یا کسی قسم کی کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی وہ کچھ کرنا چاہتا ہے وہ اتنے تھوڑے عرصے میں ہو جاتا ہے کہ تمہارے اندازے کے مطابق تو اس کام کے ہونے میں ایک ہزار سال لگنے چاہئیں تھے (یا اس سے بھی زیادہ )۔ اُس کے افعال لوگوں کے افعال کی مانند نہیں ہیں کہ وہ ہر کام کے کرنے میں اسباب‘ وسائل اور کارروائی کے محتاج ہوتے ہیں‘ وہ تو صرف ’’کُنْ‘‘ کہتا ہے تو آناً فاناً وہ کام ہو جاتا ہے۔ تو پھر تمہیں اس بات کی جلدی کیوں ہے جس کے واقع ہونے میں قطعاً کسی تکلف کی ضرورت نہ ہو گی۔ اگر وہ بات جلدی واقع نہیں بھی ہوتی تو وہ اس وجہ سے نہیں ہوتی کہ اس کی ایک اجل مقرر ہے اور یہ اجل قیامت کا دن ہے۔ اب یہ اللہ کی مرضی ہے کہ کسی کو دنیا ہی میں عذاب کا مزا چکھا دے‘ یا اسے آزمائشوں میں ڈال دے‘ یا کسی کی آزمائش بڑھانے کے لیے اسے مزید مہلت عطا فرما دے۔ اسی بات کو ان آیات میں واضح کیا گیاہے:
{وَکَاَیِّنْ مِّنْ قَرْیَۃٍ اَمْلَیْتُ لَہَا وَہِیَ ظَالِمَۃٌ ثُمَّ اَخَذْتُھَا ج} (الحج:۴۸)
’’اور کتنی ہی بستیاں ہیں جن کو ہم نے مہلت دی حالانکہ وہ ظالم تھیں پھر ہم نے انہیں اپنی پکڑ میں لے لیا۔‘‘
اور فرمایا:
{فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ} (الاعراف:۷‘ النحل:۶۱)
’’پھر جب ان کی مدت مقررہ پوری ہو جاتی ہے تو پھر اس میں نہ ہی ایک ساعت کی تاخیر ہوتی ہے اور نہ ہی ایک ساعت پہلے ہوتی ہے۔‘‘
یہی معنی سورۃ السجدۃ کی اس آیت کا ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ کے ایک دن کو دنیوی اعتبار سے ایک ہزار سال کے برابر کہا گیا ہے ‘ کہ زمین و آسمان کے مابین کی طویل مسافت اللہ تعالیٰ کے کاموں کے واقع ہونے میں حائل نہیں ہوتی‘ اور یہی کام اگر اللہ تعالیٰ تمہارے سپرد کر ڈالتے تو تم اپنی استعداد کے مطابق اس کے کرنے میں ایک ایک ہزار سال لگا سکتے تھے۔
جہاں تک سورۃ المعارج کی آیت کا تعلق ہے تو وہاں قیامت کا دن مراد ہے کہ جس میں تمام مخلوقات کا حساب و کتاب ہو گا‘ ان کے اعمال کا وزن کیا جائے گا‘ ان کے فیصلے سنائے جائیں گے‘ یہاں تک کہ اہل جنت‘ اپنی جنتوں میں اور اہل النار‘ جہنم تک پہنچ جائیں گے۔ اور اگر پھر اس ساری کارروائی کا حساب لیا جائے اور کارروائی بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ اس میں بڑی ہولناکی بھی شامل ہے اور اس کا دنیوی ماہ و سال سے موازنہ کیا جائے تو وہ کہیں جا کے پچاس ہزار سال کے برابر بنتا ہے‘ لیکن ایک متقی مؤمن کے لیے وہ دن اتنا ہلکا ہو گا گویا کہ وہ ایک نماز کی ادائیگی کے برابر ہو گا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
{فَاِذَا نُقِرَ فِی النَّاقُوْرِ(۸) فَذٰلِکَ یَوْمَئِذٍ یَّــوْمٌ عَسِیْرٌ(۹) عَلَی الْکٰفِرِیْنَ غَیْرُ یَسِیْرٍ(۱۰)} (المدثر)
’’اور پھر جب صور میں پھونکا جائے گا‘ تو وہ دن بہت سخت ہوگا ‘اور کافروں پر وہ آسان نہ ہو گا۔‘‘
سورۃ المعارج میں مذکور یہ دن قیامت کا دن ہے کہ اس کے فوراً بعد اس کا وصف بیان کیا گیا ہے جو قیامت کے دن کے اوصاف میں سے ہے :
{یَوْمَ تَـکُوْنُ السَّمَآئُ کَالْمُہْلِ(۸) وَتَکُوْنُ الْجِبَالُ کَالْعِہْنِ(۹) وَلَا یَسْئَلُ حَمِیْمٌ حَمِیْمًا(۱۰) یُّــبَصَّرُوْنَہُمْ ط یَـوَدُّ الْمُجْرِمُ لَـوْ یَـفْتَدِیْ مِنْ عَذَابِ یَوْمِئِذٍ بِبَنِیْہِ(۱۱) وَصَاحِبَتِہٖ وَاَخِیْہِ(۱۲) وَفَصِیْلَتِہِ الَّتِیْ تُـئْوِیْہِ(۱۳) وَمَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًالا ثُمَّ یُنْجِیْہِ(۱۴)}
’’کہ جس دن آسمان تیل کی تلچھٹ کے مثل ہو جائے گا.....‘‘
( اور پھر اگلی چھ آیات تک اس دن کے اوصاف بیان کیے گئے ہیں۔) واللہ اعلم!
(۲۶۱) آیت ۵۰
{فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ(۵۰) }
’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے‘ ان کے لیے مغفرت اور اچھا رزق ہے۔‘‘
پھر چند آیات کے بعد ارشاد فرمایا:
{اَلْمُلْکُ یَوْمَئِذٍ لِّلہِ ط یَحْکُمُ بَیْنَہُمْ ط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ(۵۶) }
’’اُس دن بادشاہت اللہ کی ہو گی‘ وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا۔تو پھر جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک اعمال کیے وہ نعمتوں سے بھرپور جنتوں میں ہوں گے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں جگہ ایمان اور عمل صالح رکھنے والے لوگوںکا ذکر ہے لیکن جزا کا ذکر مختلف الفاظ سے کیا گیا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں آیتوں کا ماسبق مختلف ہے‘ پہلی آیت سے ماقبل ’’یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ کہہ کر لوگوں کو مخاطب کیا گیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ {اِنَّمَا اَنَا لَکُمْ نَّذِیْرٌ مُّبِیْنٌ} کہ میں تمہاری طرف کھلا کھلا خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا گیا ہوں‘ اور اگر تم ایمان لے آتے ہو اور نیک اعمال کرتے ہو تو تم نے جتنی بھی نافرمانیاں اور مخالفتیں کی ہیں وہ سب کی سب معاف کر دی جائیں گی اور تمہیں رزقِ کریم سے نوازا جائے گا ۔ جہاں تک دوسری آیت کا تعلق ہے تو وہاں دُنیوی زندگی ختم ہو جانے اور اُخروی زندگی کی آمد کا تذکرہ ہے کہ ایمان لانے اور نیک اعمال کا بدلہ ملنے کا وقت ہے‘ یعنی جس مغفرت اور رزقِ کریم کا وعدہ کیا گیا تھا وہ جنت کی ابدی نعمتوں کی شکل میں ملے گا۔
حاصل مضمون یہ ہوا کہ پہلی آیت سے قبل ’’یٰٓــاَیُّہَا النَّاسُ‘‘ کا خطاب ہی بتا رہا ہے کہ ابھی ان لوگوں کو ایمان حاصل نہیں ہوا تھا وگرنہ انہیں ’’یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ‘‘ کہہ کر خطاب کیا جاتا‘ اور پھر انہیں ایمان لانے اور عمل صالح کرنے کے صلہ میں ایک بشارت دی گئی ۔اوردوسری آیت میں اسی بشارت کی حقیقت کو واضح کیا گیا کہ یہ رزقِ کریم اور نعمتوں سے بھرپور باغات کی شکل میں ہو گا۔ اس لحاظ سے ہر آیت اپنی اپنی جگہ پر اپنے مضمون کے ساتھ خوب مناسبت رکھتی ہے۔ واللہ اعلم!
(۲۶۲) آیت ۶۲
{ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ }
’’ یہ اس لیے کہ اللہ ہی حق ہے اور اسے چھوڑ کر وہ جن کو پکارتے ہیں وہی باطل ہے۔‘‘
اور سورۃ لقمان میں ارشاد فرمایا:
{وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہِ الْبَاطِلُ} (آیت۳۰)
’’اور اس کے سوا جس جس کو وہ پکارتے ہیں وہ باطل ہے۔‘‘
یہاں سوال کرنے والا یہ سوال کر سکتا ہے کہ پہلی آیت میں ’’الْبَاطِلُ‘‘ سے پہلے ’’ھُوَ‘‘ کا اضافہ ہےجب کہ دوسری آیت میں وہی مضمون ہے لیکن وہاں ’’ھُوَ‘‘ نہیں لایا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواباً عرض ہے کہ سورۃ الحج میں معبودانِ باطل کا بار بار تذکرہ ہوا ہے‘ اس لیے ضروری تھا کہ ’’ھُوَ‘‘ کی ضمیر لاکر ان کے کرتوتوں کی نفی کی جاتی‘ کیونکہ ضمیر کی تکرار سے کسی امر کی تاکید مراد ہوتی ہے‘ چاہے یہ ضمیر شروع میں بطور مبتدأ آئے یا کلام کے دوران بطور فصل آئے۔
ملاحظہ ہو کہ آیت۳۱ میں ان کے شرک کی بے حیثیتی کا یوں تذکرہ کیا گیا تھا:
{وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ(۳۱)}
’’اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرتا ہے‘ گویا وہ آسمان سے گرتا ہے تو پرندے اس کو اُچک لیتے ہیں یا ہوا اسے ایک گہری کھائی میں جا گراتی ہے۔‘‘
اور سورت کے آخر میں ارشاد فرمایا:
{اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّلَوِ اجْتَمَعُوْا لَہٗ ط وَاِنْ یَّسْلُبْہُمُ الذُّبَابُ شَیْئًا لَّا یَسْتَنْقِذُوْہُ مِنْہُ ط } (آیت ۷۳)
’’بے شک جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو وہ سب مل کر بھی ایک مکھی تک پیدا نہیں کر سکتے ‘اور اگر وہ مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے تو وہ اس سےواپس تک نہیں لے سکتے۔‘‘
ملاحظہ ہو کہ آیت۶۲ میں یہ بات کہی گئی تھی:{ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ وَاَنَّ مَا یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِہٖ ہُوَ الْبَاطِلُ} اور اس آیت میں مشرکین کے دیوتائوں ‘جن کا تذکرہ آیت۳۱ میں آ چکا تھا‘ کاتذکرہ ہے کہ وہ سب باطل ہیں‘ ان کی کوئی حقیقت نہیںہے‘ جب کہ اللہ ہی حق ہے اور وہی عبادت کے لائق ہے۔
پھر آیت ۷۳ میں شرک کی شناعت کا اظہار مکھی کی مثال سے کیا گیا اور اس کے بعد فرمایا گیا:
{وَمَا قَدَرُوا اللہَ حَقَّ قَدْرِہٖ ط } (آیت۷۴)
’’اور انہوں نے اللہ کے قدرو منزلت کو پہچانا ہی نہیں۔‘‘
ان دونوں آیتوں میں شرک کے قبیح ہونے کا بیان ہوا اور دونوں کے درمیان اللہ تعالیٰ کے حق ہونے کی تاکید کی گئی۔گوآیت ۳۱ میں شرک کی ناقدری کا ذکر ہو چکا تھا لیکن آیت۷۳ سے اسے مزید نکھارا گیا۔
اب یہاں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ مکھی کی مثال جو شرک کی بے بضاعتی پر دلالت کرتی ہے وہ تو بعدمیں ہے‘ تو آیت۶۲ کا تعلق اس آیت سے کیسے ہو سکتا ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ فصیح و بلیغ کلام میں اس طرح کی تقدیم و تاخیر روا رکھی گئی ہے۔مثال کے طور پر سورۃ البقرۃ میں جہاں ایک گائے کے ذبح کرنے کا واقعہ بیان ہوا ہے‘ وہاں یہ آیت لائی گئی:
{وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَئْ تُمْ فِیْہَاط } (آیت ۷۲)
’’اور جب تم نے ایک جان کو قتل کیا پھر تم نے اس کے بارے میں اختلاف کیا۔‘‘
یہاں اشارہ ہے اس قصے کی طرف جو اس آیت سے پہلے بیان ہو چکا ہے اور جس کی ابتدا آیت ۶۷ سے ہوچکی تھی:
{وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِقَوْمِہٖٓ اِنَّ اللہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تَذْبَحُوْا بَقَرَۃً ط } (آیت۶۷)
’’اور جب موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے کو ذبح کرو۔‘‘
ان دونوں آیتوں کو اگر جمع کیا جائے تو کلام یوں ہو گا کہ: ’’جب تم نے ایک جان کو قتل کیا اور پھر تم نے (قاتل) کے بارے میں اختلاف کیا تو موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم ایک گائے کو ذبح کرو۔‘‘اور پھر آیت۷۲ میں بتا دیا کہ قاتل کو جاننے کے لیے تمہیں کیا کرنا ہوگا۔
ایسا ہی کچھ سورۃ الحج کی آیات میں بھی ہے کہ گو ایک آیت جس میں مکھی کی مثال دی گئی ہے‘ بعد میں آئی ہے‘ اس کا تعلق {وَمَنْ یُّشْرِکْ بِاللہِ} والی آیت سے ہے‘ اور دونوں کے مقابلے میں پھر اللہ کی حقانیت پر مشتمل آیت {ذٰلِکَ بِاَنَّ اللہَ ہُوَ الْحَقُّ ....... } لائی گئی۔اس تقدیم و تاخیر کو فصحاءِ عرب خوب سمجھتے ہیں اور جو نہ سمجھے وہ خود قصورِ فہم کا شکار ہے۔
سورئہ لقمان میں چونکہ شرک کے بارے میں یہ وضاحتی بیان نہیں تھا اس لیے وہاں ’’الْبَاطِل‘‘ سے پہلے بطور تاکید ’’ھُوَ‘‘ کی ضمیر نہیں لائی گئی۔ اور جہاں تک سورۃ الحج کی آیت کے اعراب کا تعلق ہے تو اس ضمیر کو مبتدأ بھی مانا جا سکتا ہے یا اسے ضمیر فصل کے طو رپر لیا جائے گا۔واللہ اعلم!
(۲۶۳) آیت ۶۴
{لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط وَاِنَّ اللہَ لَہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(۶۴)}
’’اور اُسی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ اور بے شک اللہ بے نیاز ہے‘ قابل تعریف ہے۔‘‘
اور سورئہ لقمان میں ارشاد فرمایا:
{ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط اِنَّ اللہَ ہُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ(۲۶)}
’’ اللہ ہی کے لیے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔ بے شک اللہ ہی بے نیاز ہے اور لائق ِحمدوثناہے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پہلی آیت میں سورۃ لقمان کی آیت کے مقابلے میں دو حرف زیادہ ہیں‘ ایک تو حرف ’’مَا‘‘ الْاَرْضِ سے پہلے اور ایک ’’ھُوَ‘‘ سے قبل لامِ تاکید جو کہ اِنَّ سے شروع ہونے والے جملے کی خبر ہے‘ تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب پچھلے مضمون میں آ چکا ہے کہ سورۃ الحج میں سورۃ لقمان کے مقابلے میں تاکیدی الفاظ آئے ہیں‘ ان دونوں جگہ پر بھی ’’مَا‘‘ موصولہ کی تکرار (فِی الْاَرْضِ سے قبل) اور ھُوَ پر لام دونوں تاکید کی غرض سے لائے گئے ہیں ‘واللہ اعلم
tanzeemdigitallibrary.com © 2025