ترجمہ ٔ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح
افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحومسُورۃُ النَّحلآیات ۳۰ تا ۳۴{وَقِیْلَ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا مَاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ ط قَالُوْا خَیْرًاط لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌط وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌط وَلَنِعْمَ دَارُ الْمُتَّقِیْنَ(۳۰) جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَہَا تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْہٰرُ لَہُمْ فِیْہَا مَا یَشَآئُ وْنَ ط کَذٰلِکَ یَجْزِی اللہُ الْمُتَّقِیْنَ(۳۱) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ طَیِّبِیْنَ لا یَـقُوْلُوْنَ سَلٰـمٌ عَلَیْکُمُ ادْخُلُوا الْجَنَّۃَ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۳۲) ہَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّآ اَنْ تَاْتِیَہُمُ الْمَلٰٓئِکَۃُ اَوْ یَاْتِیَ اَمْرُ رَبِّکَ ط کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط وَمَا ظَلَمَہُمُ اللہُ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ(۳۳) فَاَصَابَہُمْ سَیِّاٰتُ مَا عَمِلُوْا وَحَاقَ بِہِمْ مَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ(۳۴)}
ترکیب
(آیت۳۰) خَیْرًا کی نصب بتا رہی ہے کہ اس سے پہلے اس کا فعل اَنْزَلَ محذوف ہے۔ حَسَنَۃٌ مبتدأ مؤخر نکرہ ہے۔ اس کی خبر وَاجِبٌ یا ثَابِتٌ محذوف ہے۔ اس کے آگے ایک گنجائش یہ ہے کہ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا کوقائم مقام خبر مقدم مانیں اور فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا کو متعلق خبر مانیں ـ ۔ ایسی صورت میں جملہ ہوگا : اَلْحَسَنَۃُ وَاجِبٌ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا۔ دوسری گنجائش یہ ہے کہ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا کو قائم مقام خبر مانیں اور لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا کو متعلق خبر مانیں۔ ایسی صورت میں جملہ ہوگا: اَلْحَسَنَۃُ وَاجِبٌ فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا۔ اگلی عبارت وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ خَیْرٌ کا تقاضا ہے کہ دوسری گنجائش کو ترجیح دی جائے۔
ترجمہ:
وَقِیْلَ :اور(جب) کہا جاتا ہے
لِلَّذِیْنَ :ان سے جنہوں نے
اتَّقَوْا : تقویٰ اختیار کیا
مَاذَآ اَنْزَلَ :کیا اتارا
رَبُّکُمْ:تمہارے رب نے
قَالُوْا: تو وہ کہتے ہیں
خَیْرًا :(اس نے اتارا) بہترین کو
لِلَّذِیْنَ:ان کے لیے جنہوں نے
اَحْسَنُوْا : بلاکم و کاست کام کیا
فِیْ ہٰذِہِ الدُّنْیَا :اس دنیا میں
حَسَنَۃٌ : ایک بھلائی ہے
وَلَدَارُ الْاٰخِرَۃِ :اور یقیناً آخرت کا گھر(تو)
خَیْرٌ: سب سے بہتر ہے
وَلَنِعْمَ :اور یقیناً کتنا اچھا ہے
دَارُ الْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں کا گھر
جَنّٰتُ عَدْنٍ:عدن کے باغات ہیں
یَّدْخُلُوْنَہَا :وہ داخل ہوں گے ان میں
تَجْرِیْ:بہتی ہیں
مِنْ تَحْتِہَا :ان کے نیچے سے
الْاَنْہٰرُ :نہریں
لَہُمْ فِیْہَا :ان کے لیے ہے ان میں
مَا یَشَآءُوْنَ:جو وہ چاہیں گے
کَذٰلِکَ یَجْزِی اللہُ :اس طرح بدلہ دے گااللہ
الْمُتَّقِیْنَ : تقویٰ کرنے والوں کو
الَّذِیْنَ :وہ لوگ
تَتَوَفّٰىہُمُ:جان قبض کرتے ہیں جن کی
الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتے
طَیِّبِیْنَ:خوشگوار حالت میں
یَـقُوْلُوْنَ :وہ (فرشتے) کہیں گے
سَلٰـمٌ :سلامتی ہے
عَلَیْکُمُ :تم لوگوں پر
ادْخُلُوا : (اب) داخل ہو جائو
الْجَنَّۃَ :جنت میں
بِمَا :بسبب اس کے جو
کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم لوگ عمل کرتے تھے
ہَلْ یَنْظُرُوْنَ : کیاوہ لوگ انتظار کرتے ہیں
اِلَّآ اَنْ :سوائے اس کے کہ
تَاْتِیَہُمُ :آئیں ان کے پاس
الْمَلٰٓئِکَۃُ : فرشتے
اَوْ یَاْتِیَ :یا پہنچے
اَمْرُ رَبِّکَ :آپؐ کے رب کا حکم
کَذٰلِکَ :اسی طرح
فَعَلَ : کیا
الَّذِیْنَ :انہوں نے جو
مِنْ قَبْلِہِمْ : ان سے پہلے تھے
وَمَا ظَلَمَہُمُ :اور ظلم نہیں کیا ان پر
اللہُ :اللہ نے
وَلٰکِنْ:اور لیکن
کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ : وہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے تھے
فَاَصَابَہُمْ : تو پہنچیں ان کو
سَیِّاٰتُ مَا :اس کی برائیاں جو
عَمِلُوْا : انہوں نے عمل کیا
وَحَاقَ بِہِمْ مَّا :اور چھا گیا ان پر وہ
کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ: جس کا وہ مذاق اڑاتے تھے
نوٹ:اس سورہ کی آیات ۲۸۔۲۹ میں اور پھر آیت ۳۲ میں ان لوگوں سے فرشتوں کی گفتگو کا ذکر ہے جن کی وہ روح قبض کرتے ہیں۔ یہ آیات قرآن مجید کی ان متعدد آیات میں سے ہیں جو عذاب و ثوابِ قبر کا ثبوت دیتی ہیں۔ حدیث میں قبر کا لفظ مجازاً عالم برزخ کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ عالم ہے جس میں موت کی آخری ہچکی سے لے کر بعث بعد الموت کے پہلے جھٹکے تک انسانی ارواح رہیں گی۔ منکرین ِحدیث کو اس پر اصرار ہے کہ یہ عالم بالکل عدمِ محض کا عالم ہے جس میں کوئی احساس و شعور نہ ہو گا اور کسی قسم کا عذاب یا ثواب نہ ہوگا۔ لیکن یہاں دیکھئے کہ کُفّارکی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو وہ موت کی سرحد کے پار کا حال اپنی توقعات کے خلاف پا کر سراسیمہ ہو جاتی ہیں اور فوراً سلام ٹھونک کر ملائکہ کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ ہم کوئی برا کام نہیں کر رہے تھے۔ جواب میں ملائکہ ان کو جہنم کی پیشگی خبر دیتے ہیں۔ دوسری طرف متقی لوگوں کی روحیں جب قبض کی جاتی ہیں تو ملائکہ ان کو سلام کرتے ہیں اور جنتی ہونے کی پیشگی مبارک باد دیتے ہیں۔ کیا برزخ کی زندگی‘ احساس‘ شعور‘ عذاب اور ثواب کا اس سے بھی زیادہ کھلا ہوا کوئی ثبوت درکار ہے؟ سب سے زیادہ صاف الفاظ میں عذابِ برزخ کی تصریح سورۃ المؤمن کی آیات ۴۵‘۴۶ میں کی گئی ہے جہاں اللہ تعالیٰ فرعون اور آلِ فرعون کے متعلق فرماتا ہے : {وَحَاقَ بِاٰلِ فِرْعَوْنَ سُوْٓئُ الْعَذَابِ (۴۵) اَلنَّارُ یُعْرَضُوْنَ عَلَیْہَا غُدُوًّا وَّعَشِیًّاج وَیَوْمَ تَقُوْمُ السَّاعَۃُ قف اَدْخِلُوْٓا اٰلَ فِرْعَوْنَ اَشَدَّ الْعَذَابِ(۴۶) } ’’ایک سخت عذاب آلِ فرعون کو گھیرے ہوئے ہے۔ یعنی صبح و شام وہ آگ کے سامنے پیش کیے جاتے ہیں‘ پھر جب قیامت کی گھڑی آ جائے گی تو حکم دیا جائے گا کہ آلِ فرعون کو شدید تر عذاب میں داخل کرو۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ قرآن و حدیث ‘ دونوں سے موت اور قیامت کے درمیان حالت کا ایک ہی نقشہ معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ موت محض جسم و روح کی علیحدگی کا نام ہے‘ نہ کہ بالکل معدوم ہو جانے کا۔ جسم سے علیحدہ ہو جانے کے بعد روح معدوم نہیں ہو جاتی بلکہ اس پوری شخصیت کے ساتھ زندہ رہتی ہے جو دنیا کی زندگی کے تجربات اور ذہنی و اخلاقی اکتسابات سے بنی تھی۔ اس حالت میں روح کے شعور‘ احساس‘ مشاہدات اور تجربات کی کیفیت خواب سے ملتی جلتی ہوتی ہے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۲ ‘ص ۵۳۶)
آیات ۳۵ تا ۴۰
{وَقَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْا لَوْ شَآئَ اللہُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْ ئٍ نَّحْنُ وَلَآ اٰبَآؤُنَا وَلَاحَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِہٖ مِنْ شَیْ ئٍ ط کَذٰلِکَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ج فَہَلْ عَلَی الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ(۳۵) وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللہَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ ج فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُط فَسِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ(۳۶) اِنْ تَحْرِصْ عَلٰی ہُدٰىہُمْ فَاِنَّ اللہَ لَا یَہْدِیْ مَنْ یُّضِلُّ وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(۳۷) وَاَقْسَمُوْا بِاللہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ لا لَا یَبْعَثُ اللہُ مَنْ یَّمُوْتُ ط بَلٰی وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا وَّلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ (۳۸) لِیُـبَـیِّنَ لَہُمُ الَّذِیْ یَخْتَلِفُوْنَ فِیْہِ وَلِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْٓا اَ نَّہُمْ کَانُوْا کٰذِبِیْنَ (۳۹) اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْ ئٍ اِذَآ اَرَدْنٰہُ اَنْ نَّقُوْلَ لَہٗ کُنْ فَیَکُوْنُ(۴۰)}
ترجمہ:
وَقَالَ : اور کہیں گے
الَّذِیْنَ :وہ لوگ جنہوں نے
اَشْرَکُوْا : شرک کیا
لَوْ شَآئَ اللہُ :اگر چاہتا اللہ
مَا عَبَدْنَا : تو ہم بندگی نہ کرتے
مِنْ دُوْنِہٖ :اُس کے علاوہ
مِنْ شَیْ ئٍ : کسی بھی چیز کی
نَّحْنُ :(نہ) ہم
وَلَآ اٰبَآؤُنَا :اور نہ ہی ہمارے آباء و اَجداد
وَلَاحَرَّمْنَا : اور ہم حرام نہ کرتے
مِنْ دُوْنِہٖ : اس کے (حکم کے) علاوہ
مِنْ شَیْ ئٍ: کسی بھی چیز کو
کَذٰلِکَ : اسی طرح
فَعَلَ الَّذِیْنَ :کیا انہوں نے جو
مِنْ قَبْلِہِمْ : ان سے پہلے تھے
فَہَلْ :تو کیا ہے
عَلَی الرُّسُلِ : رسولوں پر
اِلَّا :سوائے اس کے کہ
الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ : واضح طو رپر پہنچا دینا
وَلَقَدْ بَعَثْنَا :اور یقیناً ہم نے بھیجا ہے
فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ : ہر ایک اُمّت میں
رَّسُوْلًا :ایک رسول
اَنِ اعْبُدُوا : کہ تم لوگ بندگی کرو
اللہَ:اللہ کی
وَاجْتَنِبُوا : اور تم لوگ بچو
الطَّاغُوْتَ : سرکشی کے ذریعوں سے
فَمِنْہُمْ مَّنْ : تو ان میں وہ بھی ہیں جن کو
ہَدَی اللہُ : ہدایت دی اللہ نے
وَمِنْہُمْ مَّنْ :اور ان میں وہ بھی ہے
حَقَّتْ :ثابت ہوئی
عَلَیْہِ :جس پر
الضَّلٰلَۃُ: گمراہی
فَسِیْرُوْا : پس تم چلو پھرو
فِی الْاَرْضِ : زمین میں
فَانْظُرُوْا :پھر دیکھو
کَیْفَ کَانَ:کیسا تھا
عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ: جھٹلانے والوں کا انجام
اِنْ تَحْرِصْ :اگر آپؐ شدید خواہش کریں
عَلٰی ہُدٰىہُمْ : ان لوگوں کی ہدایت پر
فَاِنَّ اللہَ :تو بے شک اللہ
لَا یَہْدِیْ :نہیں ہدایت دیتا
مَنْ یُّضِلُّ : اس کو جس کو وہ گمراہ کرتا ہے
وَمَا لَہُمْ :اور ان کے لیے نہیں ہے
مِّنْ نّٰصِرِیْنَ:کوئی بھی مدد کرنے والا
وَاَقْسَمُوْا : اور انہوں نے قسم کھائی
بِاللہِ: اللہ کی
جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ: اپنی قسموں کا زور لگاتے ہوئے
لَا یَبْعَثُ اللہُ : نہیں اٹھائے گا اللہ
مَنْ یَّمُوْتُ : اس کو جوبے جان ہوتا ہے
بَلٰی: کیوں نہیں
وَعْدًا عَلَیْہِ حَقًّا :اس پر ہے سچا وعدہ
وَّلٰکِنَّ: اور لیکن
اَکْثَرَ النَّاسِ :لوگوں کے اکثر
لَا یَعْلَمُوْنَ :جانتے نہیں ہیں
لِیُـبَـیِّنَ : تاکہ وہ واضح کر دے
لَہُمُ الَّذِیْ: ان کے لیے جو
یَخْتَلِفُوْنَ :اختلاف کرتے ہیں
فِیْہِ :اس (اٹھائے جانے) میں
وَلِیَعْلَمَ :اور تاکہ جان لیں
الَّذِیْنَ :وہ لوگ جنہوں نے
کَفَرُوْٓا : انکار کیا
اَنَّہُمْ: کہ و ہی
کَانُوْا کٰذِبِیْنَ : جھوٹے تھے
اِنَّمَا :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
قَوْلُنَا : ہمارا کہنا ہے
لِشَیْ ئٍ :کسی چیز کے لیے
اِذَآ اَرَدْنٰہُ :جب بھی ہم ارادہ کرتے ہیں اس کا
اَنْ نَّقُوْلَ :کہ ہم کہتے ہیں
لَہٗ :اس سے
کُنْ : ہو جا
فَیَکُوْنُ: تو وہ ہو جاتی ہے
نوٹ: آیت۳۵ میں کہا گیا ہے کہ واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا رسولوں پر اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہی بات ایک دوسرے پیرائے میں اس طرح کہی گئی ہے کہ ہم نے آپ ﷺکو صرف خوشخبری دینے والا اور خبردار کرنے والا بنا کر بھیجا ہے (الفرقان:۵۲)۔ قرآن مجید میں ان دونوں اسلوب کی اور بھی آیات ہیں۔ ایسی آیات کی بنیاد پر منکرین ِحدیث استدلال کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا کام صرف یہ تھا کہ وہ قرآن پہنچا دیں۔ حالانکہ منکرین ِحدیث خود کو اہل ِقرآن کہتے ہیں‘ لیکن یہ استدلال بتا رہا ہے کہ قرآن مجید کا پوری طرح مطالعہ نہیں کیا گیا ہے‘ کیونکہ قرآن مجید کے بہت سے وضاحت طلب امور کی وضاحت خود قرآن میں موجود ہے اور اس مسئلہ کی بھی پوری وضاحت قرآن میں دی ہوئی ہے۔ اگر تمام متعلقہ آیات کو سامنے رکھ کر کوئی سمجھنا چاہے تو بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہے جو درج ذیل ہے:
رسول اللہ ﷺ کا مقصد ِبعثت یعنی مشن یہ تھا کہ وہ اللہ کے دین کو پورے نظامِ حیات پر غالب کر دیں۔ قرآن مجید میں یہ بات اللہ تعالیٰ نے تین مرتبہ دہرائی ہے۔(التوبۃ:۳۳‘ الفتح:۲۸‘الصف:۹)۔ اس مشن کی تکمیل کے لیے اللہ تعالیٰ نے جس طریقۂ کار کا تعین کیا تھا وہ یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو اللہ کی آیات پڑھ کر سناتے تھے۔ یہ ابلاغ ہے اور اس میں انذار و تبشیر از خود شامل ہے۔ لوگوں کا تزکیہ کرتے تھے‘ کتاب کی تعلیم دیتے تھے اور حکمت کی تعلیم دیتے تھے۔ آپﷺ کے ان فرائض چہارگانہ کا ذکر بھی قرآن میں چار ہی مرتبہ آیا ہے۔ (البقرۃ:۱۲۹ و ۱۵۱‘ آلِ عمران:۱۶۴‘ الجمعۃ:۲)۔ تعلیم کتاب کا مطلب یہ ہے کہ قرآن حکیم میں جو احکام و ہدایات ہیں اس سے اللہ تعالیٰ کی مرضی کیا ہے اور ان پر ہم نے کس طرح عمل کرنا ہے۔ یہ مطلب کسی کا خود ساختہ نہیں ہے بلکہ اس کی سند قرآن میں موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :{ وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ}(النحل:۴۴) ’’ اور ہم نے نازل کیا آپؐ کی طرف اس ذکر کو تاکہ آپؐ واضح کر دیں لوگوں کے لیے اس کو جو نازل کیا گیا ان لوگوں کی طرف (یعنی قرآن) ۔‘‘
نہ صرف قرآن کے مذکورہ مقامات کو نظر انداز کیا گیا ہے بلکہ مذکورہ غلط استدلال جن آیات کی بنیاد پر قائم کیا گیا ہے‘ ان کے سیاق و سباق سے بھی اغماض برتا گیا ہے‘ کیونکہ ان کے سیاق و سباق سے پوری طرح واضح ہے کہ ان میں خطاب ان لوگوں سے ہے جو ایمان لانے سے انکار کر دیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے ابلاغ اور انذار و تبشیر کے بعد رسول اللہ ﷺ کا کام ختم ہو جاتا ہے اور ان سے اب آپؐ بری ٔالذمہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو تسلی دی ہے کہ دوزخ میں جانے والوں کے متعلق آپؐ سے نہیں پوچھا جائے گا (البقرۃ:۱۱۹)۔ لیکن جو لوگ ایمان لے آئے ان کے لیے آپؐ کا کام ختم نہیں ہوا بلکہ شروع ہوا تھا۔ ان کا تزکیہ کرنا‘ ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دینا تاکہ وہ لوگ اللہ کے دین کو غالب کرنے کی جدّوجُہد میں رسول اللہ ﷺ کے دست و بازو بنیں اور آپؐ کے مشن کی تکمیل ہو۔ اس سارے process کے قولی اور عملی ریکارڈ کا نام حدیث ہے اور یہ اہل ِایمان کے لیے ہے۔
آیات ۴۱ تا ۴۴{وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا فِی اللہِ مِنْ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّہُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًط وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُم لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ(۴۱) الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۴۲) وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۴۳)بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِط وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ وَلَعَلَّھُمْ یَتَفَکَّرُوْنَ(۴۴)}
ترکیب
(آیت۴۱) لَنُبَوِّئَنَّ کامفعول اول ھُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول ثانی محذوف ہے جو کہ دَارًا ہو سکتا ہے۔ حَسَنَۃً اس کی صفت ہے۔ یَعْلَمُوْنَ کی ضمیر فاعلی‘ آیت۳۹ میں مذکور کٰذِبِیْنَ کے لیے ہے۔ (آیت۴۲)اس پوری آیت کا فقرہ گزشتہ آیت میں مذکور وَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا کی صفت ہے۔ (آیت۴۳) رِجَالًا نکرہ مخصوصہ ہے۔ اس کی پہلی خصوصیت نُوْحِیْ اِلَیْھِمْ ہے اور دوسری خصوصیت بِالْبَیِّنٰتِ وَالزُّبُرِ ہے۔(آیت۴۴) وَمَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ میں اِلَیْھِمْ دراصل لَھُمْ کے معنی میں ہے۔
ترجمہ:
وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے
ہَاجَرُوْا:ہجرت کی
فِی اللہِ : اللہ (کی راہ) میں
مِنْ بَعْدِ مَا :اس کے بعد کہ جو
ظُلِمُوْا :ان پر ظلم کیا گیا
لَنُبَوِّئَنَّہُمْ :ہم لازماً ٹھکانہ دیں گے ان کو
فِی الدُّنْیَا :دنیا میں
حَسَنَۃً :ایک اچھے (گھر) کا
وَلَاَجْرُ الْاٰخِرَۃِ :اور یقیناً آخرت کا بدلہ
اَکْبَرُ :سب سے بڑا ہے
لَوْ :کاش
کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ:وہ لوگ جانتے ہوتے
الَّذِیْنَ صَبَرُوْا : (اور) جو ثابت قدم رہے
وَعَلٰی رَبِّہِمْ:اور اپنے ربّ پر ہی
یَتَوَکَّلُوْنَ: بھروسہ کرتے رہے
وَمَآ اَرْسَلْنَا :اور ہم نے نہیں بھیجا
مِنْ قَبْلِکَ :آپؐ سے پہلے
اِلَّا رِجَالًا : مگر کچھ مَردوں کو
نُّوْحِیْٓ :ہم وحی کرتے تھے
اِلَیْہِمْ : جن کی طرف
فَسْئَلُوْٓا :پس تم لوگ پوچھو
اَہْلَ الذِّکْرِ :یاد دہانی والوں (یعنی اہل کتاب) سے
اِنْ :اگر
کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ : تم لوگ نہیں جانتے
بِالْبَیِّنٰتِ: (جن کو بھیجا) واضح (نشانیوں کے) ساتھ
وَالزُّبُرِ :اور صحیفوں کے ساتھ
وَاَنْزَلْنَآ :اور ہم نے اتارا
اِلَیْکَ :آپؐ کی طرف
الذِّکْرَ : اس یاد دہانی کو
لِتُبَیِّنَ :تاکہ آپؐواضح کریں
لِلنَّاسِ :لوگوں کے لیے
مَا :اس کو جو
نُزِّلَ :نازل کیا گیا
اِلَیْھِمْ : ان کی طرف (یعنی ان کے واسطے)
وَلَعَلَّھُمْ :اور شاید وہ لوگ
یَتَفَکَّرُوْنَ:غور و فکر کریں
نوٹ: آیت۴۴ کے دوسرے جزو میں اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کو مامور فرمایا ہے کہ آپؐ قرآن کی نازل شدہ آیات کی وضاحت لوگوں کے سامنے کر دیں۔ یہ اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ قرآن کریم کے حقائق اور احکام کو صحیح طور پر سمجھنا رسول اللہ ﷺ کے بیان پر موقوف ہے۔ اگر ہر انسان صرف عربی زبان اور عربی ادب سے واقف ہو کر قرآن کے احکام کو اللہ تعالیٰ کی منشاء و مرضی کے مطابق سمجھنے پر قادر ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کو وضاحت کی خدمت سپرد کرنے کے کوئی معنی نہیں رہتے۔
رسول اللہ ﷺ کا قرآن کی وضاحت پر مامور ہونے کا حاصل یہ ہوا کہ آپؐ سے جو بھی قول و فعل ثابت ہے وہ سب قرآن ہی کے ارشادات ہیں۔ بعض تو ظاہری طور پر کسی آیت کی تفسیر و توضیح ہوتے ہیں اور بعض جگہ بظاہر قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ہوتا مگر آپؐ کے قلب ِمبارک میں بطور وحی اس کا القاء کیا جاتا ہے‘ وہ بھی ایک حیثیت سے قرآن ہی کے حکم میں ہوتا ہے‘ کیونکہ قرآن کی تصریح کے مطابق آپؐ کی کوئی بات اپنی خواہش سے نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوتی ہے۔(النجم:۳‘۴)اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ کی تمام عبادات و معاملات بوحی ٔخداوندی اور بحکمِ قرآن ہیں۔ جہاں کہیں آپﷺ نے اپنے اجتہاد سے کوئی کام کیا ہے تو وحی الٰہی سے یا اس پر کوئی نکیرنہ کرنے سے اس کی تصحیح اور پھر تائید کر دی جاتی ہے ‘اس لیے وہ بھی بحکمِ وحی ہوجاتا ہے۔ (معارف القرآن)
آیات ۴۵ تا ۵۰{اَفَاَمِنَ الَّذِیْنَ مَکَرُوا السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّخْسِفَ اللہُ بِہِمُ الْاَرْضَ اَوْ یَاْتِیَہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(۴۵) اَوْ یَاْخُذَہُمْ فِیْ تَقَلُّبِہِمْ فَمَا ہُمْ بِمُعْجِزِیْنَ(۴۶) اَوْ یَاْخُذَہُمْ عَلٰی تَخَوُّفٍ ط فَاِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (۴۷)اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلٰی مَا خَلَقَ اللہُ مِنْ شَیْ ئٍ یَّتَفَیَّؤُا ظِلٰلُہٗ عَنِ الْیَمِیْنِ وَالشَّمَآئِلِ سُجَّدًا لِّلہِ وَہُمْ دٰخِرُوْنَ(۴۸) وَلِلہِ یَسْجُدُ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ مِنْ دَآبَّۃٍ وَّالْمَلٰٓئِکَۃُ وَہُمْ لَا یَسْتَکْبِرُوْنَ(۴۹) یَخَافُوْنَ رَبَّہُمْ مِّنْ فَوْقِہِمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ(۵۰)}
خ س ف
خَسَفَ یَخْسِفُ (ض) خُسُوْفًا : کسی جگہ کا دھنس جانا (لازم)۔ کسی کو دھنسا دینا(متعدی)۔ زیر مطالعہ آیت۴۵۔
د خ ر
چاند کو گہن لگنا۔(القیامۃ:۸)
دَخَرَ یَدْخَرُ (ف) وَدَخِرَ یَدْخَرُ (س) دَخْرًا : ذلیل ہونا‘ حقیر ہونا۔
دَاخِرٌ (اسم الفاعل) : ذلیل و حقیر ہونے والا۔ زیر مطالعہ آیت۴۸۔
ترجمہ:
اَفَاَمِنَ :تو کیا امن میں ہوئے
الَّذِیْنَ:وہ لوگ جنہوں نے
مَکَرُوا : خفیہ تدبیر کی
السَّیِّاٰتِ :برائیوں کے لیے
اَنْ یَّخْسِفَ :کہ دھنسا دے
اللہُ :اللہ
بِہِمُ الْاَرْضَ :ان کے ساتھ زمین کو
اَوْ یَاْتِیَہُمُ : یا پہنچے ان کے پاس
الْعَذَابُ :عذاب
مِنْ حَیْثُ :جہاں سے
لَا یَشْعُرُوْنَ:وہ شعور (بھی) نہ رکھتے ہوں
اَوْ یَاْخُذَہُمْ : یایہ کہ وہ (یعنی اللہ) پکڑے ان کو
فِیْ تَقَلُّبِہِمْ :ان کے گھومنے پھرنے میں
فَمَا ہُمْ :پھر وہ لوگ نہ ہوں
بِمُعْجِزِیْنَ:عاجز کرنے والے
اَوْ یَاْخُذَہُمْ:یا یہ کہ وہ پکڑے ان کو
عَلٰی تَخَوُّفٍ : خوف زدہ ہونے کے باوجود
فَاِنَّ:تو بے شک
رَبَّکُمْ :تمہارا ربّ
لَرَئُ وْفٌ :یقیناً بے انتہا شفقت کرنے والا ہے
رَّحِیْمٌ : ہرحال میں رحم کرنے والا ہے
اَوَ لَمْ یَرَوْا :اور کیا انہوں نے غور ہی نہیں کیا
اِلٰی مَا :اس کی طرف جو
خَلَقَ اللہُ :پیدا کیا اللہ نے
مِنْ شَیْ ئٍ :کوئی بھی چیز
یَّتَفَیَّؤُا :(کہ) ڈھلتے ہیں
ظِلٰلُہٗ :ان کے سائے
عَنِ الْیَمِیْنِ :داہنی طرف سے
وَالشَّمَآئِلِ :اوربائیں طرفوں سے
سُجَّدًا :سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے
لِّلہِ :اللہ کے لیے
وَہُمْ :اور وہ سب
دٰخِرُوْنَ:حقیر ہونے والے ہوتے ہیں
وَلِلہِ:اور اللہ کے لیے ہی
یَسْجُدُ :سجدہ کرتا ہے
مَا فِی السَّمٰوٰتِ :وہ جو آسمانوں میں ہے
وَمَا فِی الْاَرْضِ :اور وہ جو زمین میں ہے
مِنْ دَآبَّۃٍ:کوئی بھی چلنےو الا
وَّالْمَلٰٓئِکَۃُ :اور فرشتے (بھی)
وَہُمْ:اور وہ سب
لَایَسْتَکْبِرُوْنَ:بڑائی نہیں چاہتے
یَخَافُوْنَ :وہ ڈرتے ہیں
رَبَّہُمْ :اپنے ربّ سے
مِّنْ فَوْقِہِمْ :اپنے اوپر سے
وَیَفْعَلُوْنَ :اور وہ کرتے ہیں
مَا یُؤْمَرُوْنَ:وہ جوانہیں حکم دیا جاتا ہے
آیات ۵۱ تا ۵۶{ وَقَالَ اللہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ ج اِنَّمَا ہُوَ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌج فَاِ یَّایَ فَارْہَبُوْنِ(۵۱) وَلَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًاط اَفَغَیْرَ اللہِ تَتَّقُوْنَ(۵۲) وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَـیْہِ تَجْئَرُوْنَ(۵۳) ثُمَّ اِذَا کَشَفَ الضُّرَّ عَنْکُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْکُمْ بِرَبِّہِمْ یُشْرِکُوْنَ(۵۴) لِیَکْفُرُوْا بِمَآ اٰتَیْنٰہُمْ ط فَتَمَتَّعُوْاقف فَسَوْفَ تَعْلَمُوْنَ(۵۵) وَیَجْعَلُوْنَ لِمَا لَا یَعْلَمُوْنَ نَصِیْبًا مِّمَّا رَزَقْنٰـہُمْ ط تَاللہِ لَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ(۵۶)}
و ص ب
وَصَبَ یَصِبُ (ض) وُصُوْبًا : دائمی ہونا‘ لازم ہونا۔
وَاصِبٌ (فَاعِلٌ کے وزن پر صفت) :دائمی‘ لازمی۔ زیر مطالعہ آیت۵۲۔
ج ء ر
جَأَرَ یَجْئَرُ (ف) جَأْرًا : وحشی جانور کا گھبراہٹ میں زور سے آواز نکالنا۔ چلانا‘ گڑگڑانا۔زیر مطالعہ آیت۵۳۔
ترکیب
(آیت۵۲) اَفَغَیْرَ کی نصب بتا رہی ہے کہ یہ تَتَّقُوْنَ کا مفعول مقدم ہے۔ (آیت۵۴) فَرِیْقٌ اسم جمع ہے اس لیے بِرَبِّھِمْ میں جمع کی ضمیر اور یُشْرِکُوْنَ جمع کے صیغے میں آیا ہے۔ (آیت۵۵) لِیَکْفُرُوْا کے لامکو لامِ کَی کے بجائے لامِ عاقبت ماننا زیادہ بہترہے۔ تَمَتَّعُوْا میں دو امکانات ہیں۔ یہ فعل ماضی میں جمع مذکر غائب کا صیغہ بھی ہوسکتا ہے۔ اور فعل امر میں جمع مذکر مخاطب کا صیغہ بھی ہو سکتا ہے۔ آگے تَعْلَمُوْنَ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہ فعل امر ہے۔ اگر یَعْلَمُوْنَ آتا تو پھر اسے فعل ماضی مانا جاتا۔
ترجمہ:
وَقَالَ اللہُ : اور کہا اللہ نے
لَا تَتَّخِذُوْٓا : تم لوگ مت بنائو
اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ : دو الٰہ
اِنَّمَا ہُوَ :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ وہ
اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ :واحد الٰہ ہے
فَاِ یَّایَ: پس صرف مجھ سے ہی
فَارْہَبُوْنِ:پھر خوف کرو میرا
وَلَہٗ مَا :اور اُسی کا ہے وہ جو
فِی السَّمٰوٰتِ :آسمانوں میں ہے
وَالْاَرْضِ :اور زمین میں ہے
وَلَہُ :اور اُسی کےلیے ہے
الدِّیْنُ :مکمل نظامِ حیات
وَاصِبًا :لازمی ہوتے ہوئے
اَفَغَیْرَ اللہِ:تو کیا اللہ کے علاوہ(کسی) سے
تَتَّقُوْنَ:تم لوگ ڈرتے ہو
وَمَا بِکُمْ:اور جو تمہارے لیے ہے
مِّنْ نِّعْمَۃٍ :کوئی بھی نعمت
فَمِنَ اللہِ:تو (وہ) اللہ (کے پاس) سے ہے
ثُمَّ اِذَا :پھر جب بھی
مَسَّکُمُ:چھوتی ہے تمہیں
الضُّرُّ : سختی
فَاِلَـیْہِ:تو اس کی طرف ہی
تَجْئَرُوْنَ : تم لوگ گڑگڑاتے ہو
ثُمَّ اِذَا:پھر جب کبھی
کَشَفَ الضُّرَّ :وہ ہٹا تا ہے سختی کو
عَنْکُمْ:تم لوگوں سے
اِذَا فَرِیْقٌ :تب ہی ایک فریق
مِّنْکُمْ :تم میں سے
بِرَبِّہِمْ :اپنے ربّ کے ساتھ
یُشْرِکُوْنَ:شریک ٹھہراتے ہیں
لِیَکْفُرُوْا:نتیجتاً وہ ناشکری کرتے ہیں
بِمَآ اٰتَیْنٰہُمْ:اس کی جو ہم نے دیا ان کو
فَتَمَتَّعُوْا:تو تم لوگ فائدہ اٹھالو
فَسَوْفَ :پھرعنقریب
تَعْلَمُوْنَ :تم لوگ جان لو گے
وَیَجْعَلُوْنَ :اور وہ بناتے ہیں
لِمَا :اس کے لیے جس کا
لَا یَعْلَمُوْنَ :وہ لوگ علم نہیں رکھتے
نَصِیْبًا مِّمَّا :ایک حصہ اس میں سے جو
رَزَقْنٰـہُمْ:ہم نے روزی دی ان کو
تَاللہِ :اللہ کی قسم
لَتُسْئَلُنَّ :تم لوگوں سے لازماً پوچھا جائے گا
عَمَّا :اس کے بارے میں جو
کُنْتُمْ تَفْتَرُوْنَ:تم لوگ گھڑا کرتے تھے
نوٹ: آیت۵۶ میں ’’ لَا یَعْلَمُوْنَ‘‘ کے حقیقی مفہوم تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ذہن میں کچھ باتیں واضح ہونا ضروری ہیں۔ مادہ ’’ ع ل م‘‘ سے مختلف اسماء و افعال قرآن مجید میں بکثرت استعمال ہوئے ہیں اور یہ زیادہ تر لغوی مفہوم کے بجائے اصطلاحی مفہوم میں استعمال ہوئے ہیں۔ قرآن کی اصطلاح میں ’’ علم‘‘ ایسی معلومات کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ سے اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام کو دی ہوں۔ جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:{وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَاۗءَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَاجَاۗءَکَ مِنَ الْعِلْمِ}(البقرۃ:۱۴۵) ’’ اور اگر آپؐ نے پیروی کی ان لوگوں کی خواہشات کی اس کے بعد کہ جو آپؐ کے پاس آیا علم میں سے۔‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رسل علیہم السلام کو جو کچھ بتایا ہے اور بتانا ہے اس میں سے کچھ آیا ہے ‘باقی ابھی آنا ہے۔
اسی طرح سے قرآن میں جہاں کہیں علم کی نفی آئی ہے بالعموم وہاں مطلب یہ ہے کہ کوئی ایسی بات جس کی کوئی سند سابقہ انبیاء و رسل علیہم السلام کی تعلیمات میں اور رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات یعنی قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو۔ جیسے فرمایا: {وَلَا تَقْفُ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ ط }(بنی اسرائیل:۳۶) ’’ اور تو پیچھے مت پڑ اس کے تیرے لیے جس کا کوئی علم نہیں ہے۔‘‘{ وَاِنْ جَاہَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ لا فَلَا تُطِعْہُمَا} (لقمٰن:۱۵) ’’ اور اگر وہ دونوں یعنی والدین تجھ سے جہاد کریں اس پر کہ تُو شریک ٹھہرائے میرے لیے‘ نہیں ہے تیرے لیے جس کا کوئی علم‘ تو ان کی اطاعت مت کر۔‘‘ یہ اور ایسے متعدد مقامات پر علم نہ ہونے کا مطلب ہے قرآن و حدیث میں سند نہ ہونا۔
واضح رہے کہ قرآن مجید میں بعض مقامات پر یہ لفظ اصطلاحی کے بجائے لغوی مفہوم میں بھی آیا ہے۔ جیسے قارون کا قول نقل کرتے ہوئے فرمایا : {اِنَّمَآ اُوْتِیْتُہٗ عَلٰی عِلْمٍ عِنْدِیْ ط }(القصص:۷۸) ’’کچھ نہیں سوائے اس کے کہ مجھے ملا ہے یہ ایک علم کی بنیاد پر جو میرے پاس ہے۔‘‘ یہاں علم کا مطلب ہے تجربہ اور مہارت یعنی ہنرمندی۔ کوئی اگر آیت کے سیاق و سباق کو نظر میں رکھے تو وہ آسانی سے تمیز کرسکتا ہے کہ کہاں یہ لفظ لغوی مفہوم میں آیا ہے۔
اس لحاظ سے آیت۵۶ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ انسان شکرانے‘ نذرونیاز اور چڑھاوے میں غیر اللہ کے لیے جو حصہ مقرر کر لیتا ہے‘ ان ہستیوں کے وجود اور صفات کی اس کے پاس قرآن و حدیث میں کوئی سند نہیں ہے۔
آیات ۵۷ تا ۶۲{ وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ الْبَنٰتِ سُبْحٰنَہٗ لا وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ(۵۷) وَاِذَا بُشِّرَ اَحَدُہُمْ بِالْاُنْثٰی ظَلَّ وَجْہُہٗ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ(۵۸) یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْٓ ئِ مَا بُشِّرَ بِہٖ ط اَیُمْسِکُہٗ عَلٰی ہُوْنٍ اَمْ یَدُسُّہٗ فِی التُّرَابِ ط اَلَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ (۵۹) لِلَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ مَثَلُ السَّوْئِ ج وَلِلہِ الْمَثَلُ الْاَعْلٰی ط وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ(۶۰) وَلَوْ یُـؤَاخِذُ اللہُ النَّاسَ بِظُلْمِہِمْ مَّا تَرَکَ عَلَیْہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰـکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج فَاِذَاجَآئَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ(۶۱) وَیَجْعَلُوْنَ لِلہِ مَا یَکْرَہُوْنَ وَتَصِفُ اَلْسِنَتُہُمُ الْکَذِبَ اَنَّ لَہُمُ الْحُسْنٰی ط لَاجَرَمَ اَنَّ لَہُمُ النَّارَ وَاَ نَّہُمْ مُّفْرَطُوْنَ (۶۲) }
د س س
دَسَّ یَدُسُّ(ن) دَسًّا: کسی چیز کو کسی چیز کے نیچے چھپا دینا۔ کسی چیز میں ٹھونس دینا۔ زیر مطالعہ آیت۵۹۔
ترجمہ:
وَیَجْعَلُوْنَ :اور وہ لوگ بناتے ہیں
لِلہِ : اللہ کے لیے
الْبَنٰتِ :بیٹیاں
سُبْحٰنَہٗ:پاکیزگی اس کی ہے
وَلَہُمْ : اور ان کے لیے
مَّا یَشْتَہُوْنَ:وہ ہے جو وہ چاہتے ہیں
وَاِذَا :اور جب کبھی
بُشِّرَ :خوشخبری دی جاتی ہے
اَحَدُہُمْ :ان کے کسی ایک کو
بِالْاُنْثٰی :مؤنث (یعنی بیٹی) کی
ظَلَّ :تو ہوجاتا ہے
وَجْہُہٗ:اس کا چہرہ
مُسْوَدًّا :سیاہ
وَّہُوَ :اور وہ
کَظِیْمٌ:غم زدہ ہے
یَتَوَارٰی : وہ چھپتا ہے
مِنَ الْقَوْمِ :لوگوں سے
مِنْ سُوْٓ ئِ مَا :اس کی برائی (کےسبب )سے
بُشِّرَ بِہٖ :اس کو خوشخبری دی گئی جس کی
اَیُمْسِکُہٗ:چاہے وہ تھام لے اس کو
عَلٰی ہُوْنٍ :رسوائی کے باوجود
اَمْ یَدُسُّہٗ :یا وہ دھنسا دے اس کو
فِی التُّرَابِ : مٹی میں
اَلَا سَآئَ :خبردار کتنا برا ہے
مَا یَحْکُمُوْنَ :وہ جو یہ لوگ فیصلہ کرتے ہیں
لِلَّذِیْنَ :ان کے لیے جو
لَا یُؤْمِنُوْنَ :ایمان نہیں لاتے
بِالْاٰخِرَۃِ :آخرت پر
مَثَلُ السَّوْئِ :برائی کی مثال ہے
وَلِلہِ :اور اللہ کے لیے
الْمَثَلُ الْاَعْلٰی:بلند ترین مثال ہے
وَہُوَ : اور و ہی
الْعَزِیْزُ :بالادست ہے
الْحَکِیْمُ:حکمت والا ہے
وَلَوْ یُـؤَاخِذُ :اور اگر پکڑے
اللہُ:اللہ
النَّاسَ :لوگوں کو
بِظُلْمِہِمْ: ان ظلم کے سبب سے
مَّا تَرَکَ :تو وہ نہ چھوڑے
عَلَیْہَا :اس (زمین) پر
مِنْ دَآبَّۃٍ : کوئی بھی چلنے والا
وَّلٰـکِنْ :اور لیکن
یُّؤَخِّرُہُمْ :وہ مہلت دیتا ہے ان کو
اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی: ایک معیّن مدّت تک
فَاِذَا جَآئَ :پھر جب آ جائے
اَجَلُہُمْ:ان کا وقت
لَایَسْتَاْخِرُوْنَ:تو وہ لوگ پیچھے نہیںہوں گے
سَاعَۃً :ایک گھڑی(لمحہ) بھر
وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ : اور نہ ہی آگے ہوں گے
وَیَجْعَلُوْنَ :اور وہ بناتے ہیں
لِلہِ :اللہ کے لیے
مَا :وہ جس کو
یَکْرَہُوْنَ : یہ لوگ (خود)ناپسند کرتے ہیں
وَتَصِفُ : اور بیان کرتی ہیں
اَلْسِنَتُہُمُ :ان کی زبانیں
الْکَذِبَ :جھوٹ
اَنَّ لَہُمُ :کہ ان کے لیے ہے
الْحُسْنٰی : بہترین
لَاجَرَمَ : کوئی شک نہیں
اَنَّ لَہُمُ :کہ ان کے لیے
النَّارَ : آگ ہے
وَاَ نَّہُمْ :اور یہ کہ وہ لوگ
مُّفْرَطُوْنَ :زیادہ کیے جانے والے ہیں
نوٹ:تفسیر ’’روح البیان‘‘میں ہے کہ مسلمان کو چاہیے کہ لڑکی پیدا ہونے پر لڑکے سے زیادہ خوشی کا اظہار کرے تاکہ اہل جاہلیت کے فعل پر ردّ ہو جائے۔ ایک حدیث میں ہے کہ وہ عورت مبارک ہوتی ہے جس کے پہلے پیٹ سے لڑکی پیدا ہو۔سورۃالشوریٰ کی آیت۴۹ میں بیٹوں سے پہلے بیٹیوں کا ذکر کرنے سے اس کی طرف اشارہ پایا جاتا ہے کہ پہلے لڑکی پیدا ہونا افضل ہے۔ (معارف القرآن)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025