تعارف و تبصرہتبصرہ نگار: حافظ خالد محمود خضر
نام کتاب:لغات و اعراب قرآن کی روشنی میں
ترجمہ قرآن کی لغوی و نحوی بنیادیں
تالیف:پروفیسر حافظ احمد یارؒ
اہتمام طباعت:ڈاکٹر نعم العبد بن حافظ احمد یارؒ
ناشر: الفیصل‘ ناشران و تاجرانِ کتب‘ غزنی سٹریٹ‘ اردو بازار‘ لاہور
صفحات:۱۲۱۸‘قیمت:۳۰۰۰ روپے
ملنے کا پتہ : مکتبہ خدام القرآن‘ 36-K ماڈل ٹائون لاہور ‘ فون:03011115348
استاذِ مکرم پروفیسر حافظ احمد یار رحمہ اللہ تعالیٰ کا متعلّم ہونا اور اُن کی تدریس سے فیض یاب ہونا میری زندگی کی خوبصورت یادوں میں سے ہے۔ آج اس کا تذکرہ گویا عمرِ رفتہ کو آواز دینے کے مترادف ہے۔یہ چالیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں ۱۹۸۴ء میں قرآن اکیڈمی لاہور کی فیلو شپ سکیم سے وابستہ ہوا تھا۔ انہی دنوں محترم حافظ صاحبؒ پنجاب یونیورسٹی سے ریٹائرمنٹ کے بعد قرآن اکیڈمی میں بحیثیت استاد تشریف لے آئے تھے۔ چنانچہ قرآن اکیڈمی کے دوسالہ کورس میں حافظ صاحب ؒ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا موقع ملا۔اس کلاس میں مدارسِ عربیہ کی طرح فرشی نشست کا اہتمام ہوتا تھا۔ حافظ صاحبؒ محترم کے دو پیریڈ مسلسل ہوتے تھے‘ جن میں پہلے سال کے دوران ہمیں عربی صرف ونحو کا وہ نصاب پڑھایا گیا جو ترجمہ قرآن میں لغات اور اعراب کی بحث سمجھنے کے لیے ضروری ہے۔ مدارس عربیہ کے برعکس حافظ صاحبؒ نے تدریس کا آغاز ’’نحو‘‘ سے کیا اور اسم کی اعرابی حالتوں (رفع‘ نصب‘ جر) سے روشناس کرایا۔ اگرچہ اس سے قبل میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے بنیادی عربی کورسز کر چکا تھا‘ لیکن ’’اِعراب‘‘ سے متعلق تصورات حافظ صاحب کی تدریس ہی سے واضح ہوئے ۔ قرآن اکیڈمی کے رجوع الی القرآن کورس کے طلبہ کو ’’اِعراب‘‘ کا یہ conceptبہت اچھی طرح واضح کرا دیا جاتا ہے ورنہ اکثر مدرّسین تک کو معلوم نہیں ہوتا کہ ’’اعراب‘‘ کس بلا کا نام ہے۔ وہ تو فقط ضمہ‘ فتحہ اور کسرہ (پیش‘ زبر اور زیر ) ہی کو اعراب سمجھ کر اسی کی تدریس کر رہے ہوتے ہیں۔بعض حضرات کو تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ رفع‘ نصب‘ جر اسم کی ہوتی ہے یا فعل کی! بہرحال لغات اور اعراب کی بحث سمجھنے کے لیے ایک خاص سطح تک عربی صرف ونحو کے قواعد سے جو واقفیت ضروری ہے وہ ہمیں محترم حافظ صاحبؒ کی سال بھر کی تدریس سے حاصل ہوئی۔
دوسرے سال میں استاذِ مکرمؒ نے ہمیں پورے قرآن کریم کا ترجمہ صرفی و نحوی تحلیل اور لغات و اعراب کے حوالے سے پڑھایا۔ ہمارے سیشن (۱۹۸۴۔۸۶ء) کے بعد ’’دو سالہ کورس‘‘ کے کئی سیشنز میں بھی حافظ صاحبؒ نے ترجمہ قرآن کی تدریس کا یہی انداز جاری رکھا۔ حافظ صاحبؒ کا کہنا تھا کہ یہ تجربہ غالباً صرف قرآن اکیڈمی ہی میں کیا گیا ہے‘ ورنہ عربی جاننے والوں میں سے بھی بہت کم لوگ ایسے ملیں گے جنہوں نے کبھی پورے قرآن کریم کا مطالعہ لغات واعراب کے ساتھ کیا ہو‘ اور اس میں یونیورسٹی اور درسِ نظامی کے فاضلین کا حال یکساں ہے۔میں نے جب ڈاکٹر اسرار احمدؒ کے دورئہ ترجمہ قرآن کو مدوّن کر کے تفسیر ’’بیان القرآن‘‘ کی صو رت میں ڈھالنے کا کام کیا تو لغات و اعراب قرآن کے حوالے سے حافظ صاحب ؒ سے پڑھے ہوئے ترجمہ قرآن نے میری بہت راہنمائی کی۔
حافظ صاحب ؒ نے اپنی تالیف ’’لغات واعرابِ قرآن کی روشنی میں ترجمہ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیادیں‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے:
’’حقیقت یہ ہے کہ یہی دو امور ’’لغات و اعراب‘‘ ہی ترجمہ قرآن یا براہ راست فہم قرآن کی بنیاد اور جان ہیں۔ اس کے ذریعے ہی:
۱) یہ پتہ چل سکتا ہے کہ کس مترجم نے کن لُغوی معنوں کو ترجیح دی ہے۔
۲) یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کس مترجم نے ترکیب نحوی میں کس چیز کو ملحوظ رکھا ہے۔
۳)اس بات کی نشان دہی ممکن ہے کہ کسی مترجم نے کہاں اور کس نوعیت کی غلطی کی ہے۔اس غلطی کا معمولی یا سنگین ہونا‘ اور دانستہ یانادانستہ ہونا ایک اضافی بات ہے۔
۴)کسی مترجم کے الفاظِ ترجمہ کے انتخاب میں غلطی یا درستی سامنے آتی ہے۔ پھر یہ کہ خوب اور خوب تر کا فرق بھی واضح اور نمایاں ہو جاتا ہے۔‘‘
چنانچہ ترجمہ قرآن کی تدریس کے دوران طلبہ مختلف اردو تراجم سامنے رکھتے اور ساتھ ساتھ ان کا تقابلی مطالعہ بھی کیا جاتا۔جس ترجمہ میں ان لغوی اور نحوی بنیادوں سے انحراف پایا جاتا ‘اس پر حافظ صاحبؒ گرفت فرماتے۔ اس ضمن میں غلام احمد پرویز کا ترجمہ خاص طورپر زیر ِعتاب رہتا۔ بعض اوقات تو حافظ صاحبؒ اس کی علمی خیانت پر قہقہہ بھی لگاتے(اور کبھی کبھی حسب ِ حال پنجابی کا کوئی لطیفہ بھی سنا دیتے)۔
قرآن اکیڈمی میں ترجمہ قرآن کی اس تدریس سے ہی حافظ صاحب ؒ نے ایک کتاب لکھنے کا ارادہ فرمایا جس میں ’’لغات واعرابِ قرآن‘‘ کی روشنی میں ’’ترجمہ قرآن کی لغوی اور نحوی بنیادیں‘‘ واضح کرنے کے لیے کلاس میں کیے گیے اجمالی کام کی تفصیل آجائے۔ چنانچہ ۱۹۸۸ء میں انہوں نے ’’لغات و اعرابِ قرآن‘‘ کے مباحث بڑی تفصیل سے تحریر کرنے شروع کیے اور ان کے ساتھ ’’الرسم‘‘ اور ’’الضبط‘‘ کا اضافہ فرمایا۔ قرآنی الفاظ کے رسم املائی اور رسم عثمانی کا فرق واضح کیا۔ دنیا بھر میں قرآنی مصاحف میں ضبط یعنی حرکات لگانے کے جو مختلف انداز اپنائے جاتے ہیں ‘ان کا فرق بھی دکھایا۔ حافظ صاحب ؒ کی ذاتی لائبریری میں دنیا کے مختلف ممالک میں شائع ہونے والے قرآنی مصاحف موجود تھے اور وہ ان میں ضبط کا فرق واضح کرنے کے لیے مختلف مصاحف میں سے الفاظ نقل کرتے تھے۔
ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں ان گراں قدر مباحث کی اشاعت کا آغاز جنوری ۱۹۸۹ء کے شمارے سے ہوا۔ جریدے کا معاون مدیر ہونے کی حیثیت سے مجھے اس سلسلۂ مباحث کی کتابت‘ پروف خوانی اور تصحیح کے تمام تر کام کی نگرانی کا شرف بھی حاصل ہوا۔ حافظ صاحب محترم نے اپنی علالت کے باعث جب قرآن اکیڈمی میں تدریس سے معذرت کر لی تب بھی گھر پر ’’لغات و اعراب قرآن‘‘ کی تالیف کا کام جاری رکھا‘ لیکن اپنی حیاتِ مستعار میں اس گراں مایہ سلسلہ کو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۱۰ تک ہی پہنچا پائے۔ ماہنامہ ’’حکمت قرآن‘‘ میں اس سلسلۂ مباحث کی آخری قسط جولائی ۱۹۹۸ء میں شائع ہوئی۔ گویا اللغۃ ‘الاعراب‘ الرسم اور الضبط کے مباحث پر مشتمل یہ انمول سلسلۂ تالیف مسلسل دس برس تک ماہنامہ’’ حکمت قرآن‘‘ کے صفحات کی زینت بنتا رہا۔
حافظ صاحبؒ کے فرزند ارجمند جناب ڈاکٹر نعم العبد نے کئی سال کی محنت شاقہ کے بعد اس بے مثل قرآنی خدمت کو کتابی صورت میں شائع کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ لغات و اعرابِ قرآن پر حافظ صاحب رحمہ اللہ نے جس علمی انداز میں یہ کام کیا ہے اس کی مثال اردو زبان تو کجا خود عربی میں بھی موجود نہیں ہے۔ وآخر دعوانا ان الحمد للّٰہ ربّ العالمینoo
(اتوار ۲۲ دسمبر ۲۰۲۴ء کو کتاب کی تعارفی نشست منعقدہ قرآن آڈیٹوریم لاہور میں پڑھا گیا۔)
(۲)
نام کتاب:علم اور اہل ِعلم
تالیف:مولانا حافظ محمدطاہر حافظ بشیر (سعودی عرب)
ترجمہ و ترتیب:مولانا محمد شفیق الرحمٰن علوی (اُستاد جامعہ علوم اسلامیہ‘ بنوری ٹائون‘ کراچی)
طابع : مکتبہ علوی‘ کراچی رابطہ نمبر:03352102186
اللہ تعالیٰ نے علم کی بنیاد پر ہی نوعِ انسانی کو اپنی تمام مخلوقات پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق کے موقع پر علم الاشیاء کی بنیاد پر ہی آپؑ تمام مخلوقات پر افضل ٹھہرے اور فرشتوں کے سجدے کے حق دار ہوئے۔ گویا انسان حقیقتاً اشرف المخلوقات تبھی ٹھہرتا ہے جب وہ صاحب ِعلم ہو اور علم کے مقام و مرتبہ کو سمجھتا ہو۔ چنانچہ فرمانِ الٰہی ہے : {قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ط}(الزمر:۹)’’ (اے نبی ﷺ!) فرما دیجیے:کیا جاننے والے (علم رکھنے والے) اور نہ جانے والے (علم نہ رکھنے والے) برابر ہوسکتے ہیں؟‘‘ایک حدیث ِنبویؐ کے مطابق: ((طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ)) علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔ حضورﷺ کا یہ بھی ارشاد ہے: ((اَلْعِلْمُ نُوْرٌ)) یعنی علم روشنی (نور) ہے۔ یہ علم ہی کی روشنی ہوتی ہے جو جہالت کی تاریکیوں کو دور کر دیتی ہے اور پھر منزل واضح ہونے لگتی ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص حقیقی علم سے دور اور جہالت میں غرق ہے تو وہ انسان تو کیا ‘ حیوانوں سے بھی بدتر ہے۔
اصل عربی کتاب ’’طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ‘‘ کی چودہ فصلیں ہیں اور ہر فصل میں متعلقہ موضوع پر آیات و احادیث جمع کی گئی ہیں ۔ یہ ساڑھے تین سو صفحات پر محیط ہے۔مترجم نے طوالت سے بچنے کے لیے تکرار اور تشریح کو حذف کر کے منتخب آیات و احادیث کا ترجمہ کیا ہے۔ گویا ایک طرح سے یہ اصل کتاب کا خلاصہ ہے۔ قارئین کی سہولت کے لیے ہر آیت و حدیث کو عنوان بھی دے دیا گیا ہے۔ اس میں سے کچھ جواہر ریزے آپ بھی ملاحظہ کریں:
نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لیے سورۃ الروم میں ارشادِ ربانی ہے :
{ بَلِ اتَّبَعَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْٓا اَہْوَآئَ ہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ج فَمَنْ یَّہْدِیْ مَنْ اَضَلَّ اللہُ ط وَمَا لَہُمْ مِّنْ نّٰصِرِیْنَ(۲۹)}
’’مگر جو لوگ ظالم ہیں‘ بے سمجھے اپنی خواہشات کے پیچھے چلتے ہیں۔تو جس کو اللہ تعالیٰ گمراہ کرے اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اور ان (جیسے لوگوں) کا کوئی مددگار نہیں۔‘‘
حق کی پہچان اہل ِعلم ہی کر سکتے ہیں۔ سورئہ سبا میں فرمانِ الٰہی ہے:
{وَیَرَی الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ہُوَ الْحَقَّ لا وَیَہْدِیْٓ اِلٰی صِرَاطِ الْعَزِیْزِ الْحَمِیْدِ(۶) }
’’اور (تاکہ) دیکھ لیں وہ لوگ جنہیں علم دیا گیا ہے کہ جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے‘ وہ (سراسر) حق ہے‘ اوروہ راہنمائی کرتا ہے نہایت غالب‘ لائق ِ حمد وثنا ہستی کے راستے کی طرف۔‘‘
قرآن و سُنّت کی پیروی ہی گمراہی سے بچنے کا واحد ذریعہ ہے ۔ سورئہ طٰہٰ میں ارشاد الٰہی ہے:
{فَمَنِ اتَّبَعَ ہُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی(۱۲۳) }
’’تو جو شخص میری ہدایت (قرآن) کی پیروی کرے گا‘ وہ نہ گمراہ ہو گا اور نہ ہی تکلیف میں پڑے گا۔‘‘
قرآن کی اہم صفات کے حوالے سے بیہقی میں فرمانِ نبویؐ ہے:
((اَلْقُرْآنُ ھُوَ النُّوْرُ الْمُبِیْنُ وَالذِّکْرُ الْحَکِیْمُ وَالصِّرَاطُ الْمُسْتَقِیْمُ))
’’قرآن تو واضح روشنی ہے‘ اور حکمت بھرا ذکر ہے‘ اور سیدھا راستہ ہے۔‘‘
اسی طرح ترمذی میں حدیث ِرسول ؐہے:
((اِنَّمَا اَخَافُ عَلٰی اُمَّتِی الْاَئِمَّۃَ الْمُضلِّیْنَ، وَلَاتَزَالُ طَائِفَۃٌ مِنْ اُمَّتِیْ عَلَی الْحَقِّ ظَاھِرِیْنَ لَا یَضُرُّھُمْ مَنْ خَذَلَھُمْ حَتّٰی یَاْتِیَ اَمْرُ اللّٰہِ))
’’مَیں اپنی اُمّت پر گمراہ کن اماموں (حکام یا علماء) سے ڈرتا ہوں ‘اور میری اُمّت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم اور غالب رہے گی‘ ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں گے‘ یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آ جائے۔‘‘
موطا امام مالک میں حدیث ِنبوی ؐہے‘رسول اللہﷺ نے فرمایا:
((تَرَکْتُ فِیْکُمْ اَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابَ اللّٰہِ وَسُنَّۃَ رَسُوْلِہٖ))
’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں‘اگر تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے: اللہ کی کتاب اور اُس کے نبی کی سُنّت۔‘‘
((مَنْ کَانَ فِیْ طَلَبِ الْعِلْمِ کَانَتِ الْجَنَّۃُ فِیْ طَلَبِہٖ وَمَنْ کَانَ فِیْ طَلَبِ الْمَعْصِیَۃِ کَانَتِ النَّارُ فِیْ طَلَبِہ)) (کنزالعمال)
’’جو شخص علم کی طلب میں مشغول رہتا ہے‘ جنت اس کی تلاش میں رہتی ہے اور جو شخص گناہ کی طلب میں مشغول رہتا ہے‘ جہنم اس کی تلاش میں رہتی ہے۔‘‘
((وَالْعُلَمَاءُ وَرَثَۃُ الْاَنْبِیَاءِ))
’’اور علماء ‘انبیاء کے وارث ہیں۔‘‘
((وَالْقُرْآنُ حُجَّۃٌ لَکَ اَوْ عَلَیْکَ))
’’قرآن‘ تمہارے حق میں حجت ہے یا تمہارے خلاف حجت ہے۔‘‘
((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ)) (صحیح البخاری)
’’تم میں بہترین وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔‘‘
((وَمَن سَلَّم عَلٰی صَاحِبِ بِدْعَۃٍ اَوْ لقیہ بِالبشر وَاسْتقبلہ بِمَا یسرہ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِمَا اُنْزلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ )) (المصنف لابن ابی شیبہ)
’’اور جس نے کسی بدعتی کو سلام کیا یا اس سے خندہ پیشانی سے ملاقات کی اور اس کا اس طرح استقبال کیا جس سے وہ خوش ہو گیا تو اس نے (گویا) محمد(ﷺ) پر نازل ہونے والی وحی کو حقیر سمجھا۔‘‘
یہ کتاب کسی بھی لائبریری کی قدر و منزلت میں بنیادی کردار اد ا کرے گی ۔ہر مسلمان کو اسے ضرور پڑھنا چاہیے کہ وہ اس سے نفع اٹھانے کا حق دار بن جائے ۔ احباب کو تحفہ میںدینے کے لیے بہترین شے ہے۔ کتاب مجلد ہے۔ عمدہ کوالٹی کے کاغذ کا انتخاب کیا گیا ہے۔
(تبصرہ نگار: پروفیسرحافظ قاسم رضوان)
(۳)
نام کتاب:شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم حقانی : حیات وخدمات (۲جلد)
تالیف وترتیب:مولانا عماد الدین محمود
صفحات : قریباً1400 ‘ قیمت : درج نہیں
ناشر : مؤتمر المصنفین‘ جامعہ دار العلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک ضلع نوشہرہ
دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے علمی و دینی مجلہ ماہنامہ ’’الحق‘‘ کی اشاعت خصوصی بعنوان ’’شیخ الحدیث مولانا عبدالقیوم حقانی حیات و خدمات ‘‘ دو ضخیم جلدوں میں طبع ہوئی ہے اور اس وقت میرے زیرنظر ہے۔ اس میں مولانا عبدالقیوم حقانی حفظہ اللہ کی حیات اور ان کی عظیم خدمات کو بڑے ہی دلچسپ اور حسین پیرائے میں سمویا گیا ہے۔ قاری کی دلچسپی اور تجسس من اولہ الی آخرہ بڑھتی ہی جاتی ہے۔ مولانا اپنی ذات میں ایک انجمن یا یوں کہیں کہ ایک اکیڈمی ہیں۔ آپ کی زندگی کے مختلف پہلو ہیں جنہیں ان ضخیم جلدوں میں سمویا گیا ہے۔ یہ ایک فرد کی سوانح عمری ہےجو کہ خود اس کی حیات میں طبع ہو گئی ہے۔ ورنہ ہماری ریت تو یہ رہی کہ زندوں کی زندگی میں قدر نہیں کرتے‘ ہاں وفات پا جانے کےبعد ضرور ان کے کارناموں کے قصیدے لکھے اور پڑھے جاتے ہیں۔
کتاب کو پندرہ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے:
باب۱: پیدائش‘ خاندانی حالات‘ ابتدائی تعلیم و تربیت
باب۲: بچپن کی یادیں‘ تحصیل و تکمیل علم باب۳: اساتذہ کرام
باب۴: آغاز تدریس‘ محدثانہ خدمات کتب حدیث کی شروحات و مطبوعات
باب۵: ذوق مطالعہ‘ تصنیف و تالیف باب۶: جامعہ ابوہریرہ
باب۷: مواعظ و خطبات باب۸: ذوق شعر و ادب
باب۹: تعلق بالقرآن‘ تصوف و سلوک باب۱۰: شخصیت و کردار
باب۱۱: عقیدتوں کا سفر باب ۱۲: جہاد افغانستان میں مجاہدانہ کردار
باب۱۳: مکتوبات حقانی باب۱۴: اکابر کی نظر میں
باب : خوان یغما
اس اشاعت خصوصی کے بارے میں رسالہ کے مدیر اعلیٰ مولانا راشد الحق سمیع صاحب تحریر فرماتے ہیں:
’’حضرت مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب مدّظلہم کے علمی‘ ادبی‘ تصنیفی اور تخلیقی کارناموں کی دنیا معترف ہے اور دین کے ہر شعبہ میں آپ کی مساعی جمیلہ نمایاں نظر آتی ہیں۔ راقم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے استاد جی کو دادا جانؒ اور ابا جان شہیدؒ کے مقرب‘ قریب اور خدمت کرتے دیکھا۔آپ کی ہر تحریر ‘ہر تقریر اور ہر مجلس میں دار العلوم حقانیہ‘ شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالحق ؒاور مولانا سمیع الحق شہیدؒ کا ذکر خیر ضرور ہوتا ہے۔ یہ اشاعت خصوصی درحقیقت اپنے محسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک ادنیٰ سی کاوش ہے۔ امید ہے یہ کتاب علماء‘ طلبہ اور عامۃ الناس کے لیے ایک لائحۂ عمل اور شخصیت و کردار کا مظہر ثابت ہو گی۔‘‘
مولانا انوار الحق صاحب بن مولانا شیخ الحدیث عبدالحقؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’آپ کی خوبیوں کی بنا پر والدی الکریمؒ اور برادر مکرمؒ نے آپ کا جامعہ حقانیہ میں بحیثیت مدرّس و مصنف تقرر فرمایا کہ وہ اس قطرہ کو مستقبل میں شناس نگاہوں سے گہرہوتے دیکھ رہے تھے۔ مجھے بے اختیار کہنا پڑتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جامعہ حقانیہ کا ترجمان اور مادر علمی کی زبان بنا دیا ہے۔‘‘
مولانا عبدالقیوم حقانی اپنے اساتذہ کرام اور شیوخ کےبارے میں کچھ اس طرح فرماتے ہیں:
’’ہمارے حقانی شیوخ کے اندر بے شمار کمالات تھے۔ اخلاق‘ تواضع‘ اور سادگی ان کے جبلی اوصاف تھے۔ اپنے کام‘ ذمہ داریوں اور فرائض کی ادائیگی کے لیے بے حد حساس لگتے تھے۔ ہر کام کو اپنے وقت پر انجام دینا انہیں بہت اچھا لگتا تھا۔ وہ صرف کتاب نہیں فن پڑھا تے تھے۔ وہ مدرسہ کی زندگی کو تمام مشاغل سے مقدم رکھ کر اپنا فریضہ نبھاتے تھے۔ طلبہ کے علمی نقصان کاخوف انہیں سیاسی ہنگاموں سے دور رکھتا تھا۔ ان کی ذاتی زندگی بھی انفاسِ قدسی کا مرکب تھی۔ علم شریعت کے ساتھ ساتھ تصوف و طریقت سے بھی حظ وافر حاصل تھا۔ ان شخصیات کے مثبت پہلو کو دیکھ کر یہ شعر یاد آتا ہے ؎
کبھی چاند ہے کبھی پھول ہے‘ کبھی رنگ‘ کبھی نور ہے
یہ پتہ ہے ایک ہی شخص کا کسی نام سے بھی بلائیں ہماپنے شیخ حضرت شیخ الحدیث مولانا عبدالحق ؒ کے سراپے کی کچھ اس طرح منظر کشی کرتے ہیں:
’’باوقارسراپا‘ مجسم متانت اور پیکر شرافت‘ لباس انتہائی صاف ستھرا‘ سر پر عمامہ‘ نہایت سفید اور صاف‘ آنکھوں میں ایمان کا نور‘ چہرے پر علم و ذہانت کا اجالا دمکتا نظر آتا تھا ۔‘‘
آپ ؒ کے اوصاف کو ان لفظوں سے تعبیر کرتے ہیں:
’’معمولات کی پابندی و مشغولی‘ مطالعہ کتب‘ فکر ومراقبہ‘ تہجد و مناجات اور ریاضت شبانہ کے باوجود دن میں بڑی مستعدی‘ بیداری‘ ہر ایک کی طرف حسب حال پوری توجہ و التفات‘ اضیاف کی کثرت اور ان کا اکرام۔ درس و تدریس میںحیرت انگیز مباحث‘ اور علمی نکات اس شان سے بیان فرماتے کہ تھکاوٹ یا اکتاہٹ کا کوئی شائبہ بھی معلوم نہ ہوتا۔‘‘
مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب اپنے بارے میں تحریر فرماتے ہیں:
’’میں نے جامعہ حقانیہ میں درس و تدریس کے دوران جامعہ کو اپنا گھر سمجھا‘ مدرسہ کی ہر چیز کی حفاظت کو عبادت کا درجہ دیا‘ شیخ ؒ کی ہر ممکنہ خدمت کو سعادتِ دارین سمجھ کر انجام دیتا رہا۔ ان کے اشارئہ ابرو کو حکم کا درجہ دیتا رہا‘ ان کے حکم‘ مشورے اور اجازت کے بغیر کام کرنا میرے نزدیک گناہ کبیرہ سے کم نہ تھا۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ نے مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب کے دل و دماغ کو علوم دینیہ کے لیے کھول دیا ہے جس کی واضح مثال یہ ہے کہ آپ نے حدیث کی مشہور کتاب صحیح مسلم شریف کی سہل ترین‘ دلنشین تشریح ۲۳ جلدوں میں ’’شرح صحیح مسلم‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ اس ضخیم کتاب کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم تحریر فرماتے ہیں:
’’اس بحر عمیق میں داخل ہونے کی تو بندہ میں صلاحیت نہ تھی لیکن مختصراً ورق گردانی کی سعادت نصیب ہوئی اور بے ساختہ یہ مصرعہ خیال میں آیا ’’ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کند۔‘‘ دل سے دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ آپ کی اس عظیم کاوش کو شرف قبول عطا فرماکر نافع بنائیں اور یہ مفید خاص و عام ہو (آمین)۔‘‘
مولانا عبدالقیوم حقانی صاحب کی دوسری تالیف ’’حقائق السنن‘‘ کے بارے میں شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہم تحریر فرماتے ہیں:
’’ماشاء اللہ آپ کی تصنیف ’’حقائق السنن‘‘ آپ کی جہود مبارکہ کا ثمرئہ طیبہ بن کر سامنے آ چکی ہے۔ احقر اس سے استفادہ کر رہا ہے ۔ اس کا ذکر خیر ’’البلاغ‘‘ میں بھی کر دیا ہے۔ ماشاء اللہ آپ کا علمی ذوق حضرت شیخ الحدیث کی سر پرستی اور مولانا سمیع الحق صاحب کی نگرانی کام کے حسن کی ضمانت ہے ۔‘‘
مولانا کی اب تک قریباً اسّی (۸۰) کتب طبع ہو کر آچکی ہیں۔
مولانا عبد القیوم حقانی صاحب نے اپنے آپ کو جس طرح اپنے شیخؒ اور اکابرین حقانیہ کے مزاج و مذاق میں ڈھالنے کے لیے جتنے جتن کیے ہیں وہ آج کے طالب علموں کے لیے روشن مینار ہیں ۔یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب قطرہ سمندر میں غرق ہوتا ہے تو سمندر بن جاتا ہے اور ریت کا ذرہ جب صحرا میں دفن ہو جاتا ہے تو صحرا بن جاتا ہے ۔ یہی کچھ مولانا حقانی صاحب کے ساتھ ہوا ہے کہ وہ اور اکابرین حقانیہ و جامعہ حقانیہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں یا یہ کہیں کہ ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
کتاب کی طباعت و بائنڈنگ وغیرہ عمدہ ہے۔ ہاں کہیں کہیں پروف ریڈنگ کی کچھ غلطیاں رہ گئی ہیں۔ اس طرح تذکیر و تانیث کی بھی بعض جگہ غلطیاں ہیں۔ دلی دُعا ہے کہ یہ کتاب نافع خلائق ہو ۔ خصوصاً مدارسِ عربیہ کے طلبہ کو یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے تاکہ ان میں بھی جذبہ محرکہ پیدا ہو۔ (آمین!)
(تبصرہ نگار:مولانا شیخ رحیم الدین)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025