(تعلیم و تعلم) مباحث ِعقیدہ (۲۲) - مؤمن محمود

9 /

مباحث ِعقیدہ(۲۲)مؤمن محموداِلٰہیات‘ نبوات‘ سمعیات
الٰہیات کے باب میں پہلا عنوان الحمدللہ ہم نے مکمل کر لیا ۔ عقیدے کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا: الٰہیات‘ نبوات اور سمعیات۔ اِلٰہیات کے باب میں ہم تین چیزوں کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پہلی یہ کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں واجب صفات کون سی ہیں ۔دوسری ‘ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے مستحیل صفات یا نقائص کون سے ہیں۔ تیسری یہ کہ اللہ تعالیٰ کے حق میں جائز کیا ہے۔ جو کچھ بھی مطالعہ کیا جاتا ہے یا ہم اللہ تعالیٰ کے حق میں کچھ چیزوں کو واجب قرار دیتے ہیں وہ اَلل ٹپ نہیں ہوتیں بلکہ یہ دیکھا جاتا ہے کہ جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنا تعارف خالق ‘ مالک‘ ربّ اور معبود کے طور پہ کروایا ہے تو وہ کیا صفات ہیں کہ جن کے بغیر ربّ ربّ نہیں ہو سکتا‘ خالق خالق نہیں ہو سکتا‘ معبود معبود نہیں ہو سکتا۔وہ کون سی صفات ہیں کہ اگر خالق اور معبود میں پائی جائیں گی تو وہ خالق اور معبود نہیں رہے گا ۔وہ صفات اللہ تعالیٰ کے حق میں مستحیل کہلاتی ہیں۔ لہٰذا یہ تین عنوانات ہیں: مستحیلات‘ واجبات اور جائزات فی حق اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ اس ضمن میں ہم نے جو بات مکمل کر لی ہے وہ ایک اہم موضوع تھا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کن صفات کا اعتقاد رکھنا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے اور وہ کیا صفات ہیں کہ جن کو اگر ہم نہیں مانیں گے تو گویاربوبیت‘ اُلوہیت اور خدا کی ذات و صفات کو اس طریقے پر نہیں مان رہے جس طریقے پر رسولوں نے دعوت دی ہے۔ یہ عنوان اللہ کے فضل سے ہم مکمل کر چکے ہیں اور اس میں ہم نے وہ صفات دیکھ لیں۔ ایک صفتِ ذاتیہ ہے ‘پانچ صفاتِ سلبیہ ہیں اور سات یا آٹھ صفات ِمعنی ہیں۔ چنانچہ یہ موضوع مکمل ہوا۔
اعجاز القرآن
یہ بات کچھ زوردار طریقے سے بیان کی گئی تھی کہ قرآن مجید کا لفظ (text)فی نفسہٖ مقصود ہے ۔ قرآن کا لفظ اور معنی دونوں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور ہمیں قرآن مجید کے لفظ سے خصوصی تعلق قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے۔قرآن حکیم کی کرامات اور اس کے حیرت آفریں پہلوئوں پر جو نمایاں کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ایک بڑا نام قاضی ابوبکر الباقلانی ؒکی تصنیف ’’اعجاز القرآن‘‘ کا ہے۔ قاضی ابوبکر شاگرد تھے ابوحسن الباہلیؒ کے جن کے استاذ تھے ابو الحسن الاشعری ؒ۔ اس میں بھی مجھے اس بات کی تائید میں ایک لطیف نکتہ ملا۔ وہ فرماتے ہیں کہ پرانی کتابیں بھی اللہ کا کلام ہیں اور قرآن بھی اللہ کا کلام ہے لیکن پرانی کتابوں کے ذریعے تحدی یعنی چیلنج نہیں دیا گیا۔پرانی کتابوں کو معجزہ قرار نہیں دیا گیا‘ان کو معجز نہیں کہا گیا کہ جس طریقے پر قرآن مجید کو معجزہ کہا گیا ۔تو آخر بنیادی فرق کیا ہے؟ یعنی کلام اللہ تو وہ بھی ہے اور یہ بھی ہے لیکن یہ معجز ہے وہ معجز نہیں؟ فرق یہ ہے کہ اس میں جو صفت ِنفسی ہے وہ تو پہلی کتابوں میں بھی پائی جاتی ہے اور وہ تو معجز ہی معجز ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے جو معنی بیان کیے ہیں وہ معنی بشر نہیں لا سکتا‘ چاہے وہ تورات میں تھے چاہے انجیل میں ‘چاہے قرآن میں یا کسی بھی صحف ِقدیمہ میں جو اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ۔اس کلام سے مقابلہ کوئی بشر نہیں کر سکتا ان معنی کے اعتبار سے کہ جن معنی پر وہ الفاظ دلیل ہوتے ہیں۔ البتہ ان کا نظم ‘ان کا لفظ معجز نہیں تھا۔ یہ ایک عجیب بات ہےکہ اگر ہم صرف معنی پر زیادہ فوکس کریں گے تو پرانی کتابوں اور قرآن میں کوئی امتیاز نہیں ‘اس اعتبار سے کہ پرانی کتاب کے بھی معنی اسی طرح معجز ہیں جس طریقے پر اس کتاب کے معنی معجز ہیں۔ فرماتے ہیں اس میں اضافی شے جس کی بنیاد پر اسے معجزہ کہا گیا اور جس کی بنیاد پر قریش مکہ کو چیلنج کیا گیا وہ اس کا لفظ ہے ‘اس کا نظم ہے‘ اس کا معنی نہیں ہے ‘اگرچہ معنی فی نفسہ معجز تو ہے‘ اس میں کوئی شک نہیں ہے ۔ہدایت بھی اللہ کے کلام اور وحی کے سوا کہیں حاصل نہیں ہوگی لیکن قرآن کا اصل معجزہ اس کا لفظ ہے۔
یہاں بھی ایک اہم بات واضح ہوتی ہے کہ لفظ سے تعلق جوڑنے کی ضرورت کیا ہے کہ جس قرآن کو چیلنج کے ساتھ پیش کیا گیا ہے وہ اس کے معنی نہیں ہیں ۔اگرچہ وہ فی نفسہٖ معجزہ ہے لیکن چیلنج لفظ کا تھا کہ اس لفظ جیسا لفظ لا کے دکھا دو۔ پھر اس پر انہوں نے ایک اور بہت ہی خوبصورت بات کی جسے قرآن پڑھنے والے کو محسوس کرنا چاہیے کہ فرق کیا ہے۔ آپ اگر پرانی کتابیں سنتے تھے تو آپ اللہ کا کلام سن رہے تھے اور آپ قرآن سنتے ہیں تب بھی اللہ کا کلام سن رہے ہیں لیکن دونوں صورتوں میں فرق کیا ہے؟ فرق یہ ہے کہ اُس کا لفظ معجز نہیں ہے ‘اِس کا لفظ اور نظم دونوں معجز ہیں۔ جب آپ قرآن سنیں گے تو گویا آپ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے سن رہے ہیں جبکہ پرانی کتابوں میں یہ وصف نہیں تھا ۔جب آپ ان کی تلاوت کر رہے ہیں یا ان کو سن رہے ہیں تو یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ براہِ راست اللہ تعالیٰ سے سن رہے ہیں ‘کیونکہ اس کا لفظ اس اعتبار سے معجز نہیں ہے۔ فرماتے ہیں جس طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ کا کلام براہِ راست سنا‘ وہ ان کی خصوصیت ہے لہٰذا ہم یہ تو نہیں کہتے کہ وہی خصوصیت بدرجہ اتم ہر شخص کو حاصل ہو جائے گی لیکن ایک نوع کی خصوصیت یا ادنیٰ مشابہت ہر اس شخص کو حاصل ہو جاتی ہے کہ جو اللہ کا کلام سنتا ہے تو گویا وہ اللہ سے سن رہا ہے ‘کیونکہ اس کا لفظ اسی طریقے پر معجز ہے جس طریقے پر معنی معجز ہے۔
پھر قاضی ابوبکر الباقلانی علیہ الرحمہ اس کا مزید نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ جو صحیح طریقے پر قرآن سنے گا اور اس کا دل ہوائے نفس سے پاک ہوگا تو اسے فوراً بدیہی طور پر یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ۔ وہاں اسے استدلال کی ضرورت نہیں پڑتی کہ یہ اللہ کا کلام ہے یا نہیں۔ وہ کہتے ہیں اللہ کے کلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کو براہِ راست سنتے ہی بغیر غور و فکر کے فوری یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ کا کلام ہے ‘اور اصلاً قرآن کی خصوصیت یہی ہے۔ یعنی اگر انسانی دل پاک صاف ہوگا تو صرف اس کے لفظ کے اندر یہ اعجاز ہے (معنی کی بات نہیں ہورہی) کہ اس کو سننے والا ضروری علم حاصل کر لے گا کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔ چنانچہ واقعی محسوس ہوتا ہے کہ اس بات میں صداقت ہے اور قرآن مجید کے اندر یہ خصوصیت ہے۔ یہ بات قاضی ابوبکر علیہ الرحمہ نےشروع ہی میں بیان کی ہے ۔ اس سے اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے جو ہم نے بیان کی تھی کہ لفظ کی اہمیت کیا ہے ‘ لفظ سے جڑنے کی اہمیت کیا ہے اور لفظ کو صحیح پڑھنے اور سننے کی اہمیت کیا ہے !
زبان اور علوم لغت کا زوال
ہمارے ہاں بحیثیت مجموعی انسانوں کی زبان اور علومِ لغت زوال پزیر ہیں۔ یعنی اکثر لوگوں کو کوئی زبان صحیح طریقے پر نہیں آتی ۔ بہت سے لوگ ہیں کہ جو اپنی مادری زبان نہ جاننے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک ایسی ہی قوم پیدا ہو گئی ہے۔ لغت جاننا‘لغت کی گہرائی میں اُترنا تو بالکل مفقود ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ قرآن کے لفظ سے جڑنے کے لیے کم سے کم شرط اس کو صحیح پڑھنا ہے ‘اس کو صحیح پڑھنے سے آپ اس کے لفظ کے ساتھ جڑ جائیں گے لیکن مزید گہرائی میں جا کر دیکھنے کے لیے علم لغت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اب آپ کے سامنے قاضی ابوبکر الباقلانی علیہ الرحمہ کی شہادت بھی آگئی کہ لفظ کی کیا اہمیت ہے ۔ ہمارے ہاں اس وقت لفظ کو تھوڑا سا degrade ہی کیا جا رہا ہے ۔ سب کچھ معنی ہی کی دنیا ہے ‘افکار کی دنیا ہے۔ باقی قرآن سے سچا تعلق عموماً نصیب نہیں ہو رہا ہوتا‘ الاماشاءاللہ!
مستحیلات فی حق اللہ
الٰہیات کا دوسرا باب ہے مستحیلات فی حق اللہ ‘کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں کیا چیزیں ہیں جن کا نہ ماننا واجب ہے۔ یعنی ہم مانیں کہ یہ چیز اللہ کے حق میں پائی نہیں جا سکتی کیونکہ اگر یہ صفت وہاں پائی گئی تو خدا خدا نہیں رہے گا ‘معبود معبود نہیں رہے گا۔ اس کو ہم کہتے ہیں مستحیلات فی حق اللہ سبحانہ و تعالیٰ۔ جو صفات ہم دیکھ چکے ہیں‘ ان سب کی ضد اللہ کے حق میں مستحیل ہے۔چنانچہ ایک نوع کے اعتبار سے ہم سارا کچھ پڑھ چکے ہیں لیکن عقیدے میں یہ الگ سےاس لیے بیان کیا جاتا ہے کیونکہ عقیدے میں ہم دلالت لزومی کا خیال نہیں کرتے۔ یعنی ہم نے پڑھ لیا کہ اللہ سمیع ہے تو خود ہی پتا چل گیا کہ غیر اللہ سمیع نہیں ہے۔یہ اس کی دلالت لزومی ہے‘ اس سے یہ لازم آ رہا ہے ۔البتہ عقیدے کے باب میں ہم صرف اس پر اعتماد نہیں کرتے کہ سمجھ آگئی ہوگی اور اس سے یہ لازم آرہا ہے تو لوازم کو سمجھ لیاگیا ہوگا۔ ہم عقیدے میں بات کھول کر بیان کرتے ہیں اور یہ اہم بات ہے‘ کیونکہ عقیدے میں کسی قسم کا لفظ ‘کسی قسم کا دھوکا‘ کسی قسم کا اجمال ٹھیک نہیں ہے بلکہ وہاں تفصیل سے بیان کیا جائے گا ۔ لہٰذا علمائے عقیدہ واجبات میں بھی بالواسطہ مستحیلات ہی کا بیان کر رہے ہوتے ہیں‘ اور مستحیلات میں آ کر بلاواسطہ مستحیلات ہی کا بیان کریں گے ۔ اگر اجمالاً بتایا جائے تو ہم کہیں گے کہ جتنی صفات ہم پڑھ چکے ہیں ان صفات کی ضد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں مستحیل ہے ‘کیونکہ وہ صفات جب واجب ہو گئیں تو پھر اس کی ضد مستحیل ہو جائے گی۔ البتہ جب ہم جائز صفات میں جائیں گے تو کہیں گے کہ یہ بھی اللہ کے حق میں ممکن ہے اور اس کی ضد بھی اللہ کے حق میں ممکن ہے۔ گویا واجب صفات وہ ہیں کہ جن کی ضد لازماً مستغنی ہے فی حق اللہ تعالیٰ اور جائز صفات وہ ہیں کہ جہاں دونوں ممکن ہیں اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ارادے اور اختیار پر مبنی ہیں۔
اُمّ البراہین /العقیدۃ الصغریٰ
اب ہم اس کو شروع کرتے ہیں۔ کچھ چیزیں تو repeat ہوں گی اور کچھ اضافی بھی ہوں گی ۔اس میں جو کتاب آج منتخب کی گئی ہے وہ متن ہے اُمّ البراہین جس کو العقیدۃ الصغریٰ بھی کہتے ہیں اور یہ امام سنوسیؒ کی تالیف ہے۔ ’’سنوسہ‘‘ ایک بربر قبیلے کا نام ہے۔ ا س کی طرف نسبت سنوسی ہے۔ یہ ایک بہت بڑے امام تھے جن کی بہت سی کتابیں ہیں‘خصوصاً عقیدہ پر تو ایک بڑے متکلم مالکی شمار ہوتے ہیں۔ ان کا نام الامام محمد بن یوسف السنوسی الحسینی ہے۔ سید تھے ‘حسینی تھے اور ان کی وفات ۷۹۵ ہجری میں ہوئی ہے۔ انہوں نے تین کتابیں: العقیدۃ الکبریٰ ‘ العقیدۃ الوسطیٰ اور العقیدۃ الصغریٰ لکھیں۔ ان میں سےہر ایک کی خود شرح بھی کی اور پھر بعد میں آنے والے علماء نے بھی کثرت سے ان کی شروح کی ہیں۔ ان میں سے ایک مختصر ترین متن جو انہوں نے عقیدے پر لکھا ہے وہ شمار ہوتا ہے العقیدۃ الصغریٰ جس کو ’’اُمّ البراہین‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس میں مختصراً اور عموماً ہم جیسے لوگوں کے لیے یہ بیان کر دیا گیا ہے کہ کیا عقیدہ رکھنا ہے اور کیا نہیں رکھنا ‘جبکہ مختصر طور پر کچھ ادلہ بھی بیان کردی گئی ہیں۔ انہوں نے ایک پورا باب قائم کیا اس موضوع پر کہ کیا کیا اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں مستحیل ہے ۔ وہ چند باتیں ‘ان شاءاللہ‘ ہم دیکھیں گے۔ پھر ہم مختصرا ًیہی موضوع اور اس میں اہل سُنّت کا منہج امام غزالی علیہ الرحمہ کی کتاب ’’الجام العوام من علم الکلام‘‘ سے بھی ‘اِن شاءاللہ ‘دیکھیں گے۔
العدم‘ حدوث و مماثلۃ للحوادث: امام سنوسی
جو مستحیلات تفصیلاً ہیں اس میں پہلے بتاتے ہیں العدم‘ کیونکہ ہم نے صفت ذاتیہ ’’صفت وجود‘‘ پڑھی تھی تو امام سنوسی ’’العدم‘‘ کے بارے میں کہتے ہیں: وھو ضِدّ الوجود یہ وجود کی ضد ہے۔ وھو عبارۃ ان لا شیئ اور یہ لاشیٔ سے عبارت ہے۔ فالوجود واجب لِلّٰہ سبحانہ وتعالٰی والعدم مستحیل علیہ کہ جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ واجب الوجود ہے یعنی اس کے لیے ’’وجود‘‘ کا ہونا ضروری ہے تو یقیناً وہاں ’’عدم‘‘ مستحیل ہوگا ۔لہٰذا یہ سب سے پہلی بات ہے‘ یعنی یہ بات مستحیل ہے کہ اللہ نہ ہو ‘یہ ناممکن ہے ۔اس کو ماننے کے نتیجے میں عقل کا توازن بگڑ جائے گا کہ اللہ نہ ہو ۔یہ عدم ہے ‘اور اللہ کے حق میں مستحیل ہے۔ اس کے بعد فرماتے ہیں: حدوث۔ حدوث کا مطلب ہے کوئی ایسی شے جو نہ ہونے کے بعد ہو جائے۔ اس بات کو تو اللہ کے فضل سے مسلمانوں میں سے کسی نے بھی نہیں مانا کہ اللہ کی ذات حادث ہے‘ کیونکہ حادث مانیں گے تو وہ خدا نہیں رہے گا ۔البتہ کچھ فرقے ایسے پیدا ہوتے چلے گئے جو مجسمہ اور مشبہہ کہلاتے ہیں کہ جنہوں نے کہا کہ اللہ کی صفات میں حدوث ہوتا رہتا ہے ۔ گویا یہاں مسلمانوں کے اندر رہتے ہوئے اصل انکار اس بات کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات میں بھی کسی قسم کا کوئی حدوث نہیں ہے ۔کوئی صفت ایسی نہیں ہے جو نہ ہونے کے بعد پیدا ہوتی ہو۔ امام طحاوی علیہ الرحمہ کی عبارت کے مطابق مخلوق پیدا ہو جانے سے اس کی صفات میں اضافہ نہیں ہوتا۔لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ صفات کے اعتبار سے بھی ازلاً کامل ہیں۔ چنانچہ وہاں حدوث مستحیل ہے۔ پھر اسی کی مانند ہے: المماثل للحوادث! یعنی یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات میں حدوث تو نہیں ہے لیکن اُس کی ذات مانند یامشابہ حوادث کے ہے۔ مثال کے طور پر آپ کہیں کہ نعوذ باللہ ‘اللہ جسم ہے ‘ہمیشہ سے توہے یعنی حادث نہیں ہے لیکن جسم ہے یا اس کے بھی ہاتھ ‘پاؤں‘ آنکھ ہمارے ہاتھ ‘پاؤں ‘آنکھوں کی طرح کے ہیں تو یہاں آپ اگرچہ حدوث تو نہیں مان رہے لیکن حدوث لازم آتا ہے ۔ لازم ا س طرح آئے گا کیونکہ جو بھی جسم ہوگا وہ حادث ہی ہوتاہے۔ بالفرض اگر کوئی نہیں مانتا تو ہم کہیں گے مخالفۃ للحوادث۔ یہ اللہ کے حق میں واجب ہے تو گویا مشابہ یا مشابہ للحوادث اللہ کے حق میں مستحیل ہوجائے گا۔ چنانچہ مماثلت اللہ کے حق میں مستحیل ہے ۔اللہ کسی مخلوق کے مانند نہیں ہو سکتا اور جو اللہ کو کسی مخلوق کے مانند کرے گا یا اللہ کو جسم بنائے گا یا جسم کی عبادت کرے گا تو بعض متکلمین یا علماء عقیدہ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اسے صریح کفر کہا ہے۔ خود امام غزالی علیہ الرحمہ ’’الجام العوام‘‘ میں کہتے ہیں کہ جو جسم کی عبادت کرتا ہے ‘اللہ کو جسم سمجھتا ہے اس نے اصلاً کفر کیا ہے۔ وہ ایک صنم کی عبادت کر رہا ہے ‘وہ بت کی عبادت کر رہا ہے ۔وہ جس کی عبادت کر رہا ہے وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہیں ہے۔
تنزیہ میں مبالغہ مطلوب ہے
امام غزالی علیہ الرحمہ جس کتاب میں عوام الناس کو علم کلام سے روک رہے ہیں اسی میں بیان فرماتے ہیں کہ عوام الناس کے حق میں مبالغے کی حد تک یہ بات بیان کرنی ہے کہ اللہ تعالیٰ مخالف للحوادث ہے۔ اس لیے کہ ان کے ذہن میں یہ شبہات اور تشبیہات پیدا ہوتی رہتی ہیں اور عموماً وہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہی ایک بڑی پکچر ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ علم الکلام سے روکنے کا مطلب ان باتوں سے روکنا نہیں ہے ۔یہ بیان کرنا ضروری ہے کہ مبادا کوئی شخص انجانے میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو مخلوق کی مانند شمار کرتا رہے ‘یا اللہ کو زمان و مکان میں مانتا رہے‘ یا اللہ کو جسم مانتا رہے ‘یا اللہ کے حق میں ان باتوں کا اثبات کرتا رہے کہ جو مخلوقات کے خواص ہیں ۔ ایسی صورت میں وہ جس کی عبادت کرتا ہے وہ اللہ نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک صنم ہے ۔وہ ایک جسم ہے جس کی وہ عبادت کر رہا ہے۔ یہ نہ سمجھ لیجیے گا کہ ہم یہاں بیٹھے ہوئے ہیں تو ہم خواص ہیں۔ ہم عوام ہی کا عقیدہ یہاں پڑھ رہے ہیں اور عوام اور خواص کے عقیدے میں فرق کوئی نہیں ہے‘ صرف اجمال اور تفصیل کا فرق ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ان کو گھول گھول کے یہ بات پلائی جائے کہ جو بھی تمہارے تصور اور خیال میں بنتا ہے وہ خدا نہیں ہوتا ۔ جو عبارت ہے عقیدہ طحاویہ کی : کل ما خطر ببالک فاللّٰہ بخلاف ذٰلک یعنی جو بھی تمہارے خیال میں واقع ہو‘ وہ اللہ نہیں ہوتا۔ تصورات تو آتے ہیں لیکن اگر ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ جو بھی تمہارا تصور آتا ہے تم نے یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ وہ خدا نہیں ہے تو الحمدللہ انسان ایک محفوظ جگہ پر کھڑا ہو جاتا ہے۔ عموماً انسان کا تخیل حسیات سے پاک نہیں ہوتا اور وہ کسی نہ کسی طریقے پر خدا کا تخیل کر لیتا ہے‘ چنانچہ وسوسے کی حد تک توچاہے کرے‘ بس اعتقاد یہ رکھے کہ کل ما خطر ببالک فاللّٰہ بخلاف ذٰلک! جو میرے خیال میں آتا ہے وہ اللہ نہیں ہوتا تو وہ شرک سے محفوظ رہے گا۔ وہ عبادتِ صنم سے نکل جائے گا ‘ عبادتِ جسم سے نکل جائے گا۔
اللہ تعالیٰ :جسمانیت‘ زمان و مکان سے ماوراء
اس کے بعد امام سنوسی اسی کی تفصیل بتاتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں یہ بات مستحیل ہے کہ عن تاخذ ذاتہ قدر من الفراغ ۔علم الکلام یا عقیدہ کی کتابوں میں آپ ایک لفظ پڑھیں گے کہ مخلوق متحیز ہوتی ہے جبکہ خدا تحیز سے ماورا ءہے۔تحیز کا مطلب ہوتا ہے :جگہ گھیرنا۔ یہ جو dimensionsہیں یعنی چوڑائی رکھنا‘بُعد رکھنا‘ طوالت رکھنا یہ ساری چیزیں فراغ کو گھیرنا ہے۔ یعنی ایک خلا تھا جس کو آپ گھیر لیتے ہیں۔ جو کسی جگہ کو گھیرے گا اس وجود کو علم الکلام کی اصطلاح میں متحیز کہتے ہیں۔ہم سب متحیز ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں یہ بات مستحیل ہے۔ آپ کہیں گے یہ کیسے ہو سکتا ہے‘ یہ تو تخیل میں نہیں آتا کہ وجود ہو اور جگہ نہ گھیرے۔ دراصل اللہ تعالیٰ جگہ سے ماوراء ہے۔ یعنی ہم یہ بات مانتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ زمان اور مکان سے ماوراء ہے اور ہماری عقل اور ہمارا تخیل حسیات میں گھرے رہنے کی وجہ سے ایسے وجود کا تصور نہیں کر پاتا کہ جو فراغ نہ گھیرتا ہو‘جو جگہ نہ گھیرتا ہو۔ یہ بھی نہ سمجھیے کہ ہوتا تو وہ جگہ میں ہے لیکن جگہ نہیں گھیرتا ‘بہت چھوٹا ہے ‘نعوذ باللہ! نہیں ‘وہ جگہ ہی میں نہیں ہوتا۔ وہ زمان و مکان سے ماوراء ہوتا ہے۔ تو کہتے ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ متحیز نہیں ہے۔ جب وہ متحیز نہیں ہے تو جسم بھی نہیں ہو سکتا۔
اس کے بعد فرماتے ہیں: فیستحیل علیہ تعالیٰ ان یکون جرما (جسم)او یکون عرضا یکون بالجرم۔ دو چیزیں ہوتی ہیں۔ ایک کو کہتے ہیں جسم یا جوہر ۔ ان میں تھوڑا فرق یہی ہے کہ ایک سے زیادہ جوہر مل کے جسم بناتے ہیں ۔ایک عرض ہوتی ہے۔ جوہر وہ ہوتا ہے جو کسی محل میں نہیں ہوتا ۔صفت یا عرض وہ ہوتی ہے جس کو قائم رکھنے کے لیے محل درکار ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ میز ہے جوکسی اور شے کی بنیاد پر وجود نہیں رکھ رہی ہے لیکن رنگ اور حجم کی جو صفات اس کے اندر پائی جاتی ہیں یہ میز کے بغیر نہیں پائی جا سکتیں۔ لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ جسم ہے نہ جسم کی کوئی صفت ہے۔ یہ خلاصہ ہے اس کا کہ مستحیل ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جَرم ہو یا عرض ہو۔ جب وہ جگہ نہیں گھیرتا (نعوذ باللہ) ‘وہ جگہ میں ہے ہی نہیں تو وہ جسم بھی نہیں ہے ۔جسم نہیں ہے تو جسم پر وارد ہونے والی صفت بھی نہیں ہے ۔ نہ وہ جسم ہے ‘نہ جَرم ہے اور نہ وہ عرض ہے۔ اس کو متکلمین کہتے ہیں کہ نہ وہ جوہر ہے نہ وہ جسم ہے اور نہ وہ عرض ہے۔ یہ بھی {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ} کا بیان ہے۔
اللہ تعالیٰ: حدود و جہات سے ماوراء
اس کے بعد اگلی مستحیل بات بھی اصل میں مخالفۃ للحوادث ہی کی تفصیلات ہیں۔ یہ تو ہم نے کہہ دیا کہ وہ جَرم نہیں ہے ‘جسم نہیں ہے اور وہ صفت بھی نہیں ہے جو کسی جسم کے اندر پائی جاتی ہے۔ پھر کوئی اگر یہ کہہ دے کہ وہ خود توجَرم نہیں ہے لیکن جسم کی کسی جہت میں ہے! فرماتے ہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان جہاتِ ستہ سے یعنی آگے پیچھے‘ دائیں بائیں اور اوپر نیچے سے ماوراء ہے‘ اس لیے کہ جہت کا تصور بغیر مکان کے اور جسم کے نہیں ہے ۔ لہٰذا جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے جسمانیت ‘ مکانیت اور زمانیت سب کی نفی کر دی تو جہت کی بھی نفی ہو گئی ۔ کہتے ہیں:
یستحیل علی اللّٰہ تعالی ان یکون فی جہت للجرم بان یکون فوق العرش مثلًا او تحتہ او یمینہ او شمالہ او امامہ اوخلفہ لان اللّٰہَ تعالیٰ لو کان فی جہۃ لکان جسما او جرما
یہ نہ سمجھ لینا کہ اللہ عرش کے اوپر ہے ‘یا دائیں ہے ‘یا بائیں ہے ‘یا نیچے ہے ‘یا آگے ہے۔ اگر اللہ جہت میں ہوتا تو جسم ہوتا جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جسمانیت سے ماوراء ہے ‘مکانیت سے ماوراء ہے۔ اس میں اشکال یہ ہوگا کہ فوق العرش یا مستوی علی العرش کا لفظ آیا تو یہ بات درست ہے ‘لیکن جیسے امام غزالی فرماتے ہیں :اللہ کے لیے لفظ فوق تو آتا ہے لیکن فوق کبھی جسم کے اعتبار سے ہوتا ہے کبھی قدرو منزلت یا رتبے کے لیے ہوتا ہے ۔ تو اللہ کے حق میں جسمانیت اور یہ ساری چیزیں مستحیل ہیں ‘لہٰذا جب بھی فوق کا لفظ آئے گا تو وہ کبھی بھی جسمانیت پر محمول نہیں کیا جائے گا کیونکہ دلائل قطعی سے جسمانیت کی نفی اور جہت کی نفی ثابت ہو چکی ہے۔ یوں نہ سمجھیے گا کہ یہ باتیں ابھی کسی نے بنائی ہیں۔یہی عبارت ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ میں امام طحاوی علیہ الرحمہ نے بیان کی ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں: وتعالیٰ عن الحدود والغایاتاللہ سبحانہ وتعالیٰ حد سے اور غایت سے ماوراء ہے۔ غایت وہ جگہ ہوتی ہے جہاں پہنچ کر کوئی شے ختم ہو جاتی ہے۔ جب مکان سے ماوراء ہے تو اس کی حد اور غایت نہیں ہے۔ اب کہیں اللہ کی کوئی حد نہیں ہے‘ وہ لامحدود ہے۔ لامحدود کا مطلب ہمارے ذہن میں یہ آئے گا کہ ایک چیز چلتی چلی جا رہی ہے ‘ختم ہی نہیں ہو رہی۔ یعنی ہمارے ذہن میں لامحدودیت کا تصور بھی آئے گا تو ہم ایک فزیکل شے ہی کو تصور کریں گے کہ یہ چیز ہے جو چلتی جا رہی ہے اور never ending ہے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اعتبار سے یہ معنی نہیں ہوگا۔ معنی یہ ہو گاکہ وہ جسم نہیں ہے ‘وہ مکان میں نہیں ہے ۔ حدود اور غایات تو مکان سے طے ہوتی ہیں‘ لہٰذا وہ حدود اور غایات سے ماوراء ہے۔ بہرحال امام طحاوی ’’عقیدہ طحاویہ‘‘ میں فرماتے ہیں: وتعالی عن الحدود والغایات یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ حدود اور غایات سے ماوراء ہے۔والارکان والاعضاء رکن کسی شے کا جز ہونا اور اعضاء سے بھی ماوراء ہے۔ والادوات: اور آلات سے ۔یعنی اللہ تعالیٰ کے فعل میں کوئی آلہ نہیں ہوتا ‘جیسے ہمارے افعال میں دیکھنے کا فعل ہے تو ایک آلہ لگا ہوا ہے‘ اس کوادوات کہتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں:لا تحویۃ الجہات الستۃ چھ جہات اللہ کا احاطہ نہیں کرتیں‘ یعنی اللہ کسی جہت میں نہیں ہے۔ بہت سے بزرگوں کو میں نے پڑھا وہ کہتے ہیں یہ بات تو کوئی عامی تسلیم ہی نہیں کر سکتا ‘یعنی یہ بات تسلیم کرنا کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ مکان سے اس طرح ماوراء ہے‘ کیونکہ یہ عقیدے کی جو عبارت ہمارے ہاں پڑھائی جاتی ہے وہ یہ ہے :
لاداخل العالم ولا خارجہ ولاتحتہ ولافوقہ ولایمینہ ولاشمالہ ولاخلفہ
اللہ تعالیٰ نہ اس عالم میں ہے نہ اس سے باہر ہے ۔اب اس کا مطلب یہ نہیں کہ حلول ہے ‘ لیکن داخل اور خارج خود مکان کی صفات ہیں اس لیے نفی ہو رہی ہے۔جیسے ابن تیمیہ علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ یہ تو عدم ہوتا ہے یعنی جس کو تم یوں کہتے ہو یہ تو عدم ہے۔ تم نے عدم کو بھی بیان کرنا ہے تو ایسے بیان کرو گے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ فطرت اس کو نہیں مان سکتی۔ ایک عام آدمی اس کو کبھی تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہو سکتا ۔ یہ ابن تیمیہؒ کا دعویٰ تھا۔ ویسے جس بھی عام آدمی کو یہ بات بتائی گئی ہے اس کو سمجھ آ جاتی ہے‘ وہ تسلیم کر لیتا ہے۔ میں نے کسی عام آدمی کو نہیں دیکھاکہ وہ کہہ رہا ہو کہ یہ بات تو ہو ہی نہیں سکتی۔ جب اس کو سمجھایا جاتا ہے کہ مکان اور جسم کا کیا مطلب ہے اور اس سے اللہ تعالیٰ ماوراء اس لیے ہیں کیونکہ یہ حدوث ہےتووہ فوراً تسلیم کر لیتا ہے کہ بالکل ٹھیک ہے ۔اللہ ایسا ہی ہونا چاہیے۔{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ}! چنانچہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ بات فطرت قبول نہیں کر سکتی۔ یعنی میں عام آدمی ہوں تو مجھے اس بات کو تسلیم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔ جب میں نے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں یہ مان لیا ہے کہ{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ} تو میں یہی بتانا چاہ رہا ہوں کہ جو چیزیں نظر آتی ہیں وہ داخل العالم اور خارج ہوتی ہیں جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ان کے مانند ہی نہیں ہیں ‘وہ تو وجود کی ایک اور ہی نوع ہیں۔ اس کے وجود میں کوئی بھی اس کے مانند نہیں ہے۔ لہٰذا اس کی صفات بھی بس اسی کے ساتھ خاص ہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے کہ آپ کہیں یہ تو طلسماتی یا جادوئی قسم کی باتیں ہیں اور سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔ اللہ تعالیٰ نےیہی بتایا ہے کہ اس کے مانند کوئی نہیں ہے۔ بہرحال یہاں وہ بتا رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ جہت میں نہیں ہے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی رویت :بلاجہت
یہاں سے ایک اور مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ جہت میں نہیں ہے تو رویت نہیں ہوگی۔لہٰذا اہل سُنّت کے سوا معتزلہ‘ زیدی‘ اثنا عشرہ جیسے فرقے نہیں مانتے کہ اللہ کی رویت ہوگی کیوں کہ وہ جہت میں نہیں ہے ۔ رویت کے لیے ان کے ہاں شرط جہت ہے‘ لہٰذا انکار کر دیا ۔ اہل سُنّت کے اندر جو تجسیم والے کچھ ٹرینڈ تھے ‘انہوں نے کہا کہ رویت ہوگی تو جہت ہوگی۔ رویت تو احادیث سے ثابت ہے‘اس کاتو ہم انکار نہیں کر سکتے۔ رویت کا مطلب ہے قیامت کے دن اللہ کو دیکھیں گے۔ رویت جہت کے بغیر نہیں ہوتی ۔رائی اور مر ئی ۔ رائی دیکھنے والااور مرئی جس کو دیکھا جا رہا ہے۔ رائی اور مرئی ایک خاص جہت میں ہوں گے تو ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اہل سُنّت نے نہ رویت کا انکار کیا نہ یہ کہا کہ رویت جہت میں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ جہت سے اللہ تعالیٰ ماوراء ہے لیکن رویت پھر بھی ہوگی اور جہت میں ہونا عادی شرط ہے ‘عقلی شرط نہیں ہے۔ یعنی اگر رویت ہو اور جہت میں نہ ہو تو اس سے عقل کے قوانین نہیں ٹوٹتے ‘بس عادت کے قوانین ٹوٹتے ہیں۔البتہ رویت کے لیے ایک شرط ضروری ہے اور وہ ہے وجود۔ عدم کی رویت نہیں ہوتی۔اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے اور وجود میں اتم اور اکمل ہے‘ لہٰذا اس کی رویت ہو سکتی ہے۔ جب صادق اور مصدوق علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بتا دیاتو ہوگی اورعقلاً جائز ہے‘ لہٰذا اس پر ایمان لانا واجب ہے۔ رویت ہوگی لیکن وہ جہت میں نہیں ہوگی ۔وہ ایک ایسی رویت ہے جس کا ابھی ہم تصور نہیںکر سکتے ۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے کہا بھی ہے کہ وہ ادراک میں نہیں آتا ۔ اللہ کے نبیﷺ نے (جنت کے بارے میں) فرمایا:
((مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ)) (صحیح مسلم:۷۱۳۴)
’’جو نہ تو کسی آنکھ نے دیکھا‘ نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی قلب بشر پر اس کا گمان بھی گزرا۔‘‘
وہ ایسی رویت ہوگی جو اس وقت بشر کے قلب پر وارد نہیں ہو سکتی۔ لہٰذا وہ رویت بھی{لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ} ہوگی۔ اس کے بھی مانند کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا رویت ماننے کے لیے جہت یعنی اللہ کو کسی dimensionمیں ماننا ضروری نہیں ہے۔ یہ بات بھی وہ فرما رہے ہیں کہ اس طرح نہ سمجھ لینا کہ جس طرح ایک مکان کے اوپر ایک مکان ہوتا ہے اور ایک جگہ سے فاصلے پر کچھ جگہ ہے تو ہم یہاں بیٹھے ہیں تو اللہ ‘نعوذ باللہ ‘وہاں بیٹھا ہے ۔اس طرح کا تصور نہیں ہے۔ یہ ایک بچگانہ سی بات ہے ۔ ایک تو ہے کہ اللہ ہم سے کسی جہت میں ہو‘ یہ بھی نہیں ہے۔ یا اللہ ہمارے اعتبار سے تو جہت میں نہیں لیکن اس کی اپنی جہات ہوں‘ یعنی اس کا ایک دایاں ہے ‘اس کا ایک بایاں ہے‘ وہ طول اور عرض رکھتا ہے‘فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے بھی ماوراء ہے۔ صرف ہم سے جہت ماوراء نہیں ہے بلکہ اس کی ذات جہت میںنہیں ہو سکتی کیونکہ یہ جسمانیت کی شرائط ہیں۔ اب کہتے ہیں:ویستحیل علی سبحانہ وتعالیٰ ان تکون لہ جہت فی نفسہ یعنی بان یکون لہ یمین او شمال او فوق اوتحت او قدام او خلفیہ بھی نہیں ہو سکتا۔لانہ لو کان کذٰلک لکان جرما ای جسما یعنی اگر ایسا ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے جہات ہوں تو وہ جسم ہو جائے گا اور یہ مستحیل ہے۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے ذات کا لفظ جائز
اس کے بعد ایک ملاحظہ انہوں نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کے لیے ہم جسم وغیرہ کا لفظ تو نہیں بولتے البتہ ذات کا لفظ جائز ہے ۔ ذات سے جسمانیت لازم نہیں آتی ‘ذات بس اس وجود کے تحقق ‘ اس کے ثبوت اور اس کے واقع ہونے کی طرف اشارہ ہے ۔پھر وہ مشہور واقعہ جب حضرت خبیب بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہیدہوئے تھے اور انہوں نے اس موقع پر ایک شعر پڑھا تھا ۔جب ان کو مشرکین مکہ پکڑ کر لے گئے اور ان کو سولی پر چڑھایا گیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میںدو رکعت پڑھوں گا ۔ پھر ان سے پوچھا گیا کہ :کیا تم یہ پسند کرو گے کہ رسول اللہ(ﷺ) تمہاری جگہ ہوتے اور تم اپنے گھر میں ہوتے؟انہوں نے جواب دیاکہ میں یہ بات بھی پسند نہیں کرتا کہ رسول اللہﷺ کوایک کانٹا بھی چبھے ۔میں نے دورکعات اتنی جلدی اس لیے پڑھیں کہ تم یہ نہ کہو کہ موت کے خوف سے نماز طویل کر دی۔ پھر انہوںنے یہ شعر پڑھا تھا جس میں ذات کا لفظ آ رہا ہے۔ جب اللہ کے نبیﷺ تک یہ شعر پہنچا تھاتو آپﷺ نے اس کو سُنّت تقریری عطا فرما دی ۔ چنانچہ پتا یہ چلا کہ لفظ ذات اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں بولا جا سکتا ہے۔ وہ شعر یہ ہے:
فَلستُ أُبالي حين أُقْتَلُ مُسْلِمًا

علٰى أيِّ جَنْبٍ كان لِلّٰهِ مَصْرَعِي
وذٰلك في ذاتِ الْإلٰهِ وَإِنْ يَشَاْ

يُبارِكْ علٰى أوصَالِ شِلْوٍ مُـمَزَّعِ
(صحیح البخاری‘ کتاب التوحید‘ ح:۷۴۰۲)
’’ مجھے کوئی پروا نہیں ہے جب حالت اسلام میں مجھے شہید کیا جائے کہ میں کٹنے کے بعد یا گردن اڑنے کے بعد اللہ کی راہ میں دائیں گرتا ہوں یا بائیں گرتا ہوں ۔ اور یہ سب اللہ کی ذات کی رضا کے لیے ہے ۔ اور اگر اللہ چاہے کہ میرے مرنے کے بعد میری ہڈیوں اور کھال وغیرہ پربھی برکت نازل فرما دے تو وہ اس پر قادر ہے۔‘‘
کہتے ہیں وقد سمع النبیّﷺ ھذا الشعر وأقر یعنی اللہ کے نبی ﷺنے یہ شعر سنا اور اقرار فرما دیا۔ اس کو ہم سُنّت تقریری کہتے ہیں۔
اس کے بعد امام سنوسیؒ فرماتے ہیں : ویستحیل علی اللہ تعالٰی ان یتقید من مکان اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے حق میں یہ بات مستحیل ہے کہ وہ کسی مکان میں مقید ہو جائے۔ یعنی زمان کی باری بھی آگے آئے گی‘ ابھی مکان کی بات کر رہے ہیں۔ والمراد بالمکان استقرار الجرم علی الجرم یعنی جسم کا جسم پر ہونا یا جسم کا کسی جسم سے جہت میں ہونا‘ یہ مکان ہے اور مکان کی تعریفات میں کافی اختلاف ہے ۔ فلاسفہ کی ایک الگ تعریف ہے جبکہ اہل سُنّت متکلمین کی ایک الگ تعریف ہے۔وہ تعریف یہ ہے: فراغ موھوم ایک وہمی جگہ ہوتی ہے جس کوجسم گھیرتا ہے۔ اب اس وقت وہ جگہ جہاں میرا جسم نہیں ہے ‘یہ فراغ وہمی ہے۔ یہاں میں آؤں گا توجسم ادھر آ جائے گا۔ یہ فراغ وہمی کہ جس کو جسم گھیرتا ہے اس کو مکان کہتے ہیں۔ گویا مکان کے لیے جسم ضروری ہے یا جسم کی جہات ضروری ہیں۔ فرما رہے ہیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ متقید بالمکان نہیں ہے۔ لان اللہ لو کان لہ مکان لکان جرما کہ اللہ کے لیے اگر مکان ہوتا تو وہ جسم ہوتا ۔وہی بات ہے یعنی یہ سب اصلا ًجسمانیت کی نفی کرنے کے بعد اس کی فروعات ہیں۔
تفصیلات ضرورت سے پیدا ہوتی ہیں
عقیدے میں دلالت التزامی کفایت نہیں کرتی‘ تفصیل سے ہر شے کو الگ الگ بتایا جاتا ہے۔ ورنہ تو اگر جس نے سمجھ لیا کہ اللہ جسم نہیں ہے وہ ساری باتیں سمجھ لے گا۔ اس کو پھر بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ مکان میں نہیں ہے ‘زمان میں نہیں ہے ‘اوپر نہیں ہے ‘جہت میں نہیں ہے۔ وہ سب باتیں سمجھ سکتا ہے صرف اس بات کی نفی سے کہ اللہ جسم نہیں ہے ۔یہاں سے ہمیں اس اعتراض کا جواب سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے کہ یہ ساری چیزیں ہمیں قرآن میں تو اس طرح نہیں ملتیں ‘حدیث میں بھی نہیں ملتیں کہ مستحیل ہے اللہ پر یہ بھی اور مستحیل ہے اللہ پر وہ بھی ۔ اس کا علماء نے جواب یہ دیا کہ یہ باتیں ہمیں بھی تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آگئی کہ جب مجسمہ اور مشبہہ جیسے گروہ پیدا ہوگئے۔ جس زمانے میں گروہ پیدا نہیں ہوئے تھے تو محض {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌ} سے بھی عرب اپنے سلیقہ عبارت سے یہی بات سمجھ لیتے تھے ۔کچھ مجمل عبارتوں سے انہیں تفصیلات سمجھ آ جاتی تھیں۔ ہمیں ان مجمل عبارتوں کی تفصیلات بیان کرنی پڑیں کچھ ایسے فرقوں کے ظہور کی وجہ سے کہ جنہوں نے اللہ کے حق میں ان باتوں کی نسبت کر دی کہ جو ان آیات کے اجمال کے برعکس تھیں ۔ پھر ہم نے اس کے اندر تفصیل پیدا کر دی۔چنانچہ یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ یہ قرآن کا منہج نہیں ہے ۔ منہج ضرورت کے اعتبار سے ہوتا ہے۔ یعنی آج اگر کوئی خاص قسم کی گمراہی آ جائے جیسے ختم نبوت کا انکار ہو جائے تو آپ کہیں گے قرآن میں تو ایک ہی آیت آئی ہے اور تم نے اپنا سارا وقت اسی پر خرچ کیا ہوا ہے‘ اسی کی تفصیلات بیان کررہے ہو‘ سارا دین ختم نبوت ہی ہے کیا! ہم کہیں گے کہ اس وقت کی ضرورت ہے ۔ختم نبوت دین کا ایک جز وہے ۔ معلوم من الدین بالضرورۃ ہے۔ اس وقت ایک فرقہ ضالہ وجود میں آ چکا ہے تو اب ہم اپنی توانائیاں اس کام میں صرف کر رہے ہیں۔ علماء کے اس کام کو بھی اسی اعتبار سے دیکھیں تو بات واضح ہو جائے گی کہ جس زمانے میں یہ لوگ ہیں ‘اس زمانے میں مجسمہ اورمشبہہ (جیسے ابھی بھی پائے جاتے ہیں) غلبہ رکھتے ہیں اور عوام الناس کو گمراہ کر رہے ہیں ۔چنانچہ وہ تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ کیا کیا باتیں ماننی ہیں‘ کیا کیا باتیں نہیں ماننی۔ اس طرح کے اعتراضات بچگانہ ہوتے ہیں۔
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ یہ بات بھی ملاحظہ کر لوکہ ان نفی المکان یستلزم نفی الحدود لذات اللہ تعالیٰ کما نص علیہ اھل السنۃ جیسا کہ اہل سُنّت نے نصاً بیان کیا ہے کہ نفی مکان سے اللہ کے لیے نفی حدود بھی لازم آتا ہے ۔ حد کا مطلب ہی مکان کا ہوناہے ۔ جو شے غیر مکانی ہے ‘اس کے لیے حد کا اثبات نہیں ہو سکتا۔
اللہ تعالیٰ :مرورِ زمان سے منزہ
اس کے بعد فرماتے ہیں: ویستحیل علی اللہ زمان ‘ اللہ تعالیٰ پر زمان بھی مستحیل ہے ۔فیستحیل علیہ ان یمر علیہ الزمان اللہ تعالیٰ پر یہ بات مستحیل ہے کہ اس پر زمان گزرے‘ وقت گزرے۔ یہ زمان کیا ہے؟ اس پر ہمارے علماءِ کلام کی کتابوں میں بہت تفصیل ہے ۔ یہاں تک کہ بعض متکلمین نے کہا کہ یہ مواقف العقول میں سے ہے ۔مواقف العقول کا مطلب ہوتا ہے جہاں پہنچ کر عقل وقف کرےکہ سمجھ نہیں آ رہی۔ کچھ نے کہا یہ بدیہی ہے‘ اس لیے تو عقل وقف کرتی ہے ۔سب کے ہاں یہ بات متفق علیہ ہے کہ زمان بلا مکان نہیں ہوتا ۔ چنانچہ جب زمان بلا مکان نہیں ہے اور زمان اللہ کی مخلوقات میں سے ہے تو اللہ سبحانہ و تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات سے ماوراء ہیں۔ لہٰذا اللہ سبحانہ و تعالیٰ نہ مکان میں ہیں نہ زمان ان پر گزرتا ہے۔یہاں بہت سی باتیں جو ہمیں تنگ کرتی ہیں اور دوسرے بہت سے مسئلے حل ہو جاتے ہیں اور ایک عجیب لطف حاصل ہوتا ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے یہ بات لکھی ہوئی ہے‘ ہمیشہ سے اس کے ہاں سب طے ہے ‘یہ بات درست ہے لیکن ہمیشگی کا جو مفہوم ہمارے ہاں ہے وہ زمان کے بغیر نہیں ہوتا۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے اتنا پہلے یہ بات طے کر لی ہے ‘ وہاں اس طرح کا حساب کتاب نہیں ہے۔ وہاں زمان ہی نہیں ہے ‘وہ زمان سے ماوراء ہے۔ لہٰذا ہر شے وہاں پر طے ہے لیکن وہ اس طرح طے نہیں ہے کہ جیسے آپ نےدس دن پہلے طے کیا ہوبلکہ زمان سے ماوراءطے ہے ۔ لہٰذا آپ دعا کریں گے تو کچھ بھی ہو جائے گا۔ یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ سے مانگیں تو اس طرح سوچ کر نہ مانگیں کہ اللہ نے تو پہلے سے طے کردیا تو مانگنے کا کیافائدہ !اللہ کے ہاں پہلے اور بعد نہیں ہے۔ اللہ کے ہاں زمان ہی نہیں ہے‘ جیسے ابھی ہم نے عبارت پڑھی : فیستحیل علیہ ان یمر علیہ الزمان مستحیل ہے کہ اللہ پر زمان گزرے ۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ :حرکت و سکون سے ماورا ء
اس کے بعد فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ پر یہ بات مستحیل ہے کہ ان تتصف ذاتہ العلیا بالصفات الحادثۃ کہ اُس کی ذاتِ عالی متصف ہو حادث صفات سے مثل الحرکۃ والسکون وغیرھما جیسا کہ حرکت اور سکون۔ کوئی شخص کہے کہ یا تو چیز متحرک ہوگی یا ساکن ہوگی ‘کوئی تیسری کیفیت ہو تو گویا ارتفاعِ نقیضین والی صورت حال ہے۔ ساکن وہ شے ہوتی ہے جو قابل تحرک ہوتی ہے اور حرکت کا مطلب ہے انتقال من مکان الی مکان ایک مکان سے دوسرے مکان کی طرف انتقال۔ جب ہم نے جسمانیت‘ مکانیت اور ان سب باتوں کی نفی کر دی ہے تو حرکت اور سکون دونوں کی نفی ہو جاتی ہے۔ منطق میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ارتفاعِ نقیضین اس شے سے ہو سکتا ہے کہ جو شے اس کے قبول کی صلاحیت ہی نہ رکھتی ہو‘جو شے اس نقص کے قبول کی صلاحیت سے منزہ ہو۔مثال کے طورپر آپ دیوار کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ عالم ہے یا غیر عالم ہے کیونکہ دیوار کے اندر علم کی صلاحیت نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں سے دونوں نقیضین مرتفع ہو جائیں گی‘ علم اور غیر علم یا لاعلم۔ اب یہ تو دیوار کے نقص کی وجہ سے ہے کہ دیوار علم قبول کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی لیکن ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی شے اپنے بلند مرتبے اور عظمت کی وجہ سے کوئی نقص کی صفت یا اس کی ضد قبول کرنے سے منزہ ہو۔ اللہ تعالیٰ حرکت اور سکون سے منزہ ہے۔ وہاں نقیضین کا سوال نہیں ہوگا۔ پھر ہم ان آیات یا روایات کے بارے میں بھی یہی کہیں گے جہاں بظاہر کوئی حرکت معلوم ہوتی ہے کہ یہاں ایک مکان سے دوسرے مکان میں انتقال مراد نہیں ہے۔یہ ہم ان شاء اللہ ’’الجام العوام‘‘ میں دیکھیں گے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب طے ہو گیا کہ اللہ تعالیٰ مکانی نہیں ہے تو مثلاًنزول بھی مکانی نہیں ہے۔ نزول وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے لائق ہے ‘مکانی نہیں ہے۔ مکان کی نفی ہوچکی ہے ‘ لہٰذا نزول کو لازماً مکان ماننا ضروری نہیں ہوتا۔ امام غزالی ؒ نے امام شافعی ؒ کا ایک قول نقل کیا کہ نزلتُ فی بغداد ثم نزلتُ ثم نزلتُ ثم نزلتُ مَیں بغداد میں اُترا ‘پھر مزید اُترا ‘پھر مزید اُترا(مزید اُترنے سے مراد ہے پھر کچھ عرصہ مزید رہا) ۔یعنی نزول کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ بغداد کی زمین میں نیچے ہی کہیں اترتے چلے گئے۔لہٰذا نزول بہت مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے ۔ ذات کے اعتبار سے دیکھا جائے گا تو جب اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں ہم یہ بات طے کر چکے ہیں کہ وہ زمانی اور مکانی نہیں ہے تو اس کا نزول بھی زمانی اور مکانی نہیں ۔
آگے فرماتے ہیں:ویستحیل ان تتصف ذاتہ العالیۃ بالصغر اوالکبر چھوٹا بڑا ہونا‘ اس سے بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی ذاتِ عالی ماوراء ہے ۔ ’’اللہ اکبر‘‘ کا مطلب ہر شے سے بڑا ہے ‘جسمانی اعتبار سے (نعوذ باللہ) نہیں بلکہ یہ ذات کے اعتبار سے ہے ‘منزلت کے اعتبار سے ہے ‘صفات کے اعتبار سے ہے‘ قوت اور قدرت کے اعتبار سے ہے‘ وجود کے اعتبار سے ہے۔ چنانچہ کبر اور صغر بھی جسمانی نہیں ہوگا ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ جزو اور کُل اور اس طرح کی اصطلاحات جو مخلوقات کے لیے وضع کی گئی ہیں‘ ان سب سے ماوراء اور منزہ ہے۔
اللہ تعالیٰ :غرض و غایت سے ماورا ء
اس کے بعد فرماتے ہیں:ویستحیل علی اللہ تعالٰی ان یتصف بالاغراض اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر یہ بات مستحیل ہے کہ اس کی ذات غرض سے متصف ہو جائے ‘چاہے وہ غرض اس کے افعال میں ہو یا اس کے احکام میں۔ اللہ تعالیٰ کے افعال وہ ہیں جو وہ اس وقت تکوینی طور پر فرما رہے ہیں کہ کسی کو زندہ کر رہے ہیں‘ کسی کو مار رہے ہیں ‘کسی کو عزت دے رہے ہیں‘کسی کو ذلت دے رہے ہیں ۔کائنات چل رہی ہے ۔تدبیر امر ہو رہی ہے۔ کسی کو فقیر کر رہے ہیں ‘کسی کو غنی کر رہے ہیں ۔یہ سب اللہ کے افعال ہیں‘ اور احکام سے مراد حکم شرعی ہے۔ یعنی ایک حکم تکوینی ہےجو اللہ تعالیٰ کے افعال ہیں اور ایک حکم شرعی ہےکہ یہ شے واجب ہے‘ یہ شے حلال ہے ‘یہ شے حرام ہے ‘ یہ شے مکروہ ہے اوریہ شے مباح ہے۔ ان دونوں میں اللہ تعالیٰ غرض و غایت سے ماوراءہے ۔ غرض کی تعریف انہوں نے خود کی کہ والاغراض جمع الغرض وھوالباعث للفعل آپ کو فعل پر ابھارنے والی شے غرض ہوتی ہے۔اس کو علت غائیہ کہتے ہیں۔ ارسطو کی جوچار علتیں ہیں ان میں سے علت غائیہ ذہن میں پہلے ہوتی ہے‘ وجود میں بعد میں آتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نہ فعل میں نہ حکم میں کوئی غرض رکھتے ہیں‘ ایسی غرض جو ان کی ذات کی طرف لوٹتی ہو۔ جو بھی غرض ہوتی ہے وہ مخلوق کی طرف لوٹتی ہے۔ اللہ کو کوئی غرض نہیں ہوتی ۔ یعنی اللہ نے نماز پڑھنے کا کہا‘ یہ حکم ہے تو اللہ کو اس حکم کے دینے پر کسی باعث (اُبھارنے والی شے) نے نہیں اُبھارا کہ یہ غرض حاصل ہو جائے گی۔ اسی طریقے پر اللہ نے کائنات بنائی ہے تویہ اللہ کا فعل ہے۔ انسان بنایا تویہ اللہ کا فعل ہے۔ اللہ کو اس فعل پر ابھارنے والی کوئی غرض نہیں تھی جو اللہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔بہرحال اللہ سبحانہ و تعالیٰ غرض سے ماوراء ہے‘ وہ غرض چاہے فعل میں ہو چاہے احکامِ شرعیہ میں ۔ تکوین و تشریع دونوں میں اللہ کی کوئی غرض نہیں ہے۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر اس سے تو عبث لازم آتا ہے۔{اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا} توفرمایا کہ عبث اس وقت لازم آتا ہے جب جس شے کو پیدا کیا گیاہو اور اس کے لیے کچھ اغراض نہ رکھی ہوں ۔یعنی ہمیں تو پیدا کیا لیکن اللہ ہمارے پیدا کرنے سے خود کچھ نہیں لے رہابلکہ ہمیں کچھ دے رہا ہے۔ ہمیں اُس نے کچھ کہا ہے کہ یہ کام کرو‘ اس میں تمہارا کمال ہے‘ اس میں تمہاری ترقی ہے۔ عبث اس وقت ہوتا ہے کہ اگر اللہ پیدا کرنے کے بعد انسان کو بھی شتر بے مہار کی طرح چھوڑ دیتا ‘جیسے فرمایا:
{اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَا لَا تُرْجَعُوْنَ(۱۱۵)} (المؤمنون)
’’کیا تم نے سمجھا تھا کہ ہم نے تمہیں بے کار پیدا کیا تھا اور یہ کہ تم ہماری طرف لوٹا ئے نہیں جائو گے؟‘‘
یعنی تمہارا وجود تمہاری ذات میں بے مقصد نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کواس سے کوئی غرض حاصل نہیں۔وہ کہتے ہیں یہ عبث نہیں ہے۔