(فکر و فلسفہ) مبادیٔ علم کلام - مکرم محمود

9 /

مبادی ٔعلم کلامسعید عبداللطیف فودہ
ترجمہ : مکرم محمود

لگ بھگ تین سال قبل اس کتاب ’’بحوث فی علم الکلام‘‘ کا ترجمہ مکمل کیا تھا۔ اُس وقت’’ مصنوعی ذہانت‘‘( artificial intelligence ) کی یلغار نہ تھی کہ ترجمہ کا کام کارِعبث محسوس ہوتا۔اب تو کچھ یوں ہی محسوس ہوتا ہے۔ بہر حال اس کتاب کے مصنف عصر حاضر کے مشہور متکلم سعید عبداللطیف فودہ ہیں‘ جن کا تعلق اردن سے ہے۔ آپ علم الکلام اور اصول الفقہ سے متعلق بے شمار کتابوں کے مصنف ہیں۔ علم الکلام اور اصول الفقہ کو اصلین بھی کہا جاتا ہے۔ کتاب میں جہاں سے ذیل میں ترجمہ دیا جا رہا ہے ‘اس سے پہلے ایک ابتدائیہ اورایک موضوع بعنوان ’’مکلف انسان پر سب سے پہلے کیا واجب ہے؟‘‘ پر بات ہے ۔ اس کا ترجمہ ’’حکمت قرآن ‘‘کے شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۲۲ میں ایک مضمون’’علم العقیدہ ‘سعید عبداللطیف فودہ اور عصرحاضر‘‘ کے ضمن میں پہلے چھپ چکا ہے۔اس سے آگے کچھ حصہ کا ترجمہ پیش خدمت ہے۔ بریکٹ میں بعض جگہوں پر تشریحی و توضیحی اضافے راقم الحروف کے ہیں۔ اس حصہ میں بہت سے اہم مباحث مذکور ہیں مثلاً علم کلام کی تعریفات‘علم اور اعتقاد میں فرق‘ اعتقادیات اور عملیات میں فرق‘ مقلد کے ایمان کا مسئلہ وغیرہ۔
علم توحید کے مبادی سے متعلق مقدّمہ
علم توحید کے طالب کے لیے ضروری ہے کہ وہ آغاز میں اس علم کا ایک اجمالی تصور حاصل کرے چاہے 'رسم ' ہی کیوں نہ ہو (یعنی حد نہ ہو۔ منطق میں’رسم‘ ناقص تعریف کو کہتے ہیں جبکہ ’حد‘ کامل تعریف کو کہا جاتا ہے ) تاکہ اس کی طلب کی بنیاد کسی بصیرت پرہو۔ وہ اس علم کے موضوع کو دوسرے موضوعات سے جدا کرسکے اوراس علم کی غایت سے بھی واقف ہوجائے تاکہ اس علم کے ساتھ اس کی مشغولیت بے فائدہ اور بے مقصد نہ رہ جائے ۔ پھر وہ یہ بھی جان لے کہ یہ علم کن کن علوم اور مبادی سے مدد حاصل کرتا ہے ؟ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ اس علم کو وضع کرنے والا کون ہے ؟
علم کلام کی تعریف
بعض شیوخِ کلام کے نزدیک اس علم کی تعریف ہے :وہ علم جس کے ذریعے دلائل بیان کرکے اور شبہات کو دور کرکے دوسرے پر دینی عقائد کو ثابت کرنے کی نہ صرف قدرت حاصل ہوجاتی ہے بلکہ دوسرے پر ان کو لازم کردیا جاتا ہے ( کہ اس کے پاس انکار کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی سوائے خواہشات ‘ مفاد اور ہٹ دھرمی کے ) ۔ امام عضدالدین الایجی ’’مواقف‘‘میں فرماتے ہیں: ’’علم کلام وہ علم ہے جس کی بنیاد پر دلائل وارد کرکے شبہات کو رد اور دینی عقائد کو ثابت کرنے پر قدرت حاصل ہوجاتی ہے ۔‘‘ عقائد سے یہاں (مانے جانے والے قضایایا) ماننے کا فعل ہی مراد ہے‘عمل اس کی مراد میں شامل نہیں اور دین سے مراد دین محمدﷺ ہے (شرح المواقف للشریف الجرجانی ۱ / ۳۴)۔امام سعد الدین تفتازانی فرماتے ہیں: ’’علم کلام یقینی دلائل کےساتھ دینی عقائد کے علم کو کہتے ہیں۔‘‘ (تہذیب الکلام :ص ۸ ‘للامام سعد الدین تفتازانی)۔ امام ابن ہمام ’’مسایر ہ‘‘ میں فرماتے ہیں:’’علم کلام نفس کی ایسی معرفت ہے جس کے ذریعے اسلامی عقائد جو اس پر لازم ہیں ‘ان کا علم حاصل ہوجائے ۔ یہ علم قطعی دلائل سے حاصل ہوتا ہے لیکن بعض دلائل ظنی بھی ہوتے ہیں۔‘‘(ص ۱۰) (ظنی دلائل عقائد میں صرف فروعات کے لیے دلیل بن سکتے ہیں ‘بنیادی اور اصولی معتقدات کے لیے نہیں۔)
مندرجہ بالا تعریفات سے یہ بات آسانی سے سمجھ آجاتی ہے کہ یہ علم عقیدہ کو دل میں راسخ کرنے ‘ دلیل سے مخاطب کو خاموش کردینے اور اس پر حُجّت تمام کردینے میں مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ جب انسان صحیح عقیدہ کا فہم حاصل کرلیتا ہے اور یہ عقیدہ اس کے جی میں ثبات پکڑلیتا ہے تو گویا اس نے دنیا و آخرت کی مطلوب سعادت کو حاصل کرلیا ۔ اس کو ایسا تصور حاصل ہوگیا ہے جو حقیقت کے عین مطابق ہے اور اُس کے نفس کو ایک ایسی کیفیت حاصل ہوگئی ہے کہ کُل وجود سے ایک گونہ ہم آہنگی اور وجودی موافقت کو اُس نے حاصل کرلیا ۔ ایسا انسان ظاہر ہے کہ سعادت‘جو کہ کمالِ وجود ہے ‘اس کو حاصل کرلے گا ۔ اس سعادت کو ہم ممکن الوجود کے لیے درجاتِ وجود میں ترقی سے بھی عبارت کرسکتے ہیں (چونکہ ممکن الوجود نقص سے خالی نہیں ہوسکتا اس لیے کمالِ وجود کو بھی مکمل طور پر حاصل نہیں کرسکتا ۔)
اسلامی عقیدہ کے بغیر انسان اس سعادت کو نہیں پاسکتا ۔ عقیدئہ اسلام کو اختیار کرنے کے بعد ہی کائنات اور زندگی سے انسان کا تعلق مکمل ہوجاتا ہے ۔ وہ ان کی طبیعت ‘ اہداف اور غایات کا صحیح ادراک کرلیتا ہے ۔ اس کی زندگی سے تضادات کا خاتمہ ہوجاتا ہے اور وہ ہم آہنگی کو حاصل کرلیتا ہے ۔ دوسرے انسانوں سے تعلق کی حس بھی اس میں بیدار ہوجاتی ہے اور پھر جو ان کے ساتھ معاملہ کرتا ہے وہ حق او ر عدل کے ساتھ کرتا ہے ۔ وہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھنا سیکھ لیتا ہے ۔ سعادت اور نیکی کی حقیقت بھی اصل میں یہی ہے ۔
جو علم اتنی اعلیٰ غایات کے حصول کا ذریعہ ہو اس کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ گھٹیا اور ہلکا علم ہے ‘کسی صورت بھی قبول نہیں کیاجا سکتا ۔ جو انسان یہ بات کررہا ہے وہ دراصل جانتا ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ۔ جو علم اتنے بڑے مقاصد کو پانے کا ذریعہ ہو‘ اسے تو علوم میں بہت اعلیٰ مرتبہ کا حامل ہونا چاہیے ۔ اہل ِحق کے بڑے بڑے علماء کے نزدیک یہ علم اسی مرتبہ کا حامل ہے۔ جو انسان تمہیں یہ کہہ کر اس علم سے متنفر کرنے کی کوشش کرے کہ یہ بدعت ہے‘ اس کے دھوکے میں مت آنا ۔ کیا خیر کو اختیار کرنا بدعت ہے ؟ کیا اپنے نفس میں کفر سے لڑنے کے لیے ‘ دوسرے سے کفر کی آلائش کو دور کرنے کے لیے اور دین حق اور خیر کو کفر کے برے اثرات سے بچانے کے لیے اسلحہ کی تیاری (یعنی اس علم کو حاصل کرنا ) بدعت ہے ؟ ہر وہ انسان جس کو اس علم کی تھوڑی سی بھی پہچان حاصل ہے‘ یہ بات جانتا ہے کہ انکشافِ حقیقت‘ نفس کے اطمینان اور اہل ِبدعت و کفر اور اہل ِتشکیک کے الزامات کے جواب دینے میں یہ علم کتنی مدد فراہم کرتا ہے ۔ اس علم کے حصول سے انسان پر تعصب ‘ تقلید کے بغیر اور دلیل و برہان کی بنیاد پر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ اسلام ہی دین حق ہے ۔
اسی لیے اس علم میں صرف قطعی اور یقینی دلائل ہی لیے جاتے ہیں(اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظنی دلائل اور ظنی مسائل زیر بحث نہیں آتے)۔ مختلف احکام اور مفاہیم کے اثبات یا نفی میں یقین ہی اساس قرار پاتا ہے ۔ عقائد کے معاملات میں ظنی دلائل معتبر نہیں سمجھے جاتے‘ اگرچہ عملی معاملات میں ان سے کام لیا جاتا ہے ۔ بنیادی عقائدی مسائل میں جو غوروفکر قطعی بات تک نہ پہنچائے ‘اس سے دلیل ہی اخذ نہیں کی جاتی ۔ ظنی معاملات میں خطا کا امکان ہوتا ہے لہٰذا عقیدہ کی بنیاد کسی ایسے معاملے پر رکھنا جس میں غلطی کا امکان ہو ‘درست نہیں ۔ جو بھی عقیدہ کی بنیاد ظنی بات یا دلیل پر رکھتا ہے وہ اصلاً عقیدہ کے مفہوم ہی سے واقف نہیں ۔
اعتقادی مسائل اصل میں کچھ کلی مفاہیم ہیں جن پر انسانی زندگی کی اساس ہے ۔ جو شخص زندگی کی بنیاد ایسے امور پر رکھتا ہے جو خود ثابت شدہ نہ ہوں وہ زندگی کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہا ۔ کوئی بھی عاقل انسان زندگی کو کھیل کود اور بے کار نہیں سمجھتا ۔
جہاں تک عملی معاملات کا تعلق ہے ‘وہ تو انفرادی اور جزوی ہوتے ہیں ۔ ایک عاقل کے نزدیک کُل حیات کی بنیاد جزئی اور شخصی معاملات پر رکھنا درست طرزِ عمل نہیں ہے ۔ اسی لیے جزوی معاملات میں ظن کی پیروی کو بھی صحیح قراردیا گیا ہے‘ کیونکہ ظن اصل میں تو حقیقت اور واقع کے مطابق ہوتا ہے البتہ اس کے ساتھ غلطی کا احتمال بھی رہتا ہے ۔ اس کو صحیح قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جزئی معاملات میں قطعیت اور یقین کا حصول اکثر ممکن نہیں ہوتا ۔ اگر ہم ہر معاملہ میں یقین کو لازم قرار دے دیں گے تو زندگی کے بہت سے ضروری کام ناممکن ہوکر رہ جائیں گے ۔ ان وجوہات سے عملی معاملات میں ظن غالب ہی کو کافی سمجھا گیا ہے ۔
اسی لیے خبر واحد یقین اور قطعیت کا باعث نہیں ہوتی اگر اور قرائن سے صرفِ نظر کرکے صرف اس کو دیکھا جائے کیونکہ انسان (نبی کے علاوہ ) معصوم مطلق نہیں ہوسکتا ۔ اسی لیے خبر واحد کو قبولِ مطلق حاصل نہیں ہے ۔ مطلق کا لفظ ہم اس لیے استعمال کررہے ہیں کیونکہ یہ بعید ہے کہ کوئی خبر واحد ہر جگہ پر قابل قبول ہو۔ ایسا تب ہی ہوسکتا ہے جب وہ ہر جگہ پر صادق ہو ‘لیکن بحث و نظر کے بعد یہ جان لیا گیا ہے کہ خبر واحد عام طور پر ایسی نہیں ہوتی۔ اسی لیے ہر جگہ وہ قابلِ قبول نہیں ہوتی بلکہ کچھ جگہوں پر اسے قبول کیا جاتا ہے اور بعض مواقع پر ردّ ۔ اس کا تعین اس خبر کے ساتھ واقع ہونے والے قرائن واحوال کو جانچنے کے بعد کیا جاتا ہے ۔ ( ایک صورت میں اسے مطلقاً قبول کیا جاتا ہے ) اگر تمام جہات سے اس کی قطعیت کسی دوسری دلیل کی بنا پر ثابت ہوجائے ۔
خبر واحد تمام قرائن سے مجرد حالت میں ظن ہی پیدا کرتی ہے ‘ اور یہ بھی راوی کے ثقہ ہونے پر ہے ۔ اگر راوی ثقہ نہ ہوتو پھر ظن بھی حاصل نہ ہوسکے گا بلکہ وہ خبر جھوٹی اور مردود ہوگی یا مشکوک قرار دی جائے گی ۔ اس لیے عقائد کی بنیاد خبر واحد پر نہیں رکھی جاسکتی اور نہ اخبار آحاد سے عقائد کو اخذ کیا جاسکتا ہے ۔ عقائد قطعی دلائل سے ہی اخذ کیے جاتے ہیں ۔ ان (قطعی دلائل ) میں خبر متواتر ہے ‘ کیونکہ تواتر یقین پیدا کرتا ہے ۔ اب تک کی بات سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ عملیات میں تو خبر واحد سےدلیل اخذ کی جاسکتی ہے لیکن عقائد میں نہیں‘ مگر یہ ہے کہ اگردوسرے قرائن اور قطعی دلائل سے خبر واحد میں بیان ہونے والی بات ثابت ہوتی ہو(تو تب عقیدہ میں بھی اس سے استدلال کیا جا سکتا ہے) جیسا کہ ہمارے علمائے اصول نے اس کو عمدہ طریقے سے واضح کیا ہے ۔
اس تعریف سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ شرعیات کے دائرہ سے باہر علوم عقائد سے کوئی سروکار نہیں رکھتے اور نہ وہ عقائد کے معاملات میں معتبر ہیں‘ مثلاً طبیعیات اور ریاضیات وغیرہ ۔ اس طرح شریعت کا وہ دائرہ جس کا تعلق عملیات و فرعیات سے ہے اس کا تعلق بھی اصلاًعقائد سے نہیں بلکہ اس کو فقہ میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اگر فروعی اور عملی معاملات بھی عقائد میں معتبر ہوجائیں تو ان معاملات میں مخالف کی تکفیر لازم آئے گی ۔ تکفیر تک معاملہ نہ بھی پہنچےتو اس کو بدعتی قراردینا ‘اس سے نفرت اور راضی نہ ہونا تو ہوگا ہی۔ یہیں سے عدم موافقت ‘ اختلاف اور قطع تعلقی جنم لے گی ۔ اگرفرعیات کو عقائد کی سطح پر لے آیا جائے تو اپنے سے مخالفت کرنے والے مسلمان سے نفرت لازماً پید اہوگی ‘عقید ہ میں نہیں بلکہ فقہی مسائل میں اور اس کا نتیجہ تفرقہ و فساد کی صورت میں نکلے گا ۔
اسی بات سے ان لوگوں کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے جو عقائد اور عملیات سے متعلقہ احکام کے (قرآن و سنت سے) اخذ کرنے کے طریقے میں کوئی فرق نہیں سمجھتے اور ان کو بھی قطعی سمجھتے ہیں‘ (یعنی ) فقہی معاملات کو بھی قطعی قرار دیتے ہیں ۔ ان لوگوں کے نزدیک (ان کے اس نظریہ کی وجہ سے ) صرف فقہی معاملات میں اختلاف کی بنیاد پر بھی دوستی اور براءت لازمی آتی ہے ۔ اس بات کو وہ اگر فقہ میں پائے جانے والے قطعی معاملات تک محدود رکھتے تو شاید معاملہ بہتر ہوتا ۔ لیکن یہ تعمیم ( یعنی اس بات کو ہر فقہی مسئلہ تک عام کردینا ) انوکھی ہے ۔ یہ لوگ اہل ِسُنّت والجماعت میں نہیں ہیں اور نہ ہی جس منہج پر یہ لوگ اعتماد کیے بیٹھے ہیں اس کا اہل ِحق کے طریقے سے کوئی تعلق ہے ۔ ان کے اس قول سے درست منہج و مسلک سے ان کی دوری کی حدود نمایاں ہوتی ہیں۔ وہ لوگ اپنے اس طرح کے اقوال سے مسلمانوں میں فتنوں اور مشکلات کو جنم دے رہے ہیں جس کے نتیجہ میں منافقین اور کفار کے بالمقابل ‘ ان میں تفرقہ اور شکستگی پیدا ہوگی ۔ اسی لیے ہم ہمیشہ یہ دیکھتے آرہے ہیں کہ کافر اور ظالم ریاستیں اس طرح کے لوگوں اور ان کے افکار کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔ ان کو عوام الناس میں انتشار پھیلانے اور ان کے عقائد و نفسیات کو مسخ کرنے اور فکری ہیجان پید ا کرنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں ۔ ان مجرموں کو یہ چیز خوش آتی ہے کیونکہ ان کے لیے عوام الناس پر غلبہ اور ان کے ہدف کے حصول کو آسان بناتی ہے ۔ (اسی طرح ) دین کا استحصال اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے بھی آسان ہوجاتا ہے ۔ یہ چیز دشمنانِ دین کو ایسے مختلف قسم کے اسلحے فراہم کردیتی ہے کہ ان کے لیے حق اور ہدایت کے داعیوں (کی کوششوں ) کو پامال کرنا اور ان کی بری صورت عام لوگوں کے دل میں قائم کرنا ممکن ہوجاتا ہے ‘کیونکہ یہی لوگ ہیں جن کے پاس عوام الناس کو متاثر کرنے کے وسائل موجود ہیں ۔ یہیں سے ان لوگوں کے ہاتھ ان کو نقصان پہنچانے بلکہ مطلقاً ختم کردینے کا جواز آجاتا ہے ۔
مقلد کا اعتقاد علم ہے یا نہیں؟
سوال یہ ہے کہ مقلد ِمحض اپنے سینے میں جو (اعتقادات) پاتا ہے اس پر علم کا اطلاق درست ہے یا نہیں ؟ اگر علم کے مفہوم میں دلیل کو شامل سمجھا جائے تو (مقلد کےاعتقادات) قطعی طور پر علم قرار نہیں دیے جاسکتے ۔ اگر ایسا نہیں ہے ( یعنی علم میں دلیل کو شامل نہ سمجھا جائے ) تو پھر وہ علم ہے ۔ بعض علماء نے دوسرے نقطہ نظر کو اختیار کیا ہے۔ غوروفکر کرنے والا شاید دوسری رائے کی طرف ہی مائل ہو‘ کیونکہ درست مفاہیم تک پہنچنا ‘ اور یقین ‘ اطاعت اور تسلیم کے ساتھ اس سے جڑے رہنا ہی دلیل اور نظر سے مقصود ہے ۔ اگر مقلد کو یہ مفاہیم حاصل ہوجاتے ہیں تو اس کو فکر ِسلیم کا مالک کہا جاسکتا ہے ۔ اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ ان (مفاہیم ) کا عالم ہے لیکن وہ ان کی دلیل سے ناواقف ہوتا ہے ۔ ان دونوں اقوال میں کوئی تناقض نہیں ہے ۔ ایک انسان کے لیے ان دونوں کو ایک ساتھ قبول کرنا ممکن ہے (دونوں اقوال سے مراد یہ ہے کہ علم کی ماہیت میں دلیل شامل ہے یا نہیں )۔ یہ اس پر دلیل ہے کہ علم تو یقین اور قطعیت کے ساتھ اور خارج کے ساتھ مطابقت رکھتے ہوئے ادراکِ حقائق کا نام ہے(یعنی محض علم کے لیے اتنا کافی ہے‘ دلیل ایک اضافی کمال ہے) اورعلم کا کمال علم کے دلیل کے ساتھ متصف ہونے میں ہے ۔ اس لیے صحیح العقیدہ مقلد کے دخولِ اسلام کی درستگی اورآخرت میں نجات کے لیے اللہ کی مشیت سے اتنا علم (بغیر دلیل کے ) کافی ہے ۔
یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ہم قبولِ ایمان اور مطلق علم کے مفہوم میں فرق کرتے ہیں ۔ قبولِ ایمان قطعیت اور یقین پر مبنی ہے چاہے (ایمان لانے والے کو ) دلیل حاصل نہ ہو۔ جہاں تک علم کا معاملہ ہے تو اس میں قطعیت دلیل کے ساتھ حاصل ہوتی ہے۔ اس تفصیل سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ مقلد کا ایمان تو قبول ہوجائے گا لیکن دلیل کے ساتھ علم جو مقلد پر واجب ہے وہ اس کے ذمہ باقی رہے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بغیر دلیل کے مقلد کا رتبہ اس انسان سے بہت کم ہے جو دلیل بھی جانتا ہے ۔ پھر جس نے دلیل کو بذاتِ خود جانا ہے اس کا رتبہ اس سے بہت بلند ہے جس نے دلیل کو دوسرے سے سیکھا ہے ۔ یہ (علم کے)درجات ہیں جیسے وجود میں درجات ہوتے ہیں ۔ یہ تو مطلق ایمان سے متعلق بات تھی ۔
جمہورعلماء کا مسلک یہ ہے کہ علم بغیر موجب ( ایسی بات یا چیز جو علم کو لازمی یا واجب کرے ‘ دلیل اس میں شامل ہے ) کے نہیں ہوتا۔ موجب کبھی حواس ہوتے ہیں ‘کبھی نظر عقلی اور کبھی موجب میں نقلی مقدمات پر اعتماد شامل ہوتا ہے‘ یا اس کے علاوہ کچھ ہوتا ہے جیسا کہ علم اصول و منطق میں بیان کیا گیا ہے ۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ صرف مجرد تصور کوجو خارج سے مطابقت رکھتا ہو ‘علم قرار نہیں دیا جاسکتا ۔ ضروری ہے کہ وہ کسی دلیل سے ثابت ہو‘ تاکہ اس کو علم کہا جاسکے ۔ یعنی دلیل علم کی ماہیت میں شامل ہے ۔ علم کے تین لازمی خصائص ہیں :
(۱) یقین وقطعیت
(۲) خارج سے مطابقت
(۳) اس کے لیے موجب (دلیل ) کا ہونا
یقین و قطعیت اورمطابقت تو ایسے لوازم ہیں کہ علم سےان کومنہا کرنے کا تصور ہی ممکن نہیں۔ جہاں تک موجب اور دلیل کا معاملہ ہے تو اس میں بعض کا اختلاف ہے ۔ جن لوگوں نے دلیل کو علم کی ماہیت میں شامل کیا ہے اور اعتقاد(ایمان ) کو دلیل کے ساتھ مشروط ٹھہرایا ہے ان کے نزدیک جو دلیل نہیں رکھتا (یعنی مقلد) اس کا اعتقاد باطل ہے ۔البتہ اگر اس نے اعتقاد کو علم کے ساتھ مشروط نہیں قراردیا بلکہ صرف یقینی اور قطعی تصور اور اس کی (خارج سے ) مطابقت کو ہی ضروری ٹھہرایا ہے تو اس کے نزدیک مقلد کا اعتقاد صحیح ہے ( یعنی مقبول ہے )۔ جو علم کی ماہیت میں دلیل کو شامل نہیں سمجھتا لیکن اعتقاد کو علم کے ساتھ مشروط قرار دیتا ہے ‘اس کے نزدیک تو ہر صورت میں مقلد کا ایمان قابلِ قبول ہے ۔ اس ( آخری بیان کردہ ) مذہب میں علم اور اعتقاد کی دوئی کا تصورہی نہیں کیا جا سکتا ۔
بنیادی بات یہ ہے کہ اہل ِسُنّت کے جمہور نے مقلد کے ایمان کو صحیح قراردیا ہے لیکن اس پر دلیل کو واجب بھی ٹھہرایا ہے ۔ اگروہ دلیل سے واقف نہیں ہوتا تو اس کو گنا ہ گار شمار کیا جائے گا ۔
جہاں تک علم کلام کا معاملہ ہے تو یہ جان لینا چاہیے کہ کوئی بھی انسان بغیر دلائل کے علم کے علم توحید ‘ جوکہ خدا کی ذات و صفات کا علم ہے ‘ کا عالم نہیں بن سکتا ۔ اس علم کے مقاصد میں مخالف کو دلائل سے ساکت کرنا ‘ عقائد کو دلوں میں جازم و راسخ کرنا اور ان کی شرح و وضاحت کرنا شامل ہیں جو بغیر دلائل کے علم کے ممکن نہیں ۔ اس بات میں اورمقلد کے ایمان کی بحث میں خلط سے بچنا چاہیے ۔ مقلد کے ایمان کے سلسلے میں جو بات ابھی کی گئی ہے اس میں مختلف فیہ مسئلہ یہ تھا کہ مقلد کا ایمان مقبول ہے یا نہیں ! مقلد جس کا ادراک کرتا ہے اس کو علم کہا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ (جبکہ اب بات متکلم کی ہو رہی ہے نہ کہ مقلد کی) تمام اقوال سے یہ نتیجہ تو نکلتا ہی ہے کہ مقلد اس فن (علم کلام) کا آدمی نہیں ہے اور مقلد کی حیثیت سے اس پراس علم کا کھولنا مناسب نہیں ہے ‘ لیکن اگر وہ طالب علم بن کر اس علم کو حاصل کرنا چاہتا ہے تب کوئی حرج نہیں ۔ اس فن کو اگر زیادہ مقلدین کے سامنے پیش کیا جائے تو اس کے نتیجہ میں لازما ً فتنہ اور مشکلات جنم لیتی ہیں ۔ اس لیے اکثر اہل ِعلم یہ کہتے ہیں علم فقہ کے برخلاف علم کلام جو کہ علم توحید ہے‘ خواص کا علم ہے ۔اسے عوام پر پیش کرنا مناسب نہیں ۔ویسے تحقیقی بات تو یہ ہے کہ علم فقہ میں بھی ہر مسئلہ کا نشرعام جائز نہیں ۔ جو علم فقہ اور اس کے مسائل پر گہر ی نگاہ رکھتا ہے‘ اس پر یہ بات مخفی نہیں ۔
اس لیے سب پرتمام علوم میں اور خاص طور پر علومِ شرعیہ کی تعلیم میں لوگوں کے احوال کی رعایت لازمی ہے۔کسی کے لیے یہ مناسب نہیں ہے کہ اس بات سے اجنبیت محسوس کرے اور منکر ہو جائے اور یہ سوال اٹھائے کہ ایک معاملہ جو کہ دینی معاملات میں سے ہے اس کے بارے میں یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس کی تعلیم سب کو نہ دی جائے ! الزامی طور خاموش کرنے کے لیے اس کو یہ جواب دیا جاسکتا ہے کہ:’’ تمہاری مراد یہ ہے کہ دینی معارف اور غیب کے معاملات میں اللہ کے نبیﷺ جو کچھ جانتے تھے وہ سب لوگ جانتے ہیں یا ان کو جاننا چاہیے ؟ اگر تم ہاں کہتے ہو تو تم اس قولِ رسول ؐ کی مخالفت کررہے ہو جس میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ ’’ اگر تم وہ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم روئوزیادہ اور ہنسو کم‘‘ تم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس قول کی بھی صریح مخالفت کی ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ: ’’ لوگوں سے ان کی عقل کے مطابق گفتگو کیا کرو ۔کیا تم یہ چاہتے ہو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کو جھٹلا دیا جائے؟ ‘‘ پس بہت سے دینی حقائق و معارف سے لوگوں کی ایک قلیل تعداد ہی واقف ہوتی ہے اور انہی کو اہل علم کہا جاتا ہے۔ بعض لوگ درجات میں دوسروں سے بلند ہوتے ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ِعلم کو دوسروں پر فضیلت دی ہے اور اسی لیے اللہ تعالیٰ نے عوام الناس کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ اہل ِعلم سے پوچھیں ۔جاہل سے امورِ دینی کی بابت استفساراوراس کے اس طرح کے معاملات میں الجھنے کوشریعت نے حرام قراردیا ہے ۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی اور اپنے رسو ل ﷺ کی اطاعت کو اہل ِعلم کی اطاعت کے ساتھ جوڑکر بیان کیا ہے ۔ اس معاملہ کواس طرح نہ سمجھا جائے کہ ان معاملات کو چھپایا جارہا ہے جن کو سب کے سامنے ظاہر کرنا ضروری ہے بلکہ یہ ان امور کا اخفا ہے جن کی معرفت کا حق عام لوگوں کو حاصل نہیں ‘یا اس کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ علماء پر ان کا بیان اور تعریف واجب نہیں ۔ عاقلوں پر یہ بات مخفی نہیں کہ بہت سے امورکی تبیین و وضاحت تمام لوگوں کے سامنے کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔ یہ معاملہ لوگوں سے معاملات کو چھپانے یا پوشیدہ رکھنے کا نہیں بلکہ یہ امور و معاملات کو ان کے درجہ اور ان کی مناسب جگہ پر رکھنے کا ہے ۔ اس بات میں عقلاء کو غوروفکر کرنا چاہیے۔