تعارف و تبصرہ
نام کتاب:اقامت ِدین: روایت‘ عمل ‘ راہنمائی
مرتبہ:سلیم منصور خالد
صفحات : 519 قیمت : 1350روپے
ناشر:منشورات ‘ لاہور
یہ اپنے موضوع کے اعتبار سے ایک منفرد کتاب ہے ۔ اس کو جناب سلیم منصور خالد نے ترتیب دیا ہے۔ موصوف ماہنامہ ’’ترجمان القرآن‘‘ کے نائب مدیر ہیں اور انہوں نے پروفیسر خورشید احمد کے زیرسایہ طویل عرصہ تحقیقی اور دعوتی کام کیا ہے۔ پروفیسر صاحب کے دارِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد بھی جناب منصور خالد پیہم دعوتِ دین کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ زیر نظر کتاب میں تصورِ اقامت دین پر اعتراضات کا مدلل جواب دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں تفصیلی اشاریہ بھی شامل ہے جس سے اس کی افادیت بڑھ گئی ہے۔ دیباچہ پروفیسر خورشید احمد کا لکھا ہوا ہے‘ جنہیں اس کتاب کی اشاعت سے خصوصی دلچسپی تھی۔
اس کتاب میں کئی اہل علم کی تحریریں شامل ہیں‘ جن کا مختصر تعارف اشاریہ کے بعد دیا گیا ہے۔ اصل بحث اقامت دین کے موضوع سے متعلق ہے۔ اہل علم کی تحریروں کی روشنی میں مرتب نے اقامت دین کو روایتی تسلسل سے تعبیر کیا ہے۔ کتاب کا ایک خاص حصہ اقامت دین کی جدوجہد سے متعلق سوالات پر مشتمل ہے‘ جو مولانا مودودیؒ سے مختلف مجالس میں کیے گئے تھے۔ ان سوالات اور جوابات کو ترتیب ِزمانی کے مطابق ڈھالا گیا ہے‘ جو کتاب کے ایک بڑے حصے کا احاطہ کرتے ہیں۔اقامت ِدین کی فکر پر کئی لوگوں نے نقد بھی کیا ہے۔ مولانا وحیدالدین خاں نے اپنی کتاب ’’تعبیر کی غلطی‘‘ میں اسی فکر پر برملا تنقید کی ہے‘ جسے اب جناب جاوید احمد غامدی آگے پھیلا رہے ہیں۔ مولانا امین احسن اصلاحی جن کی طرف غامدی صاحب اپنی نسبت کرتے ہیں‘اقامت ِدین کے تصور پر مبنی ان کا بھی ایک مضمون اس کتاب میں شامل ہے ۔ مولانا مودودی ؒ کی ساری فکر ہی اقامت ِدین پر مشتمل ہے اور یہی ان کی پہچان ہے۔
اقامت ِدین کا تصوّر دراصل اسلام کے سیاسی نظام کو اجاگر کرتا ہے اور اسی فکر کے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم مؤید تھے۔ تنظیم اسلامی اور جماعت اسلامی دونوں اسی فکر پر قائم ہیں‘ تاہم بنیادی فرق طریق کار کا ہے۔ تنظیم اسلامی پُرامن احتجاج کا راستہ اختیار کیے ہوئے ہے جبکہ جماعت اسلامی الیکشن کے راستے کو مؤثر سمجھتی ہے۔البتہ دونوں کی سوچ یکساں ہے اور وہ اقامت ِدین ہے۔ اس کتاب میں بعض ایسے علماء کی بھی تحریریں شامل ہیں جو اقامت ِدین کی اہمیت وضرورت کے قائل ہیں۔ جیسے صوفی عبدالحمید سواتی کا مضمون اس کتاب کی زینت ہے حالانکہ وہ دیوبندی مسلک کے ایک نمائندہ عالم تھے۔ جمعیت علماء اسلام جو ایک دینی سیاسی جماعت ہے‘ وہ بھی دراصل نفاذِ اسلام اور اقامت ِدین ہی کے لیے کوشاں ہے۔ ان کی حکمت عملی سے تو اختلاف ہو سکتا ہے‘ لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وہ بھی اسلام کے سیاسی پہلو کو اجاگر کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ کے اس جملے کا بھی کافی چرچا ہے کہ ’’اگرچہ کوئی اعتراض شرعی لحاظ سے بظاہر وارد نہ کیا جا سکے لیکن میرا دل اس تحریک (جماعت اسلامی) کو قبول نہیں کرتا۔‘‘ یہ جملہ اس پہلو سے قابل غور ہے کہ تصورِ اقامت دین پر تھانوی صاحب کو شرعی لحاظ سے کوئی اعتراض نہ تھا ‘البتہ دین کی خدمت کرنے کے حوالے سے ان کا مزاج الگ تھا‘جو کہ ایک فطری امر ہے۔
جناب سلیم منصور خالد لائق ِتحسین ہیں کہ وہ ایک ایسے موضوع کو زیربحث لائے ہیں جو موجودہ دور کی ضرورت ہے‘ کیونکہ مسلمان آج سیاسی طور پر پریشان ہیں۔ فلسطین اور غزہ کی صورتِ حال نہایت بھیانک ہے۔ اگر اقامت ِدین کا تصوّر اپنی عملی شکل میں معدوم رہے تو مسلمان اپنی عظمت رفتہ کیسے بحال کر سکیں گے؟ اسے فرضیت کےآئینے میں نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ ایک بھاری اور اہم ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ ہر شخص کی صلاحیت اور قابلیت میں فرق ہوتا ہے۔ یہ کام وہی کر سکتا ہے جس کو اسلام کے سیاسی پہلو سے کچھ شغف ہو اور وہ اسلامی سیاست کا ادراک رکھتا ہو۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : {قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ط} (بنی اسرائیل:۸۴)’’آپ ؐکہہ دیجیے کہ ہر شخص کام کرتا ہے اپنے شاکلہ کے مطابق۔‘‘اس قانونِ فطرت کو سامنے رکھتے ہوئے ہمیں اپنی صلاحیتوں کا مطابق دین کی خدمت میں مصروفِ عمل رہنا چاہیے۔
ہماری خواہش ہے کہ جس جماعت کی اٹھان ہی اقامت ِدین کے نظریہ پر ہو‘ وہ اقتدار میں آئے تاکہ نیکی فروغ پائے اور مسلمانوں کا کھویا ہوا اعتمادبحال ہو۔ آج غزہ کے مظلوم مسلمانوں کی نظریں ان لوگوں کی تلاش میں ہیں جو انہیں طاغوتی قوتوں کے ظلم سے نجات دلا دیں۔ یہ کام وہی لوگ کر سکتے ہیں جو اقامت دین کا نظریہ اختیار کر کے ایک آزاد اسلامی ریاست قائم کریں۔ یوں ان لوگوں کا نقطۂ نظر بھی قدر کھو دے گا جو سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی خلافت دوبارہ قائم نہیں ہو سکتی۔ (تبصرہ نگار: محمد مشتاق ربانی)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025