(تذکر و تدبر) مِلاکُ التأوِیل (۲۸) - ابو جعفر احمد بن ابراہیم الغرناطی

9 /

مِلاکُ التأوِیل (۲۸)
تالیف : ابوجعفر احمد بن ابراہیم بن الزبیرالغرناطی
تلخیص و ترجمانی : ڈاکٹر صہیب بن عبدالغفار حسن

سُورۃُ ھُود

(۱۷۱) آیت ۱۰
{وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَاۗءَ بَعْدَ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ ۭ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ(۱۰)}
’’اور اگر ہم اسے کوئی نعمت چکھائیں اس تکلیف کے بعد جو اُسے لگ چکی تھی تو وہ کہے گا کہ میری ساری مصیبتیں مجھ سے دُور ہو گئیں۔ بے شک وہ بڑا اِترانے والا اور شیخی مارنے والا ہے ۔‘‘
اور سورئہ حم السجدۃ کی آیت ۵۰ میں ارشاد فرمایا:
{وَلَئِنْ اَذَقْنٰہُ رَحْمَۃً مِّنَّا مِنْۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ھٰذَا لِیْ ۙ وَمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَاۗئِمَۃً ۙ}
’’اور اگر ہم اسے اپنی طرف سے کسی رحمت کا مزا چکھاتے ہیں اُس مصیبت کے بعد جو اُسے پہنچ چکی تھی تو وہ کہے گا : مَیں تو اسی کا حق دار تھا‘ اور مَیں نہیں سمجھتا کہ قیامت کی گھڑی آنے والی ہے۔‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورئہ حٰمٓ السَّجدۃ کی آیت میں دو الفاظ کا اضافہ ہے جو سورئہ ہود کی آیت میں وارد نہیں ہوئے اور وہ ہیں ’’مِنَّا‘‘ لفظ رَحْمَۃ کے بعد اور ’’مِنْ‘‘ بَعْد سے پہلے ‘تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب ‘ واللہ اعلم! یہ سمجھ میں آتا ہے کہ سورئہ حٰمٓ السَّجدۃ میں اس آیت سے قبل وہ زائد مضمون ہے جو سورئہ ہود میں نہیں وارد ہوا ہے ۔ سورئہ حٰمٓ السَّجدۃ میں اس آیت سے قبل کافر کا یہ قول نقل ہوا ہے : {وَیَوْمَ یُنَادِیْھِمْ اَیْنَ شُرَکَاۗءِیْ ۙ}(آیت ۴۷) ’’اور اس دن وہ انہیں پکارے گا :کہاں گئے میرے شریک!‘‘ اور اس سے مقصود یہ ہے کہ اُس کے شریک خدا اُس کے کسی کام نہ آسکیں گے‘اور وہ اس بات کو جان لے گا کہ جو کچھ وہ اس دنیا میں کرتا رہا سب بے کار تھا اور آج کے دن اللہ کے عذاب سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اب چونکہ یہاں شرکاء کا ذکر ہے تو ’’رَحْمَۃً مِّنَّا‘‘ کہہ کر اس بات کو ظاہر کیا گیا ہے کہ دینے والا صرف اللہ ہے اور اس کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہے۔ اور سورئہ ہود میں شرکاء کا ذکر نہ تھا اس لیے ’’مِنَّا‘‘ کا اضافہ بھی مناسب نہ تھا۔
چونکہ سورئہ حٰمٓ السَّجدۃ میں یوں تفصیل سے کام لیا گیا تھا تو یہاں ’’مِنْ‘‘ کا اضافہ (یعنی مِنْ ۢ بَعْدِ ضَرَّاۗءَ) بھی مناسب تھا۔ اور ہم پہلے بھی اس اصول کا تذکرہ کر چکے ہیں کہ جہاں اطناب (یعنی طوالت) ہو تو وہاں الفاظ کی بھی زیادتی ہوتی ہے اور جہاں ایجاز ہو وہاں الفاظ بھی کم لائے جاتے ہیں۔ واللہ اعلم!
(۱۷۲) آیت ۱۷
{وَمَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ ۚ فَلَاتَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ ۤ اِنَّہٗ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۷)}
’’اور ان گروہوں میں سے جو اس کا انکار کرتا ہے تو اس کے لیے آگ کا وعدہ ہے‘ اور آپؐ کو اس بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ یہی حق ہے آپؐ کے ربّ کی طرف سے‘ لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ہیں۔‘‘
اور آخر میں جہاں جنت کا یہ وصف ارشاد ہوا:{عَطَاۗءً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ(۱۰۸)}’’یہ وہ عطا ہے جو کٹنے والی نہیں ہے۔‘‘اس کے بعد (آیت۱۰۹ میں) فرمایا:
{فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّمَّا یَعْبُدُ ھٰٓؤُلَاۗءِ ۭ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا کَمَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُھُمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ}
’’تو پھر تم شک میں نہ پڑو اس عبادت سے جو یہ لوگ کر رہے ہیں۔ یہ وہی عبادت کر رہے ہیں جو ا س سے قبل ان کے آباء کیا کرتے تھے۔‘‘
اور سورۃ السجدۃ میں ارشاد فرمایا:
{وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ فَلَا تَکُنْ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْ لِّقَاۗئِہٖ} (آیت ۲۳)
’’اور بے شک ہم نے موسیٰ کو کتاب دی تو تم اس سے ملاقات کے بارے میں کسی شک میں نہ پڑ جانا۔‘‘
اس آیت میں ’’تَکُنْ‘‘’’ن‘‘ کے ساتھ آیا ہے جبکہ پہلی دو آیات میںبغیر نون کے صرف ’’فَلَا تَکُ‘‘ کے الفاظ ہیں تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’تَکُون‘‘ سے قبل اگر حرف جازم (جیسے لَمْ) آجائے تو اہل عرب کے نزدیک اس میں وہ کچھ تصرفات کیے جا سکتے ہیں جو اس سے مشابہ الفاظ میں نہیں کیے گئے۔ایک بات تو یہ ہے کہ اگر دو ساکن حرف مل جائیں تو ’’وائو‘‘ حذف ہو جاتا ہے جیسے سورۃ السجدۃ کی آیت میں دیکھاجا سکتا ہے (لَا تَ کُ وْ نْ) ’’لَا‘‘ حرفِ جازم ہے جس کی وجہ سے ’’ن‘‘ پر جزم ہے اور اس سے قبل ’’و‘‘ بھی ساکن ہے تو یوں دو ساکن حروف مل گئے تو ’’و‘‘ حذف ہو گیا۔لیکن فصیح کلام میں اگر ’’ن‘‘ متحرک ہو تو پھر ’’ن‘‘ حذف نہیں ہوتا‘ چاہے یہ حرکت اگلے لفظ سے ملا کر پڑھنے کے لیے ہی کیوں نہ ہو ‘جیسے :{لَمْ یَکُنِ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا}یہاں اصل میں ’’لَمْ یَکُنْ‘‘ تھا ‘لیکن اگلے لفظ سے ملانے کے لیے نون پر حرکت آ گئی۔ البتہ شعر میں اس کا لحاظ نہیں کیا جاتا اور اسے حذف کیا جاسکتا ہے ‘جیسے : ؎
لـم یَکُ الحقّ سِوَی اَنْ ھَاجَہٗ
رسمُ دارٍ قد تَعَضَّی بالسُوَرٖ


’’حق نہیں تھا سوائے اس کے کہ (اس کے دل میں) یہ دیکھ کر ہیجان پیدا ہواکہ گھر کی صرف نشانی ہی رہ گئی ہے جو کہ اپنے احاطہ کے ساتھ مٹ چکا ہے۔‘‘
سورئہ ہود کی دونوں آیات میں اصل قاعدے کے مطابق ’’ن‘‘ محذوف کر دیا گیا‘ صرف (فَلَا تَکُ) کہا گیا اور سورۃ السجدۃ کی آیت میں مذکورہ وضاحت کے مطابق صرف ’’و‘‘ حذف ہوا ’’ن‘‘ باقی رکھا گیا۔ اور یہ اس لیے کہ سورئہ ہود کی دونوں آیات میں {فَلَاتَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ ۤ}کے بعد چند کلمات اور ہیں اور پھر بات ختم ہوجاتی ہے۔پہلی آیت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں:{اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ(۱۷)}اور دوسری آیت کے بعد یہ الفاظ ہیں:{مِّمَّا یَعْبُدُ ھٰٓؤُلَاۗءِ ۭ مَا یَعْبُدُوْنَ اِلَّا کَمَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُھُمْ مِّنْ قَبْلُ ۭ وَاِنَّا لَمُوَفُّوْھُمْ نَصِیْبَھُمْ غَیْرَ مَنْقُوْصٍ(۱۰۹)}لیکن سورۃ السجدۃکی مذکورہ آیت سے متصل کلام تین آیات میں پھیلا ہواہے‘ فرمایا:
{وَجَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَاۗءِ یْلَ(۲۳)}
{وَجَعَلْنَا مِنْھُمْ اَئِمَّۃً یَّھْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا ڜ وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ (۲۴)}
{اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَفْصِلُ بَیْنَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ(۲۵)}

اور ہم یہ قاعدہ بارہا ذکر کر چکے ہیں کہ جہاں کلام مختصر ہو تو وہاں بعض الفاظ اختصار کے ساتھ لائے جاتے ہیں اور جہاں کلام میں طوالت ہو تو وہاں الفاظ کے ذخیرے میں بھی اضافہ کر دیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم!
(۱۷۳) آیت۲۲
{لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ (۲۲)}
ََََ ’’اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ لوگ آخرت میں خسارہ پانے والوں میں سے ہیں۔‘‘
اور سورۃ النحل میں ارشاد فرمایا:
{لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۰۹)}
’’اور کوئی شک نہیں کہ آخرت میں یہی لوگ خسارہ پانے والوں میں سے ہیں۔‘‘
سورئہ ہود کی آیت میں ’’الْاَخْسَرُوْنَ‘‘ صیغہ تفضیل ہے اور سورۃ النحل کی آیت میں ’’الْخٰسِرُوْنَ‘‘صیغہ فاعل ہے تو اس فرق کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورئہ ہود کی مذکورہ آیت سے قبل جتنی بھی آیات ہیں ان میں تفضیل جھلکتی ہے۔ فرمایا:{اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ } (آیت۱۷)’’کیا وہ شخص جو اپنے ربّ کی طرف سے کھلی کھلی نشانی پر ہے؟‘‘یعنی کیا وہ اس کے برابر ہو سکتا ہے جو کفر کرے‘ انکار کرے اور رسولوں کو جھٹلائے؟اس کے بعد افعل التفضیل کے صیغے کے ساتھ فرمایا:{وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللہِ کَذِبًاط} (آیت۱۸)’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا‘‘۔پھر ان لوگوں کے مزید اوصاف ذکر کیے گئے کہ وہ اللہ ربّ العز ّت کے سامنے پیش کیے جائیں گے۔ اور پھر گواہوں کا قول نقل کیا گیا:
{ھٰٓؤُلَاۗءِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ ۚ اَلَا لَعْنَۃُ اللہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ (۱۸) اَلَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ } (آیت ۱۸۔۱۹)
’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنے ربّ پر جھوٹ باندھا ہے۔ خبردار رہو کہ اللہ کی لعنت ہے ظالموں پر۔ جو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں۔‘‘
اور پھر ذکر کیا گیا کہ ان کا عذاب دوچند کیا جاتا رہے گا ۔اور یہ بات پھر اس آیت پر ختم ہوتی ہے:{لَاجَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ھُمُ الْاَخْسَرُوْنَ(۲۲)}
اس سیاقِ قرآنی کو دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آخر میں ان لوگوں کے بارے میں ’’الْاَخْسَرُوْنَ‘‘ بصیغہ تفضیل اسی لیے لایاگیا ہے کہ ان لوگوں کے جرائم میں بار بار ایسی چیزوں کا ذکر ہورہا ہے جن میں کفر و تکذیب کو حق اور صداقت پر فوقیت دی گئی تھی‘ اس لیے ان لوگوں کے انجام میں بھی بجائے ’’خٰسِرُوْنَ‘‘ (بصیغہ فاعل) کے ’’الْاَخْسَرُوْنَ‘‘ (بصیغہ افعل التفضیل) کا لایا جانا ہی مناسب تھا۔
اس کے بالمقابل سورۃ النحل کی آیت سے قبل کوئی ایسا بیان نہیں ہے جس میں مفاضلت یا ایک چیز کے دوسری چیز پر فوقیت رکھنے کا تذکرہ ہو۔ ملاحظہ ہو ماقبل آیات‘ فرمایا:{اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ ۙ لَا یَھْدِیْہِمُ اللہُ وَلَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴)}’’بے شک جو لوگ اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے‘ اللہ انہیں  ہدایت نہیں دیتا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘{اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ ۚ وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ(۱۰۵)}’’بے شک وہ لوگ جھوٹ گھڑتے ہیں جو اللہ کی آیات پر ایمان نہیں لاتے‘ اور وہی لوگ جھوٹے ہیں۔‘‘اور ایک آیت چھوڑ کر فرمایا:{وَاَنَّ اللہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ(۱۰۷)}’’اور بے شک اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘اور اس کی اگلی آیت میں ارشاد فرمایا: {وَاُولٰۗئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۰۸)}’’اور یہی لوگ غافل ہیں۔‘‘
اب ملاحظہ ہو کہ بیان ہو رہا ہے کُفّار کا‘ ان کے جرائم کا‘ اور ان کے اوصاف کو ان تینوں آیات میں جمع سالم کے صیغے (یعنی کاذبون‘ کافرون‘ غافلون) سے بیان کیا گیا ہے۔ اس لیے مناسب تھا کہ جہاں ان کے انجام کا ذکر ہوا وہاں بھی ’’الْخٰسِرُوْنَ‘‘ کہہ کر صیغہ فاعل سے ہی بات کا اختتام کیا گیا۔ اور یوں واضح ہو گیا کہ دونوں سورتوں کی آیات میں یہ دونوں الفاظ ’’الْاَخْسَرُوْنَ‘‘ اور ’’الْخٰسِرُوْنَ‘‘ اپنی اپنی جگہ سیاق و سباق اور فواصل کے اعتبار سے بالکل مناسب تھے۔ اور اگر اس کا اُلٹ کیا جاتا تو وہ غیر مناسب ہوتا۔ واللہ اعلم!
(۱۷۴) آیت ۲۸(بابت قصّہ نوحؑ)
{قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَاٰتٰىنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ ۭ}
’’اور اس نے کہا: اے میری قوم! تمہاری کیا رائے ہے‘ اگر مَیں اپنے رب کی طرف سے کھلی کھلی دلیل پر کھڑا ہوں اور اس نے اپنے پاس سے مجھے رحمت سے بھی نوازا جو تمہاری نگاہوں سے چھپا دی گئی ہو. . .‘‘
اس کے بعد صالح ؑکے قصے میں ان کا یہ قول نقل ہوا :
{قَالَ یٰقَوْمِ اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِیْ وَاٰتٰىنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً} (آیت۶۳)
’’اور اس نے کہا:اے میری قوم! تمہاری کیا رائے ہے کہ اگر مَیں اپنے رب کی طرف سے کھلی کھلی دلیل پر کھڑا ہوں اور اس نے مجھے اپنی طرف سے رحمت بھی عطا کی ہو. . . .‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صالحؑ کے قول میں ’’مِنْہُ رَحْمَۃً‘‘ کہا گیا۔ یعنی ’’اٰتٰىنِیْ‘‘ کے مفعول اوّل کے بعد پہلے مجرور یعنی ’’مِنْہُ‘‘ لایا گیا اور پھر مفعول ثانی یعنی ’’رَحْمَۃً‘‘ کا ذکر کیا گیا‘ حالانکہ اس ضمیر مجرور کو بعد میںلانا چاہیے تھا‘ جیسا کہ قولِ نوح ؑمیں بیان ہوا یعنی ’’مِنْ عِنْدِہٖ‘‘۔اور وہ اس لیے کہ عام طو رپر ضمیر مفعول کے بعد ہی ذکر کی جاتی ہے تو اس کا کیا سبب ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قومِ صالح اور قومِ نوح کے جواب میں فرق ہے‘ قومِ صالح نے بہت بُرے انداز میں جواب دیا جب انہوں نے یہ الفاظ کہے:{قَدْکُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ} (آیت۶۲)’’اس سے پہلے تو تُو ہمارے نزدیک بڑی اُمیدوں کا مرکز تھا۔‘‘یعنی ہم تو یہ امیدیں لگائے بیٹھے تھے کہ تُو ہمارا سردار ہو گا‘ ہم تیرے مشورے کے بغیر کوئی کام نہ کریں گے‘بلکہ ہر کام تیری رائے کے مطابق کریں گے۔ اور یوں انہوں نے نبی کے مقام کو اپنے مقام سے نیچے گردانا۔ ان کے اس قبیح جواب کے مقابلے میں صالح ؑ کا یہ کہنا مناسب تھا:{اَرَءَیْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِیْ وَاٰتٰىنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً}۔ ان پر واضح کر دیا کہ واقعی یہی ان کا مقام ہے‘ وہ اپنے معاملات میں بصیرت رکھتے ہیں۔ اور انہوں نے مناظرات کے اس اصول کو بھی مدّ ِنظر رکھا کہ ان کا حریف مناظرے کے دوران اگر ایسی کوئی بات بھی فرض کے طور پر کہے جس کا وہ اعتقاد نہ رکھتا ہو تو اس فرض کو تسلیم کرتے ہوئے انہی پر ان کے قول کے مطابق حُجّت قائم کی جائے‘ گویا یوں کہا جائے:’’ چلو مان لیا جو تم کہہ رہے ہو کہ مَیں اپنے ربّ کی طرف سے کھلی کھلی دلیل پر کھڑا ہوں اور ا س نے اپنی طرف سے مجھے رحمت سے بھی نوازا ہے اور پھر مَیں تمہارے کہنے کے مطابق اس کی نافرمانی شروع کر دوں تو کون ہے جو میری مدد کرے گا اور کون ہے جو مجھے اس کے عذاب سے بچائے گا؟‘‘
یہاں ’’اٰتٰىنِیْ مِنْہُ رَحْمَۃً‘‘میں ضمیر کو پہلے لے آنے سےتاکید کا مفہوم پیدا ہوتا ہے کہ رحمت تو اُسی کی طرف سے آئی ہے اور اس بات میں اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ اور اگر اس ضمیر کو بعد میں لایا جاتا تو یہ خصوصیت پیدانہ ہوتی۔ اس ضمیر کا پہلے لے آنا ویسے ہی ہے جیسے اس آیت میں:{وَلَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ(۴)} (الاخلاص)’’اور نہیں ہے اس کے لیے برابر سرابر کوئی بھی۔‘‘اور اس کی نظیر سیبویہ کا ذکر کردہ یہ شعر بھی ہے : ؎
لَتَقْرُبِنَّ قَرَبًا جُلْذِیَّا
مَا دَامَ فِیْھِنَّ فصیلٌ حَیَّا

’’ان اونٹنیوںکو(پانی پینے کے لیے) تیز تیز چلنا چاہیے جب تک کہ ان میں اونٹنی کا ایک بچہ بھی زندہ ہے۔‘‘
چونکہ انہوں نے بڑے قبیح انداز میں جواب دیا تھا اس لیے ان کے جواب میں بھی تاکید کا یہ پہلو غالب رہا کہ ضمیر پہلے لائی جائے اور اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ رحمت تو صرف اُسی کی طرف سے آ سکتی ہے۔
لیکن قومِ نوح کے جواب میں اتنی قباحت کا اظہار نہیں ہوا‘ زیادہ سے زیادہ انہوں نے یہ کہا:{ مَا نَرٰىکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا} (ھود:۲۷)’’ہم تمہیں نہیں دیکھتے مگر ایک بشر جو ہمارے جیسا ہے۔‘‘گویا وہ کہہ رہے ہیں: اگر تم رسول ہوتے تو فرشتہ ہوتے‘ ہمارے جیسے تونہ ہوتے!! تو اس کے جواب میں کہا گیا:{وَاٰتٰىنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ}’’اور اس نے مجھے رحمت عطا کی ہے اپنے پاس سے۔‘‘تو یہاں ضمیر کو حسب ِحال بعد میں لایا گیا کہ یہاں وہ تاکیدی پہلو نہ تھا جو صالحؑ کے قصے میں مذکور ہوا۔ واللہ اعلم!
(۱۷۵) آیت ۴۰
{حَتّیٰٓ اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاَھْلَکَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْہِ الْقَوْلُ}
’’ پھر جب ہمارا حکم آ گیا اور تنور ابلنے لگا‘ہم نے کہا کہ سوار کر لے (اس کشتی میں) ہر ایک کا جوڑا جوڑا‘ اور اپنے گھر والوں کو بھی ماسوا اُن کے جن کے بارے میں پہلے فیصلہ کیا جا چکا ہے۔‘‘
اور سورۃ المؤمنون میں ارشاد فرمایا:
{فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّوْرُ ۙ فَاسْلُکْ فِیْھَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ}(آیت۲۷)
’’ پھر جب ہمارا حکم آجائے اور تنور اُبلنے لگے ‘ تو پھر اس میں ہر ایک کا جوڑاجوڑا داخل کر لینا۔‘‘
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں سورتوں میں ایک ہی قصّہ بیان ہوا ہے لیکن سورئہ ہود میں ’’احْمِلْ فِیْھَا‘‘ (سوار کر لینا) اور سورۃ المؤمنون ’’اسْلُکْ فِیْھَا‘‘(اپنا لینا ‘داخل کر لینا) کیوں کہاگیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ ’’حَمَل‘‘ کا لفظ لغت کے اعتبار سے وسعت رکھتا ہے اور کلام کے مختلف پہلوئوں کا احاطہ کرتا ہے‘ جیسے :
حملتُ الشیْئَ الی فلان : مَیں فلاں شخص کی طرف چیز لے گیا
حملتہُ علی کاھلی : مَیںنے اسے اپنے کندھے پر اٹھا لیا
حملتُ العلمَ عن فلَانٍ : مَیں نے فلاں شخص سے علم کو حاصل کیا
حَمَلَ فلانُ الامانۃَ : فلاںنے امانت سنبھال لی 
حَمَلَت القَصَبُ علٰی کذا : ڈنڈا فلاں پر جابرسا
حَمَل الفَارسُ علٰی صاحبِہ : شہسوار نے اپنے مصاحب پر ہی وار کر دیا
حَمَلَتِ المرأۃ : عورت حاملہ ہوئی
حَملتِ الشجرۃُ : درخت تخم پذیر ہوا
اور ان تمام جگہوں پر لفظ ’’سَلَکَ‘‘ استعمال نہیں ہو گا‘ اِلا یہ کہ جس چیز کو اٹھایاگیا ہے اس کا جسم ہو۔ ایسی جگہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی جگہ پر استعمال ہو سکتے ہیں الا یہ کہ کوئی مانع ہو۔لفظ ’’سَلَک‘‘ کو اہل ِعرب داخل کرنے کے معنوں میں استعمال کرتے ہیں جیسے : سَلَکْتُ الشَّیْئ فِی الشَّیْئ وَاَسْلَکْتُہ یعنی میں نے ایک چیز کو دوسری چیز میں داخل کردیا۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {اُسْلُکْ یَدَکَ فِیْ جَیْبِکَ} (القصص:۳۲)’’اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو۔‘‘اورفرمایا:{مَاسَلَکَکُمْ فِیْ سَقَرَ(۴۲)} (المدثر)’’تمہیں کس چیز نے جہنم میں داخل کیا؟‘‘اور فرمایا:{ وَمَنْ یُّعْرِضْ عَنْ ذِکْرِ رَبِّہٖ یَسْلُکْہُ عَذَابًا صَعَدًا(۱۷)} (الجن)’’اور جو اپنے رب کے ذکر سے منہ پھیرے گا تو وہ اسے سخت عذاب میں ڈال دے گا۔‘‘اور کم ہی ایسا ہوتا ہے کہ یہ مفہوم اور معنی لفظ ’’سَلَکَ‘‘ میں نہ پایا جائے‘ یعنی داخل ہونا حقیقی طور پر یامجازی معنی میں۔اور چونکہ لفظ ’’حَمَلَ‘‘ میں زیادہ وسعت پائی جاتی ہے تو سورئہ ہود میں اس کا لایا جانا مناسب تھا کہ سورئہ ہود وہ سورت ہے جس میں نوحؑ کا قصّہ پوری تفصیل کے ساتھ بیان کیا گیا ہے‘ اور اس قصے کی وسعت کا تقاضا تھا کہ اس سورۃ میں وہ لفظ لایا جاتا جس کے معنی میں زیادہ وسعت اور پھیلائو ہو۔
اس سورت میں ’’قُلْنَا‘‘کا لفظ بھی ہے جبکہ سورۃ المؤمنون میں طوفانِ نوح کے بارے میں ایک جیسے الفاظ ہیں لیکن ’’قُلْنَا‘‘ کا اضافہ نہیں ہے۔اور اس سے ہمارے ا س دعوے کی تائید ہوتی ہے کہ جہاں کلام میں طوالت ہو وہاں کلمات بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ اب دیکھ لیجیے کہ سورئہ ہود میں کہا گیا : {حَتّٰی اِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا}اور اس کے مقابلہ میں سورۃ المؤمنون میں کہا گیا:{فَاِذَا جَاۗءَ اَمْرُنَا}۔’’حَتّٰی‘‘ چار حروف پر مشتمل ہے اور ’’فاء‘‘ صرف ایک حرف ہے‘ یعنی جہاں کلام میں طوالت تھی تو وہاں ’’حَتّٰی‘‘ لایا گیا اور جہاں اختصار تھا وہاں صرف ’’فاء‘‘ لایا گیا جسے فاء التعقیب بھی کہا جاتا ہے‘ یعنی ایک کام کے بعد جب دوسرا کام کیا جائے تو بجائے ’’و‘‘ کے ’’ف‘‘ لایا جاتا ہے۔
(۱۷۶) آیت ۵۸
{وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا ھُوْدًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا ۚ}
’’اور جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اپنی رحمت کی بنا پر ہود اور ان لوگوں کو بھی بچا لیا جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے۔‘‘
اور پھر شعیبؑ کے قصے میں بھی بعینہ یہی الفاظ ہیں:{وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا} (آیت۹۴)لیکن اس کے مقابلے میں صالح ؑاور لوطؑکے قصے میں بجائے ’’وَلَمَّا‘‘ کے ’’فَلَمَّا‘‘ لایا گیا۔ فرمایا: {فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا صٰلِحًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا} (آیت۶۶)اور قصّہ لوطؑ میں ارشاد فرمایا:{فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا} (آیت۸۲) ’’اور جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے اس بستی کو زیروزبر کر کے رکھ دیا۔‘‘تو اس فرق کی وجہ کیا ہے؟
جواباً عرض ہے کہ صالح ؑاور لوطؑ کے قصے میں واقعات کی ترتیب فاء التعقیب کا تقاضا کرتی تھی‘ یعنی ایک واقعہ ہونے کے فوراً بعد دوسرا واقعہ پیش آ گیا۔
اب ملاحظہ ہو کہ صالح ؑے قصے میں واقعات کی ترتیب یوں ہے:حکم دیا گیا کہ یہ اونٹنی بطور نشانی اللہ کی اونٹنی ہے‘ اس کو قطعاً تکلیف نہ پہنچانا۔{فَعَقَرُوْھَا} ’’ تو انہوں نے اس کے پائوں کاٹ ڈالے۔‘‘ {فَقَالَ تَمَتَّعُوْا فِیْ دَارِکُمْ ثَلٰثَۃَ اَیَّامٍ ط}(آیت ۶۵) ’’تو پھر صالح ؑ نے کہا: اپنے گھروں میں تین دن مزید رہ لو‘‘۔ {فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا} ’’تو پھر جب ہمارا حکم آ گیا‘‘۔یعنی یکے بعد دیگرے واقعات ہو رہے ہیں تو یہاں بجائے ’’و‘‘ کے فاء التعقیب لانا ہی مناسب تھا۔
اور لوطؑ کے قصے میں فرمایا:{اِنَّ مَوْعِدَھُمُ الصُّبْحُ ۭ}(آیت۸۱) ’’ان کے لیے وعدہ ہے صبح کا‘‘۔ اور پھر صبح ہونے میں کتنی دیر لگتی ہے! اس لیے گویا یہ کہا جا رہا ہے کہ جونہی صبح ہوئی تو عذاب نازل ہونا شروع ہو گیا۔ فرمایا: {فَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا جَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا}(آیت ۸۲)تو یہاں فاء التعقیب لایا گیا۔
اب رہا ہودؑ کا قصّہ تو اس میں پے در پے واقعات کا ظہور نہیں ہورہا ہے۔اس لیے واوالعطف (جسے واوالتشریک بھی کہا جاتا ہے) کا لانا مناسب تھا۔ ملاحظہ ہو کہ قومِ ہود کے بارے میں کہا گیا: { وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّیْ قَوْمًا غَیْرَکُمْ ۚ وَلَا تَضُرُّوْنَہٗ شَیْئًا ۭ}(آیت ۵۷) ’’اورمیرا ربّ تمہارے علاوہ کسی قوم کو تمہارا جانشین بنا دے گا ‘اور تم اس کا کچھ بگاڑ نہ سکو گے۔‘‘اور اس کے بعد واو العطف کے ساتھ یہ الفاظ لائے گئے: {وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا}۔اور یہی ماجرا ہے قومِ شعیبؑ کا کہ وہاں پہلے یہ الفاظ آئے ہیں: {وَیٰقَوْمِ اعْمَلُوْا عَلٰی مَکَانَتِکُمْ}(آیت ۹۳)’’اور اے میری قوم! اپنی اپنی جگہ پر کام کرتے رہو‘‘ اور اس آیت کے آخر میں فرمایا:{وَارْتَقِبُوْٓا اِنِّیْ مَعَکُمْ رَقِیْبٌ(۹۳)}’’اور انتظار کرو ‘ مَیں بھی تمہار ے ساتھ منتظر ہوں‘‘۔اور اس کے بعد ارشاد ہوا: {وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا}۔یہاں ’’فاء‘‘ لانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ واو العطف کے ساتھ ایک ترتیب میں واقعات کے ظہور ہونے کا بیان ہو گیا ۔واللہ اعلم!
(۱۷۷) آیت ۶۰
{وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہِ الدُّنْیَا لَعْنَۃً} ’’اور دنیا میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی‘‘
اور بعد میں حضرت موسیٰ ؑکے قصے میں ارشاد فرمایا:
{وَاُتْبِعُوْا فِیْ ھٰذِہٖ لَعْنَۃً} (آیت۹۹) ’’اور اس (دنیا)میں بھی ان کے پیچھے لعنت لگا دی گئی‘‘
سوال واضح ہے کہ پہلی آیت میں اسم اشارہ (ھٰذِہٖ) کے ساتھ مشار الیہ (الدُّنْیَا) کا بھی ذکر کیا گیا جب کہ دوسری آیت میں صرف اسم اشارہ کا ذکر کیا گیا؟
اس کا جواب یہ ہے کہ قصّہ ہود میں تفصیلی بیان ہے‘اس لیے الفاظ بھی زیادہ ہیں اور موسیٰؑکا قصّہ مختصر انداز میں بیان ہوا ہے‘ اس لیے وہاں الفاظ میں بھی کمی ہے ۔اور دوسری وجہ یہ ہے کہ ایک بلیغ کلام کا یہ قاعدہ ہے کہ اگر پہلے ایک بات کی وضاحت ہو چکی ہے تو دوبارہ اگر وہی مضمون لایا جائے تو اس میں پہلی بات کی طرف اشارہ کرنا کافی ہوتا ہے۔ یعنی پہلے موقع پر اسم اشارہ اور مشار الیہ (جس کی طرف اشارہ کیا گیا ہے) دونوں آ چکے تھے اس لیے دوسرے موقع پرصرف اسم اشارہ کالانا کافی سمجھا گیا۔ اس کا الٹ مناسب نہیں ہے‘ سوائے شعر کے‘ جیسے اس شعر میں کہا گیا : ع
نحنُ بمَا عندنَا وانتَ بما عندک راضٍ والرأی مختلفُ

’’ہم جو ہمارے پاس ہے اور تم جو تمہار ے پاس ہے ‘ پر راضی ہیں اور رائے میں اختلاف موجود ہے۔‘‘
اور یہ دونوں اسلوب معروف ہیں‘ گو پہلا اسلوب زیادہ مناسب ہے۔ واللہ اعلم!
(۱۷۸) آیت ۶۲
{قَالُوْا یٰصٰلِحُ قَدْکُنْتَ فِیْنَا مَرْجُوًّا قَبْلَ ھٰذَآ اَتَنْھٰىنَآ اَنْ نَّعْبُدَ مَا یَعْبُدُ اٰبَاۗؤُنَا وَاِنَّنَا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَآ اِلَیْہِ مُرِیْبٍ (۶۲)}
’’انہوں نے کہا : اے صالح! اس سے پہلےتو ہمیں تم سے بہت سی امیدیں تھیں‘ کیا تم ہمیں روکتے ہو کہ ہم اُس کی عبادت نہ کریں جس کی عبادت ہمارے آباء کیا کرتے تھے ؟اور ہمیں تو اس (دین) میں بڑا شک و شبہ ہے جس کی طرف تم ہمیں بلا رہے ہو!‘‘
اور سورئہ ابراہیم میں فرمایا:
{وَقَالُوْٓا اِنَّا کَفَرْنَا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِہٖ وَاِنَّا لَفِیْ شَکٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَا اِلَیْہِ مُرِیْبٍ(۹)}
’’اور انہوں نے کہا: ہم اس کا انکار کرتے ہیں کہ جس کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو‘ اور ہمیں تو اس (دین) میں بڑا شک و شبہ ہے جس کی طرف تم ہمیںبلا رہے ہو!‘‘
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سورئہ ہود کی آیت میں لفظ ’’اِنَّنَا‘‘ ہے جس میں نون تاکید اور نون ضمیر دونوں موجود ہیں ‘لیکن سورئہ ابراہیم میں ایک نون گرا ہوا ہے۔اور اسی طرح سورئہ ابراہیم میں ’’تَدْعُوْنَنَا‘‘ایک اضافی نون کے ساتھ لایا گیا جبکہ سورئہ ہود میں ’’تَدْعُوْنَا‘‘کہہ کر صرف ایک نون لایاگیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ سورئہ ہود میں ’’اِنَّنَا‘‘کا کہا جانا ہی اصل ہے یعنی ’’اِنَّ‘‘ کا نون تاکید‘ ضمیر جمع (نَا) سے مل کر آ رہا ہے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ صرف ضمیر ہی پر اکتفا کیا جائے اور نونِ تاکید کو حذف کر دیا جائے‘ جیسا کہ سورئہ ابراہیم میں کیا گیا۔
اب رہا سورئہ ہود میں ’’تَدْعُوْنَا‘‘ کا لفظ ‘ تو اس میں ’’تَدْعُوْ‘‘مفرد کا صیغہ ہے اور اس سے مراد صالحؑ ہیں اور ’’نَا‘‘سے مراد قومِ صالح ہے۔ اس کے مقابلے میں سورئہ ابراہیم کی آیت میں ’’تَدْعُوْنَ‘‘ جمع کا صیغہ ہے اور اس سے مراد وہ تمام رسول ہیں جن کی تعلیمات کا انکارکیا جا رہا ہے‘ یہ کہہ کرکہ:{اِنَّا کَفَرْنَا بِمَا اُرْسِلْتُمْ بِہٖ} اور ’’تَدْعُوْنَ‘‘ کے بعد ’’نَا‘‘ سے ضمیر جمع‘ تمام مدعوین کی طرف اشارہ ہے۔بار بار نون کا لانا استثقال (بوجھل ہو جانے) کا سبب بن سکتا ہے‘ اس لیے سورئہ ہود کے شروع میں’’اِنَّنَا‘‘ کے بعد ’’تَدْعُوْنَا‘‘لایا گیا ‘ گویا شروع کے دونون اور بعد کا ایک نون۔اور اس کے مقابلے میں سورہ ابراہیم میں شروع کے ایک نون تاکید کے بعد ’’تَدْعُوْنَنَا‘‘ کے دو نون۔ گویا شروع کا ایک نون اور بعد کے دو نون۔اور اس طرح دونوں آیات میں توازن پیدا ہوگیا اور کلام میں ثقل نہ رہا‘ واللہ اعلم!
(۱۷۹) آیت ۶۷
{وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(۶۷)}
’’اور ظالموں کو ایک چنگھاڑ نے آدبوچا تو وہ اپنے گھروں میں اوندھے ہو کر گر گئے۔‘‘
اور پھر آگے شعیبؑکا قصّہ بیان ہوا تو ارشاد فرمایا:
{وَلَمَّا جَاۗءَ اَمْرُنَا نَجَّیْنَا شُعَیْبًا وَّالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَہٗ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَاَخَذَتِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ(۹۴)}
ََ’’اور جب ہمارا حکم آ گیا تو ہم نے شعیبؑ کو اور ان تمام لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے‘ اپنی رحمت سے بچا لیا‘ تو پھر ظالموں کو ایک چنگھاڑنے آ لیا اور وہ اپنے گھروں میں اوندھے ہو کر گر گئے۔‘‘
سوال یہ ہے کہ دونوں آیتوں میں ’’اَلصَّیْحَۃُ‘‘ فاعل ہے لیکن پہلی آیت یعنی صالحؑکے قصے میں فعل ’’اَخَذ‘‘ مذکر لایا گیا اور دوسری آیت یعنی شعیب ؑکے قصے میں فعل ’’اَخَذَتْ‘‘ مؤنث لایا گیا تو اس کی کیا وجہ ہے؟
اس کا جواب یہ ہے کہ مؤنث کا صیغہ دو طرح سے ہوتا ہے: حقیقی اور غیر حقیقی۔ حقیقی میں تاء التانیث اکثر حذف نہیں کی جاتی اِلا یہ کہ فعل اور فاعل کے درمیان کوئی لفظ لا کرفصل پیدا کر دیا جائے‘ اور اگر درمیان میں الفاظ زیادہ ہوں گے تو پھر ’’تاء‘‘ کا حذف کیا جانا ہی زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے: حَضَر الْقَاضِیَ الْیَوْمَ امرأۃٌ ’’آج ایک عورت قاضی کے پاس حاضر ہوئی‘‘ یعنی بجائے ’’حَضَرَتْ‘‘ کے ’’حَضَرَ‘‘ کہا گیا ‘کیونکہ فعل اور فاعل کے درمیان دو کلمات آ گئے ہیں۔جمع کی صورت میں بھی حذف جائز ہے۔ غیر حقیقی میں تو فصل کی صورت میں تاء التانیث کا حذف کیا جانا ہی مستحسن ہے‘ جیسے : {فَمَنْ جَاۗءَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی} (البقرۃ:۲۷۵)’’اور پھر جس کے پاس نصیحت آ گئی اُس کے رب کی طرف سے اور وہ رک گیا۔‘‘ اور اگر ایک سے زائد کلمات بطور فصل آ گئے تو ’’تاء‘‘ کا حذف کیا جانا اور بہتر ہو گا۔ یہی صورت اس آیت میں بھی ہے : {وَاَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ}۔یہاں مؤنث غیر حقیقی ہے‘ تاء التانیث کا لایا جانا یا حذف کیا جانا دونوں
جائز تھے‘ لیکن حذف کرنا بہتر تھا۔ اور یوں پہلی آیت میں تو پہلا اسلوب اپنایا گیا اور دوسری آیت میں تاء التانیث لا کر دونوں اسالیب کو جمع کر دیا گیا‘ اور وہ اس لیے کہ دونوں آیات ایک ہی سورت میں آ رہی ہیں۔ اور حذف کرنا چونکہ اولیٰ تھا اس لیے ابتدا اس سے کی گئی۔ ہاں اگر فاعل ضمیر مؤنث ہو تو اس کے اپنے احکام ہیں۔
(۱۸۰) آیت ۶۸
{اَلَآ اِنَّ ثَمُوْدَا۟ کَفَرُوْا رَبَّھُمْ ۭ اَلَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَ(۶۸)}
’’آگاہ رہو کہ ثمود نے اپنے رب کا انکار کیا ‘آگاہ رہو کہ پھٹکار ہو قومِ ثمود پر۔‘‘
یہاں لفظ ثمود کو بعض قراء ات میں تنوین کے ساتھ بھی پڑھا گیا ہے ‘دونوں جگہوں پر‘ یا پہلی دفعہ تنوین کے ساتھ اور دوسری دفعہ بغیر تنوین کے۔ لیکن جمہور کی قراء ت میں دونوں جگہ بغیر تنوین کے ہے تو اس کی کیا وجہ ہے؟
(نوٹ: ہم نے یہاں جواب کو حذف کر دیا ہے کہ یہ ایک دقیق نحوی صرفی بحث ہے جو عام قارئین کی دلچسپی کا باعث نہ ہوگی۔مترجم)