(فہم القرآن) ترجمۂ قرآن مجید مع صرفی و نحوی تشریح (سُورۃُ یُوسُف) - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

9 /

ترجمۂ قرآن مجید مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ یُوسُف
آیات۱ تا۶

{الۗرٰ ۣ تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ(۱) اِنَّـآ اَنْزَلْنٰہُ قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا لَّعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ(۲) نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ الْقَصَصِ بِمَآ اَوْ حَیْنَآ اِلَیْکَ ھٰذَا الْقُرْاٰنَ ڰ وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ(۳) اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْہِ یٰٓاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَیْتُھُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(۴) قَالَ یٰبُنَیَّ لَا تَقْصُصْ رُءْیَاکَ عَلٰٓی اِخْوَتِکَ فَیَکِیْدُوْا لَکَ کَیْدًا ۭ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۵) وَکَذٰلِکَ یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ وَیُعَلِّمُکَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَیُتِمُّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَعَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ کَمَآ اَتَمَّھَا عَلٰٓی اَبَوَیْکَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ ۭ اِنَّ رَبَّکَ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(۶)}

ترکیب
(آیت۳) قَصَصٌ مصدر ہے‘ اس لیے اَحْسَنَ الْقَصَصِ کو نَقُصُّ کا مفعولِ مطلق مانا جائے گا۔ اگر اَحْسَنَ الْقِصَصِ (قِصَّۃٌ کی جمع) ہوتا تو پھر اس کو مفعول بِہٖ مانا جا سکتا تھا۔ اِنْ کُنْتَ کا اِنْ مخففہ ہے۔ (آیت۴) یٰاَبَتِ دراصل یٰاَبِیْ کا خاص استعمال ہے۔ عرب لوگ زیادہ تر یٰاَبِیْ کی جگہ یٰاَبَتِ بولتے ہیں۔ اس میں تا زائدہ ہے اور مفہوم میں پیارے یا محترم کا اضافہ ہوتا ہے یعنی ’’اے میرے محترم باپ!(ابّاجان!)‘‘ رَاَیْتُھُمْ میں رَاَیْتُ کا مفعول ھُمْ ہے جبکہ سٰجِدِیْنَ حال ہونے کی وجہ سے نصب میں آیا ہے۔ (آیت۶) اَبَوَانِ ۔ اَبَوَیْنِ (یعنی دو باپ) زیادہ تر ماں باپ کے لیے آتا ہے لیکن یہاں اس کا بدل اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ آیا ہے جس سے معلوم ہوا کہ یہاں اَبَوَیْنِ سے مراد باپ داد ا ہیں۔
ترجمہ:
الۗرٰ :ا ل ر

تِلْکَ :یہ
اٰیٰتُ الْکِتٰبِ الْمُبِیْنِ :واضح کتاب کی آیات ہیں

اِنَّـآ اَنْزَلْنٰہُ :بے شک ہم نے اُتارا اس کو
قُرْءٰنًا عَرَبِیًّا :عربی قرآن ہوتے ہوئے

لَّعَلَّکُمْ :شاید تم لوگ
تَعْقِلُوْنَ :عقل سے کام لو

نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ:ہم بیان کرتے ہیں آپؐ پر
اَحْسَنَ الْقَصَصِ :بہترین بیان کرنا

بِمَآ اَوْ حَیْنَآ:اس کے ساتھ جو ہم نے وحی کیا
اِلَیْکَ :آپؐ کی طرف

ھٰذَا الْقُرْاٰنَ :اس قرآن کو
وَاِنْ کُنْتَ :اور بے شک آپؐ تھے

مِنْ قَبْلِہٖ :اس سے پہلے
لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ:یقیناً بے خبر رہنے والوں میں سے

اِذْ قَالَ یُوْسُفُ:جب کہا یوسف ؑ نے
لِاَبِیْہِ :اپنے والد سے

یٰٓاَبَتِ :اے میرے محترم باپ !
اِنِّیْ رَاَیْتُ :بے شک مَیں نے دیکھا

اَحَدَ عَشَرَ کَوْکَبًا :گیارہ ستاروں کو
وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ:اور سورج کو اور چاند کو

رَاَیْتُھُمْ:مَیں نے دیکھا ان کو
لِیْ سٰجِدِیْنَ : اپنے لیے سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے

قَالَ یٰبُنَیَّ:انہوں نے کہا: اے میرے چھوٹے سے بیٹے !
لَا تَقْصُصْ رُءْیَاکَ :تم بیان مت کرنا اپنے خواب کو

عَلٰٓی اِخْوَتِکَ :اپنے بھائیوں پر
فَیَکِیْدُوْا لَکَ :ورنہ وہ خفیہ تدبیرکریں گے تیرے لیے

کَیْدًا :جیسے خفیہ تدبیر کرتے ہیں 
اِنَّ الشَّیْطٰنَ :یقیناً شیطان

لِلْاِنْسَانِ :انسان کے لیے

عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ :ایک کھلا دشمن ہے

وَکَذٰلِکَ :اور اس طرح
یَجْتَبِیْکَ رَبُّکَ :چن لے گا تم کو تمہارا ربّ

وَیُعَلِّمُکَ :اور وہ سکھائے گا تم کو
مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ :باتوں کا انجام نکالنا (یعنی خوابوں کی تعبیر بتانا)

وَیُتِمُّ:اوروہ تمام کرے گا
نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ :اپنی نعمت کو تم پر

وَعَلٰٓی اٰلِ یَعْقُوْبَ:اور یعقوبؑ کے پیروکاروں پر
کَمَآ اَتَمَّھَا :جیسے کہ اس نے تمام کیا اس کو

عَلٰٓی اَبَوَیْکَ: تمہارے دونوں باپوں (یعنی باپ دادا) پر
مِنْ قَبْلُ :پہلے سے

اِبْرٰھِیْمَ وَاِسْحٰقَ: ابراہیم ؑ پر اور اسحاقؑ پر
اِنَّ رَبَّکَ :بے شک آپؐ کا رب

عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ:جاننے والا ‘حکمت والاہے
آیات ۷ تا ۱۴{ لَقَدْ کَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَاِخْوَتِہٖٓ اٰیٰتٌ لِّلسَّاۗئِلِیْنَ (۷) اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ اَحَبُّ اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ ۭ اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ ۨ (۸) اقْتُلُوْا یُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْہُ اَرْضًا یَّخْلُ لَکُمْ وَجْہُ اَبِیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا مِنْۢ بَعْدِہٖ قَوْمًا صٰلِحِیْنَ (۹) قَالَ قَاۗئِلٌ مِّنْہُمْ لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ وَاَلْقُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ یَلْتَقِطْہُ بَعْضُ السَّیَّارَۃِ اِنْ کُنْتُمْ فٰعِلِیْنَ (۱۰) قَالُوْا یٰٓاَبَانَا مَالَکَ لَا تَاْمَنَّا عَلٰی یُوْسُفَ وَاِنَّا لَہٗ لَنٰصِحُوْنَ (۱۱) اَرْسِلْہُ مَعَنَا غَدًا یَّرْتَعْ وَیَلْعَبْ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ (۱۲) قَالَ اِنِّیْ لَیَحْزُنُنِیْٓ اَنْ تَذْھَبُوْا بِہٖ وَاَخَافُ اَنْ یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ وَاَنْتُمْ عَنْہُ غٰفِلُوْنَ(۱۳) قَالُوْا لَئِنْ اَکَلَہُ الذِّئْبُ وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ اِنَّآ اِذًا لَّخٰسِرُوْنَ(۱۴)}
ط ر ح
طَرَحَ یَطْرَحُ (ف) طَرْحًا
 : پھینکنا‘ دور کرنا۔ آیت زیر مطالعہ ۹
ج ب ب
جَبَّ یَجُبُّ (ن) جَبًّا
 :کسی چیز کو اس کے اصل سے کاٹ دینا۔
جُبٌّ : کنواں‘ گہرا گڑھا۔ زیر مطالعہ آیت ۱۰
ل ق ط
لَقَطَ یَلْقُطُ (ن) لَقْطًا
 : زمین سے کسی چیز کو اُٹھانا۔
اِلْتَقَطَ (افتعال) اِلْتِقَاطًا : گری پڑی چیز کو اُٹھانا۔ زیر مطالعہ آیت۱۰
ر ت ع
رَتَعَ یَرْتَعُ (ف) رَتْعًا
 :(۱) جانوروں کا چرنا (۲) انسانوں کا جی بھر کے کھانا پینا۔ زیر مطالعہ آیت۱۲
ترکیب
(آیت۷) کَانَ کی خبر مَوْجُوْدًا محذوف ہے اور اٰیٰتٌ اس کا اسم ہے۔ اس میں آفاقی صداقت کا بیان ہے‘ کیونکہ جب یہ واقعہ ہوا تھا اس وقت بھی اس میں نشانیاں تھیں‘ نزولِ قرآن کے وقت بھی تھیں‘ آج بھی ہیں اور ہمیشہ رہیں گی۔ اس لیے کَانَ کا ترجمہ حال میں ہوگا۔ (آیت۹) طَرَحَ کاایک مفعول آتا ہے۔ اِطْرَحُوْا کا مفعول ہُ کی ضمیر ہے جبکہ اَرْضًا ظرف ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے۔ فعل امر اُقْتُلُوْا اور اِطْرَحُوْا کا جوابِ امر ہونے کی وجہ سے یَخْلُ مجزوم ہوا ہے اس لیے یَخْلُوْ کی وائو گری ہوئی ہے۔ اسی طرح تَکُوْنُوْا بھی جوابِ امر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے اور تَکُوْنُوْنَ کا نون اعرابی گرا ہوا ہے۔ ان دونوں کا ترجمہ جوابِ امر کے لحاظ سے ہو گا۔ (آیت۱۰) غَیٰبَتٌ عربی میں گول ۃ سے غَیٰبَۃٌ لکھتے ہیں۔ اس کو لمبی ت سے لکھنا قرآن مجید کا مخصوص اِملا ہے۔ یَلْتَقِطْ جواب ِامر ہونے کی وجہ سے مجزوم ہے۔
ترجمہ:
لَقَدْ کَانَ :بے شک (موجود) رہی ہیں

فِیْ یُوْسُفَ: یوسفؑ (کے قصے) میں
وَاِخْوَتِہٖٓ:اور انؑ کے بھائیوں (کے قصے) میں

اٰیٰتٌ :کچھ نشانیاں
لِّلسَّاۗئِلِیْنَ : پوچھنے والوں کے لیے

اِذْ قَالُوْا:جب انہوں نے کہا
لَیُوْسُفُ وَاَخُوْہُ :بے شک یوسفؑ اور اس کا بھائی

اَحَبُّ:زیادہ محبوب ہیں 
اِلٰٓی اَبِیْنَا مِنَّا :ہمار ےوالد کو ہم سے

وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ:حالانکہ ہم ایک مضبوط گروہ ہیں
اِنَّ اَبَانَا :بے شک ہمارے والد

لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ:یقیناً ایک واضح بھول میں ہیں
اقْتُلُوْا یُوْسُفَ :تم لوگ قتل کرو یوسف ؑکو

اَوِاطْرَحُوْہُ :یا پھینک دو اس کو
اَرْضًا :کسی زمین میں 

یَّخْلُ لَکُمْ:تو خالی ہو جائے گا (صرف) تمہارےلیے
وَجْہُ اَبِیْکُمْ:تمہارے والد کا چہرہ (یعنی توجہ)

وَتَکُوْنُوْا :اور تم لوگ ہو جانا
مِنْ ۢ بَعْدِہٖ : اس کے بعد سے

قَوْمًا صٰلِحِیْنَ :ایک نیک قوم
قَالَ قَاۗئِلٌ :کہا ایک کہنے والے نے

مِّنْہُمْ :ان میں سے
لَا تَقْتُلُوْا یُوْسُفَ :تم لوگ قتل مت کرو یوسفؑ کو

وَاَلْقُوْہُ :اور ڈال دو اس کو
فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ :کنویں کی گہرائی میں

یَلْتَقِطْہُ :تو اٹھا لے گا اس کو
بَعْضُ السَّیَّارَۃِ:قافلہ والوں کا کوئی (شخص)

اِنْ کُنْتُمْ :اگر تم لوگ
فٰعِلِیْنَ :کچھ کرنے والے ہو

قَالُوْا یٰٓاَبَانَا:انہوں نے کہا: اے ہمارے والد

مَالَکَ :آپ کو کیا ہے

لَا تَاْمَنَّا :(کہ) آپ اعتبار نہیں کرتے ہمارا
عَلٰی یُوْسُفَ :یوسفؑ پر(یعنی اس کے بارے میں)

وَاِنَّا لَہٗ:حالانکہ بے شک ہم اس کے لیے
لَنٰصِحُوْنَ :یقیناً خیر خواہی کرنے والے ہیں

اَرْسِلْہُ:آپ بھیجیں اس کو
مَعَنَا غَدًا :ہمارے ساتھ کل

یَّرْتَعْ :تو وہ کھائے پیے گا
وَیَلْعَبْ :اور کھیلے گا

وَاِنَّا لَہٗ:اور بے شک ہم اس کے لیے
لَحٰفِظُوْنَ :یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں

قَالَ اِنِّیْ :کہا (یعقوبؑ نے)بے شک
لَیَحْزُنُنِیْٓ :مجھ کو یقیناً غمگین کرتی ہے

اَنْ تَذْھَبُوْا بِہٖ:(یہ بات) کہ تم لے جائو اس کو
وَاَخَافُ اَنْ :اور مَیں ڈرتا ہوں کہ

یَّاْکُلَہُ الذِّئْبُ : کھالے اس کو بھیڑیا
وَاَنْتُمْ :اس حال میں کہ تم لوگ

عَنْہُ غٰفِلُوْنَ :اس سے غافل ہو
قَالُوْا لَئِنْ :انہوں نے کہا :یقیناً اگر

اَکَلَہُ الذِّئْبُ :کھا لے گا اس کو بھیڑیا
وَنَحْنُ عُصْبَۃٌ:حالانکہ ہم ایک مضبوط گروہ ہیں

اِنَّآ اِذًا :تو بے شک ہم پھر تو
لَّخٰسِرُوْنَ : یقیناً خسارہ پانے والے ہیں

آیات ۱۵ تا ۲۰{ فَلَمَّا ذَھَبُوْا بِہٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْہُ فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ ۚ وَاَوْحَیْنَآ اِلَیْہِ لَتُنَبِّئَنَّھُمْ بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا وَھُمْ لَا یَشْعُرُوْنَ (۱۵) وَجَاۗءُوْٓ اَبَاھُمْ عِشَاۗءً یَّبْکُوْنَ(۱۶) قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَھَبْنَا نَسْتَبِقُ وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ ۚ وَمَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْکُنَّا صٰدِقِیْنَ (۱۷) وَجَاۗءُوْ عَلٰی قَمِیْصِہٖ بِدَمٍ کَذِبٍ ۭ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا ۭ فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ ۭ وَاللہُ الْمُسْتَعَانُ عَلٰی مَا تَصِفُوْنَ(۱۸) وَ جَاۗءَتْ سَیَّارَۃٌ فَاَرْسَلُوْا وَارِدَھُمْ فَاَدْلٰی دَلْوَہٗ ۭ قَالَ یٰبُشْرٰی ھٰذَا غُلٰمٌ ۭ وَاَسَرُّوْہُ بِضَاعَۃً ۭ وَاللہُ عَلِیْمٌۢ بِمَا یَعْمَلُوْنَ(۱۹) وَشَرَوْہُ بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ دَرَاھِمَ مَعْدُوْدَۃٍ ۚ وَکَانُوْا فِیْہِ مِنَ الزَّاھِدِیْنَ(۲۰)}
س و ل
سَأَلَ یَسْئَلُ (ف) سَوَالًا
 : پوچھنا‘ سوال کرنا۔
سَوَّلَ (تفعیل) تَسْوِیْلًا : کسی قبیح چیز کو خوش نما بنا کر پیش کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۱۸
ب ض ع
بَضَعَ یَبْعَضُ (ف) بَضْعًا
 : کسی چیز کا کچھ حصّہ کاٹ کر الگ کرنا۔
بِضَاعَۃً : مال کا وہ حصّہ جو تجارت کے لیے الگ کر لیا گیا ہو۔ سرمایہ‘ پونجی‘ تجارت کا سامان۔ زیر مطالعہ۱۹
بِضْعٌ : کسی چیز کے چند حصے۔یہ تین سے نو تک کی تعداد کے لیے بولا جاتا ہے۔ {فَلَبِثَ فِی السِّجْنِ بِضْعَ سِنِیْنَ(۴۲)} (یوسف) ’’تو وہ رہے جیل میں چند سال۔‘‘
ز ھ د
زَھَدَ یَزْھَدُ (ف) وزَھِدَ یَزْھَدُ (س) زُھْدًا
 : کسی چیز میں رغبت نہ رکھنا۔
زَاھِدٌ (اسم الفاعل) : رغبت نہ رکھنے والا ۔ زیر مطالعہ آیت ۲۰
ترکیب
(آیت۱۶) جَآءُوْ کا مفعول اَبَاھُمْ ہے جبکہ عِشَآءً ظرفِ زمان ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے۔ (آیت۱۸) فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ کسی مبتدأ محذوف کی خبر ہے۔ وَاللہُ مبتدأ ہے اور اَلْمُسْتَعَانُ اس کی خبر معرفہ تاکید کے لیے آئی ہے۔ (آیت۲۰) دَرَاھِمُ غیر منصرف ہے۔ یہاں بِثَمَنٍ بَخْسٍ کا بدل ہونے کی وجہ سے دَرَاھِمَ حالت ِجر میں ہے۔ مَعْدُوْدَۃٍ اس کی صفت ہے۔
ترجمہ:
فَلَمَّا :پھر جب

ذَھَبُوْا بِہٖ :وہ لوگ لے گئے اس کو
وَاَجْمَعُوْٓا :اور انہوں نے اتفاق کیا

اَنْ یَّجْعَلُوْہُ:کہ وہ ڈالیں اس کو
فِیْ غَیٰبَتِ الْجُبِّ :کنویں کی گہرائی میں

وَاَوْحَیْنَآ :اور ہم نے وحی کی
اِلَیْہِ :اُس کی طرف (کہ)

لَتُنَبِّئَنَّھُمْ :تم لازماً آگاہ کرو گے ان کو
بِاَمْرِھِمْ ھٰذَا :ان کے اس کام میں

وَ ھُمْ :اس حال میں کہ وہ
لَا یَشْعُرُوْنَ :شعور نہ رکھتے ہوں گے

وَجَاۗءُوْٓ :اور وہ آئے
اَبَاھُمْ : اپنے والد کے پاس

عِشَاۗءً :عشاء کے وقت
یَّبْکُوْنَ :روتے ہوئے

قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ:انہوں نے کہا اے ہمارے والد!
اِنَّا ذَھَبْنَا :بے شک ہم گئے

نَسْتَبِقُ:(کہ)ہم دوڑ لگاتے ہیں
وَتَرَکْنَا یُوْسُفَ :اور ہم نے چھوڑایوسف ؑکو

عِنْدَ مَتَاعِنَا:اپنے سامان کے پاس
فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ :تو کھا لیا اس کو بھیڑیے نے

وَمَآ اَنْتَ :اور آپ نہیں ہیں 
بِمُؤْمِنٍ لَّنَا :ہماری بات ماننے والے

وَلَوْکُنَّا :اور اگرچہ ہم ہوں 
صٰدِقِیْنَ :سچ کہنے والے

وَجَاۗءُوْ:اور وہ آئے
عَلٰی قَمِیْصِہٖ : انؑ کی قمیص پر

بِدَمٍ کَذِبٍ :کچھ جھوٹے خون کے ساتھ
قَالَ بَلْ :کہا (یعقوبؑ نے) بلکہ

سَوَّلَتْ:خوشنما بنا کر پیش کیا
لَکُمْ : تمہارے لیے

اَنْفُسُکُمْ :تمہارے نفسوں نے
اَمْرًا :ایک کام کو

فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ:تو (اب) خوبصورت صبر کرنا ہے

وَاللہُ: اور اللہ

الْمُسْتَعَانُ : ہی مدد چاہے جانے والا ہے
عَلٰی مَا :اس پر جو

تَصِفُوْنَ :تم لوگ بتاتے ہو
وَ جَاۗءَتْ سَیَّارَۃٌ :اور آیا ایک قافلہ

فَاَرْسَلُوْا :پھر انہوں نے بھیجا
وَارِدَھُمْ :اپنے بہشتی کو

فَاَدْلٰی :تو اس نے کنویں میں لٹکایا
دَلْوَہٗ :اپنا ڈول

قَالَ یٰبُشْرٰی :اس نے کہا :ارے!خوشخبری
ھٰذَا غُلٰمٌ :یہ ایک لڑکا ہے

وَاَسَرُّوْہُ :اور انہوں نے چھپایا اُس کو
بِضَاعَۃً :بطور سامانِ تجارت کے

وَاللہُ عَلِیْمٌ:اور اللہ جاننے والا ہے
بِمَا یَعْمَلُوْنَ :اس کو جو یہ لوگ کرتے ہیں 

وَشَرَوْہُ:اور انہوں نے سود ا کیا اُس کا
بِثَمَنٍۢ بَخْسٍ :کم قیمت پر

دَرَاھِمَ مَعْدُوْدَۃٍ:جو کچھ گنتی کے درہم تھے
وَکَانُوْا فِیْہِ :اور وہ تھے اسؑ میں

مِنَ الزَّاھِدِیْنَ: رغبت نہ رکھنے والوں میں سے
نوٹ۱:آیت۱۵میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسفؑ کی طرف وحی کی۔یہاں وحی سے مراد اصطلاحی وحی نہیں ہے بلکہ اس سے مراد دل میں بات ڈال دینا ہے۔ صالحین کوظالموں اور شریروں کے ہاتھوں ـجب بھی کوئی آزمائش پیش آتی ہے تو اللہ تعالیٰ جہاں ظالموں کو ڈھیل دیتا ہے‘ وہیں مظلوم کے دل پر بھی غیب سے سکینت اور طمانیت نازل فرماتا ہے۔ اس کا تجربہ کم و بیش ہر اُس شخص کو ہوتا ہے جس کو اللہ کی راہ میں کوئی تکلیف اٹھانے کی سعادت حاصل ہوئی ہو۔ حضرت یوسف ؑ کے دل میں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بات ڈال دی گئی کہ یہ آزمائش وقتی اور عارضی ہے۔ وہ وقت آئے گا کہ تم ان لوگوں کو ان کی کارستانی سے آگاہ کرو گے اور تم اس وقت ایسے منصب پر ہوگے کہ یہ گمان بھی نہ کر سکیں گے کہ یہ ان کا وہی بھائی ہے جس کو انہوں نے کنویں میں پھینکا تھا۔ (تدبر قرآن)
بائبل اور تالمود اس ذکر سے خالی ہیں کہ اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے یوسفؑ کو کوئی تسلی بھی دی گئی تھی۔ اس کے بجائے تالمود میں جو روایت بیان ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ جب حضرت یوسف کنویں میں ڈالے گئے تو وہ بہت بلبلائے اور چیخ چیخ کر بھائیوں سے فریاد کی۔ قرآن کا بیان پڑھئے تو محسوس ہو گا کہ ایسے نوجوان کا بیان ہو رہا ہے جو آگے چل کر تاریخ کی عظیم ترین شخصیتوں میں شمار ہونے والا ہے۔ (تفہیم القرآن)
نوٹ۲: حضرت یوسف ؑکے متعلق خبر سن کر حضرت یعقوب ؑنے جس تأثر کا اظہار کیا اس کا ذکر آیت۱۸ میں ہے۔ اس کا بھی بائبل اور تالمود سے موازنہ بہت سبق آموز ہے۔
بائبل کا بیان ہے کہ ’’تب یعقوبؑ نے اپنا پیراہن چاک کیا اور ٹاٹ اپنی کمر سے لپیٹا اور بہت دنوں تک اپنے بیٹے کے لیے ماتم کرتا رہا۔‘‘ تالمود کا بیان ہے کہ ’’یعقوبؑ بیٹے کا قمیص پہچانتے ہی اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور دیر تک بے حس و حرکت پڑارہا‘ پھر اُٹھ کر زور سے چیخا کہ ہاں یہ میرے بیٹے ہی کا قمیص ہے … اور وہ سالہا سال تک یوسفؑ کا ماتم کرتا رہا۔‘‘ اس نقشے میں حضرت یعقوبؑ وہی کچھ کرتے نظر آتے ہیں جو ایک عام انسان بحیثیت باپ کے ایسے موقع پر کرے گا۔ لیکن قرآن جو نقشہ پیش کر رہا ہے اس سے ہمارے سامنے ایک ایسے غیرمعمولی انسان کی تصویر آتی ہے جو کمال درجہ کا بردبار اور باوقار ہے۔ وہ اتنی غم انگیز خبر سن کر بھی اپنے دماغ کا توازن نہیں کھوتا۔ وہ اپنی فراست سے معاملہ کی ٹھیک ٹھیک نوعیت کو بھانپ جاتا ہے کہ یہ ایک بناوٹی بات ہے جو ان حاسد بیٹوں نے بنا کر پیش کی ہے۔ اور پھر ایک عالی ظرف انسان کی طرح صبر جمیل کرتا ہے اور اللہ پربھروسہ کرتا ہے۔صبر جمیل سے مراد ایسا صبر ہے جس میں شکایت نہ ہو‘ فریاد نہ ہو اور جزع فزع نہ ہو۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۲۱ تا ۲۴{ وَقَالَ الَّذِی اشْتَرٰىہُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِہٖٓ اَکْرِمِیْ مَثْوٰىہُ عَسٰٓی اَنْ یَّنْفَعَنَآ اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا ۭ وَکَذٰلِکَ مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ ۡ وَلِنُعَلِّمَہٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ ۭ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِہٖ وَلٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(۲۱) وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّہٗٓ اٰتَیْنٰہُ حُکْمًا وَّعِلْمًا ۭ وَکَذٰلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (۲۲) وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ ھُوَ فِیْ بَیْتِھَا عَنْ نَّفْسِہٖ وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ ۭ قَالَ مَعَاذَ اللہِ اِنَّہٗ رَبِّیْٓ اَحْسَنَ مَثْوَایَ ۭ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ (۲۳) وَلَقَدْ ھَمَّتْ بِہٖ ۚ وَھَمَّ بِھَا لَوْلَآ اَنْ رَّاٰبُرْھَانَ رَبِّہٖ ۭکَذٰلِکَ لِنَصْرِفَ عَنْہُ السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ ۭ اِنَّہٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(۲۴)}
ک ر م
کَرُمَ یَکْرُمُ(ک) کَرَامَۃً 
: (۱) بزرگ ہونا‘ معزز ہونا ۔ (۲)مہربانی سے فائدہ دینا‘ بخشش کرنا‘ فیاض ہونا۔
کَرِیْمٌ ج کِرَامٌ (فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت) :(۱) بزرگ‘ معزز‘ مہربان (۲) باعزّت۔ (۳) مفید‘ نفیس و پاکیزہ --------- (۱) {فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ(۴۰)} (النمل)’’تو بے شک میرا رب غنی ہے‘ بزرگ و برتر ہے۔‘‘{وَجَاءَھُمْ رَسُوْلٌ کَرِیْمٌ(۱۷)} (الدخان)’’اور آیا ان کے پاس ایک معز ّز و مہربان رسول۔‘‘ (۲){لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ(۷۴)} (الانفال)’’ان کے لیے مغفرت اور باعزّت رزق ہے۔‘‘(۳) {فَاَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ زَوْجٍ کَرِیْمٍ(۱۰)} (لقمان) ’’پھر ہم نے اُگایا اس میں ہر ایک نفیس و پاکیزہ جوڑے میں سے۔‘‘ {وَظِلٍّ مِّنْ یَّحْمُوْمٍ(۴۳) لَّا بَارِدٍ وَّلَا کَرِیْمٍ(۴۴)} (الواقعۃ)’’اور کچھ چھائوں میں‘ دھوئیں میں سے جو نہ ٹھنڈا کرے اور نہ مہربان ہو۔‘‘{وَاِنَّ عَلَیْکُمْ لَحٰفِظِیْنَ(۱۰) کِرَامًا کَاتِبِیْنَ(۱۱)} (الانفطار) ’’اور بے شک تم لوگوں پر یقیناً کچھ نگہبان ہیں‘ جو معزز ہیں‘ لکھنے والے ہیں۔‘‘
اَکْرَمُ (افعل التفضیل) : زیادہ معزز‘ زیادہ مہربان ۔ {اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰىکُمْ ط} (الحجرات:۱۳) ’’بے شک تم میں سے زیادہ معزز اللہ کے یہاں تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‘‘
اَکْرَمَ (افعال) اِکْرَامًا : کسی کو عزّت دینا‘ کسی پر مہربانی کرنا۔ {اِذَا مَا ابْتَلٰىہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ ڏ } (الفجر:۱۵)’’جب کبھی بھی اس کو آزماتا ہے اس کا رب تو وہ مہربانی کرتا ہے اس پر اور نعمت دیتا ہے اس کو۔‘‘
اَکْرِمْ (فعل امر) :تُو عزّت دے ۔تُو مہربان ہو۔زیر مطالعہ آیت۲۱
مُکْرِمٌ(اسم الفاعل): عزّت دینے والا۔ مہربانی کرنے والا۔ {فَمَالَہٗ مِنْ مُّکْرِمٍط} (الحج:۱۸) ’’تو نہیں ہے اس کے لیے کوئی بھی عزّت دینے والا۔‘‘
مُکْرَمٌ (اسم المفعول) : عزّت دیا ہوا۔ {بَلْ عِبَادٌ مُّکْرَمُوْنَ(۲۶)} (الانبیاء) ’’بلکہ وہ عزّت دیے ہوئے بندے ہیں۔‘‘
کَرَّمَ (تفعیل) تَکْرِیْمًا : عزّت دینا۔ مہربانی کرنا۔ {وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ} (الاسراء:۷۰) ’’اور بے شک ہم نے عزّت دی ہے آدمؑ کی اولاد کو۔‘‘
مُکَرَّمٌ (اسم المفعول) : عزّت دیا ہوا۔ {فِیْ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ(۱۳)} (عبس)’’عزّت دیے ہوئے صحیفوں میں۔‘‘
غ ل ق
غَلِقَ یَغْلَقُ (س) غَلَقًا
 : تنگ دل ہونا۔
غَلَّقَ (تفعیل) تَغْلِیْقًا : تنگ کرنا‘ بند کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۲۳
ھ ی ت
ثلاثی مجرد سے فعل نہیں آتا۔
ھَیَّتَ (تفعیل) تَھْیِیْتًا : چلانا‘ پکارنا۔
ھَیْتَ : یہ عربی محاورہ ہے اور اس کے ساتھ مخاطب کی ضمیریں آتی ہیں۔ یعنی ھَیْتَ لَکَ‘ لَکِ‘ لَکُـمَا‘لَکُمْ اورلَکُنَّ ۔ ان سب کے ایک ہی معنی ہیں: یہاں آئو! آئو! زیر مطالعہ آیت ۲۳
ترکیب
(آیت۲۴) لَوْلَا اَنْ رَّاٰ بُرْھَانَ رَبِّہٖ جملہ شرطیہ ہے اور وَھَمَّ بِھَا اس کا جوابِ شرط ہے‘ جو کہ مقدّم ہے۔ قاعدہ یہی ہے کہ لَوْلَا کا جواب شرط عموماً اس کےبعد آتا ہے لیکن کبھی پہلے بھی آ سکتا ہے۔ قرآن مجید میں اس کی او ر بھی مثالیں ہیں۔ مثلاً لَوْلَآ اَنْ رَّبَطْنَا عَلٰی قَلْبِھَا(القصص:۱۰) کا جوابِ شرط اِنْ کَادَتْ لَتُبْدِیْ بِہٖ مقدّم ہے۔ اس بنیاد پر استادِ محترم پروفیسر حافظ احمد یار صاحبؒ کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں قرآن مجید کے بعض نسخوں میں وَھَمَّ بِھَا کے بعد جو وقف کی علامت (ج) بنی ہوتی ہے یہ بالکل غلط ہے۔ اس کا صحیح مقام ھَمَّتْ بِہٖ کے بعد ہے۔ ا س لیے ھَمَّ بِھَا کا ترجمہ ہم جوابِ شرط کے طور پر کریں گے۔
ترجمہ:
وَقَالَ الَّذِی :اور کہا اُس نے جس نے

اشْتَرٰىہُ :خریدا اُسؑ کو
مِنْ مِّصْرَ :مصر سے

لِامْرَاَتِہٖٓ:اپنی عورت سے
اَکْرِمِیْ :تو عزّت دے

مَثْوٰىہُ :اسؑ کے ٹھکانہ کو
عَسٰٓی :ہوسکتا ہے

اَنْ یَّنْفَعَنَآ :کہ وہ نفع دے ہم کو
اَوْ نَتَّخِذَہٗ وَلَدًا:یا ہم بنا لیں اسؑ کوبیٹا

وَکَذٰلِکَ :اور اس طرح
مَکَّنَّا لِیُوْسُفَ :ہم نے جما دیا یوسفؑ کو

فِی الْاَرْضِ :اس سرزمین میں 
وَلِنُعَلِّمَہٗ :اور تاکہ ہم تعلیم دیں اس کو

مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ :خوابوں کی تعبیر میں سے
وَاللہُ غَالِبٌ :اور اللہ غالب ہے

عَلٰٓی اَمْرِہٖ :اپنے کام پر
وَلٰکِنَّ :اور لیکن

اَکْثَرَ النَّاسِ: لوگوں کی اکثریت
لَا یَعْلَمُوْنَ:جانتی نہیں ہے

وَلَمَّا بَلَغَ :اور جب وہ پہنچا
اَشُدَّہٗٓ :اپنی پختگی کو

اٰتَیْنٰہُ:تو ہم نے دیا اس کو
حُکْمًا:فیصلہ کرنے (کی صلاحیت)

وَّعِلْمًا: اور علم
وَکَذٰلِکَ :اور اس طرح

نَجْزِی :ہم جزا دیتے ہیں
الْمُحْسِنِیْنَ:بلاکم و کاست کام کرنے والوںکو

وَرَاوَدَتْہُ الَّتِیْ :اور پھسلایا اسؑ کو اُس عورت نے
ھُوَ فِیْ بَیْتِھَا : وہ (یعنی یوسفؑ) جس کے گھر میں تھا

عَنْ نَّفْسِہٖ :اپنے نفس (کو تھامنے) سے
وَغَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ:اور اس نے بند کیے دروازے

وَقَالَتْ ھَیْتَ لَکَ:اور کہا :یہاں آئو!
قَالَ مَعَاذَ اللہِ :اُس نے کہا:اللہ کی پناہ

اِنَّہٗ رَبِّیْٓ:بے شک وہ میر ا آقا ہے

اَحْسَنَ:اس نے خوبصورت بنایا

مَثْوَایَ : میرے ٹھکانے کو
اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ :حقیقت یہ ہے کہ فلاح نہیں پاتے

الظّٰلِمُوْنَ :ظلم کرنے والے
وَلَقَدْ ھَمَّتْ:اوربے شک وہ ارادہ کر چکی تھی

بِہٖ : اُس کا
وَھَمَّ :اور وہؑ (بھی) ارادہ کرتا

بِھَا :اُس عورت کا
لَوْلَآ اَنْ رَّاٰ :اگر نہ ہوتا کہ اُسؑ نے دیکھا

بُرْھَانَ رَبِّہٖ :اپنے رب کی روشن دلیل کو
کَذٰلِکَ :اسی طرح ہوا

لِنَصْرِفَ عَنْہُ :تاکہ ہم دور رکھیں اُس سے
السُّوْۗءَ وَالْفَحْشَاۗءَ :بُرائی اور بے حیائی کو
اِنَّہٗ :بے شک وہؑ

مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ :میرے پاک کیے ہوئے بندوں میں سے تھا
نوٹ۱ : بائبل میں اس شخص کا نام فوطیفار لکھا ہے جس نے یوسف ؑکو خریدا تھا ۔ قرآن مجید نے آگے چل کر عزیز کے لقب سے اس کا ذکر کیا ہے۔ وہ شاہی خزانے کا یا باڈی گارڈوں کا افسر تھا۔تالمود میں اس کی بیوی کا نام زلیخا لکھا ہے مگر یہ جو ہمارے ہاں عام شہرت ہے کہ بعد میں اس عورت سے حضرت یوسفؑکا نکاح ہوا‘ اس کی کوئی اصل نہیں ہے‘ نہ قرآن میں اور نہ اسرائیلی تاریخ میں۔ فوطیفار حضرت یوسف ؑکو دیکھ کر ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ لڑکا کسی شریف خاندان کا چشم و چراغ ہے۔ اس لیے اس نے یوسفؑ سے غلاموں کا سا برتائو نہیں کیا اور بائبل کے بیان کے مطابق انہیں اپنےگھر اور اپنی املاک کا مختار بنا دیا۔
اب تک حضرت یوسفؑکی تربیت صحرا میں نیم خانہ بدوشی اور گلہ بانی کے ماحول میں ہوئی تھی۔ مگر اس وقت کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک مصر میں اللہ تعالیٰ ان سے جو کام لینا چاہتا تھا اور اس کے لیے جس تجربہ اور بصیرت کی ضرورت تھی‘ اس کے نشوونما کا کوئی موقع بدوی زندگی میں نہ تھا‘ اس لیے اُس نے اپنی قدرتِ کاملہ سے یہ انتظام فرمایا کہ انہیں سلطنت ِمصر کے ایک بڑے عہدہ دار کے ہاں پہنچا دیاجس نے انہیں اپنی جاگیر کا مختار بنا دیا۔ اس طرح یہ موقع پیدا ہوا کہ انہیں ایک جاگیر کے انتظام سے وہ تجربہ حاصل ہو جائے جو آئندہ ایک بڑی سلطنت کا نظم و نسق چلانے کے لیے درکار تھا۔ وَاللہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (تفہیم القرآن)
یہاں سے حضرت یوسفؑ کی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔ اب تک وہ نفرت اور حسد کا شکار تھے‘ اس سے جان چھوٹی تو عشق و ہوس نے ان پر دام پھینکنے کی کوشش کی اور یہ امتحان پہلے امتحان سے بھی زیادہ سخت ثابت ہوا۔ (تدبر قرآن)
نوٹ۲: قرآن کریم نے یہ واضح نہیں فرمایا کہ جو برہان حضرت یوسف ؑکے سامنے آئی وہ کیا چیز تھی۔ اس لیے اس میں مفسرین حضرات کے مختلف اقوال ہیں۔ امام تفسیر ابن جریرؒ نے ان تمام اقوال کو نقل کرنے کے بعد جو بات فرمائی ہے وہ سب اہل تحقیق کے نزدیک پسندیدہ ہے کہ جتنی بات قرآن کریم نے بتلا دی ہے صرف اسی پر اکتفا کیا جائے۔ اس کے تعین میں وہ سب احتمال ہو سکتے ہیں جو حضرات مفسرین نے ذکر کیے ہیں‘ لیکن قطعی طو رپر کسی کو متعین نہیں کیا جا سکتا۔ (معارف القرآن)
آیات ۲۵ تا ۲۹{وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَیَا سَیِّدَھَا لَدَا الْبَابِ ۭ قَالَتْ مَا جَزَاۗءُ مَنْ اَرَادَ بِاَھْلِکَ سُوْۗءًا اِلَّآ اَنْ یُّسْجَنَ اَوْعَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۵) قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَشَھِدَ شَاھِدٌ مِّنْ اَھْلِھَا ۚ اِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَھُوَ مِنَ الْکٰذِبِیْنَ(۲۶) وَاِنْ کَانَ قَمِیْصُہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَھُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۲۷) فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَہٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّہٗ مِنْ کَیْدِکُنَّ ۭ اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْمٌ(۲۸) یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ ھٰذَا ۫ وَاسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِکِ ښ اِنَّکِ کُنْتِ مِنَ الْخٰطِئِیْنَ(۲۹)}

ق د د

قَدَّ یَقُدُّ (ن) قَدًّا : کسی چیز کو لمبائی میں کاٹنا یا چیرنا۔ زیر مطالعہ آیت ۲۵
قِدَّۃٌ (ج) قِدَدٌ : کسی چیز کا ٹکڑا۔ مختلف الرائے لوگ۔ {کُنَّا طَرَآئِقَ قِدَدًا(۱۱)} (الجن) ’’ہم مختلف الرائے طریقوں پر تھے۔‘‘
س ج ن
سَجَنَ یَسْجُنُ (ن) سَجْنًا
 : کسی کو قید کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۲۵
سِجْنٌ (اسم ذات) : قید خانہ۔ {قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ} (یوسف:۳۳) ’’اُسؑ نے کہا: اے میرے رب! قید خانہ زیادہ پسندیدہ ہے میرے لیے۔‘‘
مَسْجُوْنٌ (اسم المفعول) : قید کیا ہوا۔ {لَاَجْعَلَنَّکَ مِنَ الْمَسْجُوْنِیْنَ(۲۹)} (الشعراء) ’’مَیں لازماً بنا دوں گا تجھ کو قید کیے ہوئے لوگوں میں سے۔‘‘
سِجِّیْنٌ : دائمی سخت جگہ۔ جہنم کی ایک وادی۔ بدکاروں کا اعمال نامہ رکھنے کی جگہ۔ {اِنَّ کِتٰبَ الْفُجَّارِ لَفِیْ سَجِّیْنٍ(۷)} (المطففین) ’’بے شک بدکاروں کی کتاب یقیناً سِجِّیْن میں ہے۔‘‘
ترجمہ:
وَاسْتَبَقَا :اور وہ دونوں دوڑے

الْبَابَ : دروازے کو
وَقَدَّتْ : اور اُس عورت نے چیرا
مِنْ دُبُرٍ :پیچھےسے

قَمِیْصَہٗ: اُسؑ کی قمیص کو
وَّاَلْفَیَا :اور دونوں نے پایا
سَیِّدَھَا :عورت کے آقا کو

لَدَا الْبَابِ :دروازے کے پاس
قَالَتْ :اُس عورت نے کہا

مَا جَزَاۗءُ مَنْ:کیا سزا ہے اُس کی جس نے
اَرَادَ :ارادہ کیا

بِاَھْلِکَ :تیرے گھر والوں سے
سُوْۗءًا:ایک برائی کا

اِلَّآ اَنْ:سوائے اس کے کہ
یُّسْجَنَ :وہ قید کیا جائے

اَوْعَذَابٌ اَلِیْمٌ:یا (سوائے) ایک درد ناک عذاب (کے)
قَالَ :اُسؑ نے کہا

ھِیَ رَاوَدَتْنِیْ:اس عورت نے ہی پھسلایا مجھ کو
عَنْ نَّفْسِیْ :اپنا نفس (تھامنے) سے

وَشَھِدَ :اور گواہی دی
شَاھِدٌ :ایک گواہی دینے والے نے

مِّنْ اَھْلِھَا:اُس عورت کے گھر والوں میں سے
اِنْ کَانَ :اگر یہ ہے (کہ)

قَمِیْصُہٗ :اس کی قمیص
قُدَّ مِنْ قُبُلٍ :چیری گئی سامنے سے

فَصَدَقَتْ :تو عورت نے سچ کہا
وَھُوَ :اور یہ مرد

مِنَ الْکٰذِبِیْنَ:جھوٹ کہنے والوں میں سے ہے
وَاِنْ کَانَ :اور اگر یہ ہے (کہ)

قَمِیْصُہٗ :اس کی قمیص
قُدَّ مِنْ دُبُرٍ :چیری گئی پیچھے سے

فَکَذَبَتْ :تو عورت نے جھوٹ کہا

وَھُوَ :اور یہ مرد

مِنَ الصّٰدِقِیْنَ:سچ کہنے والوں میں سے ہے
فَلَمَّا رَاٰ :پھر جب اس (شوہر) نے دیکھا

قَمِیْصَہٗ :اُس کی قمیص کو
قُدَّ مِنْ دُبُرٍ :کہ چیری گئی پیچھے سے

قَالَ اِنَّہٗ :تو اُس نے کہا :بے شک یہ
مِنْ کَیْدِکُنَّ :تم عورتوں کی چالبازی میں سے ہے

اِنَّ کَیْدَکُنَّ:بے شک تم عورتوں کی چالبازی
عَظِیْمٌ :عظیم ہے

یُوْسُفُ : (اے) یوسف!
اَعْرِضْ :آپؑ اعراض کریں

عَنْ ھٰذَا :اس سے
وَاسْتَغْفِرِیْ:اور (اے عورت) تُو مغفرت مانگ

لِذَنْۢبِکِ :اپنے گناہ کے لیے
اِنَّکِ کُنْتِ : بے شک تُو (ہی) ہے

مِنَ الْخٰطِئِیْنَ :خطا کرنے والوں میں سے

نوٹ: یہ واقعہ تالمود میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ فوطیفار نے جب اپنی بیوی کی شکایت سنی تو اس نے یوسفؑ کو خوب پٹوایا‘ پھر اُن کے خلاف عدالت میں استغاثہ دائر کیا۔ عدالت نے یوسف ؑ کی قمیص کا جائزہ لے کر فیصلہ کیاکہ قصور عورت کا ہے کیونکہ قمیص پیچھے سے پھٹی ہے نہ کہ آگے سے۔ لیکن ہر صاحب ِعقل بآسانی یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ قرآن کی روایت تالمود کی روایت سے زیادہ قرین قیاس ہے۔ آخر کس طرح یہ باور کر لیا جائے کہ ایک اتنا بڑاذی وجاہت آدمی اپنی بیوی پر اپنے غلام کی دست درازی کا معاملہ عدالت میں لے گیا ہو گا۔ (کیونکہ آقا کو غلام پرہر طرح کا اختیار حاصل ہوتا تھا۔ مرتّب) یہ ایک نمایاں ترین مثال ہے قرآن اور اسرائیلی روایات کے فرق کی۔ اس سے مغربی مستشرقین کے اس الزام کی لغویت صاف واضح ہو جاتی ہے کہ محمد(ﷺ) نے یہ قصے بنی اسرائیل سے نقل کیے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ قرآن نےتو اسرائیلی روایات کی اصلاح کی ہے اور اصل واقعات دنیا کو بتائے ہیں۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۳۰ تا ۳۵{ وَقَالَ نِسْوَۃٌ فِی الْمَدِیْنَۃِ امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ تُرَاوِدُ فَتٰىھَا عَنْ نَّفْسِہٖ ۚ قَدْ شَغَفَھَا حُبًّا ۭ اِنَّا لَنَرٰىھَا فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۳۰) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِھِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْھِنَّ وَاَعْتَدَتْ لَھُنَّ مُتَّکَاً وَّاٰتَتْ کُلَّ وَاحِدَۃٍ مِّنْھُنَّ سِکِّیْنًا وَّقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْھِنَّ ۚ فَلَمَّا رَاَیْنَہٗٓ اَکْبَرْنَہٗ وَقَطَّعْنَ اَیْدِیَھُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلہِ مَا ھٰذَا بَشَرًا ۭ اِنْ ھٰذَآ اِلَّا مَلَکٌ کَرِیْمٌ(۳۱) قَالَتْ فَذٰلِکُنَّ الَّذِیْ لُمْتُنَّنِیْ فِیْہِ ۭ وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ عَنْ نَّفْسِہٖ فَاسْتَعْصَمَ ۭ وَلَئِنْ لَّمْ یَفْعَلْ مَآ اٰمُرُہٗ لَیُسْجَنَنَّ وَلَیَکُوْنًا مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ(۳۲) قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْہِ ۚ وَاِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ اَصْبُ اِلَیْھِنَّ وَاَکُنْ مِّنَ الْجٰھِلِیْنَ(۳۳) فَاسْتَجَابَ لَہٗ رَبُّہٗ فَصَرَفَ عَنْہُ کَیْدَھُنَّ ۭ اِنَّہٗ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(۳۴) ثُمَّ بَدَا لَھُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّہٗ حَتّٰی حِیْنٍ(۳۵)}

ش غ ف

شَغَفَ یَشْغَفُ (ف) شَغْفًا : (۱) دل کی جھلی کو صدمہ پہنچانا (۲) کسی کے دل پر چھاجانا۔ زیر مطالعہ آیت۳۰
و ک ء
وَکِأَ یَوْکَأُ (س) تَکَئًا
 : ثلاثی مجرد میں اس کی وائو کو تا میں بدل دیتے ہیں۔ اور یہ لفظ وَکِأَ ‘ یَوْکَأُ‘ وَکَئًا کے بجائے تَکِأَ ‘ یَتْکَأُ‘ تَکَئًا استعمال ہوتا ہے۔ معنی ہیں کسی چیز کا سہارا لینا۔
تَوَکَّأَ (تفعل) تَوَکُّئًا:بتکلف سہارا لینا۔{قَالَ ھِیَ عَصَایَ ج اَتَوَکَّؤُا عَلَیْھَا} (طٰہٰ:۱۸) ’’انہوںؑ نے کہا: یہ میری لاٹھی ہے‘ مَیں ٹیک لگا تا ہوں اس پر۔‘‘
اِتَّکَأَ (افتعال) اِتِّکَاءً : اہتمام سے ٹیک لگا کر بیٹھنا۔ اس میں آرام و آسائش (luxury)کا مفہوم شامل ہے۔ {وَسُرُرًا عَلَیْھَا یَتَّکِئُوْنَ(۳۴)} (الزخرف) ’’اور کچھ تخت جن پر وہ لوگ ٹیک لگا کرآرام سے بیٹھیں گے۔‘‘
مُتَّکِأٌ(اسم الفاعل) : آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھنے والا۔ {مُتَّکِئِیْنَ عَلَیْھَا مُتَقٰبِلِیْنَ(۱۶)} (الواقعۃ) ’’آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھنے والے ان پر آمنے سامنے ہوتے ہوئے۔‘‘
مُتَّکَأٌ (اسم المفعول) : ظرف کے طور پرآتا ہے (۱) آرام سے ٹیک لگا کر بیٹھنے کی جگہ۔ پُرتکلف مجلس۔ زیر مطالعہ آیت۳۱
ص ب و
صَبَا یَصْبُوْ (ن) صُبُوًّا:
 (۱)کسی کے لیے مشتاق ہونا۔ کسی کی طرف مائل ہونا۔ زیر مطالعہ آیت۳۳۔(۲) بچپن کی طرف مائل ہونا۔ نابالغ ہونا۔
صَبِیٌّ (فعیل کے وزن پر صفت) : بچوں کی خصلت والا یعنی بچہ۔ نابالغ لڑکا۔ {وَاٰتَیْنٰہُ الْحُکْمَ صَبِیًّا(۱۲)} (مریم) ’’اور ہم نے دی اُس کو حکمت لڑکپن میں۔‘‘
ترکیب
(آیت۳۰) نِسْوَۃٌ عاقل کی جمع مکسر ہے‘ اس لیے قَالَتْ اور قَالَ دونوںـ جائز ہیں۔ شَغَفَھَا کا فاعل اس میں شامل ھُوَ کی ضمیر ہے جو فَتٰی کے لیے ہے۔ ھَا کی ضمیر مفعولی اِمْرَاَتُ الْعَزِیْزِ کے لیے ہے جبکہ حُبًّا تمییز ہے۔ (آیت۳۲) لَیَکُوْنًا دراصل نونِ خفیفہ کے ساتھ لَیَکُوْنَنْ ہے۔اس کو تنوین سے لکھنا قرآن کا اِملا ہے۔ (۳۳) وَاِلَّا دراصل وَاِنْ لَا ہے۔ اور اَصْبُ مضارع میں واحد متکلم اَصْبُوْ تھا‘ جوابِ شرط ہونے کی وجہ سے مضارع مجزوم ہوا تو وائو گر گئی۔
ترجمہ:
وَقَالَ نِسْوَۃٌ :اور کہا کچھ عورتوں نے

فِی الْمَدِیْنَۃِ :اُس شہر میں 
امْرَاَتُ الْعَزِیْزِ :(کہ) عزیز کی بیوی

تُرَاوِدُ :پھسلاتی ہے
فَتٰىھَا :اپنے نوعمر خادم کو

عَنْ نَّفْسِہٖ :اپنے نفس (کو تھامنے) سے
قَدْ شَغَفَھَا :وہ دل پر چھا گیا ہے اس کے

حُبًّا:بلحاظ محبت کے
اِنَّا لَنَرٰىھَا:بے شک ہم ضرور دیکھتے ہیں اس کو

فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ:ایک کھلی گمراہی میں 
فَلَمَّا سَمِعَتْ :پھر جب اُس عورت نے سنا

بِمَکْرِھِنَّ:اُن عورتوں کے مکر کے بارے میں
اَرْسَلَتْ :تو اس نے پیامبر بھیجا

اِلَیْھِنَّ:ان عورتوں کی طرف
وَاَعْتَدَتْ :اور اس نے تیار کی

لَھُنَّ مُتَّکَاً :ان کے لیے ایک مجلس
وَّاٰتَتْ :اور اُس نے دی

کُلَّ وَاحِدَۃٍ:ہر ایک کو
مِّنْھُنَّ :ان میں سے

سِکِّیْنًا :ایک چھری
وَّقَالَتِ :اور اُس نے کہا

اخْرُجْ عَلَیْھِنَّ: تُو نکل ان پر
فَلَمَّا :پھر جب

رَاَیْنَہٗٓ:عورتوں نے دیکھا اُسؑ کو
اَکْبَرْنَہٗ :تو وہ ششدر رہ گئیں اُسؑ پر

وَقَطَّعْنَ :اور انہوں نے کاٹ ڈالا
اَیْدِیَھُنَّ :اپنے ہاتھوں کو

وَقُلْنَ:اور انہوں نے کہا
حَاشَ لِلہِ :پاکیزگی اللہ کی ہے

مَا ھٰذَا :نہیں ہے یہ

بَشَرًا :کوئی بشر

اِنْ ھٰذَآ اِلَّا :نہیں ہے یہ مگر
مَلَکٌ کَرِیْمٌ:کوئی بزرگ فرشتہ

قَالَتْ :اُس نے کہا
فَذٰلِکُنَّ الَّذِیْ :تو یہ ہے وہ

لُمْتُنَّنِیْ:تم لوگوں نے ملامت کی مجھ پر
فِیْہِ :جس (کے بارے) میں

وَلَقَدْ رَاوَدْتُّہٗ :اور بے شک مَیں نے ہی پھسلایا ہے اس کو
عَنْ نَّفْسِہٖ :اپنے نفس (کو تھامنے) سے

فَاسْتَعْصَمَ:تو وہ باز رہا
وَلَئِنْ :اور بے شک اگر

لَّمْ یَفْعَلْ :اُس نے نہ کیا
مَآ اٰمُرُہٗ :وہ جو مَیں نے کہا اس کو

لَیُسْجَنَنَّ :تو وہ لازماً قید کیا جائے گا
وَلَیَکُوْنًا :اور وہ لازماً ہو گا

مِّنَ الصّٰغِرِیْنَ:حقیرہونے والوں میں سے
قَالَ رَبِّ :اُسؑ نے کہا :اے میرے رب!

السِّجْنُ :قید خانہ
اَحَبُّ اِلَیَّ :زیادہ پسندیدہ ہے میرے لیے

مِمَّا :اس سے
یَدْعُوْنَنِیْٓ :یہ عورتیں بلاتی ہیں مجھ کو

اِلَیْہِ :جس کی طرف
وَاِلَّا تَصْرِفْ :اور اگر تُو نے نہ پھیرا

عَنِّیْ کَیْدَھُنَّ :مجھ سے ان کی چالبازی کو
اَصْبُ :تو مَیں جھک جائوں گا

اِلَیْھِنَّ:ان عورتوں کی طرف
وَاَکُنْ :اور مَیں ہو جائوں گا

مِّنَ الْجٰھِلِیْنَ :جاہلوں میںسے
فَاسْتَجَابَ لَہٗ :تو قبول کی اُسؑ کی بات

رَبُّہٗ :اُسؑ کے رب نے

فَصَرَفَ عَنْہُ:پس اُس نے پھیر دیا اُس سے

کَیْدَھُنَّ :ان عورتوں کی چالبازی کو
اِنَّہٗ :بے شک وہ

ھُوَ السَّمِیْعُ :ہی سننے والا ہے
الْعَلِیْمُ:جاننے والا ہے

ثُمَّ بَدَا لَھُمْ:پھر آشکارا ہوا ان لوگوں کے لیے
مِّنْ ۢ بَعْدِ مَا :اس کے بعد (بھی کہ) جو

رَاَوُا : ان لوگوں نے دیکھا
الْاٰیٰتِ :نشانیوں کو (یعنی یوسفؑ کی بے گناہی کے ثبوتوں کو)

لَیَسْجُنُنَّہٗ:کہ وہ لازماً قید میں رکھیں گے اُسؑ کو
حَتّٰی حِیْنٍ : ایک مدّت تک

نوٹ:آیت۳۳ میں حکامِ مصر کی خواتین کے لیے یَدْعُوْنَنِیْ‘ کَیْدَھُنَّ اور اِلَیْھِنَّ میں جمع کے صیغے آئے ہیں۔ پھر آیت۳۵ میں حکام مصر کے لیے لَھُمْ اور رَاَوْا میں جمع کے صیغے آئے ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ آیت۳۱ میں دیے گئے واقعہ کے بعد دوسری خواتین بھی حضرت یوسف ؑکے پیچھے پڑ گئیں‘انہیں بہلانا پھسلانا شروع کر دیا اور لوگوں میں اس بات کا چرچا پھیل گیا ۔ اس صورت حال سے حکامِ مصر پریشان ہو گئے اور اپنی خواتین کو کنٹرول کرنے سے زیادہ آسان راستہ انہیں یہ نظر آیا کہ بے گناہی کا یقین ہونے کے باوجود یوسف ؑکو کچھ عرصہ کے لیے جیل بھیج دیا جائے۔***