(پچاس سالہ رپورٹ) مرکزی انجمن کے پہلے 25سال - ادارہ

24 /

مرکزی انجمن کے پہلے 25سال

قرآن اکیڈمی
تعلیمی و تدریسی سرگرمیاں

مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور 1972ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کے پیش نظر جہاں قرآن حکیم کے علوم و معارف کی عمومی نشر واشاعت تھا وہیں ایک’’قرآن اکیڈمی‘‘ کا قیام بھی اس کے مقصد اولین میں شامل تھا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید اور فضل شامل حال رہا اورصرف چار سال بعد1976ء میں قرآن اکیڈمی کا سنگ بنیاد رکھ دیا گیا ۔ تعمیرات کی مناسب حد تک تکمیل کے بعد’’تعلیم وتعلّمِ قرآن‘‘ کا کام جس میں دروس قرآن حکیم اور عربی زبان کی تدریس بھی شامل تھے‘ فوراً ہی شروع کر دیے گئے‘ تاہم 1982ء میں فیلوشپ اسکیم کا اجراء ہو گیا۔
فیلوشپ اسکیم
اس اسکیم میں ابتداء ًسات اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان تعلیم و تعلّم قرآن کے لیے پوری زندگی وقف کرنے کا عزم لے کر شامل ہوئے۔ ان سات نوجوانوں میں ہم دو بھائی (راقم اور برادرم عاکف سعید) بھی شامل تھے۔ گویا انگریزی محاورےCharity begins at homeکی ایک عملی مثال سامنے آگئی۔
ابتدائی دو سال دینی مدارس کی طرز پرفقہ‘ اصول فقہ‘ اصول حدیث‘ منطق‘ مشکوٰۃ المصابیح اور پختہ بنیادوں پر عربی گرامر کی تدریس میں صرف ہوئے۔ سات میں سے دو شرکاء اس دوران ساتھ چھوڑ گئے‘ تاہم بقیہ پانچ فیلوز کی وابستگی تادیر قائم رہی اور انجمن کے تحت دعوتی و تبلیغی‘ تدریسی و تعلیمی اور تنظیمی و انتظامی شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ پندرہ سال گزرنے کے بعد بھی چار نوجوان(جو اگرچہ اب نوجوان نہیں رہے) تادمِ تحریر دعوت رجوع الی القرآن کی تحریک سے وابستہ ہیں اور اس مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں۔ فللّٰہ الحمد والمنۃ۔
فیلوشپ اسکیم کے اس پہلے گروپ کے بعد مزید داخلوں کے ضمن میں بات آگے نہ بڑھ سکی اور یہ اسکیم عارضی طور پر ترک کر دی گئی۔ لیکن ماضی قریب میں قرآن اکیڈمی میں شعبہ انگریزی اور شعبہ عربی کے قیام کے بعد ضرورت پھرا س امرکی داعی ہوئی کہ اس اسکیم کو دوبارہ شروع کیا جائے۔ لہٰذا مجلس شوریٰ مرکزی انجمن خدّام القرآن کے اجلاس منعقدہ 28مارچ1997ءمیں تمام اراکین مجلس نے متفقہ طور پر جناب صدر مؤسس کی اس رائے کی تصویب فرمائی کہ فیلوشپ اسکیم کو دوبارہ شروع کرنا چاہیے۔ ان شاء اللہ جلد ہی اس ضمن میں مثبت پیش رفت سامنے آئے گی۔
معہد ِ ثانوی
اپریل1980ءمیں انجمن کی طرف سے ایک نئی تعلیمی اسکیم کے تحت مڈل پاس یا اس کے مساوی تعلیم کے حامل طلبہ کے لیے قرآن اکیڈمی میں ایک اقامتی درسگاہ کے آغاز کا اعلان کیا گیا۔ اس اسکیم کے مطابق طلبہ کو اصلاً دو زبانیں پختہ طور پر پڑھائی جانے کا اہتمام تھا‘ یعنی عربی اورانگریزی۔ ان کے علاوہ میٹرک کے لازمی مضامین یعنی اسلامیات‘ اردو اورمطالعہ پاکستان اوراختیاری مضامین میں سے جنرل سائنس اور جنرل ریاضی لازمی طور پر اور اسلامیات اور شہریت میں سے کوئی ایک مضمون پڑھایا جانا شامل تھا اوراگلے سال عربی ادب کا امتحان دلوایا جانا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ ایک اضافی سال کی تعلیم سے دینی ودنیاوی دونوں میدانوں میں اعلیٰ تعلیم کا راستہ کھل جائے گا۔
اس اسکیم کے تحت سولہ طلبہ نے درخواستیں دیں۔چونکہ یہ تعداد بہت کم تھی اس لیے بغیر امتحان لیے سب کو داخل کر لیا گیا اور15مئی1980ء سےمجوزہ درسگاہ کا آغاز کر دیا گیا۔ لیکن چونکہ ان میں سے اکثر کا تعلیمی معیار بہت پست تھا اس لیے کچھ تودرسگاہ کو خود چھوڑ گئے اور کچھ سے بعد میں معذرت کرنا پڑی۔ دوسرے سال یعنی81ء میں باوجود اخبارات کے اشتہارات اورہینڈبلوں کے بڑی تعداد میں تقسیم کے نئی کلاس کے لیے مطلوبہ تعداد میں لڑکے دستیاب نہیں ہوسکے‘ اس لیے ہمیں افسوس کے ساتھ مجبوراً یہ منصوبہ ترک کرنا پڑا اورپچھلے سال کا جو گروپ دسویں کلاس میں آگیا تھا اس پر پوری توجہ مرکوز کر کے82ء میںمیٹرک کا امتحان دلا کر فارغ کر دیا گیا۔ ہمیں خوشی ہے کہ معہد ثانوی کے ان طلبہ نے میٹرک کا امتحان امتیازی نشانات سے پاس کیا۔
دو سالہ تدریسی کورس
1984ء میں مرکزی انجمن کی مجلس منتظمہ نے یہ فیصلہ کیا کہ پوری زندگی کو وقف کرنے کا عہد (commitment) لیے بغیر ذرا زیادہ تعداد میں نوجوانوں کو ایک دو سالہ تدریسی کورس میں شرکت کی دعوت دی جائے اور ضرورت ہو تو انہیں ان کے تعلیمی معیار کی مناسبت سے ماہانہ وظیفہ بھی دیا جائے۔ پھر ان میں سے جولوگ تخلیقی و تحقیقی کام کی صلاحیت و استعداد کے حامل نظر آئیں انہیں مستقل فیلوشپ اسکیم میںشامل کر لیاجائے۔
اس کے لیے اصلاً تو انہی لوگوں کو ترغیب دلائی گئی جو ایک عرصے سےدعوت رجوع الی قرآن کے ساتھ وابستہ ہیں اور انجمن خدام القرآن یا تنظیم ِاسلامی میں سرگرمِ عمل ہیں‘ لیکن ایک دعوتِ عمومی کے لیے اس اسکیم کی تشہیر جرائد کے ذریعے بھی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں اخبارات کے صفحات میں بعض حاسدین اور ناقدین کی جانب سے چہ میگوئی (controversy)بھی شروع کی گئی جس کا بروقت جواب دے دیا گیا۔ذیل میں اس کورس کے سال اول کی روداد(ازقلم ڈاکٹر اسرار احمد) شائع شدہ’’حکمت قرآن‘‘ مئی1985ءدرج کی جارہی ہے:
’’بحمد اللہ اس دو سالہ تدریسی کورس کا پہلا تعلیمی سال اس شعبان المعظم میں مکمل ہوگیا ہے۔ لہٰذا اس کا ایک جائزہ پیشِ خدمت ہے:
(۱) اس کورس کا آغاز چالیس شرکاء سے ہوا تھا‘ لیکن دورانِ سال مختلف اسباب کی بنا پر نو شرکاء ہمت ہار گئے۔ ایک صاحب ایک ماہ کی تاخیر سے شامل ہوئے اس طرح پہلے تعلیمی سال کی تکمیل کرنے والے شرکاء کی تعداد بتیس ہے۔
(۲) ان میں ایک تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ چالیس (40)سال سے زائد عمر کے شرکاء چھ (6)ہیں‘ تیس(30) اور چالیس (40)سال کے مابین گیارہ (11)اور تیس(30) سال سے کم عمر کے پندرہ(15)۔
(۳) ایک دوسری تقسیم اس اعتبار سے ہے کہ بیس(20) خود کفیل اور غیر مؤظف تھے جبکہ صرف بارہ(12) شرکاء کو مختلف مقدار میں ماہانہ وظیفہ دیا گیا۔
(۴) ان کی تعلیمی قابلیت کا چارٹ حسب ذیل ہے:
ایم بی بی ایس 2 بی ڈی ایس 1
بی وی ایس سی 1 چارٹرڈ اکاؤنٹینٹ 1
بی ایس سی انجینئرنگ (مکینیکل) 2 بی ایس سی، اے ایم آئی ،ای (سول) 1
ایم ایس سی 2 ایم اے 3
بی ایس سی 2 بی اے 8
ایف اے 4 مختلف ڈپلومہ ہولڈرز 5
دو سالہ تدریسی کورس کے سالِ اول کی تکمیل کرنے والے شرکاء میں سے بعض کا معاملہ واقعۃً قابلِ ذکر ہی نہیں قابلِ رشک اور قابل تقلید بھی ہے‘ لہٰذا ان کا ذکر کیا جا رہا ہے:
(1) ڈاکٹر نسیم الدین خواجہ کی عمر50 برس ہے۔ وہ وسن پورہ اور شادباغ کے علاقے کے مصروف ترین میڈیکل پریکٹیشنر ہیں ‘لیکن انہوں نے اس کورس کے دوران صرف شام کا مطب کرنے اور صبح کا پورا وقت خالص طالب علمانہ انداز میں حصولِ علم میں مشغول رہنے کی جو مثال قائم کی ہے وہ یقیناً قابل رشک ہے۔
(2) بالکل یہی معاملہ میرے برادرِ خورد وقار احمد سلمہٗ کا ہے کہ انہوں نے بھی 44 سال کی عمر میں اور ایک مصروف کاروباری زندگی گزارنے کے باوصف (وہ کئی تعمیراتی ٹھیکے لینے والی اور تعمیراتی سامان بنانے والی کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں) بالکل طالب علمانہ انداز میں عربی زبان کے ابتدائی قواعد یاد کیے اور ثقیل تعلیم کو خندہ پیشانی سے پوری پابندئ وقت کے ساتھ نباہا اور امتحانات میں اکثر اعلیٰ پوزیشن حاصل کرتے رہے۔
(3) ایک اعتبار سے ان دونوں سے بھی بڑھ کر مثال قائم کی ہے میاں محمد رشید صاحب نے کہ ساٹھ برس کی عمر میں پوری پابندی کے ساتھ تحصیلِ علم میں لگے رہے اور بہت سوں کے لیے ایک قابل تقلید مثال بن گئے۔
(4) ایک اور اہم مثال میاں محمد نعیم صاحب کی ہے (عمر 29 سال) جو جیالوجیکل سروے آف پاکستان میں ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں اور کوئٹہ میں تعینات ہیں۔ انہوں نے بلا تنخواہ رخصت حاصل کی۔ اہل و عیال سمیت شدّ رحال کیا اور خالص طالب علمانہ انداز میں علمِ حاصل کیا۔
(5) اسی سے ملتا جلتا معاملہ میرے دامادِ کلاں محمود عالم میاں کا ہے جو ایم ایس سی کیمسٹری ہیں اور پی سی ایس آئی آر میں کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی رخصت حاصل کی اور اپنی اہلیہ (میری بڑی بچی) سمیت اس کورس میں شرکت کی۔ الحمد للہ کہ دونوں کا ریکارڈ بہت اچھا رہا بلکہ میری بچی نے بفضلہٖ تعالیٰ تین بچوں کی ماں ہونے کے باوجود حیرت انگیز ترقی کی اور بہت سے امتحانات میں اول پوزیشن حاصل کی۔
(6) ایسی ہی ایک قابل تقلید مثال چوہدری رحمت اللہ بٹر صاحب کی ہے ۔وہ اے جی آفس میں سپرنٹنڈنٹ ہیں لیکن انہوں نے بھی طویل رخصت حاصل کی اور اپنی بچی سمیت اس کورس میں شرکت کی۔ ان دونوں باپ بیٹی نے بھی بحمد اللہ نمایاں استعداد حاصل کی۔
(7) میرے دوسرے داماد ڈاکٹر عبدالخالق بی ڈی ایس ڈینٹل سرجن نے بھی اپنا مطب صرف شام کے اوقات میں کرلیا اور اس کورس میں باضابطہ شرکت کی۔
(8) ایسی ہی ایک اورشاندار مثال محمد صادق صاحب کی ہے۔ یہ تینتیس(33)سالہ نوجوان بی ایس سی ہیں اورسعودی عرب میں ایک تعمیراتی فرم میں مٹیریل انسپکٹر کی حیثیت سے کئی ہزار ریال پرماہانہ ملازم تھے۔ انہوں نے جیسے ہی’’میثاق‘‘ میں اس کورس کا اعلان پڑھا فوراً ملازمت کو خیر باد کہا اورکورس میں آشامل ہوئے‘ اگرچہ وہاں کے معاملات کو نبٹانےمیں کچھ وقت لگ گیا۔ چنانچہ ان کی کورس میں شمولیت ایک ماہ تاخیر سے ہوئی۔
(9) اسی طرح جاوید اسلم صاحب نے جو بی ایس سی مکینیکل انجینئر ہیں اور ایک کارخانے میں کام کرتے ہیں‘ اپنی ڈیوٹی مستقلاً شام کی شفٹ میں لگوائی اور اس کورس میں شرکت کرلی۔
(10) کراچی کے محمد یامین صاحب کی مثال بھی قابلِ رشک ہے۔ وہ ایم اے اسلامیات کے علاوہ آٹو موبائل میں ڈپلومہ رکھتے ہیں اور پاکستان کی فضائی فوج میں ملازم ہیں۔ انہوں نے بھی وہاں سے بلا تنخواہ رخصت حاصل کی ، مع اہل وعیال لاہورآئے اور کورس میں شرکت کی!
(11) ایسی ہی مثال ایک پٹھان نوجوان محمد سلیمان کی ہے، جو مردان کے رہنے والے ہیں اور مرکزی حکومت کے کسی محکمے میں سٹینو ٹائپسٹ ہیں‘ انہوں نے بھی بلا تنخواہ رخصت حاصل کی اور کورس میں شریک ہوگئے۔
یہاں مناسب ہے کہ تحدیثاً للنعمۃ یہ ذکر بھی ہوجائے کہ اس دو سالہ کورس کے ضمن میں بھی اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کو ’’وَ اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ‘‘ کی ایک حقیر سی مثال پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس ضمن میں بھائی‘ بیٹی اور دو دامادوں کا ذکر اوپر آ چکا ہے۔ اس لسٹ کی تکمیل ہوتی ہے میرے ایک اور داماد اور حقیقی بھتیجے عزیزم حمید احمد سلمہٗ کے ذکر پر جو بی ایس سی ہیں اور متعدد تعمیراتی لمیٹڈ کمپنیوں کے ڈائریکٹر ہیں لیکن بحمد اللہ کہ اس کورس میں بھی پوری تندہی اور پابندی سے شریک رہے ہیں اور ان کے والد اور میرے برادر خورد اقتدار احمد سلمہٗ کا ارادہ ہے کہ اپنی اولاد میں سے انہیں دین کی خدمت کے لیے بالکلیہ وقف کردیں۔ اللہ تعالیٰ قبولِ حسن سے نوازے۔ (آمین!)
(افسوس صد افسوس کہ ہمارے خاندان کا یہ گلِ نوشگفتہ قضاء الٰہی کو کچھ زیادہ ہی پسند آگیا۔ اور ع ’’چن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا!‘‘ کے مصداق اسے تقدیر کے دستِ حنائی نے چن لیا اور اللہ نے اسے ہمارے لیے توشۂ آخرت کے طور پر قبول فرمالیا۔ چنانچہ 27 ستمبر 1986ء کو آں عزیز اپنے بہنوئی اور ہمارے بھانجے عبداللہ طاہر کے ساتھ ایک سڑک کے حادثے میں راہئ ملک بقا ہوگئے۔ اسی طرح اب میرے برادر خورد اقتدار احمد بھی جون 1995ء اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا اللہ و انا الیہ راجعون!)
ہم ان تمام ادھیڑ عمر اور نوجوان شرکاء کورس کی خدمت میں ہدیۂ تبرک پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ جو استعداد انہوں نے اس محنت و مشقت اور ایثار و قربانی سے حاصل کی ہے وہ دین کی خدمت میں باحسن و جوہ استعمال ہو۔
ایک سالہ رجوع الی القرآن کورس
الحمد للہ کہ دوسالہ تعلیمی و تدریسی کورس کو تینbatches نے خاطرخواہ کامیابی کے ساتھ مکمل کیا‘ لیکن جلد ہی محسوس ہواکہ بہت سے نوجوانوں کے لیے مسلسل دو سال اس کام کے لیے نکالنانا ممکن نہیں تو بہت مشکل کام ضرور ہے۔ لہٰذا ایسے نوجوانوں کے لیے ایک سالہ کورس جاری کیا گیا جو اللہ کے فضل سے بہت کامیابی کے ساتھ گزشتہ 9برسوں سے جاری ہے اورتحریک رجوع الی القرآن کے ضمن میںایک اہم سنگ ِ میل ثابت ہوا ہے۔ اس کورس سے نہ صرف پاکستان میںمقیم سینکڑوں تعلیم یافتہ نوجوان استفادہ کر چکے ہیں بلکہ ایک معتدبہ تعداد میں ایسے نوجوان بھی مستفید ہوئے ہیں جو امریکہ‘ کینیڈا‘ برطانیہ اور عرب امارات سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کورس کی اصل غرض و غایت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں یعنی ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور دیگر پروفیشنلز کو پختہ بنیادوں پر ’’عربی گرامر‘‘ کی تدریس کے بعد قرآن حکیم کے علم و حکمت سے روشناس کرانا ہے‘ تاکہ جہاں یہ نوجوان اپنی عملی زندگی میں اسلام اور قرآن کو اپنا ہادی اور راہنما بنا سکیں اور اس طرح معاشرے کو امانتدار‘ دیانتدار اور فرائض دینی کے جامع تصور سے مزین ڈاکٹرز‘ انجینئرز اوردیگر پروفیشنلز فراہم ہو سکیں‘ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ معاشرے کو ایسے اعلیٰ تعلیم یافتہ مدرسین قرآن میسر آسکیں جو دنیوی منفعت کی خواہش سے بلند ہو کر تبلیغ دین کا فریضہ سرانجام دے سکیں۔ اس کورس میں نوجوانوں کی شرکت کے ضمن میں جناب صدر مؤسس اپنے خطباتِ جمعہ اور دیگر خطابات میں اتنہائی ترغیب و تشویق دلاتے ہیں اور بعض نوجوانوں کو انفرادی ملاقات میں اس کورس میں شرکت کی جانب راغب کرتے رہے ہیں۔
شعبۂ حفظ
مرکزی انجمن خدّام القرآن کے اغراض و مقاصدمیں اگرچہ حفظ قرآن کا ذکر نہیں ہے تاہم اس شعبے کے لیے ایک انتہائی محنتی اور قابل استاد فراہم ہونے کے بعد جولائی 1985ء میں اس شعبے کا آغاز کیا گیا۔ ابتدا میں کل12 طلبہ نے داخلہ لیا۔ پہلے ہی گروپ کی کارگزاری سامنے آئی اور جب لوگوں کے علم میں آیا کہ چار پانچ سال میں حفظ قرآن کی بجائے ڈیڑھ سال سےبھی کم عرصے میں یہ کام ہو سکتا ہے توبہت سے حضرات کا رجوع اس جانب ہوا۔ اس شعبے میں بھی الحمد للہ یہ صورت بنی کہ پہلا بچہ جس نے حفظ قرآن کی تکمیل کی وہ صدر مؤسس کے چھوٹے بھائی اقتدار احمد مرحوم و مغفور کا صاحبزادہ تھا جس نے ڈیڑھ سال کے عرصے میں قرآن کا حفظ مکمل کیا تھا۔ قرآن اکیڈمی میں قائم اس شعبے کی حسن ِ کارکردگی کی بازگشت بیرون پاکستان بھی پہنچی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ امریکہ‘کینیڈا‘ برطانیہ اور متحدہ امارات میں رہائش پذیر بہت سے خاندانوں نے اپنے نوجوان بچوں کو حفظ قرآن کے لیے اس ادارے میں بھیجنا شروع کر دیا۔ جہاں تک شعبہ حفظ کی حسن کارکردگی کا معاملہ ہے اورایک سال یا ڈیڑھ سال کے اندر عموماً حفظ کی تکمیل ہوجاتی ہے‘ اس میں اس فیصلے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے کہ داخلے کے وقت بچے کی عمر11تا12سال ہونا ضروری ہے اورکم ازکم پرائمری تو لازماً پاس کر چکا ہو۔ اس طرح جو بچہ داخل ہوتا ہے اس میں ذمہ داری کا شعور موجود ہوتا ہے اوراس طرح حفظ قرآن کی تکمیل میں کم عرصہ لگتا ہے۔
آغازِ شعبہ سے تادمِ تحریر159طلبہ حفظ کی تکمیل کر چکے ہیں اور ان میں سے15 وہ ہیں جنہوں نے12 مہینے سے بھی کم مدت میں حفظ مکمل کیا۔ ایک بچے نے کل ساڑھے آٹھ ماہ میں حفظ کی تکمیل کرنے کا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ آج کل عموماً اس شعبہ میں حفظ کرنے والے طلبہ کی تعداد60تا65 رہتی ہے اورچونکہ قرآن اکیڈمی میں ہاسٹل کی سہولت بھی موجود ہے اس لیے عموماً 15 تا20 طلبہ ہاسٹل میں رہائش پذیر ہوتے ہیں ۔ جن طلبہ کے والدین اخراجات دینے کی استطاعت نہیں رکھتے انہیں انجمن اپنے خرچ پر قیام و طعام کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
شعبۂ خط و کتابت کورس
ایسے طلبہ و طالبات‘ خواتین و حضرات کے لیے جو ملک سے یا لاہور سے باہر ہیں یا جن کے لیے کسی وجہ سے قرآن کالج‘ قرآن اکیڈمی لاہور میں حاضری ممکن نہیں‘ خط و کتابت کورسز ترتیب دئیے گئے ہیں‘ تاکہ وہ گھر بیٹھے سہولت کے ساتھ اپنے فارغ وقت میں عربی گرامر اورقرآن حکیم کی تعلیم کے حصول کے لیے درج ذیل کورسز سے استفادہ کر سکیں:
(1) قرآن حکیم کی فکری و عملی راہنمائی (2) ابتدائی عربی گرامر(حصہ اول)
(3) ابتدائی عربی گرامر(حصہ دوم) (4) ترجمہ قرآن کریم کورس
اس شعبہ کی رپورٹ جسے ناظم شعبہ انوار الحق چوہدری صاحب نے مرتّب کیا ہے‘ حسب ِذیل ہے:
پہلے کورس کا آغاز جنوری1988ء میں کیا گیا۔ اس کورس کا مقصد خواتین وحضرات اور طلبہ و طالبات کو قرآن حکیم کے مربوط مطالعے کے ذریعے دین کے جامع اورہمہ گیر تصور سے متعارف کرانا ہے۔ بفضل باری تعالیٰ یہ کورس خوب زور شور سے جاری ہے۔ اس میں حصہ لینے والوں کی تعداد2315تک پہنچ چکی ہے۔ بیرون ملک سے اس کورس کااجراء سعودی عرب میںجدّہ ‘مکہ مکرمہ‘ مدینہ منورہ‘ ریاض‘ داہران اور الواسیع میں ہو چکا ہے۔ اس کے علاوہ ابوظبی‘ دوبئی‘ شارجہ‘ راس الخیمہ‘ انگلینڈ‘ فرانس‘ کینیڈا اور امریکہ میں بھی کورس کا اجراء ہو چکا ہے۔
دوسرے کورس ابتدائی عربی گرامر(حصہ اول) کا اجراء نومبر1990ء میں کیا گیا۔ قرآن حکیم کو سمجھ کر پڑھنے کے لیے ابتدائی عربی گرائمر کا جاننا ناگزیر ہے۔ اس کورس کا مقصد یہ ہے کہ طلبہ کو عربی گرائمر کےبنیادی اصولوں سے اس حد تک متعارف کرادیا جائے کہ قرآن اور احادیث سے براہ راست استفادہ کے لیےانہیں ایک بنیاد حاصل ہو جائے۔ اول الذکر کورس کی طرح یہ کورس بھی بہت مقبول ہوا۔ اس کے طلبہ اور طالبات کی تعداد1399 تک پہنچ چکی ہے۔ یہ کورس بھی بیرون پاکستان سعودی عرب‘ ابوظبی‘ دوبئی‘ شارجہ‘ انگلینڈ‘ فرانس‘ کینیڈا اور امریکہ میں جاری ہوچکا ہے۔
اس کورس کے حصہ دوم کا آغاز بھی اکتوبر1992ء میں کر دیا گیا تھا۔ اس میں طلبہ کی تعداد145تک پہنچ چکی ہے۔
1996ءکے دوران شعبہ خط وکتابت کورسز میںایک نئے کورس بعنوان’’ترجمہ قرآن کریم کورس‘‘ کااجراء کیاگیا۔ یہ کورس خاص طور پرYoungstersکے لیے جاری کیا گیا ہے‘ یعنی سکول اور کالج کے طلبہ و طالبات جواردو لکھ پڑھ سکتے ہوں۔ ان طلبہ اور طالبات کا حافظہ بہت تیز ہوتا ہے اور یہ الفاظ کا ترجمہ باسانی یاد کر سکتے ہیں۔ چنانچہ نوجوان بچوں اور بچیوں کو ترجمہ قرآن سکھانے کے لیے ایک خاص طریقہ وضع کیاگیا ہے۔ ایسےبچے اور بچیاں اپنے گھر میں فارغ وقت میں روزانہ دس پندرہ منٹ صرف کر کے قرآن کریم کاترجمہ سیکھ سکتے ہیں۔
وقتاً فوقتاً اخبارات میں اشتہار کے ذریعے طلبہ و طالبات کو ان کورسز سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ ان اشتہارات کاخاطر خواہ نتیجہ نکلتا ہے اورسینکڑوں کی تعداد میں طلبہ و طالبات اس کورس میں داخل ہوتے ہیں۔ اگرچہ بعض شرکاء اس کورس کو ادھورا چھوڑ دیتے ہیں لیکن جتنا حصہ بھی انہوں نے مکمل کیا ہوتا ہے وہ بہرحال فائدے سے خالی نہیں ہوتا۔ اب تک اس کورس میں137طلبہ داخلہ لے چکے ہیں۔
اکیڈمک ونگ(Academic Wing)

قرآن اکیڈمی کا اکیڈمک ونگ فی الوقت مندرجہ ذیل ذیلی شعبوں پر مشتمل ہے:
(ا) شعبہ تصنیف و تالیف اورترتیب و تسوید
(ب) شعبہ انگریزی
(ج) شعبہ عربی
(د) شعبہ فرانسیسی
(ھ) شعبہ کتابت و طباعت(بشمول کمپیوٹرکمپوزنگ)
(و) قرآن اکیڈمی لائبریری
(1)شعبۂ تصنیف و تالیف اور ترتیب وتسوید
اس شعبے کے ذمے مکتبہ مرکزی انجمن خدّام القرآن کے زیر انتظام شائع ہونے والے تینوں اردو جرائد(میثاق‘ حکمت قرآن‘ ندائے خلافت) کے ادارتی امور‘ مثلاً مضامین کی تالیف اورediting‘محترم صدر مؤسس کے خطابات کو ٹیپ سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر کے انہیں مرتب کرنا‘ اور مضامین کی پروف ریڈنگ جیسے امور ہیں۔ مزید برآں یہ شعبہ مرکزی انجمن کی جملہ کتب(نئی یا پرانی) کی تیاری اور ان کی اشاعت و طباعت کا بھی ذمہ دار ہے۔ چنانچہ نئی کتابوں کو مرتب(edit)کرنا اور پرانی کتب کے نئے ایڈیشنز کی اشاعت سے پہلے ان کی تصحیح کرنا یا اگر ضرورت داعی ہو تو ان پر نظرثانی کے بعد ان کو از سر نوایڈٹ کر کے نئی کتابت یا کمپیوٹر کمپوزنگ کرانا اسی شعبے کی ذمہ داری ہے۔ اس شعبے کے زیر انتظام ہر ماہ دو ماہانہ جرائد(میثاق اور حکمت قرآن) اورہفت روزہ ندائے خلافت کے چارشمارے شائع ہوتے ہیں۔ ان جرائد کا اجمالی تعارف پیش خدمت ہے۔
ماہنامہ میثاق:اس جریدے کی اشاعت اولاً 1959ء میں زیر ادارت مولانا امین احسن اصلاحی صاحب شروع ہوئی۔ بالکل آغاز میں اشاعت باقاعدہ رہی لیکن بعد میں نہ صرف بے قاعدہ ہوئی بلکہ بالآخر اس جریدے کو بند کرنا پڑا۔ جناب صدر مؤسس کی لاہور منتقلی کے بعد1966ء میں ان کی زیر ادارت اس جریدہ کی دوبارہ اشاعت شروع کی گئی۔چنانچہ 66ء تا72ء دارالاشاعت الاسلامیہ جومحترم ڈاکٹر صاحب کا ذاتی ادارہ تھا‘ کے زیر اہتمام ’’میثاق‘‘ بڑی باقاعدگی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ تاآنکہ 1972ء میں انجمن کی تاسیس کے بعد ماہنامہ میثاق مرکزی انجمن کے ایک آرگن کی حیثیت سے شائع ہونا شروع ہو گیا۔
1972ءتا1997ء کے پچیس برسوں کے دوران اس ماہنامہ کی بہت سی ضخیم اورخصوصی اشاعتیں بھی شائع کی گئیں۔ ہماری کوشش رہی کہ اخراجات اورآمدنی کے ضمن میں منافع نہ سہی‘ کم سے کم یہ جریدہ خود کفیل تو ہوجائے۔ چنانچہ اس کے لیے خصوصی مہموں کے ذریعے بعض کمرشل اداروں سے اشتہارات بھی حاصل کیے گئے لیکن اشتہارات کے ضمن میں یہ پابندی عائد کر دی گئی کہ اس میں کسی جاندار کی تصویر نہیں ہونی چاہیے۔
ماہنامہ حکمت قرآن:ڈاکٹر رفیع الدین مرحوم و مغفور کی زیر نگرانی لاہور سے ’’حکمت قرآن‘‘ کے نام سے ایک علمی جریدہ آل پاکستان اسلامک ایجوکیشن کانگریس کے زیر اہتمام شائع ہوتا تھا۔ ڈاکٹر رفیع الدین صاحب کے انتقال کے بعد ایک عرصہ سے یہ ماہنامہ بند پڑا ہوا تھا۔ صدر مؤسس نے کانگریس کے اربابِ اختیار سے اسے دوبارہ شائع کرنے کے لیے کہا اور پیشکش بھی فرمائی کہ اگر کسی وجہ سے کانگریس اس کو شائع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے تو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اسے بخوشی شائع کرنے پرتیار ہے۔ کانگریس نے ڈاکٹر صاحب کی اس پیش کش کو قبول فرما لیا۔ چنانچہ ڈکلریشن کی تبدیلی کے لیے متعلقہ محکمہ کو درخواست دے دی گئی۔ مہینوں کی کارروائی کے بعد ڈکلریشن کی تبدیلی عمل میں آئی۔ انجمن کی مجلس منتظمہ اسے انجمن کی جانب سے شائع کرنے کی منظوری پہلے ہی دے چکی تھی۔ چنانچہ مئی82ء سے انجمن کے ترجمان کی حیثیت سے ماہنامہ’’حکمت ِ قرآن‘‘ کا پہلا شمارہ منظر عام پرآگیا۔
ماہنامہ’’حکمت ِقرآن‘‘ میں قرآن کانفرنسوں اورمحاضراتِ قرآنی میں پیش کیے گئے علمی مضامین اور مقالات بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کیے جاتے رہے ہیں۔ علماء اور دانشور حضرات کے حلقے میں یہ پرچہ بہت پسند کیا جاتا ہے۔ مرکزی انجمن کی مجلس عاملہ کے ایک فیصلہ کی رو سے یہ پرچہ انجمن کے حلقہ مؤسین ومحسنین اور مستقل ارکان کو اعزازی بھیجا جاتا ہے۔
ہفت روزہ ندائے خلافت: اس ہفت روزہ کا آغاز محترم اقتدار احمد صاحب مرحوم و مغفور نے مارچ1988ء میں ہفت روزہ ’’ندا‘‘ کے نام سے کیا تھا‘ جو آغاز میں بڑی آب و تاب کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ اپنی شائستگی اور سنجیدگی کے اعلیٰ وصف کی بنیاد پر اس کا شمار ملک کے صف ِ اوّل کے ہفت روزہ جرائد میں ہوتا تھا۔ جنوری91ء سے ہفت روزہ ’’ندا‘‘ تنظیم اسلامی کے زیر اہتمام قرآن اکیڈمی سے شائع ہونے لگا۔ جنوری92ء سے اس نے ’’ندائے خلافت‘‘ کے نام سے تحریک خلافت پاکستان کے نقیب کی حیثیت اختیار کی۔ بعد ازاں ہفت روزہ ’’ندائے خلافت‘‘ عملاً پندرہ روزہ کر دیا گیا اور یہ ہر دوسرے منگل کو باقاعدگی سے شائع ہوتا رہا۔ مارچ88ء سے مارچ95ء تک پورے چھ سال کا عرصہ محترم اقتدار احمد صاحب مرحوم اپنی علالت کےباوجود اس پرچے کی ادارت کی ذمہ داری پوری جانفشانی کے ساتھ ادا کرتے رہے‘ لیکن ان کی شدید علالت کے باعث اپریل 95ء سے اس کی اشاعت وقتی طور پر معطل ہو گئی۔ 6جون1995ء کو جناب اقتدار احمد داعیٔ اجل کو لبیک کہتے ہوئے داربقا کو کوچ کر گئے۔ (انا للہ وانالیہ راجعون)
تقریباً ساڑھےتین ماہ کے تعطل کے بعد جولائی95ء سے ندائے خلافت برادرم حافظ عاکف سعید کی ادارت میں شائع ہونا شروع ہوا۔ دسمبر96ء میں ندائے خلافت کا ایک خصوصی شمارہ’’سقوطِ مشرقی پاکستان نمبر‘‘ شائع کیا گیا۔ بعد ازاں اپریل 97ء تک ہر ماہ اس کا ایک خصوصی ماہانہ ایڈیشن شائع کیا جاتا رہا۔ محترم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی ہدایت پر مئی97ء سے ندائے خلافت کی ’’ہفت روزہ‘‘ کی حیثیت بحال کر دی گئی اور اب یہ ہر ہفتے باقاعدگی سے شائع ہو کر قارئین کے ہاتھوں تک پہنچتا ہے۔
اشاعت کتب: شعبہ تصنیف و تالیف کے زیر انتظام صدر مؤسس محترم ڈاکٹر اسرار احمد مدظلہ العالی کی 65کے قریب کتب ‘15کتب کے تراجم اوردیگر مصنفین کی12کتب شائع کی جاتی ہیں۔ ان میں سے بیشتر کتب کے سال بہ سال نئے ایڈیشن شائع ہوتے ہیں۔ مزید برآں قرآن کالج کا میگزین صفہ‘ کالج پراسپکٹس‘ دستورِ انجمن‘ انجمن کی سالانہ رپورٹیں اور دوسرا تعارفی لٹریچر بھی اسی شعبہ کے زیر انتظام شائع ہوتا ہے۔مکمل فہرست کتب رپورٹ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں۔
(ب)شعبۂ انگریزی
دعوت رجوع القرآن کو انگریزی دان طبقے میں متعارف کرانے کے لیے ایک باقاعدہ انگریزی شعبہ کی ضرورت کافی عرصے سے محسوس کی جا رہی تھی۔ الحمد للہ کہ اس شعبہ کا قیام اکتوبر1995ء میں عمل میں آگیا۔ شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام تصنیف و تالیف سے متعلق مختلف کاموں کے علاوہ جناب صدر مؤسس کی کتب اور خطابات کا انگریزی ترجمہ کیا جاتا ہے۔
نئی کتب:شعبہ انگریزی کے تعاون سے اب تک مندرجہ ذیل مطبوعات شائع کی گئی ہیں:
(1) To Christians with Loveیہ کتابچہ صدر مؤسس کے ان افکار پر مشتمل ہے جو موصوف نے عالمی سطح پر ہونے والی صیہونی سازشوں اور یہود کی جانب سے عالم عیسائیت کو اپنا آلہ کار بنانے جیسے اہم موضوعات پراپنے خطاباتِ جمعہ میں پیش کیے۔
(2) Quran: Our Weapon in the War ldeasیہ مختصر کتابچہ صدر مؤسس کی تالیف’’جہاد بالقرآن‘‘ اور ’’جہاد بالقرآن کے پانچ محاذ‘‘ کی انگریزی زبان میں تلخیص پرمشتمل ہے۔
(3) The Objective and Goal of Mohammad's Prophethood (SAWS) صدر مؤسس کے نہایت اہم اور بنیادی کتابچے ’’نبی اکرم ﷺ کا مقصد ِ بعثت‘‘ میں شامل مقالہ ٔ اول کا ترجمہ ڈاکٹر ابصار احمد صاحب نے کیا تھا جو قبل ازیں حکمت قرآن میں شائع ہو چکا تھا۔ اسے اغلاط کی تصحیح کے بعد کتابی صورت میں شائع کیا گیا۔
(4) Dr. lsrar Ahmad's Political Thought and Activities کینیڈاکی میک گل یونیورسٹی میں ایم اے اسلامیات کے لیے لکھا جانے والا یہ مقالہ جناب صدر مؤسس کے سیاسی افکار اورموصوف کی ان سرگرمیوں کی تفصیل پر مشتمل ہے جو مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے علاوہ تنظیم اسلامی اور تحریک ِ خلافت کے پلیٹ فارم سے کی جارہی ہیں۔ یہ مقالہ اغلاط کی تصحیح اور ضروری اضافوں کے بعد کتابی شکل میں شائع کیا گیا۔
(5) Lessons from Historyیہ کتاب جناب صدرمؤسس کے ان افکار وخیالات کو بنیادبنا کر لکھی گئی ہے جو موصوف کے اخباری کالموں کے مجموعہ’’سابقہ اور موجودہ مسلمان اُمتوں کا ماضی حال اورمستقبل‘‘ میں پیش کیے گئے ہیں۔ ان افکار کا انگریزی ترجمہ قبل ازیں ماہنامہ حکمت قرآن میں بالاقساط شائع ہوتا رہا ہے۔
تراجم:شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام جناب صدر مؤسس کی بعض تصانیف کے انگریزی ترجمے کا کام ابھی جاری ہے‘ جن میں’’منہج انقلابِ نبوی‘ خطباتِ خلافت اور برعظیم پاک وہند میں اسلام کے انقلابی فکر کی تجدید وتعمیل‘‘ شامل ہیں۔ آخر الذکر کتاب کا اکثر حصّہ انگریزی ترجمے کی صورت میں انجمن کے سہ ماہی جریدے The Quranic Horizons میں شائع ہو چکا ہے۔
انگریزی میں سہ ماہی جریدہ:1996ء کے اوائل میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے سہ ماہی انگریزی جریدےThe Quranic Horizonsکا اجراء ہوا۔ ڈیڑھ برس کے عرصے میں بروقت چھ شمارے شائع ہوئے۔ یہ جریدہ اپنے علمی اور تحریکی مواد اور حسن طباعت کے اعتبار سے اسلامی جرائد میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ابلاغ کے جدید ذرائع کا استعمال: الیکٹرانک میل اورانٹرنیٹ کی نئی ٹیکنالوجی کو کام لا کر دعوت رجوع الی القرآن اور قرآن حکیم کی انقلابی تعلیمات کو وسیع پیمانے پر پھیلانےکے کام کا آغاز ہو چکا ہے۔ چنانچہ جناب صدر مؤسس کے خطاباتِ جمعہ اوردیگر اہم تقاریر کی انگریزی زبان میں تلخیص ای میل کے ذریعے دنیا بھر میں سو سے زائد افراد کو بھیجی جاتی ہے۔ اسmailing list میں شامل ہونے کے لیے[email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور اور تنظیم اسلامی و تحریک خلافت کی مشترکہweb-siteبنائی گئی ہے۔ اس کا مواد شعبہ انگریزی کے زیر اہتمام مرتب کیاگیا‘ جبکہ اسsiteکے تزئین و ترتیب سے متعلق تمام تکنیکی کام کراچی کے نوجوان رفیق تنظیم اسلامی جناب ماجد محمود کے تعاون سے مکمل ہوا۔ یہ web-siteتنظیم اسلامی شمالی امریکہ کے رفقاء کے تعاون سے امریکہ ہی میںhostکی گئی ہے‘ جہاں مرزا حسن بیگ صاحب اس siteسے متعلق جملہ امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ اس web-siteکا پتہ حسب ِذیل ہے:
http://www.tanzeem.org
(ج)شعبۂ عربی
۱۹۹۶ء کے دوران قرآن اکیڈمی کے اکیڈمک ونگ میں شعبہ عربی کا اضافہ ہوا۔ اس شعبے میں مکتبہ مرکزی انجمن کی مندرجہ ذیل مطبوعات کے عربی تراجم کو فائنل صورت دی گئی:
(1) طریق النجاۃ: سورۃ العصر(راہِ نجات: سورۃ العصر کی روشنی میں)
(2) الھدف العظیم من ھیئۃ النبی الکریمﷺ(نبی اکرم ﷺ کا مقصد بعث)
(3) البعث الاسلامی(اسلام کی نشاۃ ثانیہ)
(4) القرآن والامن العالمی (قرآن اور امن عالم)
(5) تاریخ الامۃ الاسلامیۃ(تنظیم اسلامی کا تاریخی پس منظر)
مزید برآں’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی کتابچے کے عربی ترجمہ ’’ما ذا یجب علی المسلمین تجاہ القرآن‘‘ اور عربی زبان میں مرکزی انجمن کے تعارف پر مبنی کتابچے پرنظرثانی کاکام مکمل کیاگیا۔ تاہم ان میں سے کوئی کتاب بھی فی الحال طباعت کے مراحل طے نہیں کر سکی۔
(د)شعبہ فرانسیسی
۱۹۹۶ء ہی کے دوران اکیڈمک ونگ میں شعبہ فرانسیسی کا قیام بھی عمل میں آیا۔ اس شعبہ میں مکتبہ مرکزی انجمن کی مطبوعات کا انگریزی سے فرانسیسی زبان میں ترجمہ اور کمپیوٹرکمپوزنگ کا کام شروع کیا گیا۔ فرانسیسی زبان سے اچھی واقفیت رکھنے والے ایک نیک دل نوجوان جنہوں نے دوسال قبل ایک سالہ رجوع الی القرآن کورس کی تکمیل کی تھی‘ رضاکارانہ طور پر یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔ فجزاہُ اللہ احسن الجزاء۔اب تک مندرجہ ذیل مطبوعات کا ترجمہ مکمل ہو چکا ہے اورساتھ ہی ساتھ ان کی کمپوزنگ بھی ہو گئی ہے:
Liste des traductions francaises
1 Le Coran et la paix Mondiale (The Quran and the World peace)
2 La Montee et le Declin de l' Umma' Musulmane (The Rise and Decline of the Muslim Ummah)
3 La Renaissance lslamique (The Islamic Renaissance)
4 Les Obligations que Ies Musulmans doivent au Coran (The Obligations Muslims owe to the Quran)
5 Appeler Ies Hommes vers Allah (Calling people onto Allah)
6 L, Objectif et le But de Ia Mission Prophetique de Muhammad (Id paix soit sur Iui)
(The Objective and the Goal of Muhammad's Prophethood)۔
7 Degager des Iecons de I histoire (Lessons from History)
(ہ)شعبۂ کتابت و طباعت(بشمول کمپیوٹرکمپوزنگ)
اس شعبہ کے تحت مرکزی انجمن کے زیر اہتمام شائع ہونے والے تمام رسائل و جرائد‘ کتب اورہینڈ بلز وغیرہ کے علاوہ اخباری وغیراخباری اشتہارات‘ پوسٹرز‘ سٹیشنری اورسرکلرز وغیرہ کی تیاری اور طباعت کا انتظام کیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں کمپیوٹرکمپوزنگ اورکاپی پیسٹنگ کی حد تک تمام کام اکیڈمی ہی میں ہوتا ہے اور اس کے لیے یہاں مناسب انتظامات اور سہولتیں موجود ہیں۔ تاہم طباعت(printing)کا تمام کام بازار سے کرایا جاتا ہے۔اس ضمن میں ایک سے زائد پرنٹنگ پریسوں سے رابطہ رکھا جاتا ہے تاکہ طباعت کے کسی کام میں تاخیر نہ ہو۔ مرکزی انجمن کے مختلف شعبہ جات کے علاوہ بعض ذیلی‘ منسلک انجمنوں‘ بزم ہائے خدام القرآن ‘ تنظیم اسلامی اور تحریک ِ خلافت سے متعلق بیشتر طباعتی مواد کی تیاری اور طباعت کا کام بھی بہت حد تک یہی شعبہ سرانجام دیتا ہے۔
شعبہ کے پاس تمام امور کی انجام دہی کے لیے تجربہ کار اورمستعدسٹاف موجود ہے۔ماضی میں اس شعبہ کو بعض کہنہ مشق کاتبوں کی خدمات حاصل رہیں۔ لیکن جنوری 1991ء سے شعبہ میں کمپیوٹر کی آمدکے بعد کاتبوں پرانحصار رفتہ رفتہ کم ہوتا رہا‘ تاآنکہ شعبہ کے آخری کاتب کوبھی گزشتہ سال فارغ کر دیاگیا۔ اس وقت مرکزی انجمن کے زیر انتظام شائع ہونے والے تمام رسائل و جرائد‘ کتب اور اشتہارات وغیرہ کی کمپوزنگ کمپیوٹر پر ہی کی جاتی ہے۔ شعبہ کے پاس تین کمپیوٹر موجود ہیں‘ جن پر اردو‘ عربی‘ فارسی‘ انگریزی اور فرانسیسی میں کمپوزنگ کا کام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ شعبہ کے پاس ایک’’ HP4 Plus‘‘لیزر پرنٹر موجود ہے۔
(و)قرآن اکیڈمی لائبریری
قرآن اکیڈمی کی لائبریری کا قیام اگرچہ اکیڈمی کے قیام کے ساتھ ہی عمل میں آگیا تھا‘ تاہم اسے عملاً لائبریری کی حقیقی صورت1986ء میں اُس وقت ملی جب جامع القرآن کے نیچے تہ خانے کا بڑا ہال لائبریری کے لیے مختص کر کے اس میں کتابوں کے لیے الماریاں تیار کروائی گئیں اور لائبریری وہاں منتقل کی گئی۔ لائبریری کی منتقلی سے پہلے اس ہال میں دیمک سے تحفظ کے مناسب اقدامات کیے گئے اور ایسی کتابوں کوجوکسی بھی وقت کرم خوردگی کا شکار ہوئی تھیں لاہور عجائب گھر کے تعاون سے عمل تدخین(fumigation)سے گزارا گیا۔
لائبریری کے مجموعۂ کتب کا بنیادی اثاثہ محترم صدرمؤسس ڈاکٹر اسرار احمد صاحب اور ڈاکٹر شیر بہادر خان پنی مرحوم کے عطیات پرمشتمل ہے۔ تاہم1990ء سے لائبریری کتب کے لیے بجٹ کا ایک حصہ مخصوص کیا جاتا ہے جس کے تحت ہر سال کم وبیش دس ہزار روپے کی نئی کتب خرید کر لائبریری میں شامل کی جاتی ہیں۔ اِس وقت لائبریری میں موجود کتب کی کل تعداد چھ ہزار سے زائد ہے۔
کتب کی باقاعدہ درجہ بندی (classification)اور فہرست سازی (cataloguing)کے لیے لائبریری کو کوالیفائڈ سٹاف کی خدمات حاصل ہیں۔چنانچہ لائبریری کی جملہ اردو اور عربی کتب کو درجہ بندی کی ترتیب کے مطابق رکھا گیا ہے اوراس اعتبار سے قرآن اکیڈمی لائبریری ایک مرتب (arranged) اورclassified لائبریری کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ تاہم انگریزی کتب کی درجہ بندی کا کام ابھی باقی ہے۔ لائبریری میں باقاعدگی سے موصول ہونے والے قریباً150ہفتہ وار‘ ماہوار‘ سہ ماہی اور سلسلہ وار رسائل و جرائد کا مکمل ریکارڈ رکھا جاتا ہے۔
لائبریری میں موصول ہونے والے اخبارات میں سے اہم خبروں کو نشان زد کرنے اور ان کے تراشوں کو فائل کرنے کا کام بھی اہتمام کے ساتھ کیا جاتاہے۔
قرآن کالج
مرکزی انجمن خدّام القرآن کے اغراض و مقاصد میں عربی زبان کی تعلیم و ترویج کے ساتھ ساتھ ایک قرآن اکیڈمی کا قیام بھی تھا جو قرآن حکیم کے فلسفہ و حکمت کو وقت کی اعلیٰ ترین علمی سطح پرپیش کر سکے۔ اس مقصد کی خاطر انجمن کی مجلس عاملہ نے سال1987ءمیں قرآن کالج کا منصوبہ تشکیل دیا۔ اس کالج کے ذمے انجمن کے اعلیٰ اہداف کے ضمن میں’’نرسری‘‘ کا کردار ادا کرنا تھا۔ شروع میں کالج کے لیےماڈل ٹائون ایکسٹینشن میں ایک کوٹھی حاصل کی گئی اور وہاں تین سالہB.Aکلاس کا اجراء کر دیا گیا۔ بعدازاں لگ بھگ ایک سال بعد اتاترک بلاک گارڈن ٹائون میں تقریباً پانچ کنال کا ایک پلاٹ خریدا گیا جس کے بارے میں حکومت کی طرف سے پابندی تھی کہ اس پلاٹ پرصرف سکول یاکالج تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ 1989ء میں مذکورہ پلاٹ پر کالج کی تعمیر ہونے کے فوراً بعد جملہ تدریسی سرگرمیاں نئے کیمپس میں منتقل کر دی گئیں اور یوں الحمد للہ قرآن کالج لاہور کا باقاعدہ آغاز ہو گیا۔ سال1992ء میں کالج کو محکمہ تعلیم سے رجسٹر کروالیا گیا اور اب اس کا لاہور بورڈ اور پنجاب یونیورسٹی سے الحاق کروانے کے لیے کوششوں کا آغاز بھی کر دیا گیا ہے۔
سال1990ء میں بی اے کے ساتھ ساتھ ایف اے کلاسز کا آغاز بھی کر دیا گیا۔ 1997ء سے قرآن کالج میں انٹرکامرس کی کلاسز بھی شروع کی جاچکی ہیں۔ قرآن کالج کے طلبہ کو بورڈ اور یونیورسٹی کےنصاب کی تدریس کے ساتھ ساتھ عربی زبان ‘منتخب نصاب قرآن‘ ترجمۃ القرآن اور تجوید کی تدریس اس انداز میں کرائی جاتی ہے کہ بی اے کے امتحان سے پاس ہونے کے بعد وہ فہم ِ قرآن اور درسِ قرآن کی نمایاں صلاحیت بھی حاصل کر لیتے ہیں۔ قرآن کالج میں مختلف کلاسوں میں داخلے کے وقت اخبارات اور جرائد میں اشتہارات دئیےجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بینرز‘ پوسٹرز اور ہینڈبلز سے بھی اشتہاری مہم میں استفادہ کیا جاتا ہے۔ قرآن کالج کے طلبہ کو جاب مارکیٹ میں بہتر مقام پر لانے کی غرض سے انہیں کمپیوٹرا پلیکیشن کی بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے اور اسےcurriculumکا حصہ بنا دیا گیا ہے۔ کالج سے ملحق ہاسٹل میں تقریباً ایک سو(100)طلبہ کی رہائش کے لیےگنجائش موجود ہے۔
ہاسٹل میں قیام وطعام کی جملہ سہولیات اچھے معیار کے ساتھ فراہم کی گئی ہیں۔ ہاسٹل میں مقیم طلبہ کا24 گھنٹے کا ٹائم ٹیبل بنایا گیا ہے‘ جس میں باجماعت نماز کی پابندی‘ ورزش کے اوقات اور ہوم ورک کلاس کی پابندی باقاعدہ معین اوقات کے مطابق کروائی جاتی ہے۔
کالج میں زیر تعلیم ذہین اور ضرورت مند طلبہ کو کالج فیس‘ ہاسٹل فیس اور اخراجاتِ طعام میں رعایت بھی دی جاتی ہےا ور مرکزی انجمن اس مدمیں ہر ماہ خطیر رقم خرچ کرتی ہے۔
الحمد للہ کالج کے قیام سے لے کر آج تک ہر سال بڑی باقاعدگی کے ساتھ ایف اے اور بی اے کی کلاسز جاری ہیں۔ نہایت قابل اور محنتی اساتذہ کی خدمات کالج کو حاصل ہیں اورتمام اساتذہ بہت لگن اورجانفشانی سے طلبہ کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ عام کالجوں کی طرح قرآن کالج میں ایسا نہیں ہے کہ سال کے بارہ مہینوں میں سے چھ یا سات ماہ پڑھائی ہو اورسال کا بقیہ حصہ مختلف انواع کی چھٹیوں اورstrikesکی نذر ہو جائے۔ گرمیوں میں دوکی بجائے ایک ماہ چھٹیاں دی جاتی ہیں اور دیگر چھٹیوں (مثلاً یومِ پاکستان‘ یومِ دفاع‘ محرم کی چھٹیاں وغیرہ) میںطلبہ کے لیے تربیتی پروگرام رکھے جاتے ہیں۔
اسلامک جنرل نالج ورکشاپس
قرآن کالج کے زیر اہتمام چند سال سے اسکولوں اور کالجوں کی گرمیوں کی تعطیلات کے دوران نوجوان طلبہ کے لیےپانچ یا چھ ہفتوں پر محیط ایک پروگرام کا آغاز کیا گیا جسے بہت پسند کیا گیا۔ وہ طلبہ جو ایف اے/ایف ایس سی کےامتحانات سے فارغ ہو چکے ہوںان کے لیے کم و بیش تین ماہ کا عرصہ ایسا ہوتا ہے کہ وہ بالکل فارغ ہوتے ہیں۔ گویا یہ سنہری موقع ہوتا ہے کہ ان نوجوانوں کو دینی خصوصاً قرآن کی تعلیم سے آراستہ کیا جائے۔
قرآن کالج کے زیر اہتمام یہ ورکشاپس بہت عمدگی کے ساتھ جاری ہیں۔ اس کورس میں تجوید و ناظرہ قرآن کے علاوہ ارکان اسلام‘ ابتدائی عربی‘ مشاہیر اسلام اور فرائض دینی کے موضوعات کی تدریس کی جاتی ہے۔ سال97ء کے کورس میں شرکاء کو کمپیوٹر کی تعلیم دینے کا بندوبست بھی کیاگیا۔ کالج سے ملحقہ ہاسٹل میں طلبہ کی رہائش کے لیے بھی معقول انتظام ہوتا ہے اور کورس کی تکمیل پر سندیں بھی دی جاتی ہیں۔ اس پروگرام کو جملہ متعلقین تحریک رجوع الی القرآن کی جانب سے بہت پذیرائی حاصل ہوتی ہے۔
عربی کی ایوننگ(Evening)کلاسز
قرآن کالج لاہور ہی کے زیر اہتمام وابستگان انجمن کے شدید تقاضے اورماڈل ٹائون اور گرد ونواح میں رہائش پذیر حضرات کی جانب سے بارہا دلچسپی کے اظہار کو سامنے رکھتے ہوئے ہر سال قرآن کالج ہی میں شام کے اوقات میں(دوگھنٹے روزانہ کی تدریس) ہفتہ میں پانچ دن عربی کلاسز کا اجراء کیا جاتا ہے۔ یہ کورس تقریباً چار ماہ کے دورانئے پر محیط ہوتا ہے اور اس میںسے گزرنےکے بعد واقعتاً قرآن حکیم اور احادیث نبویہ کے متن سمجھنا بہت سہل ہو جاتا ہے۔ کالج کی انتظامیہ نے اس کے لیے معقول ’’داخلہ فیس‘‘ بھی متعین کی ہے تاکہ جو بھی ان کلاسز میں شمولیت کا خواہاں ہو وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اور کچھ’’انفاق مال‘‘ کر کے شامل ہو۔ الحمد للہ ان کلاسز کو بھی ہمارے متعلقین اور وابستگان میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اگرچہ فی الوقت اعداد وشمار دسیتاب نہیں تاہم محتاط اندازہ ہے کہ سینکڑوں حضرات نےا ن کلاسز سے استفادہ کیا ہے۔ اراکین انجمن کے علم میں ہو گاکہ انجمن کے قیام کے پانچ مقاصد میں سے اولین’’عربی زبان کی تعلیم و ترویج‘‘ ہے اور عربی کی ان کلاسز کی بدولت اس اہم ترین مقصد کی جانب مثبت پیش رفت جاری ہے۔
مرکزی انجمن کے دیگر شعبہ جاتمکتبہ انجمن
اوائل1966ء میںجب ڈاکٹر اسرار احمد صاحب مستقل طور پر لاہور منتقل ہو گئے تو جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے کہ انہوں نے ایک اشاعتی ادارہ’’دارالاشاعت الاسلامیہ‘‘ قائم کیا۔ چونکہ اس وقت کوئی اجتماعی شکل موجود نہ تھی اس لیے یہ ادارہ ڈاکٹر صاحب کا ذاتی ادارہ تھا جس کے تحت’’تدبر قرآن‘‘ جلد اول و جلد دوم’’مبادی ٔ تدبر قرآن‘‘ ،’’دعوتِ دین اور اس کاطریق کار‘‘ اورچند دیگر کتب اور کتابچے شائع کیے گئے۔ لیکن جب اللہ کے فضل و کرم سے ایک اجتماعی ادارہ مرکزی انجمن خدّام القرآن لاہور کے نام سے وجود میں آگیا تو اس کے تحت ایک مکتبہ کا قیام بھی1973ء میں عمل میں آیا‘ جس نے دارالاشاعت اسلامیہ کی جگہ لے لی۔ مکتبہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور نے نہ صرف وہ تمام کتب شائع کیں جو اس سے قبل’’دارالاشاعت اسلامیہ‘‘ شائع کر رہاتھا بلکہ اس کا اشاعتی پروگرام وسیع سے وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ یکمشت ادائیگی کی بنیاد پر مولانا امین احسن اصلاحی صاحب کی تفسیر تدبر ِ قرآن کی چند جلدوںاور ان کی دیگر تصنیفات‘ نیز امام حمید الدین فراہیؒ کی مجموعہ ٔ تفاسیر اور ان کی تصانیف کے ترجموں کے حقوق طباعت بھی حاصل کر لیے گئے۔ مکتبہ نے طباعت اور اشاعت کا اعلیٰ معیار پیش کر کے ہر حلقہ سے خراج تحسین وصول کیا۔
گزشتہ 24 سالوں کے دوران مکتبہ کے تحت لاکھوں کی تعداد میں کتب اور کتابچے شائع ہو چکے ہیں جن میں بڑی ضخیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کے اختتام پر مکتبہ کے تحت شائع ہونے والی کتب اور آڈیو/ویڈیو کیسٹس کی فہرست بھی(قارئین کی دلچسپی کے لیے) شامل کی جا رہی ہے۔ اس ضمن میں خاص طور پر میں’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ نامی کتابچے کا ذکر کرنا چاہوں گا جو اس دعوت رجوع الی القرآن کی تحریک کی اصل بنیاد قرار پاتا ہے۔ بلا مبالغہ یہ کتابچہ کم وبیش دس لاکھ کی تعداد میں شائع ہو کر تقسیم ہو چکا ہے۔اس کتابچے کو عوام الناس اور خصوصاً علماء کے طبقے کی طرف سے بہت پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔ اس سال (1997ء) کے ماہِ رمضان المبارک کے دوران ایک خصوصی مہم کے تحت ایک لاکھ دس ہزار کی تعداد میں اس کتابچے کا سستا ایڈیشن تیار کر کے تقسیم کیا گیا۔
شعبہ سمع وبصر
اَسّی کی دہائی کے تقریباً وسط میں یہ شعبہ وجود میںآیا۔ ایک کیمرے اور ٹیپ ریکارڈر سے اس شعبہ کا آغاز ہوا۔ اُس وقت دروس و خطابات صرف ریکارڈ کئے جاتے تھے‘ ان کی مزید کاپیاں بازار سے بنوائی جاتی تھیں۔ جوں جوں صدر مؤسس کے دروس و خطابات کی مانگ بڑھتی گئی اس شعبہ کےequipmentsمیں اضافہ ہوتا چلا گیا‘ مگر ریکارڈنگ کوالٹی عام سی رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہNon professionalکیمروں پر ریکارڈنگ ہوتی رہی۔ بحمد اللہ یہ ریکارڈنگز بھی دنیاکے طول و عرض میں پھیلیں۔ ہر سال ہزاروں آڈیو اور سینکڑوں وڈیوکیسٹس اس شعبہ سےمکتبہ انجمن کے تحت لوگوں تک پہنچیں۔
1993ء سے اس شعبہ کی نظامت برادرعزیز آصف حمید کے ذمہ آئی اور اس شعبہ میں جدت کاآغاز ہوگیا۔ چنانچہ وڈیو مکسنگ شروع کی گئی‘ نئےVCRخریدے گئے‘ تمام ویڈیوز بجائے بازار سے کاپی کروانے کے اس شعبہ میں کاپی ہونے لگے۔ آڈیوریکارڈنگ کی نئی مشینیں فراہم کی گئیں۔ ورلڈ سسٹم کنورٹر خریدا گیا جس کی بدولت اب ہم اپنی وڈیوز دنیا کے ہر سسٹم میں تیار کر سکتے ہیں۔ صدر مؤسس کا94ء میں رمضان المبارک کے دوران دورئہ ترجمہ قرآن ریکارڈ کیا گیا جو کہ بعد میں بہت بڑی تعداد میں پاکستان اور بیرون پاکستان پھیل گیا ۔
اپنے وڈیوسسٹم کوupgradeکر کے اسےSuper VHSسسٹم میں لایا گیا جس کی ریکارڈنگ کوالٹی عام VHSسسٹم سے بہت بہتر ہے۔ صدر مؤسس کے تمام پروگرامز S-VHSسسٹم پر تیار ہونے لگے۔
1996ء کے اوائل میں ہمیں انڈیا سے رپورٹ موصول ہوئی کہ ایک اسلامی ادارہ (IRF)صدر مؤسس کی ریکارڈنگز کوبہت بڑے پیمانے پر نشرکر رہا ہے اور وہ ادارہ خواہش مند ہے کہ صدر مؤسس کی ریکارڈنگز کو سیٹلائٹ پردکھائے مگر ہماری ریکارڈنگ کوالٹی اس معیار کی نہیں ہے۔لہٰذا اس ضمن میں ناظم شعبہ نےمتحدہ عرب امارات کا دورہ کیا اور جدید ترین ٹیکنالوجی کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔ نتیجتاً جدید ترین ریکارڈنگ ٹیکنالوجی Digital video systemکو حاصل کر لیا گیا جو کہ جدید ترین ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی سستا بھی ہے۔ اس وقت پاکستان میں چند ہی ایسے لوگ ہوں گے جو اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کر رہے ہوں گے۔ اس جدید ترین ٹیکنالوجی کی بدولت نہ صرف ہم اپنی وڈیوز اعلیٰ ترین معیار پر تیار کر سکیں گے بلکہ ایک طویل عرصہ تک اس کی کوالٹی کو محفوظ بھی رکھ سکیں گے۔ بحمد اللہ Digital CameraاورDigital VCRحاصل کر لیے گئے ہیں اور آئندہ رمضان المبارک میں ان شاء اللہ صدر مؤسس کا دورئہ ترجمہ قرآن اسی پر ریکارڈ ہوگا۔
ناانصافی ہو گی اگرمیں یہاں ان حضرات کا تہہ دل سے شکریہ ادا نہ کروں جن کی بدولت آج ہم یہاں تک پہنچے ہیں۔ تمام Equipment جو آج ہمیں حاصل ہے اس کی عظیم ترین اکثریت انہی لوگوں کی فراہم کردہ ہے۔ ان میں سرفہرست تنظیم اسلامی متحدہ عرب امارات ہے اور پھر تنظیم اسلامی شمالی امریکہ ۔ اللہ تعالیٰ ان تمام حضرات کے انفاق کو شرف قبولیت بخشے اور ہمیں اس بات کی توفیق دے کہ ہم ان کے ان عطیات سے حتی الامکان فائدہ اٹھا سکیں۔
جنرل کلینک
قرآن اکیڈمی کی فیلوشپ اسکیم میں جن سات نوجوانوں نے شمولیت اختیار کی تھی ان میں سے ایک (راقم الحروف) ایم بی بی ایس اور دوسرے(ڈاکٹر عبد السمیع صاحب) ڈینٹل سرجن تھے۔ انجمن کی مجلس منتظمہ نے فیصلہ کیا کہ مذکورہ بالا دونوں حضرات کی تعلیم اور تجربہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے قرآن اکیڈمی میں ایک جنرل کلینک اور ایک ڈینٹل کلینک کا اہتمام کیا جائے۔ اس کلینک کے اخراجات اورڈسپنسری کی تنخواہیں وغیرہ انجمن کے ذمہ ہوں گی اور دونوں ڈاکٹر حضرات بغیر کسی معاوضہ یا مشاہرہ کے اپنی خدمات اس کلینک کے لیے(صرف شام کے اوقات میں) وقف رکھیں گے۔
چنانچہ دسمبر1982ء میں اس کلینک کا آغاز ہو گیا۔ گردوپیش سے بہت سے مریض اس کلینک سے استفادہ کرنے لگے۔ اس لیے کہ جنرل کلینک میں صرف پانچ روپے کے عوض دو دنوں کی ادویات اور ڈینٹل کلینک میں صرفmaterialsکی قیمت کے عوض علاج کیا جاتاتھا۔ ڈاکٹر عبد السمیع صاحب کے فیصل آباد منتقل ہو جانے کے باعث یہ ڈینٹل کلینک بہت جلد بند کرنا پڑا تاہم جنرل کلینک چلتا رہا۔ لگ بھگ پانچ سال تو راقم نے جنرل کلینک کے لیے اپنی خدمات وقف رکھیں لیکن بعد میں ناظم عمومی کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے باعث ایک اورڈاکٹر کو مشاہرے پر شام کے اوقات کے لیے رکھ لیا گیا۔
1990ء میں اس کلینک کو قرآن کالج کی عمارت میں منتقل کر دیا گیا جہاں کچھ عرصہ اس کلینک سے قرآن کالج ہاسٹل کے رہائش پذیر طلبہ اور گرد ونواح کے مریض استفادہ کرتے رہے۔ لیکن اب اس کلینک کو بوجوہ بند کرناپڑا ہے۔
لاہور میں دیگر پراجیکٹس
شہر لاہور میں دومقامات پراصحابِ خیر کی جانب سے دوعدد پلاٹس انجمن کو ہبہ کیے گئے تاکہ ان آبادیوں میں بھی انجمن کے اغراض ومقاصد کے پیش نظر خدمت قرآن کا کوئی کار خیر شروع کیا جائے۔ یہ دونوں پلاٹس لاہور کے دو انتہائی گنجان آباد علاقے میں تھے۔ ایک پلاٹ تقریباً (12 مرلے) وسن پورے کے علاقے میں اور دوسرا پلاٹ(7 مرلہ) والٹن میں۔ الحمد للہ کہ دونوں مقامات پر مرکزی انجمن نے اپنے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے مذکورہ دونوں پلاٹس پر تعمیر مکمل کر دی ہے۔
وسّن پورہ میں واقع پلاٹ پر دو منزلہ بلڈنگ تعمیر کی گئی ہے اور علاقے کے لوگوں کے لیے ابتداء میں تجوید و ناظرہ کلاس کے ساتھ ساتھ شام کی عربی کلاسز کا اجراء بھی عمل میں آیا۔ ایک خیال یہ بھی ذہن میں آیا کہ اس میں بچوں اور بچیوں کا پرائمری یا دستکاری اسکول کھول لیا جائے۔ بہرحال تقریباً12 مرلے پر مشتمل یہ عمارت ’’خدمت ِ قرآن‘‘ ہی کے لیے وقف ہے۔
والٹن مسجد و مکتب کے نام سے والٹن کی آبادی میں ہبہ کیے گئے اس پلاٹ پرایک خوبصورت مسجد کی تعمیر کی گئی ہے۔ اس سے ملحق دو کمروں میں انجمن خدام القرآن کی کتب اور آڈیو/ویڈیو کیسٹس پرمبنی ایک لائبریری تشکیل دی گئی ہے۔اس مسجد میں پنج وقتہ نماز کے نظام کے ساتھ ساتھ خطاب جمعہ کےلیے انجمن کے سینئر ساتھی میسر ہیں جو علاقے کے لوگوں میں دعوت رجوع الی القرآن کا کام کر رہے ہیں۔ مستقل بنیاد پر ایک ہمہ وقتی مؤذن/ امام کی خدمات بھی مسجد کو حاصل ہیں۔ اس مسجد کی تعمیر کے لیے بھی انجمن کے وابستگان میں سے ایک صاحب خیر نے تمام رقم اپنی جیب سے ادا کی۔ فَجزاہُ اللہ احسن الجزاء۔
بزم ہائے خُدّام القرآن
بزم ہائے خدام القرآن کا قیام1995ء میں عمل میں آیا اور اس کا مقصد انجمن کے پرانے وابستگان سے رابطہ‘ باہم ربط وضبط کا اہتمام‘ انجمن کے مقاصد کے لیےمزید تعاون و اشتراک اور دعوت رجوع الی القرآن کی تیز تر اوروسیع تر اشاعت کے لیے کوشش کرنا ہے۔ اس کے پہلے اعزازی ناظم محترم نسیم الدین خواجہ صاحب تھے جنہوں نے اس کا تاسیسی اجلاس قرآن آڈیٹوریم میں منعقد کیا اور لاہور میں پانچ بزم ہائے خدام القرآن کا اعلان کر دیاگیا۔
1995ءکے دوران تین مقامات پر عربی کلاس کا اجراء کیاگیا۔ ایک جگہ نصاب مکمل کر لیا گیا۔ دوسری جگہ کلاس سست روی سے جاری‘ جبکہ تیسری جگہ لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے کلاس کامیاب نہیں ہوسکی۔رمضان المبارک میں دو مقامات پر دورئہ ترجمہ ٔ قرآن کامیابی سےہوتا رہا۔ تین مقامات پردرس قرآن جاری ہے جس میں سے ایک جگہ شرکاء کی تعداد200کے قریب ہے۔ جناب خالد محمود صاحب نے ترجمہ قرآن کو پورے پاکستان لیول پر پھیلانے کے لیے جمعیت تعلیم القرآن سے رابطہ قائم کیاجس کے نتیجہ میں بہاولپور اور اس کے اردگرد کے مدارس میں ترجمہ کا کام شروع ہوگیا ہے۔ انہیں پہلا پارہ مع ترجمہ مہیا کر دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ موسم گرما میں ریلوےسکول میں سمرکیمپ کا بندوبست کیاگیا جس کے افتتاحی اجلاس میں جناب ڈاکٹراسرار احمد صاحب بھی تشریف لائے اور بہت پسند کیا۔ اس طرح کے پروگرام دوسرے سکولوں میں کرنے کے لیے کوشش جاری ہے۔ بزم ہائے خدام القرآن اپنےتمام اخراجات اپنے ذرائع سے پورے کر رہی ہیں۔
آج کل بزم کے ناظم جناب اشرف وصی صاحب ہیں اور وہ بذات خود بھی اور اپنی ٹیم کے ساتھ بھی اراکین انجمن سے ذاتی رابطہ کر رہے ہیں۔ خصوصاً ان اراکین سے جو انجمن کے رکن تو بن گئے لیکن اب انجمن کے اغراض ومقاصد سے زیادہ دلچسپی نہیں رکھتے اور کچھ عرصے سےا نجمن کا ماہانہ زرتعاون بھی باقاعدگی سے ادا نہیں کر رہے۔
اس سال ماہ رمضان المبارک کے دوران خصوصی مہم چلائی گئی اور صدر مؤسس کی انتہائی جامع تحریر ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ ایک لاکھ سے زائد تعداد میں فروخت کی گئی۔ یاد رہے کہ لوگوں سے ساٹھ صفحات سے زائد اس کتابچے کی تقریباً لاگت قیمت ہی(تین روپے فی کتابچہ) وصول کی گئی۔ اللہ تعالیٰ اس کتابچے کو لوگوں کی راہنمائی کاذریعہ بنائے۔ آمین ثم آمین!
منسلک انجمنیںبحمد اللہ مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کےبطن سے کئی ذیلی انجمنیں وجودمیں آ چکی ہیں‘ جنہیں منسلک انجمنوں کا عنوان دیاگیا ہے۔ منسلک انجمنیں صرف مقاصد کے اعتبار سے مرکزی انجمن سے منسلک (affilliated) ہوتی ہیں۔ یہ اپنا دستور اوردستوری نظام کو چلانے کے لیے قواعد و ضوابط خودمتعین کرتی ہیں اور اپنے مالی اور انتظامی امور میں بالکل آزاد (autonomous) ہوتی ہیں۔اندرون ملک منسلک انجمنیں اپنی سالانہ آمدنیوں کا دسواں حصہ مرکزی انجمن کو منتقل کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ بیرون ملک منسلک انجمنوں پریہ پابندی عائد نہیں ہوتی۔
منسلک انجمنوں کا مختصر تعارف ذیل میں درج کیا جارہا ہے:
(1)انجمن خدّام القرآن سندھ‘ کراچی
اس انجمن کا قیام مئی1986ء میں عمل میں آیا تھا۔انجمن کراچی کے مرکزی دفاتر‘ قرآن اکیڈمی اور ایک بہت خوبصورت جامع مسجد کی تعمیر کا کام تقریباً مکمل ہو چکا ہے۔ انجمن کے تحت چار عدد ایک سالہ کورس مکمل ہو چکے ہیں۔ کراچی کی پوش آبادی ڈیفنس میں لب ِساحل سمندر قرآن اکیڈمی کراچی کی عمارت واقع ہے۔ اس کی جامع مسجد میں کئی سال سے ہرماہ رمضان المبارک میں بڑی باقاعدگی سے دورئہ ترجمہ قرآن کا پروگرام بھی جاری ہے۔ کراچی شہر میں اس انجمن کےتحت پانچ عدد لائبریریاں قائم ہیں‘ جن میں انجمن کی کتب کے علاوہ صدر مؤسس کے دروس قرآن اور خطبات پر مشتمل آڈیو/ویڈیوکیسٹس بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
(2)انجمن خدّام القرآن بلوچستان‘ کوئٹہ
اس انجمن کا قیام نومبر1989ء میں عمل میں آیا۔ اس انجمن کے تحت ایک بڑی لائبریری بھی قائم ہے۔ بڑی باقاعدگی کے ساتھ عربی کلاسز اور ’’تجوید وقراءت‘‘ کی کلاسز بھی ہوتی رہتی ہیں۔ مختلف مواقع پر انجمن کا تعارفی لٹریچر بھی لوگوں میں تقسیم کیاجاتا ہے۔
(3)انجمن خدّام القرآن فیصل آباد
اس انجمن کا قیام مئی1990ء میں عمل میں آیا۔ ڈاکٹر عبد السمیع صاحب یکے از فیلوز قرآن اکیڈمی کی فیصل آبادمیں موجودگی انجمن کے کام کو آگے بڑھانے میں بڑی مفید ثابت ہوئی ہے۔ مختلف مواقع پر عربی تدریس کے پروگرام‘ دورئہ ترجمہ قرآن کے پروگرام‘ شہر کے بڑے ہال میں ماہانہ درس قرآن کے پروگرام وغیرہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ ہو رہے ہیں۔ مجوزہ قرآن اکیڈمی کے لیے ایک بڑا پلاٹ انجمن کو ہبہ کیا گیا ہے جس پر ان شاء اللہ جلد ہی تعمیر کا آغاز ہو جائے گا۔
(4)انجمن خدّام القرآن ملتان
اس انجمن کا قیام جون1990ء میں عمل میں آیا۔ مرکزی انجمن کے ایک معزز رکن نے اپنے بنگلے سے ملحق پلاٹ انجمن کو ہبہ کیا تھاجس پرقرآن اکیڈمی ملتان کی خوبصورت عمارت تعمیر ہو چکی ہے۔ گزشتہ چار سال سے ماہ رمضان المبارک میں دورئہ ترجمہ قرآن کا پروگرام بھی بڑی کامیابی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ خواتین کے لیےماہانہ دروس قرآن کے پروگرام‘ ہفتہ وار دروس قرآن‘ قرآنی تربیتی کیمپ‘ عربی زبان کی تدریس‘ شعبہ حفظ و ناظرہ‘ غرضیکہ دعوت رجوع الی القرآن کا کام ہر سطح پرجاری ہے۔اللہ تعالیٰ اس کام میں مزید برکت عطا فرمائے۔
(5)انجمن خدّام القرآن پشاور
اس انجمن کی تاسیس دسمبر1992ء میں ہوئی۔ ایک صاحب خیر کی جانب سے 4 کنال کی اراضی انجمن کو ہبہ کرنے کا پختہ وعدہ ہوا ہے۔ ان شاء اللہ جلد ہی اس پر قرآن اکیڈمی کی تعمیر شروع ہو جائے گی۔ انجمن کی لائبریری میں جناب صدر مؤسس کی کتب اورآڈیو/ویڈیوکیسٹس کا بڑا ذخیرہ موجود ہے جس سے طالبان علم اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ’’نبی اکرم ﷺ سے ہمارے تعلق کی بنیادیں‘‘ نامی کتابچہ پشتو زبان میں ترجمہ کر کے چھپوا لیا گیاہے۔ ’’مسلمانوں پر قرآن مجید کے حقوق‘‘ کا ترجمہ بھی ہوچکا ہے۔
(6)انجمن خدّام القرآن راولپنڈی / اسلام آباد
پاکستان کے یہ جڑواں شہر(Twin Cities)ایک دوسرے سے ملحق ہیں۔ لہٰذا یہ دونوں شہر انجمن کے نام کاجزو ہیں۔ اس انجمن کی تاسیس 1986ء میں ہوئی تھی‘ اسلام آباد کے ثقافتی حلقوں میں’’کمیونٹی سنٹر اسلام آباد‘‘ میںصدر مؤسس کے ماہانہ درس قرآن کی صدائے بازگشت کئی سالوں تک گونجتی رہی۔ اسی طرح مؤتمر عالم اسلامی کی خوبصورت جامع مسجد میںبھی متعدد خطباتِ جمعہ میں صدر مؤسس نے خطاب فرمایا۔ ہر ماہ بڑی باقاعدگی کے ساتھ انجمن کی ماہانہ میٹنگ ہوتی ہے۔ ماہ رمضان المبارک1995ء میں اسلام آباد میں آٹھ مقامات پرصدر مؤسس کی دورئہ ترجمہ قرآن ویڈیو کیسٹس کےذریعے پروگرام پورے ماہ بڑی باقاعدگی سے ہوتا رہا۔