(3)قرآن کالج سے کلیة القرآن تک
(سفر اور خدمات)
مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کے زیر اہتمام قائم کردہ’’ قرآن کالج‘‘(کلیة القرآن) کی خدمات کو تین اَدوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔
پہلا دور(1987ء تا 1990ء)
پہلا دور ابتدائی تین سالوں پر محیط ہے ۔1987ء میں قرآن اکیڈمی کے ایک کلاس روم میں ایف —اے پاس طلبہ کے لیےتین سالہ بی اےپروگرام شروع کیا گیا۔ اس میں ایک اضافی سال سے طلبہ میں انگریزی اور عربی کی بہتر استعداد پیدا کرنا اور کچھ بنیادی دینی نصاب کو شامل کرنامقصود تھا ۔ انتظامی امور کی نگرانی کے لیے جناب لطف الرحمٰن خا ن کو’’ ناظم قرآن کالج‘‘مقرر کیا گیا ۔ دیگر مضامین پڑھانے کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ کی خدمات حاصل کی گئیں ۔ اگلے ایک دو سالوں میں طلبہ کی بڑھتی تعداد کے پیش نظر ان کلاسز کو ماڈل ٹاؤن ہی میں ایک الگ مکان (433-K)میں منتقل کر دیا گیا ۔ ابتدائی سالوں میں تدریس کے فرائض انجام دینے والوں میں حافظ عاکف سعید صاحب ‘ وقار احمد صاحب‘ لطف الرحمٰن خان صاحب ‘ حافظ خالد محمود خضر صاحب‘ حافظ محمد رفیق صاحب ‘ حافظ عاطف وحید صاحب اور ریاض اسماعیل صاحب شامل تھے۔
اسی دوران مرکزی انجمن خدام القرآن نے قرآن کالج کی Purpose built building کی تعمیرکا کام بھی شروع کر رکھا تھا ۔ 191۔ اے ‘اتا ترک بلاک ‘نیو گارڈن ٹاؤن لاہور میں ساڑھے پانچ کنال کے پلاٹ پر شاندار بلڈنگ میں اکیڈمک بلاک اور اس کے اوپر قرآن آڈیٹوریم کی تعمیر کے ساتھ ساتھ تین منزلہ ہوسٹل کی تعمیر جاری تھی جو بحمد اللہ 1990ء میں مکمل ہو گئی ۔ صدر مؤسس جناب ڈاکٹر اسرار احمد mقرآن آڈیٹوریم کو قرآن کالج کے’’ سرکاتاج‘‘ قرار دیتے تھے ۔ آڈیٹوریم کے نیچے 8 کلاس رومز ‘ دفاتر ‘ سٹاف روم اور لائبریری تعمیر کیے گئے۔ ہوسٹل کے گراؤنڈ فلور پر6 فیملی اپارٹمنٹس بھی تعمیر کیے گئے جبکہ فرسٹ اور سیکنڈ فلور پر طلبہ کے لیے رہائشی کمرے اور میس تعمیر کیا گیا ۔
اس طرح 1990ء میں قرآن کالج اس نئی تعمیر شدہ بلڈنگ میں منتقل ہو گیا ٍ جہاں ایک تعلیمی ادارے کی تمام جملہ ضروریات کا اہتمام کیا گیاتھا ۔
دوسرا دور(1990ء تا 2008ء)
قرآن کالج کے دوسرے دور کا آغاز 1990ء سے ہوا جو کم و بیش 18 سال جاری رہا ۔ لطف الرحمٰن خان صاحب بدستور ناظم قرآن کالج تھے‘ تاہم پرنسپل کی ذمہ داری کے لیے پروفیسر (ر) بختیار صدیقی صاحب اور ان کے بعد پروفیسر حافظ محمد فاضل صاحب کی تقرری ہوئی ۔ ان دونوں حضرات کے بعد پروفیسر احمد شفیع چوہدری صاحب قرآن کالج کے پرنسپل بنے جو 1998ء تک کالج کی سربراہی کرتے رہے ۔
قرآن کالج میں تین سالہ بی اے کے ساتھ ایف اے کی کلاس بھی شروع کر دی گئی ۔انٹر میڈیٹ کی سطح پر ایف اے (آرٹس)‘ آئی کام ‘ آئی سی ایس اور جنرل سائنس گروپ کی کلاسز ایک طویل عرصہ تک چلتی رہیں ‘ جبکہ تین سالہ بی اے پروگرام کو اب دو سالہ میں بدل دیا گیا تھا ۔ شروع میں ہوسٹل کی نگرانی کے لیے میجر (ر) فتح محمد صاحب وارڈن مقرر ہوئے ‘جبکہ ان کی معاونت کے لیے قرآن کالج کے استاد حافظ ابراہیم اسسٹنٹ وارڈن مقرر ہوئے ۔ بعد ازاں جب حافظ عاطف وحید صاحب اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے واپس لاہور آئے تو اکنامکس کی تدریس کے ساتھ ساتھ اولاًہوسٹل وارڈن اور بعد ازاں ناظم ِ کالج مقرر ہوئے ۔ عصری تعلیم کے تمام شعبوں / مضامین کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ موجود تھے جن کی نگرانی میں طلبہ کی بہترین تعلیم و تربیت کا ایک نظام بن چکا تھا ۔90 ءکی دہائی میں سینکڑوں طلبہ نے قرآن کالج سے تعلیم حاصل کی اور بعد ازاں عملی زندگی میں نمایاں عہدوں پر فائز ہوئے۔ ان میں پروفیسر ڈاکٹر محمد زمان (ہیڈ آف ڈیپارٹمنٹ ‘ قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد) ‘ محمد قاسم (ایڈیشنل اینڈ سیشن جج KPK) ‘ مصطفیٰ رمضان (CEO‘ ٹیلی نار ) کے نام نمایاں ہیں ۔ تنظیم اسلامی کے کئی سینئر رفقاء اور مدرسین بھی قرآن کالج کے اسی دور کے تعلیم یافتہ ہیں ۔ ان سالوں میں صدر مؤسس ڈاکٹر اسرار احمد اہتمام کے ساتھ قرآن کالج کے طلبہ کے لیے وقت نکالا کرتے تھے اور آڈیٹوریم میں تمام طلبہ اور اساتذہ کو جمع کرکے لیکچر دیا کرتے تھے ۔ یوں عصری تعلیم کے ساتھ ساتھ مختصر دینی نصاب بھی ترتیب پا چکا تھا جس میں طلبہ کو عربی گرامر اور کچھ دینی کتب کی تعلیم دی جاتی تھی ۔
قرآن کالج محکمہ تعلیم پنجاب کے ساتھ رجسٹرڈ ہو چکا تھا اور امتحانات کے لیے لاہور بورڈ کے ساتھ اس کا الحاق بھی ہو چکا تھا۔ انٹر میڈیٹ کی سطح پر طلبہ’’ ریگولر طالب علم‘‘کی حیثیت سے لاہور بورڈ میں داخلہ بھجواتے تھے۔
اواخر 1997ء میں حافظ عاطف وحید صاحب کے اسلامک یونیورسٹی منتقل ہوجانے کے بعد حافظ عاکف سعید صاحب کو ناظم کالج مقرر کیا گیا اور اگلے تین چار سال کے دوران دو حضرات ( نجم الزماں صاحب اور مظفر حسین ہاشمی صاحب ) یکے بعد دیگرے پرنسپل قرآن کالج تعینات ہوئے ۔ ان کے بعد 2003ء میں پاکستان ائیر فورس کے ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ریٹائرڈ سکوارڈن لیڈر جناب طارق مسعود صاحب پرنسپل مقرر ہوئے اور 2008ء تک پرنسپل رہے ۔ آپ نہایت تجربہ کار اور ماہر استاد تھے ۔ آپ کےدور میں قرآن کالج میں اعلیٰ نظم و ضبط کے ساتھ ساتھ اعلیٰ علمی فضا قائم رہی ۔ ہر سال اساتذہ کے لیے تربیتی پروگرام اور گرمیوں کی چھٹیوں میں دیگر اداروں کے طلبہ کے لیے اسلامک جنرل نالج ورکشاپس منعقد کی جاتیں ۔ قرآن کالج چونکہ شروع سے ہی ایک اقامتی ادارہ تھا اس لیے ہوسٹل میں 80 تا 100 طلبہ کی رہائش ہر وقت موجود رہتی ۔ ان سالوں میں سینکڑوں طلبہ نے تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ عملی زندگی میں کامیابیاں حاصل کیں ۔ اس دور کے نمایاں طلبہ میں حسین عاکف ‘ مومن محمود ‘ حامد سجاد ‘ نور الوریٰ اورحنین عاکف شامل تھے ۔ 2004ء میں ہونہار طالب علم حامد سجاد نے لاہور بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور کالج کا نام روشن کیا ۔
تیسرا دور (2008ء سے اب تک)
قرآن کالج کم و بیش 20 سال سے خدمات انجام دے رہا تھا ‘تاہم 2007-08ء صدر مؤسس جناب ڈاکٹر اسرار احمد نے قرآن کالج میں جاری نظام ِتعلیم سے عدم اطمینان کا اظہار کیا ۔ وہ چاہتے تھے کہ قرآن کالج میں دینی و شرعی علوم کو زیادہ سے زیادہ پڑھایا جائے نہ کہ عصری علوم کو۔ ان کا خیال تھا کہ پاکستان بھر میں عصری تعلیم والے ادارے تو بے شمار ہیں اور ہم سے بہتر بھی ہیں ۔ ہمیں اس کی بجائے علومِ دینیہ کی طرف زیادہ توجّہ دینی چاہیے ۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رائے کو انجمن کی شوریٰ و عاملہ میں پیش کر دیا اور شوریٰ کے فیصلے کے مطابق طے پایا کہ اپریل 2008ء میں قرآن کالج بند کر دیا جائے گا ۔ طلبہ کی آخری کلاسز 2008ء میں بورڈ کا امتحان دے کر فارغ ہو گئیں ‘ جبکہ 18 کے قریب اساتذہ کو بھی قرآن کالج کی ملازمت سے فارغ کر دیا گیا ۔
بعد ازاں 2008 ءہی میں مرکزی انجمن کی شوریٰ میں اس بات پر غور کیا گیا کہ قرآن کالج کی عمارت کس مصرف میں استعمال کی جائے۔ غورو خوض کے بعد درج ذیل دو تجاویز کو حتمی طور پر منظور کیا گیا :
1۔ درسِ نظامی کا اجراء کیا جائے اور داخلہ لینے والے طلبہ کو میٹرک ‘ ایف اے ‘بی اے اور ایم اے بھی کروایاجائے ۔
2۔ گریجویٹس کو داخلہ دے کر انہیں چار سال میں درسِ نظامی کی طرز کا دینی کورس پڑھا کر ‘ساتھ ہی ایم اے کی تیاری کی کوشش بھی کی جائے۔
اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے حافظ عاطف وحید صاحب کو ناظم مقرر کیا گیا اور قرآن کالج کا نام نئے تعلیمی منصوبے کی مناسبت سے ’’کلیۃ القرآن‘‘ رکھ دیا گیا ۔ حافظ عاطف وحیدصاحب نے دیگر ماہرین ِ تعلیم کے ساتھ ساتھ جامعہ اشرفیہ لاہور کے شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یوسف خان صاحب سے کئی ملاقاتیں کیں اور ان سے درخواست کی کہ وہ ہماری رہنمائی کریں تا کہ کلیۃ القرآن میں دینی علوم کی غالب اکثریت ہو۔ حضرت نے یہ درخواست قبول کر لی اور آج تک لوجہ اللہ ہمارے ساتھ تعاون جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس طرح 2008ء کے آخر میں41 طلبہ کی کلاس سے درس نظامی کے درجہ اولیٰ کی کلاس کا آغاز ہوا ۔ درسِ نظامی میں تجوید ‘ صرف ونحو ‘ لغۃ العربیہ ‘ فقہ ‘ تفسیر و حدیث وغیرہ کے مضامین کی تدریس کے ساتھ ساتھ میٹرک میں انگریزی ‘ ریاضی ‘ اردو ‘ عربی ‘ جنرل سائنس وغیرہ کی تدریس شروع کر دی گئی ۔ قرآن کالج کے سابقہ دور کے دو اساتذہ حافظ نذیر احمد ہاشمی اور مسعود محمد اقبال صاحب نے ادارے اس نئے get up میں تدریسی و انتظامی خدمات کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعد ازاں طلبہ کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ساتھ نئے اساتذہ بھی آتے گئے ۔
کلیۃ القرآن کے ابتدائی تین چار سال تک مولانا احسان اللہ صاحب اور قاری یحییٰ عبد الغفار صاحب نے نصاب تعلیم اور نظامِ تربیت کو بہتر سے بہتر بنانے میں حافظ عاطف وحید صاحب کی بھرپور معاونت کی لیکن یکے بعد دیگرے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ دونوں حضرات کلیہ سے وابستگی قائم نہ رکھ سکے۔ چنانچہ اپریل 2012ء میں سابق پرنسپل طارق مسعود صاحب کو دوبارہ پرنسپل مقرر کر دیا گیا۔
کلیۃ القرآن کا وفاق المدارس العربیہ سے الحاق 2008 ءمیں ہی ہوگیا تھا اور ہمارے طلبہ وفاق کے امتحانات میں شرکت کے اہل تھے ۔ اس نئے سیٹ اپ میں کلیۃ القرآن میں پڑھانے والے اساتذہ میں اکثریت علمائے کرام کی تھی جبکہ عصری تعلیم کے دو تین اساتذہ بھی موجود تھے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ علمائے کرام (اساتذہ ) کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ تادمِ تحریر 15 علمائے کرام اور 5 عصری علوم کے اساتذہ تدریس کے فرائض سر ا نجام دے رہے ہیں ‘ جبکہ طلبہ کی تعداد 120 ہے ۔ لائبریری میں تقریباً ساڑھے تین ہزار کتب موجود ہیں ۔مارچ 2014ء میں مختصر علالت کے بعد ادارے کے پرنسپل طارق مسعود صاحب انتقال کر گئے ۔ ان کے انتقال کے بعد انتظامیہ نے ریاض اسماعیل صاحب کو پرنسپل مقرر کیا جنہوں نے انتہائی محنت اور لگن سے کلیة القرآن میں تعلیمی و تدریسی اہداف کے لیے سعی و جُہد کو جاری رکھا۔
طلبہ میں تحریری اور رتقریری ذوق پیدا کرنے کے لیے ’بزمِ ادب‘ کے تحت مختلف پروگرام ترتیب دیے جاتے ہیں جس میں طلبہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ یہ پروگرام طلبہ میں اعتماد پیدا کرنے کے لیے بہت مفید ثابت ہوتے ہیں ۔ کلیۃ القرآن میں چونکہ دوہرا نظام تعلیم چل رہا ہے یعنی ہر طالب علم ایک طرف درس نظامی اور دوسری طرف عصری تعلیم کا طالب علم ہے ۔پڑھائی کے اس ڈبل بوجھ سے کئی طلبہ دشواری محسوس کرتے ہوئے ادارے کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتےہیں ‘ تاہم پختہ ارادے اور جذبے والا طالب علم کم ہی چھوڑ کر جاتا ہے۔ بہرحال یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اس کام کے لیے دیگر خوبیوں کےساتھ ساتھ طالب علم کی اعلیٰ درجے کی ذہانت بھی درکار ہوتی ہے ۔
کلیۃ القرآن میں وہ طلبہ جن کی تعلیم و تربیت کا آغاز 2008ء میں ہوا تھا ‘ وہ اپنی 8 سالہ تعلیم مکمل کر کے 2016ء میں فارغ التحصیل ہورہے تھے ۔ 41 طلبہ سے شروع ہونے والے اس قافلے میں 7 طلبہ ہی رہ گئے تھے جو اپنی تعلیم کے آخری سال تک موجود رہے ۔ یہ تمام طلبہ ایک طرف درسِ نظامی مکمل کر رہے تھے تو دوسری طرف میٹرک ‘ ایف اے ‘ بی اے سےہوتے ہوئے اب ایم اے بھی کر چکے تھے۔ ادارے کے لیے نہایت خوشی کی بات تھی کہ اس کے 7 طلبہ مستند عالم دین بن کر یہاں سے جا رہے ہیں ۔ اس موقع پر قرآن آڈیٹوریم میں تکمیل بخاری شریف اور دستار بندی کا ایک روح پرور پروگرام منعقد کیا گیا جس میں طلبہ کے والدین اور لاہور کے کئی علمائے کرام کثرت سے شریک ہوئے ۔ جامعہ اشرفیہ کے مہتمم جناب مولاناحافظ عبد الرحیم صاحب مہمان خصوصی تھے ۔ انہوں نے بخاری شریف کی آخری حدیث مبارکہ پڑھائی اور طلبہ کی دستار بندی کی ۔ اس طرح ختم بخاری اور دستار بندی کے 7 پروگرام اب تک منعقد ہو چکے ہیں‘ جن میں سے 65 طلبہ درسِ نظامی اور پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز کر چکے ہیں ۔ ان طلبہ کی درسِ نظامی کی سندکو HEC کی طرف سے ایم اے عربی و اسلامیات کے مساوی سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے اور یہ طلبہ مزید اعلیٰ تعلیم اور کہیں بھی تدریس کے اہل ہوتے ہیں ۔ اب تک فارغ التحصیل طلبہ زیادہ تر درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں‘ جبکہ کچھ طلبہ نے کاروباری مصروفیات کو اختیار کیا۔ اب تک فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ میں چند نمایاں نام یہ ہیں : فرزین احمد ‘ حافظ مقصود احمد ‘ حافظ عبداللہ ریحان ‘ حافظ حمزہ آصف ‘ محمد امجد ‘ محمد رمضان ‘ حسبان شوکت ‘ محمد کاشف ‘ حافظ محمد آصف‘ حُمید عاطف ‘ محمد رفاقت ‘ حافظ محمد طاہر‘ کلیم اللہ وغیرہ ۔
مرکزی انجمن کی شوریٰ میں کلیۃ القرآن کو قرآن یونیورسٹی بنانے کے لیے نصابی اور تدریسی امور میں استحکام کے علاوہ ایک مناسب کیمپس کی ضرورت کا شدّت سے احساس ہونے لگا۔ موجودہ بلڈنگ کا رقبہ ساڑھے پانچ کنال ہے اور اس کے کلاس رومز اور ہوسٹل میں ایک محدود تعداد ہی زیر تعلیم رہ سکتی ہے ۔ مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر کوئی بڑی اوروسیع جگہ ضروری ہو گئی تھی ۔ ویسے بھی موجودہ کیمپس لاہور کے رہائشی علاقے میں ہے ۔ لہٰذا 2017ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن نے لاہور کے مضافات میں لاہور ملتان موٹر وے M-3 پر شرقپور انٹرچینج کے قریب 52 کنال کا ایک قطعہ اراضی خریدا جس پر ایک بڑا کیمپس تعمیر کیا جا سکتا ہے ۔ فی الحال اس کی چاردیواری تعمیر کر دی گئی ہے ۔ مسجد کی تعمیر کا آغاز ہوا چاہتا ہے اور دیگر عمارات کا مرحلہ اس کے بعد آئے گا۔
کلیۃ القرآن کے لیے وہ دن بہت یادگار تھاجب نومبر 2021ء میں مصر کی عظیم درس گاہ الازہر یونیورسٹی کا 5 رکنی وفد پروفیسر ڈاکٹر عبد الرحمٰن صاحب کی سربراہی میں آیاجس کا استقبال پرنسپل ‘ اساتذہ اور طلبہ نے کیا ۔ قرآن آڈیٹوریم میں ایک پروگرام منعقد کیا گیا۔ عرب اساتذہ کے وفد نے کلیۃ القرآن کے طلبہ کی علمی پختگی اور علوم دینیہ و عصریہ میں یکساں استعداد کو محسوس کرتے ہوئے طلبہ کو خوشخبری دی کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے لیے الازہر یونیورسٹی آ سکتے ہیں۔ چنانچہ اگلے سال یعنی 2022ء میں ہمارےدو طلبہ کا الازہر یونیورسٹی میں داخلہ ہو گیا ۔
طلبہ کی تربیت اور کردار سازی کے لیے مختلف سیمینارز اور لیکچرز منعقد کیے جاتے ہیں ‘ جس میں علماء کے علاوہ یونیورسٹی کے پروفیسرز تشریف لاتے ہیں ۔ تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ صاحب بھی متعدد بار طلبہ سے خطاب کر چکے ہیں ۔
اب جبکہ مرکزی انجمن خدام القرآن کو قائم ہوئے 50 سال ہوگئے ہیں اور انجمن کے بانی اور صدر مؤسس جناب ڈاکٹر اسرار احمد کے عین وژن کے مطابق کلیۃ القرآن ایک اعلیٰ تعلیم و تربیت کا ادارہ بن چکا ہے اور یونیورسٹی بننے کی جانب گامزن ہے‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ مرکزی انجمن کے مادی و افرادی وسائل کا رُخ اس عظیم درسگاہ کی تعمیر و ترقی کی جانب موڑ دیا جائے تاکہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے دیرینہ خواب کی تکمیل کی جاسکے۔