(فہم القرآن) سُورۃُ الْحِجْر - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

9 /

ترجمۂ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ الْحِجْر
آیات ۱تا ۵
{الٓرٰقف تِلْکَ اٰیٰتُ الْکِتٰبِ وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ(۱) رُبَمَا یَوَدُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ کَانُوْا مُسْلِمِیْنَ(۲) ذَرْہُمْ یَاْکُلُوْا وَیَتَمَتَّعُوْا وَیُلْہِہِمُ الْاَمَلُ فَسَوْفَ یَعْلَمُوْنَ(۳) وَمَـآ اَہْلَکْنَا مِنْ قَرْیَۃٍ اِلَّا وَلَہَا کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ(۴) مَا تَسْبِقُ مِنْ اُمَّۃٍ اَجَلَہَا وَمَا یَسْتَاْخِرُوْنَ(۵)}
ء م ل
اَمَلَ یَأْمُلُ (ن) اَمَلًا :اُمید کرنا۔
اَمَلٌ(اسم ذات بھی ہے) :اُمید ۔ زیر مطالعہ آیت۳۔
ترکیب
(آیت۱) اٰیٰتُ مضاف ہے۔ اَلْکِتٰبِ اس کا پہلا مضاف الیہ ہے اور قُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ اس کا دوسرا مضاف الیہ ہونے کی وجہ سے حالت ِجر میں آیا ہے۔ (آیت۳) ذَرْ فعل امر ہے۔ اس کا جوابِ امر ہونے کی وجہ سے یَاْکُلُوْا، یَتَمَتَّعُوْااور یُلْہِ مجزوم آئے ہیں۔ (آیت۴) اَھْلَکْنَا کا مفعول ہونے کی وجہ سے مِنْ قَرْیَۃٍ محلًّا حالت ِنصب میں ہے۔ (آیت۵) تَسْبِقُ کا فاعل ہونے کی وجہ سے مِنْ اُمَّۃٍ محلًّا حالت ِرفع میں ہے۔
ترجمہ:
الٓرٰ : ا‘ ل‘ ر

تِلْکَ : یہ
اٰیٰتُ الْکِتٰبِ :اس کتاب کی آیتیں ہیں

وَقُرْاٰنٍ مُّبِیْنٍ:اور واضح قرآن کی
رُبَمَا : بہت ہی

یَوَدُّ:خواہش کریں گے
الَّذِیْنَ :وہ لوگ جنہوں نے

کَفَرُوْا :انکار کیا
لَوْ کَانُوْا :کاش وہ ہوتے

مُسْلِمِیْنَ :فرمانبرداری کرنے والے
ذَرْہُمْ : آپؐ چھوڑ دیں ان کو

یَاْکُلُوْا : کہ وہ کھائیں 
وَیَتَمَتَّعُوْا : اور فائدہ اٹھائیں

وَیُلْہِہِمُ:اور غافل کرے ان کو
الْاَمَلُ : اُمید

فَسَوْفَ : تو عنقریب
یَعْلَمُوْنَ : وہ جان لیں گے

وَمَـآ اَہْلَکْنَا : اور ہم نے ہلاک نہیں کیا
مِنْ قَرْیَۃٍ : کسی بھی بستی کو

اِلَّا: مگر
وَلَہَا : اس حال میں کہ اس کے لیے تھی

کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ : ایک معلوم کتاب
مَا تَسْبِقُ :آگے نہیں نکلتی

مِنْ اُمَّۃٍ : کوئی بھی اُمّت
اَجَلَہَا : اپنے وقت سے

وَمَا یَسْتَاْخِرُوْنَ: اور نہ وہ پیچھے رہتے ہیں
نوٹ:کِتَابٌ مَّعْلُوْمٌ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر قوم کے لیے پہلے سے طے کر لیتا ہے کہ اس کو سننے‘ سمجھنے اور سنبھلنے کے لیے اتنی مہلت دی جائے گی اور اس حد تک اسے اپنی من مانی کرنے کا موقع دیا جاتا رہے گا۔ یہ مہلت جب تک باقی رہتی ہے وہ ڈھیل دیتا رہتا ہے اور سرکشی کرتے ہی فوراً اس نے کبھی بھی کسی قوم کو نہیں پکڑا۔(تفہیم القرآن سے ماخوذ)
آیات ۶ تا ۱۳{وَقَالُوْا یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْہِ الذِّکْرُ اِنَّکَ لَمَجْنُوْنٌ(۶) لَوْ مَا تَاْتِیْنَا بِالْمَلٰٓئِکَۃِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(۷) مَا نُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ اِلَّا بِالْحَقِّ وَمَا کَانُوْٓا اِذًا مُّنْظَرِیْنَ(۸) اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَاِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ(۹) وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ(۱۰) وَمَا یَاْتِیْہِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِءُوْنَ(۱۱)کَذٰلِکَ نَسْلُکُہٗ فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ(۱۲) لَا یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَقَدْ خَلَتْ سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۳)}
س ل ک
سَلَکَ یَسْلُکُ (ن) سَلْکًا‘ سلوکًا :(۱) کسی راستہ پر چلنا۔ کسی چیز میں داخل ہونا‘ پڑنا (لازم)
(۲) کسی راستہ پر چلانا۔ کسی چیز میں داخل کرنا‘ ڈالنا (متعدی) زیر مطالعہ آیت۱۲۔
ترجمہ:
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا

یٰٓــاَیُّہَا الَّذِیْ : اے وہ (شخص)
نُزِّلَ : نازل کیا گیا

عَلَیْہِ : جس پر
الذِّکْرُ :اس نصیحت کو

اِنَّکَ:بے شک تُو
لَمَجْنُوْنٌ :یقیناً مجنون ہے

لَوْ مَا:کیوں نہیں
تَاْتِیْنَا :تُو آتا ہمارے پاس

بِالْمَلٰٓئِکَۃِ:فرشتوں کے ساتھ
اِنْ کُنْتَ : اگر تُو ہے

مِنَ الصّٰدِقِیْنَ:سچ کہنے والوں میں سے
مَا نُنَزِّلُ :ہم نہیں اُتارتے

الْمَلٰٓئِکَۃَ:فرشتوں کو
اِلَّا بِالْحَقِّ :مگر حق کے ساتھ

وَمَا کَانُوْٓا :اور وہ نہ ہوئے
اِذًا :پھر تو

مُّنْظَرِیْنَ :مہلت دیے ہوئے
اِنَّا نَحْنُ : بے شک ہم نے ہی

نَزَّلْنَا :اُتارا
الذِّکْرَ :اس نصیحت کو

وَاِنَّا لَہٗ :اور بے شک ہم اس کی
لَحٰفِظُوْنَ : یقیناً حفاظت کرنے والے ہیں

وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا :اور یقیناً ہم بھیج چکے ہیں (رسولوں کو )
مِنْ قَبْلِکَ :آپؐ سے پہلے

فِیْ شِیَعِ الْاَوَّلِیْنَ: پہلے لوگوں میں 
وَمَا یَاْتِیْہِمْ :اور نہیں آتا ان کے پاس

مِّنْ رَّسُوْلٍ: کوئی بھی رسول
اِلَّا :سوائے اس کے کہ

کَانُوْا بِہٖ یَسْتَہْزِئُ وْنَ: وہ لوگ اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے

کَذٰلِکَ :اسی طرح

نَسْلُکُہٗ: ڈال دیتے ہیں ہم اس کو
فِیْ قُلُوْبِ الْمُجْرِمِیْنَ:مجرموں کے دلوں میں

لَا یُؤْمِنُوْنَ:یہ لوگ ایمان نہیں لائیں گے
بِہٖ : اس پر

وَقَدْ خَلَتْ: اور گزر چکی ہے
سُنَّۃُ الْاَوَّلِیْنَ: پہلے لوگوں کی عادت

نوٹ:حفاظت ِقرآن کے وعدے میں حفاظت ِحدیث بھی داخل ہے‘ کیونکہ تمام اہل علم اس پر متفق ہیں کہ قرآن نہ تو صرف الفاظِ قرآنی کا نام ہے اور نہ ہی صرف معانی قرآنی کا‘ بلکہ دونوں کے مجموعے کو قرآن کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معانی اور مضامین قرآنیہ تو دوسری کتابوں میں بھی موجود ہیں اور اسلامی تصانیف میں تو عموماً مضامین قرآنیہ ہی ہوتے ہیں‘ مگر ان کو قرآن نہیں کہا جاتا‘ کیونکہ الفاظ قرآن کے نہیں ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی شخص قرآن کریم سے متفرق الفاظ اور جملے لے کر ایک مقالہ یا رسالہ لکھ دے تو اس کو بھی قرآن نہیں کہا جائے گا خواہ اس میں ایک لفظ بھی قرآن سے باہر کا نہ ہو۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن صرف اس مصحف ربانی کا نام ہے جس کے الفاظ اور معانی ساتھ ساتھ محفوظ ہیں۔
جب یہ معلوم ہوا کہ قرآن صرف الفاظِ قرآن کا نام نہیں بلکہ معانی بھی اس کا ایک جزو ہیں‘ تو حفاظت ِقرآن کی جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں لی ہے اس میں جس طرح الفاظِ قرآنی کی حفاظت کا وعدہ ہے اسی طرح معانی اور مضامین قرآن کی حفاظت اور معنوی تحریف سے اس کو محفوظ رکھنے کا وعدہ بھی شامل ہے۔ اور یہ ظاہر ہے کہ معانی ٔقرآن وہی ہیں جن کی تعلیم دینے کے لیے رسول اللہﷺ کو مبعوث فرمایا گیا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا :{ لِتُـبَـیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیْھِمْ}(النحل:۴۴)’’تاکہ آپؐ واضح کر دیں لوگوں کے لیے اس کو جو نازل کیا گیا ان لوگوں کی طرف ‘‘ اور یہی معنی اس آیت کے ہیں :{وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ} (البقرۃ:۱۵۱) ’’اور وہؐ تعلیم دیتے ہیں تم لوگوں کو کتاب کی اور حکمت کی۔‘‘ اسی لیے آپﷺ نے فرمایا کہ ’’میں تو معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔‘‘ اور جب رسول اللہﷺ کو معانی ٔقرآن کے بیان اور تعلیم کے لیے بھیجا گیا تو آپؐ نے اُمت کو جن اقوال و افعال کے ذریعہ تعلیم دی ان ہی کا نام حدیث ہے۔ جب حدیث ِرسولؐ درحقیقت تفسیر قرآن اور معانیٔ قرآن ہیں‘ جن کی حفاظت اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لی ہے‘ تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ قرآن کے صرف الفاظ محفوظ رہ جائیں اور معانی یعنی احادیث رسولؐ ضائع ہو جائیں؟ (معارف القرآن)
آیات ۱۴ تا ۱۸{وَلَوْ فَتَحْنَا عَلَیْہِمْ بَابًا مِّنَ السَّمَآئِ فَظَلُّوْا فِیْہِ یَعْرُجُوْنَ(۱۴) لَـقَالُوْٓا اِنَّمَا سُکِّرَتْ اَبْصَارُنَا بَلْ نَحْنُ قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ(۱۵) وَلَقَدْ جَعَلْنَا فِی السَّمَآئِ بُرُوْجًا وَّزَیَّنّٰہَا لِلنّٰظِرِیْنَ(۱۶) وَحَفِظْنٰہَا مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ (۱۷) اِلَّا مَنِ اسْتَرَقَ السَّمْعَ فَاَتْبَعَہٗ شِہَابٌ مُّبِیْنٌ(۱۸)}
ع ر ج
عَرَجَ یَعْرُجُ (ن) وَعَرَجَ یَعْرِجُ (ض) عُرُوْجًا
 : اوپر چڑھنا۔ زیر مطالعہ آیت۱۴۔
مِعْرَجٌ (ج) مَعَارِجُ : چڑھنے کا آلہ‘ سیڑھی۔ {مِنَ اللہِ ذِی الْمَعَارِجِ} (المعارج:۳) ’’اللہ کی طرف سے جو سیڑھیوں یعنی بلندیوں والا ہے۔‘‘
عَرِجَ یَعْرَجُ (س) عَرَجًا : لنگڑانا‘ لنگڑا کر چلنا۔
اَعْرَجُ (اَفْعَلُ الوان و عیوب پر صفت ہے) : لنگڑا۔ {لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَلَا عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ} (النور:۶۱) ’’اندھے پر کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ ہی لنگڑے پر کوئی گناہ ہے۔‘‘
ش ھ ب
شَھِبَ یَشْھَبُ (س) وَشَھُبَ یَشْھُبُ (ک) شَھَبًا
 : سیاہی مائل سفید ہونا۔
شَھَبَ یَشْھَبُ (ف) شَھْبًا : گرمی کا کسی کو جھلس دینا۔
شِھَابٌ ج شُھُبٌ : شعلہ‘ انگارہ۔ زیر مطالعہ آیت۱۸۔
ترجمہ:
وَلَوْ فَتَحْنَا :اور اگر ہم کھول دیں

عَلَیْہِمْ بَابًا :ان پر ایک دروازہ
مِّنَ السَّمَآئِ :آسمان میں سے

فَظَلُّوْا فِیْہِ :پھر وہ لگیں اس میں
یَعْرُجُوْنَ:اوپر چڑھنے

لَـقَالُوْٓا:تو ضرور کہیں گے
اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ

سُکِّرَتْ : موند دی گئیں
اَبْصَارُنَا : ہماری نگاہیں

بَلْ نَحْنُ :بلکہ ہم
قَوْمٌ مَّسْحُوْرُوْنَ: جادوکیے ہوئے لوگ ہیں

وَلَقَدْ جَعَلْنَا : اور بےشک ہم نے بنائی ہیں
فِی السَّمَآئِ :آسمان میں

بُرُوْجًا :(سیاروں کی) منزلیں
وَّزَیَّنّٰہَا :اور ہم نے مزین کیا ان کو

لِلنّٰظِرِیْنَ:دیکھنے والوں کے لیے
وَحَفِظْنٰہَا :اور ہم نے محفوظ کیا ان کو

مِنْ کُلِّ شَیْطٰنٍ رَّجِیْمٍ: ہر دھتکارے ہوئے شیطان سے
اِلَّا :سوائے اس کے کہ

مَنِ اسْتَرَقَ : جس نے چپکے سے چرایا
السَّمْعَ :سننے کو

فَاَتْبَعَہٗ :تو پیچھے لگتا ہے اس کے
شِہَابٌ مُّبِیْنٌ: ایک روشن انگارہ

نوٹ: بعض کا قول ہے کہ بُرُوْجًا سے مراد سورج اور چاند کی منزلیں ہیں۔ عطیہؒ کہتے ہیں کہ یہ وہ جگہیں ہیں جہاں چوکی پہرے ہیں‘ جہاں سے سرکش شیطانوں کو مار پڑتی ہے کہ وہ بلند و بالا فرشتوں کی گفتگو نہ سن سکیں۔ فرشتوں کی باتوں کو چوری چوری سننے کے لیے جنات اوپر کو چڑھتے ہیں اور وہ ایک کے اوپر ایک ہوتے ہیں۔ جو آگے بڑھتا ہے شعلہ اس کو جلانے کے لیے لپکتا ہے۔ سننے والے کا کام شعلہ کبھی تو اس سے پہلے ہی ختم کر دیتا ہے کہ وہ اپنے ساتھی کے کان میں کچھ کہہ دے۔ اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جلنے سے پہلے وہ اپنے نیچے والے ساتھی کے کان میں کچھ کہہ دے۔پھر وہ اپنے سے نیچے والے کو اور اسی طرح مسلسل پہنچا دے اور وہ بات زمین تک آ جائے اور جادوگر یا کاہن کے کان اس سے آشنا ہو جائیں۔ پھر وہ اس کے ساتھ سو جھوٹ ملا کر لوگوں میں دون کی لیتا ہے (ابن کثیرؒ)۔ جب وہ ایک آدھ سماوی بات سچی نکلتی ہے تو ان کے معتقدین اسے ان کی سچائی کے ثبوت میں پیش کرتے ہیں‘ اور جو خبریں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں ان سے اغماض برتا جاتا ہے۔ (ترجمہ شیخ الہندؒ)
آیات ۱۹ تا ۲۵{وَالْاَرْضَ مَدَدْنٰہَا وَاَلْقَیْنَا فِیْہَا رَوَاسِیَ وَاَنْبَتْنَا فِیْہَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ(۱۹) وَجَعَلْنَا لَکُمْ فِیْھَا مَعَایِشَ وَمَنْ لَّسْتُمْ لَہٗ بِرٰزِقِیْنَ (۲۰) وَاِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَاۗئِنُہٗ ۡ وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعْلُوْمٍ(۲۱) وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ لَوَاقِحَ فَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَاۗءِ مَاۗءً فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ ۚ وَمَآ اَنْتُمْ لَہٗ بِخَازِنِیْنَ(۲۲) وَاِنَّا لَنَحْنُ نُحْیٖ وَنُمِیْتُ وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ(۲۳) وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمِیْنَ مِنْکُمْ وَلَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَاْخِرِیْنَ (۲۴) وَاِنَّ رَبَّکَ ھُوَ یَحْشُرُھُمْ ۭ اِنَّہٗ حَکِیْمٌ عَلِیْمٌ(۲۵)}
خ ز ن
خَزَنَ یَخْزُنُ (ن) خَزْنًا
 : کسی چیز کا ذخیرہ کرنا‘ جمع کرنا۔
خَزِیْنَۃٌ ج خَزَائِنُ : ذخیرہ کرنے کی جگہ‘ خزانہ۔ زیر مطالعہ آیت۲۱۔
خَازِنٌ ج خَزَنَۃٌ : خزانہ کا محافظ اور ذمہ دار‘ داروغہ‘ خزانچی۔ زیر مطالعہ آیت۲۲۔ {وَقَالَ الَّذِیْنَ فِی النَّارِ لِخَزَنَۃِ جَھَنَّمَ} (المؤمن:۴۹) ’’اور کہا انہوں نے جو آگ میں ہیں جہنم کے داروغوں سے۔‘‘
ل ق ح
لَقَحَ یَلْقَحُ (ف) لَقْحًا
 : نر کھجور کا شگوفہ مادہ کھجور میں ڈالنا۔ حاملہ کرنا‘ باردار کرنا۔
اللَّاقِح: ج لَوَاقِح : وہ اونٹنی جو مادہ منویہ کو قبول کر لے۔وہ ہوا جس سے درخت / بادل باردار ہوجائیں۔ زیر مطالعہ آیت۲۲۔
ترکیب
(آیت۱۹) مَدَدْنَا کا مفعول ھَا کی ضمیر ہے اس لیے اَلْاَرْضَ کو اس کا مفعول مقدم ماننے کی گنجائش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اَلْاَرْضَ سے پہلے ایک فعل محذوف مانا جاتا ہے۔ (آیت۲۰) وَمَنْ دراصل لِمَنْ ہے اور وَجَعَلْنَا سے متعلق ہے۔ ترجمہ اسی لحا ظ سے ہو گا۔ (آیت۲۱) نُنَزِّلُہٗ کی ضمیر مفعولی خَزَائِنُ کے لیے نہیں ہےبلکہ مِنْ شَیْءٍ کے لیے ہے۔ (آیت۲۲) لَوَاقِحَ اسم الفاعل ہے۔ اس کا مفعول محذوف ہے جو سِحَابًا ہے‘ کیونکہ آیت کا اگلا جملہ اس کی تائید کر رہا ہے۔
ترجمہ:
وَالْاَرْضَ :اور (ہم نے پیدا کیا) زمین کو

مَدَدْنٰہَا :ہم نے (ہی) پھیلایا اس کو
وَاَلْقَیْنَا : اور ہم نے ڈالا

فِیْہَا :اس میں
رَوَاسِیَ : پہاڑوں کو

وَاَنْبَتْنَا فِیْہَا:اور ہم نے اُگایا اس میں
مِنْ کُلِّ شَیْ ئٍ مَّوْزُوْنٍ : ہر ایک موزوں چیز میں سے

وَجَعَلْنَا لَکُمْ:اور ہم نے بنایا تمہارے لیے
فِیْہَا :اس میں

مَعَایِشَ : زندگی کے سامان
وَمَنْ : اور اس کے لیے

لَّسْتُمْ لَہٗ:تم لوگ نہیں ہو جس کو
بِرٰزِقِیْنَ:رزق دینے والے

وَاِنْ:اور نہیں ہے
مِّنْ شَیْ ئٍ :کوئی بھی چیز

اِلَّا عِنْدَنَا:مگر ہمارے پاس
خَزَآئِنُہٗ :اس کے خزانے ہیں

وَمَا نُنَزِّلُہٗٓ:اور ہم نہیں اتارتے اس کو (کسی چیز کو)
اِلَّا : مگر

بِقَدَرٍمَّعْلُوْمٍ:ایک معلوم اندازے کے ساتھ
وَاَرْسَلْنَا الرِّیٰحَ : اور ہم نے بھیجا ہوائوں کو

لَوَاقِحَ:بار دار کرنے والی ہوتے ہوئے (بادلوں کو)
فَاَنْزَلْنَا :پھر ہم نے اُتارا

مِنَ السَّمَآئِ :آسمان سے
مَآئً :کچھ پانی

فَاَسْقَیْنٰکُمُوْہُ:پھر ہم نے پلایا تم لوگوں کو وہ(پانی)
وَمَآ اَنْتُمْ :اور تم لوگ نہیں ہو

لَہٗ بِخٰزِنِیْنَ: اس کے خزانچی
وَاِنَّا لَنَحْنُ :اور بے شک یقیناً ہم ہی

نُحْیٖ:زندگی دیتے ہیں

وَنُمِیْتُ : اور ہم ہی موت دیتے ہیں

وَنَحْنُ الْوٰرِثُوْنَ:اور ہم ہی حقیقی وارث ہیں
وَلَقَدْ عَلِمْنَا :اور یقیناً ہم جان چکے ہیں

الْمُسْتَقْدِمِیْنَ:آگے بڑھنے والوں کو
مِنْکُمْ :تم میں سے

وَلَقَدْ عَلِمْنَا :اور یقیناً ہم جان چکے ہیں
الْمُسْتَاْخِرِیْنَ:پیچھے رہنے والوں کو

وَاِنَّ رَبَّکَ: اور بے شک آپؐ کا رب
ہُوَ یَحْشُرُہُمْ: جمع کرے گا ان کو

اِنَّہٗ:یقیناً وہی
حَکِیْمٌ :حکمت والا ہے

عَلِیْمٌ:علم والا ہے
نوٹ: آیت۲۴ میں مستقدمین اور مستاخرین سے کون لوگ مراد ہیں‘ اس کے متعلق مفسرین کی آراء مختلف ہیں۔ اکثریت کی رائے یہ ہے کہ مستقدمین وہ لوگ ہیں جو نماز کی صفوں میں‘ جہاد کی صفوں میں اور دوسرے نیک ناموں میں آگے رہنے والے ہیں اور مستاخرین وہ لوگ ہیں جو ان چیزوں میں پچھلی صفوں میں رہنے والے اور دیر کرنے والے ہیں۔ قرطبی نے اپنی تفسیر میں فرمایا کہ اسی آیت سے نماز میں صف اوّل اور شروع وقت میں نماز ادا کرنے کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوجاتا کہ اذان کہنے اور نماز کی صف اوّل میں کھڑے ہونے کی کتنی بڑی فضیلت ہے تو تمام آدمی اس کوشش میں لگ جاتے کہ پہلی ہی صف میں کھڑے ہوں‘ اور سب کے لیے جگہ نہ ہوتی تو قرعہ اندازی کرنا پڑتی ۔(معارف القرآن)
آیات ۲۶ تا ۳۵{وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۶) وَالْجَآنَّ خَلَقْنٰـہُ مِنْ قَبْلُ مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ (۲۷)وَاِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃِ اِنِّیْ خَالِقٌ  بَشَرًا مِّنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۲۸) فَاِذَا سَوَّیْتُہٗ وَنَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَہٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) فَسَجَدَ الْمَلٰٓئِکَۃُ کُلُّہُمْ اَجْمَعُوْنَ(۳۰) اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط اَبٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) قَالَ یٰٓاِبْلِیْسُ مَا لَکَ اَلَّا تَکُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ (۳۲)قَالَ لَمْ اَکُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَہٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) قَالَ فَاخْرُجْ مِنْہَا فَاِنَّکَ رَجِیْمٌ (۳۴)وَّاِنَّ عَلَیْکَ اللَّعْنَۃَ اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ(۳۵)}
ص ل ل
صَلَّ یَصِلُّ (ض) صَلِیْلًا : (۱) کسی چیز کا آواز کرنا۔ (۲) کسی چیز کا سڑنا۔
صَلَّالٌ (فَعَّالٌ کے وزن پر صفت) : (قرآن مجید میں اس کے ایک لام کو ص میں بدل کر صَلْصَالٌ لکھا گیا ہے)۔ سڑی ہوئی خشک مٹی جو بجتی ہے یعنی آواز کرتی ہے۔ زیر مطالعہ آیت۲۶۔
ح م ء
حَمَأَ یَحْمَؤُ (ف) حَمَاً : کنویں سے کیچڑ نکالنا۔
حَمَاٌ (اسم ذات بھی ہے) :کیچڑ‘ گارا۔ زیر مطالعہ آیت۲۶۔
حَمِئَۃٌ:دلدل۔{حَتّٰی اِذَا بَلَغَ مَغْرِبَ الشَّمْسِ وَجَدَھَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ} (الکہف:۸۶)’’یہاں تک کہ جب وہ پہنچے سورج کے غروب ہونے کی جگہ پر تو انہوں نے پایا کہ وہ غروب ہوتا ہے ایک دلدل والے چشمے میں۔‘‘
ترجمہ:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا :اور یقیناً ہم نے پیدا کیا ہے

الْاِنْسَانَ :انسان کو
مِنْ صَلْصَالٍ :ایسی کھنکتی مٹی سے جو

مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ :گیلے گارے سے تھی
وَالْجَآنَّ :اور جِنّ کو

خَلَقْنٰـہُ:ہم نے پیدا کیا اس کو
مِنْ قَبْلُ :اس سے پہلے

مِنْ نَّارِ السَّمُوْمِ:لُو کی آگ سے
وَاِذْ قَالَ :اور جب کہا

رَبُّکَ:آپؐ کے رب نے
لِلْمَلٰٓئِکَۃِ :فرشتوـں سے

اِنِّیْ :کہ میں 
خَالِقٌ :تخلیق کرنے والا ہوں

بَشَرًا :ایک بشر
مِّنْ صَلْصَالٍ :ایسی کھنکتی مٹی سے جو

مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ: گیلے گارے سے ہے
فَاِذَا :پھر جب

سَوَّیْتُہٗ :مَیں نوک پلک درست کر لوں اس کی
وَنَفَخْتُ :اور مَیں پھونک دوں

فِیْہِ :اس میں 
مِنْ رُّوْحِیْ :اپنی روح میں سے

فَقَعُوْا :تو تم لوگ گر پڑنا
لَہٗ :اس کے لیے

سٰجِدِیْنَ:سجدہ کرنے والے ہوتے ہوئے
فَسَجَدَ :پھر سجدہ کیا

الْمَلٰٓئِکَۃُ:فرشتوں نے
کُلُّہُمْ :ان کے ہر ایک نے

اَجْمَعُوْنَ:سب کے سب نے
اِلَّآ اِبْلِیْسَ:سوائے ابلیس کے

اَبٰٓی :اس نے انکار کیا

اَنْ یَّکُوْنَ : کہ وہ ہو

مَعَ السّٰجِدِیْنَ : سجدہ کرنے والوں کے ساتھ
قَالَ :کہا (اللہ تعالیٰ نے)

یٰٓاِبْلِیْسُ : اے ابلیس
مَا لَکَ :تجھے کیا ہے

اَلَّا تَکُوْنَ :کہ تُو نہ ہوا
مَعَ السّٰجِدِیْنَ:سجدہ کرنے والوں کے ساتھ

قَالَ لَمْ اَکُنْ:اُس نے کہا میں نہیں تھا
لِّاَ سْجُدَ :کہ میں سجدہ کروں

لِبَشَرٍ :ایک ایسے بشر کے لیے
خَلَقْتَہٗ :تُو نے تخلیق کیا جس کو

مِنْ صَلْصَالٍ :ایسی کھنکتی مٹی سے جو
مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ:گیلے گارے سے ہے

قَالَ:کہا (اللہ تعالیٰ نے)
فَاخْرُجْ :پھر تو نکل

مِنْہَا:اس(جگہ) سے
فَاِنَّکَ :پس بے شک تو

رَجِیْمٌ:دھتکارا ہوا ہے
وَّاِنَّ عَلَیْکَ :اور بے شک تجھ پر

اللَّعْنَۃَ:لعنت ہے
اِلٰی یَوْمِ الدِّیْنِ: بدلے کے دن تک

نوٹ: یہاں قرآن اس امر کی صاف تصریح کرتا ہے کہ انسان حیوانی منازل سے ترقی کرتا ہوا بشریت کے حدود میں نہیں آیا‘ جیسا کہ نئے دور کے ڈارون سے متاثر کچھ مفسرین قرآن ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ‘بلکہ اس کی تخلیق کی ابتدا براہ ِ راست ارضی مادوں سے ہوئی ہے جن کی کیفیت اللہ تعالیٰ نے صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ کے الفاظ میں بیان فرمائی ہے۔ یہ الفاظ صاف ظاہر کرتے ہیں کہ خمیر اُٹھی ہوئی مٹی کا ایک پتلا بنایا گیا تھا جو بننے کے بعد خشک ہوا اور پھر اس کے اندر روح پھونکی گئی۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۳۶ تا ۴۴{قَالَ رَبِّ فَاَنْظِرْنِیْٓ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ(۳۶) قَالَ فَاِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ(۳۷) اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ(۳۸) قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ اَجْمَعِیْنَ(۳۹) اِلَّا عِبَادَکَ مِنْہُمُ الْمُخْلَصِیْنَ(۴۰) قَالَ ہٰذَا صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ(۴۱) اِنَّ عِبَادِیْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْہِمْ سُلْطٰنٌ اِلَّا مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْغٰوِیْنَ(۴۲) وَاِنَّ جَہَنَّمَ لَمَوْعِدُہُمْ اَجْمَعِیْنَ(۴۳) لَہَا سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ ط لِکُلِّ بَابٍ مِّنْہُمْ جُزْئٌ مَّقْسُوْمٌ(۴۴)}
ترجمہ:
قَالَ :(ابلیس نے) کہا

رَبِّ :اے میرے ربّ
فَاَنْظِرْنِیْٓ :پس تو مہلت دے مجھ کو

اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ: لوگوں کو اٹھائے جانے کے دن تک
قَالَ : (اللہ نے) کہا

فَاِنَّکَ :پس بے شک تو
مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ:مہلت دیے ہوئوں میں سے ہے

اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ: اس معلوم وقت کے دن تک
قَالَ :(ابلیس نے) کہا

رَبِّ :اے میرے ربّ
بِمَآ :بسبب اس کے جو

اَغْوَیْتَنِیْ:تُو نے گمراہ کیا مجھ کو
لَاُزَیِّنَنَّ :میں لازماً سجائوں گا

لَہُمْ:ان کے لیے
فِی الْاَرْضِ :زمین میں

وَلَاُغْوِیَنَّہُمْ:اور میں لازماً گمراہ کروں گا
اَجْمَعِیْنَ:سب کے سب کو

اِلَّا عِبَادَکَ :سوائے تیرے بندوں کے
مِنْہُمُ :ان میں سے

الْمُخْلَصِیْنَ:(جو) ملاوٹ سے پاک کیے ہوئے ہیں
قَالَ ہٰذَا :(اللہ نے) کہا یہ

صِرَاطٌ عَلَیَّ مُسْتَقِیْمٌ: مجھ پر (یعنی مجھ تک) ایک سیدھا راستہ ہے
اِنَّ عِبَادِیْ:بے شک (یہ) میرے بندے ہیں

لَیْسَ لَکَ :نہیں ہے تیرے لیے
عَلَیْہِمْ :ان پر

سُلْطٰنٌ :کوئی اختیار
اِلَّا مَنِ :سوائے اس کے جس نے

اتَّبَعَکَ:پیروی کی تیری
مِنَ الْغٰوِیْنَ:گمراہ ہونے والوں میں سے

وَاِنَّ جَہَنَّمَ : اور بے شک جہنم

لَمَوْعِدُہُمْ:یقیناً ان کے وعدے کی جگہ ہے

اَجْمَعِیْنَ: سب کے سب کی
لَہَا :اس کے لیے

سَبْعَۃُ اَبْوَابٍ:سات دروازے ہیں
لِکُلِّ بَابٍ :ہر دروازے کے لیے

مِّنْہُمْ:ان (گمراہوں) میں سے
جُزْئٌ مَّقْسُوْمٌ:ایک تقسیم کیا ہوا حصہ ہے

نوٹ ۱:شیطان نے اپنے نوٹس (آیت۳۹) سے ان بندوں کو مستثنیٰ کیا جنہیں اللہ اپنے لیے خالص فرما لے (آیت۴۰)۔ اس سے یہ غلط فہمی مترشح ہو رہی تھی کہ شاید اللہ تعالیٰ بغیر کسی معقول وجہ کے جس کو چاہے گا خالص کرے گا اور وہ شیطان کی دسترس سے بچ جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر بات صاف کر دی کہ جو خود بہکا ہوا ہو گا وہی تیری پیروی کرے گا(آیت۴۱)۔بالفاظِ دیگر جو بہکا ہوا نہ ہو گا وہ تیری پیروی نہ کرے گا اور و ہی ہمارا وہ مخصوص بندہ ہو گا جسے ہم خالص اپنا کرلیں گے۔ تجھے صرف فریب دینے کا اختیار دیا جا رہا ہے ‘ ان پر اقتدار نہیں دیا جا رہا کہ تو ہاتھ پکڑ کر انہیں زبردستی اپنی راہ پر کھینچ لے جائے۔ (تفہیم القرآن)
ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مخصوص اور منتخب بندوں پر شیطانی فریب کا اثر نہیں ہوتا‘ مگر اسی واقعہ میں آدمؑ اور بی بی حوا پر اس کا فریب چل گیا۔ اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے بارے میں آلِ عمران:۱۵۵ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان پر بھی شیطان کا فریب ایک موقع پر چل گیا۔ اس لیے آیت مذکورہ میں اللہ کے مخصو ص بندوں پر شیطان کا تسلط نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ان کے قلوب و عقول پر شیطان کا ایسا تسلط نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی پر کسی وقت متنبہ ہی نہ ہوں‘ جس کی وجہ سے ان کو توبہ نصیب نہ ہو۔ اور مذکورہ واقعات اس کے منافی نہیں‘ کیونکہ آدمؑ اور بی بی حوا نے توبہ کی اور یہ توبہ قبول ہوئی۔ اسی طرح صحابہ کرامؓ نے بھی توبہ کی اور انہیں معاف کر دیا گیا۔ (معارف القرآن)
نوٹ۲جُزْئٌ مَّقْسُوْمٌ کے الفاظ سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ جہنم کے مختلف دروازوں سے داخل ہونے والوں کے درمیان ایک خاص نوعیت کی درجہ بندی ہوگی۔ اس درجہ بندی کی بنیاد کس چیز پر ہو گی ‘ اس باب میں کوئی قطعی بات کہنا‘ جبکہ خود قرآن میں اس کی کوئی تصریح نہیں ہے‘ مشکل ہے۔ لیکن ذہن بار بار اس طرف جاتا ہے کہ قرآن نے جن چیزوں کا اصولی مہلکات کی حیثیت سے ذکر کیا ہے ‘ وہ اگر شمار کی جائیں تو وہ سات عنوانات کے تحت آتی ہیں اور وہ یہ ہیں: (۱) شرک (۲) قطع رحم (۳) قتل (۴) زنا (۵) جھوٹی شہادت (۶) کمزوروں پر ظلم (۷) بغی (یعنی بغاوت)۔ (تدبر قرآن)