رسالۃ ’’ظہور العدم بنور القدم‘‘از: مولانا اشرف علی تھانویؒ
تسہیل و تعلیق:مکرم محمود
جملہ موجودات کی اصل واحد تک پہنچنایا وحدت و کثرت کے باہمی ربط کو تلاش کرنا فلسفہ و حکمت اور مابعدالطبیعیات کے قدیم اور اساسی مسائل میں سے ہے۔اس مسئلہ اور اس سے متعلقہ مسائل میں اگر کوئی رائے‘ کوئی تناظر اور کوئی نظامِ فکرکشف و ذوق و صفائی باطن اور عقل کے ساتھ ساتھ قرآن و سُنّت کے اشارات کے تابع رہتے ہوئے پیش کیا جائے تو اسے نظری تصوف کہا جاتا ہے۔ اگر صرف کشف و ذوق اور صفائی باطن پر اساس ہو تو اشراقی فلسفہ ہے۔ اگر صرف عقلی نظرو فکر اور تخیل کی مدد سے ہو تو فلسفہ۔ مسئلہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود نظری تصوّف ہی کا ایک بنیادی مسئلہ ہے۔
مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ کارسالہ ’’ظہور العدم بنور القدم‘‘ اس مسئلہ پر ایک نہایت ہی جامع و مانع رسالہ ہے جو اس مسئلے کی توضیح و تنقیح نہایت ہی منفرد و مکمل انداز سے کرتا ہے۔ اس موضوع پر بہت سے رسائل راقم کے زیر ِمطالعہ رہے ہیں لیکن ’’ظہور العدم بنور القدم‘‘ سے بہتر ہنوز نظروں سے نہیں گزرا۔ اس رسالہ کوحضرت مجددالف ثانی صاحبؒ کے ایک مکتوب(جلد دوم ‘مکتوب اوّل) کی شرح و وضاحت بھی کہاجا سکتا ہے‘ جیسا کہ حضرت تھانویؒ کی اپنی عبارت سے بھی واضح ہو جائے گا۔ رسالے کے عنوان کے ساتھ ہی اس کو ملّا جامی ؒ کی طرف منسوب ایک شعر: ؎
کل مافی الکون وھمٌ او خیال
او عکوسٌ فی المرایا او ظلال(کا ئنات میں جو کچھ ہے وہ یا تو وہم و خیال ہے یا آئینہ میں بننے والے عکوس یا سائے ہیں)
کی شرح بھی قرار دیا گیاہے۔ حضرت تھانویؒ نے اس مسئلے کو بہت سے مقامات پر بیان کیا ہے مگر ہر جگہ موقع محل اور مخاطب کی رعایت کی گئی ہے کہ ہر جگہ عارفانہ عمق ‘فلسفیانہ گہرائی اور کلامیانہ دقت کے ساتھ اس کا بیان فتنہ اور غلط فہمی کا سبب بن سکتا تھا۔ لہٰذانفسِ مسئلہ کو نظری سطح پر فکری و فلسفیانہ عمق کے ساتھ معروضی انداز میں بیان کرنا ہمیں اسی رسالہ میں نظر آتا ہے۔ آغاز میں اس رسالہ کی زیادہ تشہیر و اشاعت نہیں کی گئی اور یہ ایک حلقہ احباب باذوق تک محدود رہا۔ بعد میں حضرت تھانوی کے آخری ایام میں جو مجموعہ رسائل ’’بوادر النوادر‘‘ کے نام سے چھپا اس میں اسے شامل کر دیا گیا۔
اس رسالے کی عبارت کافی مشکل ہے۔ عربی عبارات اورکلامی و عرفانی اصطلاحات کی کثرت ہے‘ اس لیے اپنے ایک استاد کے کہنے پر اس کی تسہیل کی کوشش کی گئی ہے۔ عبارت میں اصل متن کے مفہوم کو ذرا آسان الفاظ میں بیان کرنے کی وجہ سے اکثر جگہوں پر تسہیل شدہ عبارت اصل متن سے تھوڑی طویل ہو گئی ہے۔ عربی عبارات کا صرف ترجمہ دیا گیا ہے۔ شرح و وضاحت اور معنوی مشکلات کو حل کرنے کی جہاں حاجت تھی تو وہاں بریکٹ لگا کر بات کی گئی ہے۔
رسالۃ مع التسہیل
احقر اس مدّعا کو ظاہر کرنا چاہتاہے کہ مسئلہ وحدت الوجودوالشہود کے مسئلہ میں افراط و تفریط کے دو طرزِ عمل ہمیں نظر آتے ہیں۔ ایک طرف قائلین ہیںجو حدود کی پروا کیے بغیر بہت کچھ کہے چلے جاتے ہیں اور دوسری طرف منکرین و ناقدین ہیں جو حقیقت کو نہ جاننے کی وجہ سے بد گمانی کا شکار ہوتے ہیں۔ اس افراط و تفریط کی دو وجوہات ہیں:
ا) اس کو صرف کشفی مسئلہ سمجھنا
۲) اس مسئلہ کو ان اہلِ کشف کے کلام سے سمجھنا جو یا تو اپنے احوال سے مغلوب ہیں یا بات کرنے پر صحیح قدرت نہیں رکھتے۔
ظاہر ہےان وجوہات سے غلط فہمی پیدا ہوتی ہے۔ پھر آپ جن صاحب کے کلام سے اس مسئلے کو سمجھ رہے ہیں اگر ان سے حسنِ ظن ہے تو مسئلہ کا ایک غیر حدود آشنا تصور پیدا ہوجائے گا اور اگر سوئِ ظن ہے تو صاحبِ کلام سے بدگمانی لازماً پیدا ہو گی۔ ان ہی مفاسد کی اصلاح کے لیے ایسے علماء جو اہلِ طریقت و تصوف کے معتقد ہیں اور ایسے عارفین جو اصحابِ تحقیق بھی ہیں‘ ہمیشہ کوشش کرتے رہے ہیں۔ علماء کی کوشش کا نتیجہ تو یہ تھا کہ وحدت الوجود کی تاویل و تعبیر کر کے اس کو وحدت الشہود کی طرف لوٹایا جائے اور ان میں باہمی اختلاف کو صرف لفظی قرار دیا جائے (یعنی حقیقت میں دونوں ایک ہیں‘ صرف الفاظ مختلف ہیں)‘کیونکہ وحدت الوجود پر تنقید و ملامت زیادہ ہے جبکہ وحدت الشہود کو صوفیاء کے مخالف گروہوں میں بھی قبول حاصل ہے۔ عارفین کی تحقیق کا حاصل یہ تھا کہ اس غلط فہمی کی بنیاد ہی کو ڈھا دیا جائے‘وہی بنیاد جس کو دو وجوہات کی صورت میں پہلے بیان کیا گیا ہے۔ عارفین اصحابِ تحقیق(جو کشف و عرفان کے ساتھ معقولات اور کلام پر بھی دسترس رکھتے ہیں) نے واضح فرما دیا کہ دونوں مسئلے علمی اور کلامی ہیںاور ان میں اختلاف حقیقی ہے۔ ان کے علمی اور کلامی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ان مسائل کی اصل اور غایت حادث اور قدیم کے مابین ربط کی تحقیق ہے اور اس کا علمی اور کلامی مسئلہ ہونا تو معلوم ہے۔ البتہ یہ ان علمی مسائل میں سے نہیں جو خالص عقلی ہوتے ہیں(خالص عقلی مسائل وہ ہوتے ہیں جہاں عقل کسی شے کے ہونے یا نہ ہونے پر کوئی قطعی حکم لگائے)۔
اصولی کلامی مسائل دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک محض عقلی جہاں عقل کسی موقف کو لازماً ثابت کرتی ہے۔ مثلاً اس کائنات کے لیے ایک خالق و صانع کا وجود اور عالم کا حادث ہونا وغیرہ ۔ دوسرے‘ عقلی غیر محض کہ یہاں عقل صرف یہ بتاتی ہے کہ یہ بات یا موقف ممکن ہے لیکن ثبوت کے لیے نقلی دلیل کی ضرورت ہے۔ جیسے رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ ہے کہ عقل اس کو ممکن قرار دیتی ہے اور جو فرقے اسے ناممکن و ممتنع قرار دیتے ہیں ان کی نفی کرتی ہے‘اگرچہ عقل رویتِ باری تعالیٰ کی حقیقت کو کبھی نہیں جان سکتی تاہم عقل کا کسی بات کو ممکن قرار دینا یا اس کو قطعی طور پر ثابت کر دینا اس بات پر موقوف نہیں ہے کہ وہ اس کی حقیقت کو بھی جان لے(کیونکہ کسی شے کے وجود کا علم درجہ امکان میں یا قطعیت کے ساتھ ہونا ایک اور بات ہے اور اس کی حقیقت کا علم ایک دوسری بات)۔
یہ تو خیر علمِ قدیم(یعنی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم ) کا مسئلہ ہے‘ مخلوق کے علم کی کنہہ بھی آج تک معلوم نہ ہوسکی۔ کوئی اسے مقولہ اضافت سے متعلق کہتا ہے‘ کوئی مقولہ انفعال سے اور کوئی مقولہ کیف سے۔ [ممکنات کو مقولاتِ عشرہ (Ten categories) میں منقسم کیا جاتا ہے‘ایک جوہر کا اور نو عرض کے۔ جوہر وہ ممکن ہوتا ہے جو اپنی ذات کے ساتھ قائم ہو جبکہ عرض بغیر کسی ذات کے نہیں ہو سکتی۔ مثلاً صفات اعراض ہیں اور وہ بغیر ذات کے نہیں ہوتیں۔ مقولہ اضافت‘ انفعال اور کیف عرض ہی کے تین مقولات ہیں۔ کیف اس عرض کو کہتے ہیں جو اپنی ذات میں نہ تقسیم کو قبول کرتا ہے اور نہ نسبت کو‘جیسے سواد(کالا پن)‘ بیاض(سفیدی) جو مادی اجسام کے ساتھ قائم ہوتے ہیں اور علم و قدرت وغیرہ جو مجردات کے ساتھ قائم ہوتے ہیں۔ انفعال میں تاثر یعنی اثر قبول کرنے کی طرف اشارہ ہے اور مقولہ اضافت میں نسبت کی طرف۔]
اقسامِ علم میں سے جو قسم سب سے زیادہ ظاہر اور نمایاں ہے اس کی حقیقت تک واضح نہیں ہوئی(غالباً مشاہدہ کی طرف اشارہ ہے جیسا کہ اگلی عبارت سے معلوم ہو رہا ہے)۔ خود دیکھنے کی حقیقت کیا ہے‘ اس میں ہی اختلاف ہے لیکن ان کے ہونے پرتو تمام عقلاء متفق ہیں۔ پس جب کسی بات کو ثابت کرنا اس کی حقیقت جاننے پر منحصر نہیں تو کسی شے کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ ممکن ہے ‘ بالکل بھی اس کی حقیقت و ماہیت جاننے پر منحصر نہ ہوگا۔ رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے کہ امکان اس کا عقل کے ذریعے معلوم ہوتا ہے اور ثابت کرنے میں نقل کی ضرورت ہوتی ہے۔چنانچہ عقلی کلامی مسائل کی ایک قسم ایسی بھی ہوتی ہے۔ وحدت الوجود و الشہود کا مسئلہ بھی اسی قسم میں شامل ہے کیونکہ اس میں کشف کا عمل دخل ہے (یعنی یہ مسئلہ خالص عقلی نہیں بلکہ عقلی غیر محض ہے)۔
علم کلام کی کتابوں میں اس مسئلہ کے نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ متکلمین نے صرف ان مسائل کو لیا ہے جو قطعی ہوں۔ البتہ کچھ ظنی مسائل بھی اسی کے ذیل میںضرورت کے تحت آگئے ہیں ۔جیسے ’’جزء لا یتجزی‘‘ کا مسئلہ (ایسا جزو جس کا مزید تجزیہ نہ ہو سکے یعنی اس کو مزید تقسیم نہ کیا جاسکے) جو حدوث عالم کے مسئلے کے ضمن میں آگیا ہے کہ اس سے جسمیت ثابت ہوتی ہے اور جسم حادث ہوتا ہے۔ جسم کے حدوث پر دلائل کتب کلام میں موجود ہیں۔ متکلمین کے ہاں خاص طور پر قطعی مسائل ہی کو موضوع بنایا گیا ہے۔ یہ مسئلے نہ تو قطعی ہیں اور نہ یہ اس وقت ظاہر ہوئے جب علم کلام کی تدوین ہو رہی تھی۔ان عوارض کی وجہ سے انہوں نے ان مسائل کا ذکر نہیں کیا ۔ یہ ذکر نہ کرنا ہمارے اس دعوے کو کہ یہ مسائل اصولی اور کلامی کی دوسری قسم (عقلی غیر خالص) سے ہیں ‘باطل نہیں کرتا۔
رہی یہ بات کہ یہ مسائل قسم ثانی میں سے کس طرح ہیں حالانکہ متکلمین نے وجود کے مسئلے کو قسم اول (عقلی محض؍خالص) میں ذکر کیا ہے ‘تو ممکنات و حوادث کے لیے وجود کو ثابت کرنے کی کیفیت متکلمین کے نزدیک عقلی محض ہے جبکہ صوفیاء کے نزدیک باہمی اختلافات کے باوجود عقلی غیر محض کہ اس کا امکان عقل سے ثابت ہوتا ہے اور اس کا ہونا کشف سے (یعنی اس مسئلہ میں صوفیاء اور متکلمین کے درمیان بنیادی اختلاف ہے کہ متکلمین کے نزدیک موجودات کا وجود بدیہی ہے لیکن صوفیاء کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔ اس نزاع کی تفہیم میں اس تفریق سے سہولت ہوجائے گی کہ متکلمین وجود کے مصدری معنی لیتے ہیں یعنی ’’ہونا‘‘ جبکہ صوفیاء وجود سے مراد ’’ما بہ الموجودیت‘‘ لیتے ہیں یعنی وجود بمعنی وہ حقیقت جس کی بنیاد پر موجودات موجود ہیں) ۔ تو وجود کا مسئلہ متکلمین کے نزدیک پہلی قسم سے ہے جبکہ صوفیاء کے نزدیک دوسری قسم سے۔
متکلمین کے ہاں جو دوسری قسم کے مسائل ہیں ان میں اور اس میں اتنا فرق ہے کہ انہوں نے عقل کے ساتھ نقل میں صرف نصوصِ قرآن و سُنّت کو لیا ہے مگر صوفیاء نے نصوص کے ساتھ کشف کو بھی۔ مگر اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ یہ مسئلہ عقلی نہ رہے جس طرح رویتِ باری تعالیٰ کا مسئلہ اس کے باوجود کہ اس کا ثبوت نص سے ہوتا ہے‘ عقلی ہے (عقلی غیر محض‘دوسری قسم)۔ زیادہ سے زیادہ اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ یہ مسئلہ کشف سے سند پکڑتا ہے اس لیے ظنی ہے اور ظنیات میں بھی اس کا درجہ نہایت کمتر ہے‘کیونکہ کشف حجیت کے درجات میں سے کسی درجے پر بھی فائز نہیں ہو سکتا (یہاں کشف کے حوالے سے اصولی حکم حضرت تھانویؒ نے بیان فرما دیا ہے) لیکن ظنی میں چاہے وہ کسی بھی درجے کا ہواحتمال صحت کا بہرحال رکھتا ہے۔ اس لیے اس مسئلہ کو قطعی طور پر باطل قرار دینا یا اس مسئلہ کے ماننے والوں کو حتمی طور پر گمراہ قرار دینا غلو کا اظہار ہو گا ۔ یہ اولیاء اللہ سے عداوت کے زمرے میں آئے گا جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے جنگ کے اعلان کی وعید ایک صحیح روایت میں آئی ہے۔
علماء ِ ظاہر (مراد متکلمین ہیں جو کشف و ذوق سے اتنی مناسبت نہیں رکھتے) نے ممکنات و حوادث کے وجود کی جو کیفیت بیان کی ہے وہ قطعی نہیں ہے۔ اگر وہ قطعی ہوتی تو صوفیاء کے موقف کو باطل قرار دینا درست ہوتا لیکن چونکہ ایسا نہیں ہے اس لیے یہ مسئلہ سب کے نزدیک ظنی ہی رہا۔ البتہ یہ ظنیت اہلِ ظاہر کے نزدیک پہلی قسم سے ہے اور اہلِ باطن کے نزدیک دوسری قسم سے( اہل ظاہر کے نزدیک پہلی قسم میں ظنیت سے مراد غالباًیہ ہے کہ عقل وہاں لزوم کا حکم تو نقل یا کشف کی مدد کے بغیر کرتی ہے لیکن جن دلائل کی بنیاد پر کرتی ہے وہ قطعی نہیں ہوتے۔ واللہ اعلم !) بہر حال عارفین اہلِ تحقیق نے ان غلطیوں کی اصلاح اس طرح فرمائی کہ ان دونوں مسئلوں (وحدت الوجود و الشہود) کا اپنے بیان سے کلامی ہونا ظاہر فرما دیا۔
ان تمام بیانات میں سب سے واضح اورقریبی بیان حضرت مجدد الف ِثانیؒ کا ہے جسے انہوں نے اپنے مکتوبات میں ظاہر فرمایا ہے۔ چونکہ اس میں بھی اس فن (نظری تصوف‘جس میں حقائق سے عقل و کشف کی مدد سے بحث کی جاتی ہے) کی بہت سی اصطلاحات آگئی ہیں اس لیے وہ بیان مشکل ہے اور اہلِ ظاہر کے لیے اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے میرے دل میں یہ آیا کہ اس فائدے کو عام اور مکمل کرنے کے لیے اس مسئلے کا خلاصہ کردیا جائے جس کا اصل ماخذ مجدد صاحبؒ کے مکتوبات کی جلد دوم کا پہلا مکتوب ہے۔ میںچاہتا ہوں کہ اس مسئلہ کو درسی اصطلاحات میں لکھ دوں تاکہ اس سے ایسی اجنبیت نہ ہو جو ضرر کا باعث ہو۔ اس کو بھی انہی مسائل کی طرح لیا جائے جن کے بارے میں نقل خاموش ہے جبکہ عقل ان کی صحت کا احتمال اجمالی درجے میں رکھتی ہے اور تفصیلی درجے میں اس کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتی۔ احتیاط تو اس میں ہے کہ چونکہ اس مسئلے کی بنیاد کشف پر بھی ہے اس لیے اس کو اس سے بھی کم درجے میں قرار دیا جائے لیکن اس سے اتنا تو ہوگا کہ اولیاء کے حق میں بدزبانی و بدگمانی سے تو بچیں گے۔ اللہ ہی بچانے والا ہے ہر ناسمجھی اور گمراہی سے۔
اصل مقصود کا بیان
تمام اہلِ حق بلکہ تمام آسمانی ادیان کی طرف نسبت رکھنے والے جو عالم کو حادث بالذات اور حادث بالزمان مانتے ہیں (یہ تقسیم متکلمین کی نہیں بلکہ حکماء کی ہے۔ متکلمین جب کسی شے کوحادث کہتے ہیں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ شے اپنے وجود کے لیے علت کی محتاج بھی ہے اور مسبوق بالعدم بھی ہے یعنی اپنے ہونے سے پہلے وہ زمانی طور پر معدوم تھی۔ حکماء ان دو مطالب کو الگ الگ بیان کرتے ہیں۔ حادث بالذات ان کے ہاں وہ ہے جو اپنی ذات کے لیے علت کا محتاج تو ہے مگر غیر مسبوق بالعدم ہے اورحادث بالزمان مسبوق بالعدم ہوتا ہے۔ حضرت تھانوی نے دونوں کو الگ الگ اس لیے بیان کیا کہ بات واضح ہو جائے کہ عام طور پر تمام آسمانی ادیان کی طرف نسبت رکھنے والے عالم کو ان دونوں معانی میں حادث مانتے ہیں ۔ ہاں کچھ منحرف فرقوں کی الگ بات ہے) کہ عالَم پہلے مکمل طور پر معدوم تھا‘پھر اللہ تعالیٰ کی تخلیق و ایجاد سے موجود ہوا۔البتہ اس موجود ہونے یعنی عالَم کے وجود کے ساتھ اتصاف و تعلق کی کیفیت میں اختلاف ہے۔ اس بارے میں چار اقوال و آراء ہیں ۔ ایک علمائِ ظاہر کا‘ دوسرا بعض حکمائے اسلام کا ۔تیسرا وحدت الوجود کے قائلین کا جن کے مشہور رئیس شیخِ اکبر ابنِ عربیؒ ہیں۔ اجمال کے ساتھ اس دعویٰ کا ظہور پہلے بھی کچھ بزرگوں سے ہوا ہے جیسے بایزید بسطامی ؒ کا’’ انا الحق وسبحانی ‘‘کہنے کا واقع مشہور ہے لیکن اس دعویٰ میں اجمال بھی تھا اور ابہام بھی تھا۔ مکمل تفصیل سب سے پہلے شیخِ اکبر ابنِ عربیؒ کے ہاں ہی ظاہر ہوئی ہے۔ چوتھا قول وحدت الشہود کے قائلین کا ہے جن کے امام حضرت مجدد الف ِثانیؒ ہیں۔
حضرت مجدد صاحبؒ سے پہلے دو ہی اقوال معروف تھے۔ اکثریت پہلے قول پر تھی جو کہ علمائے ظاہر اور متکلمین کا تھا اور اقلیت تیسرے قول (وحدت الوجود / شیخ ابنِ عربیؒ) کی قائل تھی۔ اس تیسرے قول میں نہایت احتیاط کی ضرورت تھی (مگر عوام اور شاعروں کے ہتھے چڑھنے کی بنا پر) اس میں بگاڑ پیدا ہوگیا اور اس نے کفر و زندقہ کی صورت اختیار کرلی۔ علماء کو چونکہ یہ لوگ کشف سے خالی اور ناواقف سمجھتے تھے اس لیے ان کے قول کو توجہ کے لائق نہ سمجھتے اور نہ مانتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا ذریعہ حضرت مجدد صاحبؒ کو بنایا اورکشف کے ذریعے ان پر اس مسئلے کی ایک خاص کیفیت ظاہر ہوئی جس کو انہوں نے بیان کیا۔ چونکہ ان کا صوفی اور صاحبِ کشف ہونا سب کے ہاں مسلّم تھا‘اس لیے ان کی اتنی زیادہ مخالفت نہیں کی گئی ۔اس طرح اس مسئلے میں کفر و زندقہ کی جو علامات ظاہر ہوگئی تھیں ان کی اصلاح ہو گئی۔ اگرچہ علمائِ ظاہر مجددصاحبؒ کی بھی کامل موافقت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے قول کو بھی وہ اپنے قول سے ایک گونہ فاصلے پر پاتے ہیں۔ دونوں فریقین میں جو محتاط لوگ ہیں وہ اسی اصول پر عمل کرتے ہیں کہ جس چیز کو اللہ نے مبہم رکھا ہے اس کو مبہم ہی رہنے دو۔ جن حضرات پر کشف سے کچھ باتیں کھل جاتی ہیں تو گویا ان کو اس مسئلے میں ابہام نہیں رہتا تو وہ بھی اس اصول کو ترک کرنے والے شمار نہ ہوں گے:{ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖ ۭ} (الاسراء:۸۴)’’ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے اعتبار سے عمل کرتا ہے۔‘‘
اب عالم کے وجود کے ساتھ اتصاف کی ان چاروں کیفیتوں کا مختصر بیان کرتا ہوں ۔آسانی اور وضاحت کے لیے شروع میں ایک مثال بیان کرتا ہوں جس سے وجود سے اتصاف کی کیفیتوں کے بارے میںان سب اقوال کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ وہ مثال آئینہ کی ہے جو سورج کے بالکل سامنے ہے ۔ یہ بے قلعی شدہ آئینہ ہے یعنی شیشہ ہے اور اس کو سورج کے سامنے رکھنے سے چار کیفیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ نورِ آفتاب سے منور ہوجاتا ہے۔ یہ نور جس سے آئینہ متصف ہو کر منور ہو چکا ہے‘نورِ آفتاب سے الگ تو نہیں ہے ۔یہ ایک ہی نور ہے جو آفتاب کی ذاتی صفت اور آئینہ کی عرضی صفت ہے(ذاتی صفت وہ ہوتی ہے جو ذات کا اقتضاء ہو یعنی ذات میں وہ صفت لازمی پائی جانی چاہیے اور عرضی صفت وہ ہوتی ہے جو کسی دوسرے کے ذریعے حاصل ہوئی ہو اور ذات کا اقتضاء نہ ہو)اور اسی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ اگر آئینہ کو آفتاب کے سامنے سے ہٹا لیا جائے تو وہ منور نہیں رہتا۔ دوسری کیفیت یہ ہے کہ آئینہ آفتاب کی حرارت سے گرم ہوجاتا ہے۔ یہ حرارت جو اب آئینہ کو حاصل ہوگئی‘ آفتاب کی حرارت سے الگ ہے اگرچہ یہ آفتاب ہی سے حاصل ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ایسا ہوتا ہے کہ اگر آفتاب کے سامنے سے آئینہ کو ہٹا لیا جائے تب بھی وہ گرم رہتا ہے۔ تیسری کیفیت یہ ہے کہ آفتاب کی گول ٹکیا آئینہ کے اندر منعکس نظر آتی ہے اور دلیل سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اس میں جو نظر آرہا ہے وہ آفتاب کا عین نہیںہے‘ جیسا کہ ظاہر ہے ‘اور نہ اس کا سایہ اور مثال ہے بلکہ وہم و خیال ہے۔ میبذی کے حاشیہ(’’ہدایت الحکمہ‘‘ حکمت و فلسفے کی مشہور کتاب ہے۔ اس کے مصنف اثیر الدین ابہری ہیں‘ جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ امام رازی کے شاگرد تھے۔ ملّا میبذی نے اس پر حاشیہ لکھا ہے۔ یہ حاشیہ ابھی بھی درس نظامی کے نصاب میں شامل ہے) میں بھی اس کی تشریح کی گئی ہے کہ آئینہ میں جو خیالی صورت نظر آتی ہے وہ محض وہم ہے اور وہم اس کو اس لیے فرض کر لیتا ہے کہ اس کو ایک گونہ استقامت حاصل ہوتی ہے اور وہ صورت کے سامنے ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر دیکھنے والا اپنی آنکھ بندکرے تو پھر آئینے کے اندر کچھ بھی نہیں رہتا ۔اگر اس میں کوئی صورت ہوتی تو آنکھ بند کرنے سے معدوم کیوں ہوتی؟ دراصل جب آئینہ پر آنکھ کی شعاع پڑتی ہے تو آئینہ سے ٹکرا کر سورج کی طرف لوٹتی ہے اور اس طرح سے خود سورج ہی نظر آرہا ہوتا ہے مگر وہم یوں ہوتا ہے کہ آئینہ کے اندر کوئی چیز ہے ‘ورنہ حقیقت میں کچھ بھی نہیں ہے۔ جب حقیقت یہ ہے تو ظاہر ہے کہ آنکھ بند ہونے سے جب شعاع آئینہ پر نہ پڑے گی تو آفتاب کی طرف بھی نہ لوٹے گی(یہ دیکھنے کا پرانا تصوّر ہے۔ جدید سائنس اس کو اس طرح بیان نہیں کرتی مگر اس سے نفس مثال پر کوئی فرق نہیں پڑتا) اور آئینہ میں آفتاب کے نظر آنے کا معیار اس بات پر تھا تو اب آفتاب کی صورت بھی آئینہ میں ظاہر نہ ہوگی۔ چوتھی صورت یہ ہے کہ اس آئینہ کا سایہ اس کے مقابلہ میں زمین یا دیوار وغیرہ پر پڑتا ہے ‘جس کا وجود نہ تو روشنی اور حرارت کی طرح واقعیت رکھتا ہے اور نہ جو عکس آفتاب کی ٹکیا کا آئینہ میں بن رہا تھا اس درجے میں غیر واقعی ہے بلکہ ان دونوں کے درمیان میں ہے۔ روشنی اور حرارت کے مقابلے میں تو ضعیف و کمزور اور غیر مستقل مگر آئینہ میں دکھائی دینے والے عکس کے مقابلے میں قوی و مضبوط اور مستقل ۔ مثال یہاں مکمل ہوئی۔
پہلی کیفیت میں آئینہ کے نور کو سورج کے نور کا عین کہیں گے۔(عین کہنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کو ایک کہا جائے۔ان کو ایک دوسرے سے الگ اور ممتاز نہ سمجھا جائے۔ عینیت من کل الوجوہ بھی ہوتی ہے یعنی ہر اعتبار سے عین ہونا اور عینیت من بعض الوجوہ بھی ہوتی ہے یعنی بعض اعتبارات سے عین ہونا۔ عینیت من کل الوجوہ میں دوئی کا تصوّر ہی محال ہے۔ جہاں دوئی کا تصوّر ممکن ہے وہاں عینیت من بعض الوجوہ ہوتی ہے۔ یہاں بھی عینیت سے مراد من بعض الوجوہ ہے۔ واللہ اعلم!) دوسری کیفیت میں آئینہ کی گرمی کو سورج کی گرمی کا غیر کہیں گے اور اسے آئینہ کی وہ صفت مانیں گے جو بعد میں اس کو حاصل ہو گئی۔ تیسری کیفیت میں جو عکس آئینہ کے اندر سورج کا نظر آرہا ہے اس کو محض خیالی کہیں گے اور اس کی حقیقت سے واقفیت کے بعد اس کو ایک اعتبار سے معدومِ محض کہنا بھی صحیح ہوگااور ایک اعتبار سے عین شمس کہنا بھی صحیح ہوگا۔ چوتھی کیفیت میں جو سایہ وجود میں آرہا ہے اس کو آئینہ کی صورت اور مثال کہیں گے۔ یہ سب احکامات بالکل واضح اور ظاہر ہیں۔ یہ مثال اور اس کی کیفیات کے مختلف احکام جب سمجھ میں آگئے ہیں تو اب اللہ تعالیٰ کی مدد اور توفیق سے اصل مقصود بیان کرتا ہوں۔
علمائِ ظاہر کہتے ہیں کہ تمام عالم پہلے معدوم تھا ‘اللہ تعالیٰ نے ان معدومات کو اپنے اپنے وقت پر (وقت و زمان خود حادث ہے)اپنی قدرت اور ارادہ سے وجودِ حادث کے ساتھ متصف کردیا(اس اتصاف سے وہ معدومات موجودات ہو گئے)۔ ان موجودات میںجو استقلال کا مشاہدہ ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو اپنے پیدا ہونے اور باقی رہنے کے لیے موجد و محدث یعنی پیدا کرنے والے کی حاجت نہیں ہے کہ یہ تو واجب کی خصوصیات میں سے ہے(واجب کو کسی دوسرے کی احتیاج نہیں ہوتی ‘وہ اپنے آپ سے ہوتا ہے )بلکہ اس استقلال سے مراد یہ ہے کہ یہ حادث وجود نہ کسی موجود کا عین ہے اور نہ اس کاظل(یعنی وہ فی الحقیقت موجود ہے‘کسی حقیقی وجود کا عین یا اس کا سایہ نہیں ہے)۔ پس اس وجود کے ساتھ اتصاف کے نتیجے میں وہ معدومات حقیقی طور پر موجود ہو گئے۔ یہ وجود واجب اور ممکن دونوں کو حاصل تو ہے مگر تشکیک کے ساتھ۔ واجب پر اولیت اور اولویت کے ساتھ اور ممکن کے لیے بغیر اولیت اور اولویت کے۔[اس رائے کے مطابق وجود کلی ہے۔ کلی اس تصوّر مفہوم کو کہتے ہیں کہ جو شرکت غیر سے مانع نہ ہو۔ یعنی وہ مفہوم جو بہت سے افراد و جزئیات کو اپنے احاطہ میں لے سکے۔ مثلاً تصوّر انسان ایک کلی ہے جو بہت سے افراد کا احاطہ کرتا ہے۔ زید بھی انسان ہے‘ بکر بھی انسان ہے ‘علی بھی انسان ہے۔ مگر زید جزئی ہے۔ یہ زید جو ہمارے سامنے ہے ‘ ایک خاص تشخص کے ساتھ ہے۔ یہ اپنے مفہوم میں کسی دوسرے کو شریک نہیں کرتا۔ لیکن انسان یا انسانیت کا تعلق زید‘بکر‘ احمد وغیرہ سے برابر کی سطح پر ہے۔ زید بھی اتنا ہی انسان ہے جتنا کہ بکر۔ تو انسان کی کلی کو ہم کہیں گے کہ یہ کلی مشکک نہیں ہے بلکہ کلی متواطی ہے۔ اب وجود کی کلی کو دیکھیے ۔ مفہومِ وجودکا نفسِ تصوّر شرکت ِغیر کا انکار نہیں کرتا۔ واجب بھی موجود ہے ‘ممکن بھی موجود ہے لیکن کیا ان کو ایک جیسا وجود حاصل ہے ؟ یقیناًنہیں! تو یہاں ہم کہیں گے کہ وجود واجب اور ممکن کو حاصل تو ہے مگر تشکیک کے ساتھ یعنی ان کو برابر کے درجے کا یا ایک ہی سطح کا وجود حاصل نہیں ہے۔ واجب کے لیے وجود پہلے(اوّلیت) بھی ہے اور اولیٰ(اولویت) بھی ہے جبکہ ممکن کے لیے نہ پہلے ہے نہ اولیٰ ہے۔ ثانوی درجے پر ہے‘غیر حقیقی اور غیر ذاتی ہے۔ اوّلیت کا معنی یہ ہے کہ بعض افراد کا اتصاف کلی کے ساتھ علت بنے‘ باقی افراد کے اس کلی کے ساتھ اتصاف کے لیے۔ جیسے ذات باری تعالی کا اتصاف وجود کے ساتھ علت ہے باقی موجودات کے وجود کے ساتھ اتصاف کی)پس علمائے ظاہر کے نزدیک ممکنات و حوادث کا وجود کے ساتھ تعلق ایسا ہی ہے جیسے اوپر دی گئی مثال میں آئینہ کے گرمی کے ساتھ متصف ہو جانا کہ یہ اتصاف ہوتا تو حقیقی ہے مگر سورج کی گرمی کا محتاج ہے۔ اور اس کا غیر بھی ہے کہ اس سے بالکل الگ اپنا وجود رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک وجود بھی کلی ہے اور موجود بھی کلی۔ (کلی کا مفہوم ہم پہلے سمجھ آئے ہیں ۔ علمائِ ظاہر کہتے ہیں کہ وجود اور موجودگی دونوں ایسے کلی تصوّرات ہیں جو اپنے مفہوم میں بہت سے افراد کو شریک کرتے ہیں۔ یہ کلی تصوّرات و مفہومات انہی افراد ہی سے اخذ کیے گئے ہیں۔ وجود اور موجود کے تصوّرات موجودات ہی سے منتزع (derive) ہوئے ہیں۔ بس یہ ہے کہ ممکن و واجب کو نہ وجود ایک درجے کا حاصل ہے اور نہ ان کی موجودگی ایک درجے کی ہے۔ ایک کا وجود ذاتی اور حقیقی ہے اور دوسرے کا عرضی اور غیر حقیقی۔]
بعض حکمائے اسلام(مسلمان فلسفی)یہ کہتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے ممکنات کی ماہیات(ماہیت سے مراد حقیقت ہوتی ہے ۔ یعنی وہ جس کی بنیاد پروہ شے دوسری اشیاء سے امتیازحاصل کرتی ہے۔ ماہیت اور وجود کے مباحث مابعدالطبیعیات کے بنیادی مباحث میں سے ہیں کہ ان میں عینیت ہے یا غیریت‘ اصالت وجود کو حاصل ہے یا ماہیت کو وغیرہ) کو وجود دینا چاہا تو ان کو اپنے وجود کے ساتھ (وجودِ باری تعالیٰ) جو اُس کی ذات کے ساتھ قائم ہے‘ ایک خاص نسبت و تعلق پیدا فرما دیا۔ اس نسبت و تعلق کی حقیقت معلوم نہیں۔ کوئی الگ سے وجود ان ماہیات کو حاصل نہیں ہوا‘بس اس نسبت و تعلق کی وجہ سے وہ ماہیات وجود کے ساتھ متصف ہو گئیں۔ ان کے نزدیک ممکنات کا اتصاف وجود کے ساتھ ایسا ہے جیسے اوپر دی گئی مثال میں آئینہ جو روشنی سے متصف ہوا ‘وہ روشنی یا نور جزئی ہے اور حقیقی ہے جس کے ساتھ آفتاب بالذات موصوف ہے اور آئینہ بالعرض۔ (یعنی نور یا روشنی کے مفہوم میں یہاں اشتراک نہیں ہے بلکہ وہ ایک واحد خارجی حقیقت ہے جو کہ سورج کی تو ذاتی صفت ہے لیکن آئینہ کے لیے وہ عطائی صفت ہے۔ یعنی اس کو وہ دی گئی ہے ‘اس کی ذات کا اقتضاء نہیں ہے۔ )بس نور جزئی حقیقی ہے اور منور کلی(یعنی نور کے مفہوم میں تو یہاں اشتراک ممکن نہیں ہے لیکن منور ایک ایسا مفہوم ہے جو بہت سے افراد کو شامل ہو سکتا ہے ۔مثلاً آئینہ بھی منور ہے اور آفتاب بھی۔ آفتاب اپنے ذاتی نور سے منور ہے اور آئینہ آفتاب کے نور سے۔ نور یہاں ایک ہی ہے۔ ) اس طرح یہ لوگ وجود کو جزئی حقیقی کہتے ہیں اور موجود کو کلی(یعنی وجود ایک حقیقت واحدہ ہے ۔ اس سے نسبت رکھنے والے موجودات کثیر ہو سکتے ہیں۔ یعنی موجود ایک کلی تصور ہے جس کے مفہوم میں ایک سے زائد افراد شامل ہو سکتے ہیں)۔ اس کی حقیقت تو ان کو معلوم نہیں ہے مگر دلیل کی وجہ سے اس کے قائل ہو گئے۔ میبذی نے اس کو ’’ھدایۃ الحکمۃ‘‘(اثیر الدین الابہری)کی ایک فصل جس کا عنوان ہے ’’ ممکنات واجب کے ساتھ وجود میں اشتراک نہیں رکھتی ہیں ‘‘میں سب سے پہلے حکماء محققین کا مذہب بیان کیا ہے کہ’’وجود مطلق یعنی ’ہونا‘ طبعی نوع کی طرح نہیں ہے کہ وہ وجود پر جو عینِ ذات ہے اور ممکنات کے وجود پر صادق آئے بلکہ وہ ان پر ایک عرض کی طرح صادق آئے گا تشکیک کے ساتھ۔ ‘‘(یہاں صرف ترجمہ نقل کیا گیا ہے۔ یہ حکماء کا مشہور مذہب ہے۔ غالباًوجود مطلق سے یہاں مراد’ ’ہونا‘‘ ہے‘ صوفیاء کا وجود مطلق مراد نہیں ہے۔ تو وجود مطلق ایک نوع کی طرح نہیں ہے کہ وہ وجود واجب جو عین ذات ہے اور وجود موجودات پر صادق آئے بلکہ وہ عرض‘ جو خارج ازماہیت ہوتی ہے‘ کی طرح لاحق ہو گا وجود واجب اور موجودات ممکنات کو تشکیک کے ساتھ۔ یعنی برابر درجے پر نہیں ہو گا تو واجب اور ممکن کو ایک سطح پر موجود نہیں کہا جاسکتا۔) اس کے بعد ملّا میبذی بعض محقق حکماء کا مسلک ایک عبارت میں نقل کرتے ہیں (مکمل عبارت حضرت تھانوی نے یہاں نقل نہیں کی۔ اس عبارت میں وہی مسلک بیان کیا گیا ہے جو پہلے بعض حکماء یہ کہتے ہیں کہ عنوان سے بیان کیا جا چکا ہے۔ اور اوپر جو پوری عبارت نقل کی ہے اس میں حکماء کا مشہور مذہب بیان کیا گیا ہے جس کا اس رسالہ میں دی گئی مثال اوراس کے ذریعے سے مختلف مواقف کی توضیح و تفہیم سے تعلق نہیں ہے)۔
یہ دو مذاہب علماء اور حکمائِ اسلام کے تھے ۔ اب جہاں تک بات ہے اہلِ کشف کی تو وہ اپنے کشف اور ذوق کی بنیاد پر ممکنات سے وجود کی مکمل طور پر نفی کرتے ہیں(یعنی ممکنات کو حقیقتاً وجود حاصل ہی نہیں ہے)۔ کشف کے دعویٰ کو پرکھنے کا ذریعہ چونکہ ہمارے پاس نہیں ہے اس لیے صرف ان کے قول ہی کی تصدیق کی جاتی ہے ۔باقی اپنے ذوق کو انہوں نے اس طرح بیان کیا ہے کہ تمام خیرات اور کمالات کی اصل و بنیاد وجود ہے اور تمام شرور و نقائص عدم سے پیدا ہوتے ہیں۔ جب تمام خیرات و کمالات اللہ تعالیٰ ہی کو حاصل ہیں تو ان کی اصل و بنیاد یعنی وجود بھی صرف اللہ تعالیٰ ہی کی صفت ہو گا۔ ممکنات کے لیے وجود کو ثابت کرنا ایک درجے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شراکت کو ظاہر کرتا ہے۔ اگرچہ علماء کا جواب بالکل واضح ہے کہ جب وجود اور اس کے تابع خیرات و کمالات اللہ تعالیٰ کے لیے اس کی اپنی ذات کے اقتضاء سے اور درجہ کمال پر ثابت ہیں اور ممکنات کے لیے یہ ان کی ذات کا اقتضاء نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کیے گئے ہیںاور درجہ نقص پر ثابت ہیں تو اس سے شراکت تو ثابت نہیں ہوتی ‘مگر صوفیاء اپنے اس دعویٰ میں ذوق کی بات کرتے ہیں اس لیے اس معاملہ میں ان سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا ۔ یہ ذوق کسی قطعی عقلی یا نقلی دلیل کے خلاف بھی نہیں ہے‘اس لیے ان کے لیے اس کے قائل ہونے کی گنجائش ہے۔ (اگر کسی دلیل قطعی کی مخالفت ہوتی تو پھر صوفیاء اہلِ کشف کا ردّ کرنا ممکن ہوتا کہ ایک معروضی بنیاد ہوتی جبکہ ایسا نہیں ہے تو معاملہ درجہ امکان میں ہے ۔ جب درجہ امکان میں ہے تو قائل ہونے کی گنجائش ہے۔ حضرت تھانوی ؒ نے گنجائش کا لفظ ہی استعمال کیا ہے۔ یہاں سے ہمیں حضرت کی کمال احتیاط کا اندازہ ہوتا ہے کہ علمائِ ظاہر اور صوفیاء ہر دو طبقوں پر حرف نہ آئے۔ )دلیل عقلی کے خلاف نہ ہونا تو ظاہر ہے۔ چنانچہ بعض حکماء خود ممکنات سے اتصاف بالوجود کی نفی کرتے ہیں‘ جیسا کہ میں نے فاضل میبذی کی عبارت پہلے نقل کی ہے۔(اس عبار ت سے اتصاف بالوجود کی نفی اس حیثیت سے ہوتی ہے کہ وجود اس کا ذاتی نہیں ہوتا‘باقی ممکنات حقیقتاًموجود ہوتے ہیں ۔ یہیں سے صوفیاء اور حکماء کا فرق واضح ہوتا ہے کہ صوفیاء کے ہاں ممکنات حقیقتاً موجود ہی نہیں ہیں۔ واللہ اعلم!)اگرچہ ان کے دلائل کے بعض مقدمات میں کلام ہوسکتا ہے مگر اس مسئلہ کا خلافِ عقل نہ ہونا تو ثابت ہو جاتا ہے ۔ خلافِ نقل نہ ہو نے کی وجہ یہ ہے کہ نقل ایسی باریک باتوں اور تفصیلات کو بیان نہیں کرتی ‘ وہ موجود ہونے کے ساتھ جو احکامات متعلق ہیں ان کو ظاہر کرتی ہے۔ وہ احکامات وجود کے ساتھ حقیقی اتصاف میں بھی ثابت ہوتے ہیں اور مجازی میں بھی۔ اس سے تو کسی کو انکار نہیں ۔ اس لیے یہ مسئلہ خلافِ نقل بھی ثابت نہ ہوا۔
خلاصہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک وجود صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ثابت ہے ۔ ممکنات کو اگرچہ وہ موجود کہتے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ وجود ان کی صفت ہے بلکہ ان کی مراد یہ ہے کہ ممکنات کو وجود سے ایک نسبت اور تعلق حاصل ہے۔اس کی حقیقت تو معلوم نہیں مگر بعض جہات اور احکام معلوم ہوئے ہیںجن کو مختلف طریقے پر بیان کر دیا گیا ہے ‘جیسا کہ آگے وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے بیان میں واضح ہو جائے گا۔ محض حقیقت معلوم نہ ہونے سے جو اشکالات و اعتراضات پیش کیے جاسکتے ہیں تو اس سے تو متکلمین بھی محفوظ نہیں ۔جیسے مسئلہ ایجاد بالاختیار (اللہ تعالیٰ کا اپنی قدرت و ارادے سے مخلوقات کو پیدا کرنا)پر فلاسفہ نے متکلمین پر سخت اشکالات و اعتراضات کیے ہیں مگر ان کے کافی جوابات متکلمین نے دیے ہیں تو ان اعتراضات سے ان کو کوئی نقصان نہیں ہوا(فلاسفہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کو موجب بالذات یا علت تامہ کہتے ہیںکہ اس سے موجودات اور معلولات کا صدور ایجاد و اختیار سے نہیں ہوتا بلکہ اس کی ذات کا اقتضاء ہوتا ہے۔ یعنی یہ ممکن نہ تھا کہ مخلوقات وجود میں نہ آتیں۔ متکلمین اہلِ سُنّت کے نزدیک اللہ تعالیٰ پر کچھ بھی واجب نہیں ہے)۔ اسی طرح صوفیاء نے بھی اعتراضات کے جوابات دیے ہیں جن میں سے کچھ کا ذکر آگے آئے گا۔ یہ صوفیاء کا مکمل مسلک ہے جس پر تما م صوفیاء متفق ہیں اور وجود کے تعدد کے انکار پر کچھ حکماء بھی صوفیاء کے ساتھ متفق ہیں۔ صوفیاء کے آگے اس مسئلے پر دو مذاہب ہیں۔ایک مذہب شیخِ اکبر ابن عربیؒ کا ہے اور دوسرا مذہب حضرت مجدد الف ثانیؒ کا ۔ (جاری ہے)
tanzeemdigitallibrary.com © 2025