(تعلیم و تعلم) مباحث ِعقیدہ (۱۹) - مؤمن محمود

9 /

مباحث ِعقیدہ(۱۹)مؤمن محمود

نبوت ورسالت کا دارومدار :اللہ تعالیٰ کی صفت ِکلام
اللہ تعالیٰ کی صفت کلام پرنبوت ورسالت کادارومدار ہے ۔یعنی اگر اللہ تعالیٰ کامتکلم ہوناثابت ہوگاتورسول کی رسالت ثابت ہوگی‘ کیونکہ رسول کی رسالت کامطلب ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے رسول کی زبانی اپناکلام پہنچایا۔گویاصفت کلام کاثبوت اس بات کے لیے ضروری ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ مخلوق سے گفتگو کرتے ہیں۔ مخلوق تک اپناپیغام پہنچاتے ہیں اورانہیں مکلف وجود بناتے ہیں۔ سیدناموسیٰ علیہ السلام کی قوم نے جب بچھڑے کی عبادت کی تواللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس بچھڑے کے معبود نہ ہونے کے جودلائل دیے ان میں سے ایک دلیل یہ تھی :
{اَفَلَا یَرَوْنَ اَلَّا یَرْجِعُ اِلَیْہِمْ قَوْلًا لا وَّلَا یَمْلِکُ لَہُمْ ضَرًّا وَّلَا نَفْعًا(۸۹)}(طٰہٰ)
’’کیایہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ یہ بچھڑا ان کی طرف کوئی بات لوٹاتانہیں ہے (ان سے کلام نہیں کرتا‘ان سے خطاب نہیں کرتا)اورنہ ان کے لیے ضرر اورنفع کااختیار رکھتاہے ۔ ‘‘
گویااللہ سبحانہ و تعالیٰ یہ بتارہے ہیں کہ نفع اورضرر کامالک ہوناخود اللہ کے لیے ضروری ہے ۔اسی طریقے پر صفت ِکلام اورقول اورخطاب کرنابھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بنیادی صفات میں سے ہے ۔ صفت ِکلام کے ثبوت کے لیے امام الحرمین ابوالمعالی الجوئینی علیہ الرحمۃ اورامام الغزالی علیہ الرحمۃ نے جوطریق عقلیہ اختیار کیاوہ بھی ہم نے دیکھاکہ کیوں رسالت کی ضرورت ہے۔
وحی اور کلام اللہ کی حاجت : امام رازیؒ کا استدلال
امام الرازی علیہ الرحمۃ نے آیات زیر مطالعہ کے مابین ایک بہت خوب صورت ربط بیان کیاہے ۔یعنی {اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ} سے گفتگو شروع ہورہی ہے :
{اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تُمْنُوْنَ (۵۸) ئَ اَنْتُمْ تَخْلُقُوْنَہْٓ اَمْ نَحْنُ الْخٰلِقُوْنَ(۵۹)}(الواقعۃ)
’’کیاتم نے غور کیاکہ جونطفہ تم ٹپکاتے ہو! کیا تم اس کے خالق ہویاہم خالق ہیں ؟‘‘
وہ فرماتے ہیں کہ جتنی باتیں ہوئی ہیں ان پراگر غور کیجیے توپہلے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انسان کے جسدی وجود کاذکر فرمایا‘اس کی ابتدا کاذکرفرمایااوروہ ایک نطفہ سے ہوتی ہے ۔ اس کے بعد انسان کی بقا کاجتنابھی سامان ہے وہ زمین سے آتاہے ۔ چنانچہ آگے فرمایا:
{اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَحْرُثُوْنَ (۶۳)ئَ اَنْتُمْ تَزْرَعُوْنَہٗٓ اَمْ نَحْنُ الزّٰرِعُوْنَ (۶۴)}
’’کیا تم نے کبھی غور کیا کہ یہ بیج جو تم بوتے ہو! کیا تم اسے اُگاتے ہو یا ہم اُگانے والے ہیں؟‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیں کہ پانی انسان کی بنیادی حاجت ہے:
{اَفَرَءَیْتُمُ الْمَآئَ الَّذِیْ تَشْرَبُوْنَ (۶۸) ءَاَنْـتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ(۶۹)}
’’کبھی تم نے غور کیا کہ وہ پانی جو تم پیتے ہو!کیا بادلوں سے تم نے اسے برسایا ہے یا ہم ہیں برسانے والے؟‘‘
اس کے بعد فرماتے ہیںکہ غذا جوپانی اورزمین سے حاصل ہوتی ہے ‘اس کو پکانے کے لیے آگ ضروری ہے :
{اَفَرَئَ یْتُمُ النَّارَ الَّتِیْ تُوْرُوْنَ (۷۱) ئَ اَنْتُمْ اَنْشَاْتُمْ شَجَرَتَہَآ اَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُوْنَ(۷۲)}
’’کبھی تم نے سوچا کہ وہ آگ جو تم جلاتے ہو!کیا اس کے درخت کو تم نے پیدا کیا ہے ‘ یا اس کے پیدا کرنے والے ہم ہیں؟‘‘
یعنی آگ کابیان ہوگیا۔فرماتے ہیں کہ ان آیات (۶۳۔۷۲)میں انسان کی ابتدا اورپھراس کی بقا کاجتناسامان ہوسکتاہے اس کا بیان فرمادیاگیالیکن یہ ابتدا اوربقا سب جسدی ہے ۔یعنی ہمیں زمین سےاپنے جسد کی بقا کے لیے غذا ‘پانی اورآگ کی حاجت ہے اور ہمارے وجود کی ابتدا نطفے سے ہوتی ہے۔یہ باتیں بیان کرنے کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ چونکہ انسان کااصل وجودجسدی نہیں بلکہ وہ توروح ہے جواللہ کی طرف سے پھونکی گئی ہے‘لہٰذااس کی ربوبیت کابیان فرمانے سے پہلے قسم کھائی ہے :
{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (۷۵)}
’’پس نہیں! قسم ہے مجھے اُن مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔‘‘
یعنی جس طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ تمہارے جسد اوراس کی بقا کی ربوبیت کاسامان بہم پہنچارہاہے اسی طریقے پراس نے تمہارے اصلی وجود کی تربیت کااہتمام بھی فرمایاہے ۔وہ اصل وجود تمہاری روح ہے اوروہ اہتمام وحی ہے ‘وہ کلام اللہ ہے ۔ لہٰذا یہ ساری باتیں توہمارے سامنے ہیں کہ ہم کھاتے ہیں ‘پیتے ہیں ‘دیکھتے ہیں ۔ لیکن کیاکلام اللہ یعنی قرآن مجید ہماری اس طرح کی حاجت ہے کہ نہیں ‘یہ بات پردے میں ہے ۔ اگر ہم کھائیں گے نہیں تومر جائیں گے لیکن اگر قرآن کی تلاوت نہیںکریں گے یااللہ کے کلام سے استفادہ نہیں کریںگے تووقتی طورپرکچھ بھی نہیں ہوگا۔ بہرحال وہاں قسم کھائی ہے ‘باقی جگہوں پرقسم نہیں کھائی۔ چنانچہ فرمایا:
{فَلَآ اُقْسِمُ بِمَوٰقِعِ النُّجُوْمِ (۷۵)}
’’پس نہیں! قسم ہے مجھے اُن مقامات کی جہاں ستارے ڈوبتے ہیں۔‘‘
{وَاِنَّہٗ لَقَسَمٌ لَّوْ تَعْلَمُوْنَ عَظِیْمٌ(۷۶)}
’’اور یقیناً یہ بہت بڑی قسم ہے اگر تم جانو!‘‘
کس بات کااثبات مقصود تھا‘مقسم علیہ کیاہے ؟ارشاد فرمایا:
{اِنَّہٗ لَقُرْاٰنٌ کَرِیْمٌ (۷۷) فِیْ کِتٰبٍ مَّکْنُوْنٍ (۷۸) لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ (۷۹)}  

’’یہ قرآن ایک عزت والی کتاب ہے ‘ایک پوشیدہ یاچھپی کتاب (لوحِ محفوظ)میں درج ہے ۔اس تک نہیں پہنچ سکتے مگر وہی جوبہت زیادہ پاک صاف ہیں( یاجن کوپاک صاف کردیاگیاہے )۔‘‘
خود پاک صاف ہوکرانسان نہیں پہنچ سکتاجب تک اللہ کی توفیق شامل حال نہ ہواوراللہ ہی مطہر نہ ہو‘پاک صاف نہ کرے ۔آگے فرمایا:
{تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۸۰) }
’’یہ ربّ العالمین کی طرف سے اتارا گیاہے ۔‘‘
{اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ (۸۱)}
’’کیااس کلام سے تم غفلت برتتے ہو۔‘‘
{وَتَجْعَلُوْنَ رِزْقَکُمْ اَنَّکُمْ تُکَذِّبُوْنَ(۸۲)}
’’اوراپنانصیب یہ بناتے ہوکہ تم اسے جھٹلاتے ہو!‘‘
گویایہاںبھی اللہ سبحانہ وتعالیٰ کلام اللہ (وحی) کی حاجت کابیان فرمارہے ہیںکہ جس طرح تمہارے جسدی وجود کی بقا کے لیے سامان وافر پہنچایاہے اسی طریقے پرتمہارے روحانی وجودکی بقا کااہتمام بھی قرآن مجیدکی صورت میں فرمایا۔ امام الرازی ؒ نے یہ ربط بیان فرمایا اوراس کے ذریعے سے استدلال فرمایاکہ وحی اورکلام اللہ کی حاجت کیاہے ۔
کلام ِنفسی اور کلام ِلفظی
صفت ِکلام اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ازلی اوروجودی صفت ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ آمراورناہی ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے اللہ سبحانہ وتعالیٰ انسان کو مکلف کرتے ہیں ‘خبردیتے ہیں ۔ لفظ کلام کے دواطلاقات ہیں۔ان دواطلاقات میں سے حقیقت کیاہے ‘مجاز کیاہے؟ ایک اطلاق ہوتاہے کلام پرنطق کاجوہم بولتے ہیں۔جوہمارے منہ سے آواز نکلتی ہے ‘الفاظ نکلتے ہیں یاالفاظ لکھتے ہیں اس پربھی کلام کااطلاق ہوتاہے ۔ کلام کادوسرا اطلاق ہے ان معنی پرکہ جوابھی الفاظ کالبادہ اوڑھنے سے پہلے ہمارے اندر موجود ہیں۔اس کواہل منطق نطق داخلی کہتے ہیں ۔ یعنی جب وہ بولتے ہیں کہ ہم انسان کوحیوانِ ناطق کہتے ہیں تواس سے مراد اُن کی یہ نہیں ہوتی کہ بولنے والاحیوان‘ کیونکہ جوگونگا ہے(بول نہیں سکتا) وہ بھی حیوانِ ناطق ہے ۔ارسطو نے rational animal کی اصطلاح استعمال کی‘جس میں یہ والی گویائی مراد نہیں تھی بلکہ مراد تھی نطق باطنی۔ اہل منطق اس سے مراد لیتے ہیں کہ جس کونطق باطنی حاصل ہے ‘ جس کوکلامِ نفسی حاصل ہے ‘ جس کو کلام داخلی حاصل ہے ‘جس کے اندر معنی موجود ہیں‘ جس کے اندر تعقل کی صلاحیت ہے ‘جس کے اندر تجرید کی صلاحیت ہے ۔ جیسے ایک بچپن سے گونگاہے ‘اس نے کبھی کوئی لفظ نہیں سناہوتا‘کیونکہ وہ بہرابھی ہوتا ہے لیکن پھربھی اس کے اندر معنی توہوتے ہیں جن کو وہ کسی طریقے پرپہنچادیتاہے۔ لہٰذا وہ متکلم ہوتاہے ۔ وہ اگرچہ بول نہیں سکتا‘وہ نطق ظاہری نہیں رکھتالیکن اس کے اندر صفت کلام یعنی کلام نفسی پایاجاتاہے ۔
جو معانی انسان کے اندر ہوتے ہیں دراصل یہ کلام کی حقیقت ہے یا نطق ظاہری کلام کی حقیقت ہے ‘ اس میں اہلِ سُنّت اورمعتزلہ کے درمیان اختلاف ہوگیا۔اہلِ سُنّت نے کہا کہ لفظ کلام کااطلاق کلام نفسی پرحقیقتاً جبکہ کلام لفظی پرمجازاً ہوتاہے ۔ معتزلہ نے کہا کہ نہیں ‘کلام کی حقیقت کلامِ لفظی کی ہے‘ کلام نفسی کی نہیں۔لہٰذا انہوں نے کلام نفسی کو ماننے سے انکار کردیا۔ لفظ توبہرحال مخلو ق ہوتاہے ‘صوت مخلوق ہے ۔لہٰذا جب قرآن کااطلاق انہوں نے صرف کلام لفظی پرکیاتوان کا ایک موقف یہ بناکہ یہ کلام مخلو ق ہے ۔ لہٰذا ان کا مشہور قو ل ہے : ’’کلام اللہ مخلوق‘‘یعنی یہ اللہ کاکلام ہے اوریہ مخلوق ہے جس کی نفی سلف اورخلف نے کی ہے ۔سلف سے بھی بہت سے اقوال ملتے ہیں ۔ایک صاحب کو سیدناعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ یاکسی اورصحابی نے دیکھاکہ وہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے خطاب کررہے ہیں : یاربّ القرآن !’’اے قرآن کے ربّ!‘‘ انہوں نے منع فرمادیاکہ تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کویہ نہ کہوکہ وہ قرآن کاربّ ہے بلکہ قرآن تواسی سے ہے ‘یعنی اس کی صفت ِکلام ہے ۔جب معتزلہ نے لفظ اورصوت کوصفت کلام قرار دے دیاتوقرآن مخلوق ہوگیا۔اہل سنت نے کہاکہ ہم تمہاری آدھی بات کومانتے ہیں کہ صوت یعنی آوازاورالفاظ کیونکہ ان کےاندر ترکیب ‘ تقدیم ‘تاخیر ‘تغیر ہے تویہ سب باتیں بتا رہی ہیں کہ یہ حادث ہوتاہے ۔یعنی اصوات اورالفاظ قدیم نہیں ہوتے کیونکہ یہ بہرحال انسانی زبان ہے اورانسان کے ساتھ وجود میں آئی ہے ۔اتناقول تمہارا درست ہے کہ یہ ساری باتیں حادث ہیں لیکن قرآن کااطلاق صرف صوت اورلفظ پرنہیں ہوتابلکہ یہ صوت اور لفظ تواللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلام نفسی پردلیل ہیں اوراللہ سبحانہ وتعالیٰ کاکلام نفسی قدیم ہے ۔ لہٰذا قرآن مجید اس معنی میں مخلوق نہیں ہے ۔ لہٰذا اہلِ سُنّت کا قول یہ بنا:کلام اللہ غیرالمخلوق۔’’اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاکلام غیرمخلوق ہے ۔‘‘
البتہ معتزلہ اوراہلِ سُنّت ایک بات پرجمع ہیں کہ الفاظ ‘حروف اوراصوات قدیم نہیں ہوتیں‘یہ حادث ہی ہوتی ہیں ۔ اس کے بعد اختلاف کلام نفسی کے اثبات پر واقع ہورہاہے۔ معتزلہ کلام نفسی کااثبات نہیں کررہے ‘اہلِ سُنّت کلام نفسی کااثبات کررہے ہیں اوراس کواللہ کی صفت قدیمہ کہتے ہیں۔اسے غیرمخلوق مانتے ہیں کیونکہ اللہ کی کوئی صفت مخلوق نہیں ہوتی ۔چنانچہ قرآن مجید اللہ کی بعض صفت نفسی پردلیل ہے ‘سب صفت نفسی پردلیل نہیں ‘ کیونکہ صفت نفسی میں توعلوم کی کثرت ہے ۔ قرآن مجیدبعض علوم پریعنی بعض معانی پرجواللہ سبحانہ و تعالیٰ کے علم قدیم میں پائے جاتے ہیں ‘ان پر دال ہے اور جو مدلول ہیں وہ صفت نفسیہ ہیں ‘وہ کلام قدیم ہے ۔ یعنی معتزلہ اوراہلِ سُنّت کے درمیان جومختلف فیہ مسئلہ ہے اس کاخلاصہ یہ ہے ۔ اس خلاصے میں محل نزاع یہ ہےکہ صفت نفسیہ ‘ کلام نفسی‘نطق نفسی کااثبات اورعدم اثبات۔اہلِ سُنّت کے ہاں اس کااثبات کیاگیاجبکہ معتزلہ کے ہاں اس کااثبات نہیں کیاگیا۔
مجسمہ کا موقف
ایک تیسرا گروہ ہے جس کو ہماری تاریخ میں مجسمہ اور مشبہ کہتے ہیں۔ ہرمجسم مشبہ ہے لیکن ہرمشبہ مجسم نہیں۔ تشبیہ ذراہلکی ہوتی ہے ‘اس میں آگے بڑھتے چلے جائیں تووہ تجسیم میں بدل جاتی ہے ۔تشبیہ یہ ہے کہ اللہ کی بعض صفات کویامخلوق کی بعض صفات کو اللہ کے مانند قرار دے دیاجاتاہے۔اس میں آگے بڑھتے چلے جائیں اور اللہ کو بھی جسد قرار دے دیں‘جسم قرار دے دیں تویہ تشبیہ اپنی آخری حدود کوپہنچ جاتی ہے جسےتجسیم کہتے ہیں۔ تجسیم کو ماننے والے گروہ کو مجسمہ کہا جاتاہے اور تشبیہ جوذرا ہلکے درجے پررہ گیاان کو مشبہ کہتے ہیں۔یہ وہ گروہ ہیں جواہلِ سُنّت سے خارج ہیں۔ان کے ہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی ذات محل حوادث ہوسکتی ہے ‘ یعنی اللہ کی ذات میں بھی تغیرہوسکتاہے ۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ خود بھی اپنی ذات میں تغیرکرسکتاہے کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو انسانوں پرقیاس کیااور تجسیم کے قائل ہوئے۔ ان کے ہاں اس میں کوئی مسئلہ نہیں ہےکہ اللہ کا کلام جوغیرمخلوق ہے وہ حرفی بھی ہو‘ صوتی بھی ہو‘لفظی بھی ہو۔انہوں نے کہاکہ ہم معتزلہ کے ساتھ ہیں کہ کلام توہوتا ہی ظاہری نطق ہے ۔ کلام لفظی ہی کلام ہوتاہے ۔ ہم اس کلام لفظی کوبھی قدیم مانتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ صوت یعنی آواز اور الفاظ سے کلام کرتاہے جس طرح انسان الفاظ اوراصوات سے کلام کرتاہے ۔اس کلام کی وجہ سے اگر تم کہتے ہوکہ ذات میں تغیر ہورہاہے تو ہمیں ان باتوں سے کوئی غرض نہیں ہے۔اس سے کچھ بھی نہیں ہوتابلکہ اللہ تعالیٰ نے ان باتوں کااثبات کیا۔ ازروئے الفاظِ قرآنی :
{وَکَلَّمَ اللہُ مُوْسٰی تَـکْلِیْمًا(۱۶۴)} (النساء)
’’اور موسٰی سے تو کلام کیا اللہ نے جیسے کہ کلام کیا جاتا ہے۔‘‘
اور:
{وَکَلَّمَہٗ رَبُّہٗ لا قَالَ رَبِّ اَرِنِیْٓ اَنْظُرْ اِلَیْکَ ط} (الاعراف:۱۴۳)
’’اور ان سے کلام کیا ان کے ربّ نے‘انہوں نے درخواست کی کہ اے میرے پروردگار! مجھے یارائے نظر دے کہ میں تجھے دیکھو ں۔ ‘‘
اور:
{وَمَا کَانَ لِبَشَرٍ اَنْ یُّکَلِّمَہُ اللہُ اِلَّا وَحْیًا اَوْ مِنْ وَّرَآیِٔ حِجَابٍ اَوْ یُرْسِلَ رَسُوْلًا} (الشوریٰ:۵۱)
’’اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے کلام کرے سوائے وحی کےیا (پھر وہ بات کرتا ہے) پردے کی اوٹ سےیا وہ بھیجتا ہے کسی پیغام بَر(فرشتے) کو‘ ‘
توتمہارا یہ کہناکہ کلام تو قدیم ہوتاہے ‘وہ کس طرح سناجائے گا‘یہ باتیں سمجھ نہیں آسکتیں ۔ ہم توسادہ سی بات مانتے ہیں کہ جس طرح ہم ایک دوسرے سے بولتے ہیں‘ جس طرح میں بول رہا ہوں اورآپ لوگ سن رہے ہیں اورآپ کو سمجھ آرہی ہے اسی طرح اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی کلام فرماتے ہیں۔
اللہ کی صفت ِکلام کو انسانوں کے کلام پر قیاس نہیں کیا جا سکتا
اہلِ سُنّت نے کہا کہ یہ فضول باتیں نہ کہو‘یہ بالکل سادہ ساتصور ہے اوروہی ہے قیاس الغائب علی الشاہد۔تم اللہ سبحانہ وتعالیٰ کومخلوق پرقیاس کررہے ہو۔ جب ہم جان چکے ہیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی ذات وصفات میں کسی کے مانند نہیں ہیں {لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْءٌج} (الشوریٰ:۱۱) تووہ اپنے کلام میں بھی کسی کے مانند نہیں ہیں ۔لہٰذا ان کاکلام یوں نہ سمجھ لیناکہ وہ تمہاری طرح کے حروف اوراصوات سے مل کربنتاہے ۔ اللہ کاکلام اس سے ماورا ء ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ کلام نفسی کے بارے میں جوہم نے انسانوں کی مثال دی ہے تو یہ جان لو کہ ہم اللہ میں اس طرح کا کلام نفسی ثابت نہیں کررہے کیونکہ یہ کلام نفسی بھی حادث ہوتاہے ۔ اچانک میں نے سوچناشروع کردیاتویہ کلام نفسی حادث ہے۔ ہم تمہیں صرف سمجھانے کے لیے یہ بتارہے ہیں کہ کلام نفسی اورکلام لفظی میں تمہارے ہاں بھی فرق ہے ۔ بس یہ فرق دکھارہے ہیں کہ اللہ کے کلام کوکلام لفظی نہ سمجھنا۔ باقی اس کاجوکلام نفسی ہے وہ بھی انسان کے کلام نفسی سے ماوراء ہے ۔وہاں بھی کوئی تقدیم وتاخیراور سوچ بچار نہیں ہے جس طرح ہم سوچ بچارکرتے ہیں ۔ ہمارے ہاں جس کوحدیث نفس کہاجاتاہے کہ اپنے سے بیٹھ کرباتیں کرنا‘ یہی کلام نفسی ہےتووہاں اس طرح کی بھی کوئی بات نہیں ہے ۔لیکن یہ مثال اورتشبیہ دی ہے محض معتزلہ کو بتانے کے لیے کہ دیکھوانسان میں بھی کلام نفسی اورکلام لفظی ایک نہیں ہوتا۔ پھر معتزلہ نے اس پرایک دلیل دی۔ انہوں نے کہاکہ جب تم اپنے سے بیٹھ کرگفتگو کرتے ہوتب بھی الفاظ کے ساتھ ہی کررہے ہوتے ہو‘ یعنی وہ معنی الفاظ اورحروف کالبادہ اوڑھے ہوئے ہوتے ہیں ۔ وہ الفاظ معانی مجرد نہیں ہوتے بلکہ الفاظ کے پیرائے میں ڈھلے ہوئے ہوتے ہیں ۔ اس کا جواب اہلِ سُنّت نے دیاکہ چونکہ ہم الفاظ کے ساتھ گفتگو کرنے میں بہت زیادہ مانوس ہوچکے ہیں توہمارے لیے یہ بس ایک خلافِ عادت ہے‘ یعنی یہ کوئی مستحیل بات نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ سے الفاظ کے بغیرمعانی کابیان کرسکیں ۔ باقی جہاں تک وہ شخص ہے جو بچہ ہے جس نے ابھی تک الفاظ نہیں سیکھے ‘بات تواس کے اندر بھی ہے جو وہ پہنچاتاہے ۔سب سے بڑی مثال یہ ہے کہ جواخرس ہے ‘بچپن سے اس نے کوئی لفظ نہیں سنااوروہ بول بھی نہیں سکتاتواس کے اندر بھی کلام نفسی پایاجاتاہے۔ بہرحال اہل سنت نے کلام نفسی کااثبات کیااورکلام لفظی کومخلوق کہا۔یعنی کلام نفسی صفت قدیمہ ہے جوغیرمخلوقہ ہے ۔ جہاں تک الفاظ اوراصوات ہوتے ہیں اورجہاں تک زبان ہے تویہ سب باتیں مخلوق ہیں۔اس حدتک ان کا معتزلہ سے اتفاق ہے اور صفت نفسیہ کے اثبات پر اختلاف ہے ۔
قرآن کلام اللہ اور اس کے معانی قدیم
اب یہاں سے جوبات آپ کو سمجھ میں آئی ہوگی‘اوریہی وہ بات ہےجس کے بارے میں کہاگیاکہ چونکہ سمجھ کئی دفعہ نہیں آتی توعوام الناس کے سامنے بیان نہیں کرنی چاہیے ‘ اورہم نے بھی یہ بات عوام الناس کے سامنے بیان نہیں کرنی کہ جوکلام اللہ اس وقت ہمارے سامنے ہے اس میں جوحرف اورصوت ہے اس کواہلِ سُنّت قدیم نہیں مانتے۔قدیم اسی کومانتے ہیں جواس کے اندر معانی ہیں‘جواللہ کی صفت کلام ہے ۔ البتہ یہ نہیں کہہ رہے کہ یہ الفاظ اللہ کے رسولﷺ کے ہیں ۔ نعوذباللہ!بلکہ اہل سنت کاعقیدہ ہے کہ نظم اورمعانی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں۔ القرآن کلام اللہ لفظًا ومعنًا ۔معناًتووہ صفت نفسیہ ہے ‘لفظاً کامطلب ہے کسی انسان نے یہ لفظ بناکرنہیں بھیجے بلکہ اللہ ہی نے اس طرح اتاراہے ۔یعنی الفاظ بھی اللہ نے اتارے ہیں لیکن اپنی مخلوق کی حیثیت سے جبکہ کلام جواس کے اندر صفت قدیمہ یامعانی ہے وہ غیرمخلوق ہے ۔ البتہ دونوںاللہ کی طرف سے ہیں ۔تواس میں کوئی انسانی دخل یاانسانی ہاتھ نہیں ہے بلکہ نظم (الفاظ)اورمعانی دونوں اللہ کی طرف سے نازل ہوئے ہیں۔اس میں کسی قسم کاکوئی اختلاف اہل سنت کے ہاں نہیں ہے ۔ اختلاف وہی ہے جتنا بیان کر دیا گیا۔
امام احمدبن حنبلؒ کاموقف
عباسی خلیفہ معتصم باللہ اور اس سے پہلے امین الرشید کے زمانے میں اکثر علماء خاموش ہوگئے تھے ۔ احمدبن ابی دعات‘ایک بہت بڑے معتزلی عالم تھے ‘جن کااثرورسوخ خلفاء پربہت زیادہ تھا۔ ان کی وجہ سے دوسرے معتزلی علماء اور ریاست یاخلفاء نے اعتزال کو ایک آفیشل مذہب کے طورپراختیار کرلیااورریاستی قوت سے بالجبر اس کونافذ کرنے کی کوشش کی ۔ اس میں ایک مسئلہ جومختلف فیہ بنا‘انہوں نے ایک امتحانی سوال بنایا کہ: ماذا تقول فی کلام اللہ ؟’’اللہ کے کلام کے بارے میں تم لوگ کیاکہتے ہو؟‘‘جوکہتاتھاکہ المخلوق! تووہ کہتے تھے کہ ٹھیک ہے ہمارے عقیدے پرہے ‘تواسے چھوڑ دیتے تھے ۔جو نہیں مانتا تھا‘اس کوسزا دی جاتی تھی ۔وہ محنۃ تھا۔بڑے بڑے علماء کے ساتھ اس طرح ہوتارہاہے ۔’’محنۃ الامام احمد بن حنبل‘‘پر کتب تصنیف کی گئیں۔ چنانچہ وہ کھڑے ہوگئے اورانہوں نے جودلیل اختیا ر کی وہ یہ نہیں تھی بلکہ وہ کہتے تھے : ایتونی بکتاب اللہ اوسنۃ نبیہ اقول بہ! ’’میرے پاس اللہ کی کتاب اوراُس کے نبی کی سنّت میں سے کوئی شے لے آئو تومیں کہہ دوں گا۔‘‘یعنی وہ اصلاً عقلی ومنطقی اعتبار سے ان سے جھگڑ ہی نہیں رہے تھے ۔ وہ کہتے تھے کہ سلف سے کلام اللہ غیرمخلوق مروی ہے تواب تم مجھ سے یہ چاہتے ہوکہ کلام اللہ مخلوق کہلوا لوتومیں نہیں کہوں گا۔امام احمدبن حنبل ؒ کامسلک یہ تھاکہ ہم نے عقیدے کی تفصیلات میں بھی وہیں رُک جاناہے کہ جہاں سلف رک گئے تھے‘ وہاں سے آگے نہیں بڑھنا۔ یہاںتک کہ جب ان سے پوچھاگیا:لفظی بالقرآن مخلوق اوغیرمخلوق؟یعنی جوہم تلاوت کرتے ہیں وہ مخلوق ہے کہ نہیں؟وہ تومخلوق ہونی چاہیے ؟ وہ کہتے ہیں: میں یہ بھی نہیں کہتا ۔ میں دونوں سوالات کاکوئی جواب نہیں دیتا۔میں توقف کرتا ہوں۔ میں یہ بھی نہیں کہتا: لفظی بالقرآن مخلوق‘اورمیں یہ بھی نہیں کہتا : لفظی بالقرآن غیرمخلوق۔ اس طرح کے مسائل سلف اورصحابہ سے ثابت نہیں ہیں تومیں یہاں توقف کروں گااورکوئی بھی رائے اختیا رنہیں کروں گا۔بہرحال امام احمدبن حنبل ؒ کایہ مسلک تھااوراحتیاط اسی میں ہے ۔خصوصاً ہم جیسے لوگوں کے لیے کہ ہم بس یہ عقیدہ رکھیں کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کاکلام غیرمخلوق ہے اوراللہ کے کلام کی مانند کوئی کلام نہیں ہے ۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ جس طرح بے مثل اوربے نظیرہیں اسی طرح اللہ کلام بھی بے مثل او ربے نظیرہے۔اگر جن وانس اورتمام مخلوقات جمع ہوجائیں تواس کلام جیسا کلا م نہیں لاسکتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{قُلْ لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْاِنْسُ وَالْجِنُّ عَلٰٓی اَنْ یَّـاْتُوْا بِمِثْلِ ہٰذَا الْقُرْاٰنِ لَا یَاْتُوْنَ بِمِثْلِہٖ وَلَوْ کَانَ بَعْضُہُمْ لِبَعْضٍ ظَہِیْرًا(۸۸)} (بنی اسرائیل)
’’آپ ؐ کہہ دیجیے کہ اگر جمع ہو جائیں تمام انسان اور تمام جن اس بات پر کہ وہ اس قرآن کی مانند لے آئیں تو وہ نہیں لا سکیں گے اس کی مانند‘ اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بھی بن جائیں۔‘‘
امام احمد بن حنبل ؒاور حارث محاسبی ؒ
یہ امام احمدبن حنبل ؒ کا مسلک ہے اورہمیں اصلاً یہی اختیار کرناچاہیے۔تفصیلات کوچھوڑ کے ‘ہم کہیں گے کہ کلام اللّٰہ غیر المخلوق۔ جس طرح ہم بیٹھ کرعقیدہ پڑھاتے ہیں اورکہہ دیتے ہیں کہ معتزلہ نے یہ کہاوغیرہ ‘ امام احمد بن حنبلؒ اس کے بھی قائل نہیں تھے ۔ ایک دفعہ حارث المحاسبیؒ جواس زمانے کے بہت بڑے بزرگ تھے ‘امام احمدؒ کی ان سے ناراضگی ہوگئی ۔یہ دونوں بغداد میں تھے ۔ امام احمدبن حنبل ؒان کے متعلق کوئی اچھاخیال نہیں رکھتے تھے ۔امام حارث المحاسبی ؒ کی کتاب ’’الرعایہ‘‘ہے جو ’’احیاء العلوم‘‘ کے مصادر میں سے ہے ۔جس طرح ’’قوت القلوب ‘‘ایک بڑا مصدر ہے احیاء العلوم کا‘اسی طرح دوسرا سب سے بڑا مصدر ’’الرعایہ‘‘ ہے۔ امام حارث المحاسبی صرف صوفی نہیں بلکہ متکلم بھی تھے اورمعتزلہ کے رد میں اور اس زمانے میں جوکچھ خیالات تھے ان کے ردّ پران کی کچھ کتابیں اوررسالے بھی ملتے ہیں ۔بہرحال امام احمدبن حنبل ؒ کی ان سے ناراضگی تھی اور وہ ناراضگی کن وجوہات پرتھی‘اس بارے میں مختلف آرا ہیں‘ لیکن ایک قوی رائے یہ ہے کہ ان کاکہنایہ تھاکہ تم جب معتزلہ یاباطل فرقوں پررد کرتے ہوتوپہلے ان کے شبہات بیان کرتے ہوپھرردّ کرتے ہو۔ تمہارے شبہات بیان کرنے سے مجھے خطرہ یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو شبہ سمجھ آجائے گا‘ردّ سمجھ نہیں آئے گا۔ یعنی ان کے ذہن میں شبہ بیٹھ جائےگااورپھرجوتم اوپر سے اپنے فلسفے جھاڑو گے اورتقریر کروگے اوراس شبہ کا رد کروگے وہ ہوسکتا ہے ان کی سمجھ میں بھی نہ آئے ۔ لہٰذا جب تم عام کتابوں میں عوام الناس کے لیے اس طرح کی باتیں لکھ دیتے ہوتوان کے بھٹکنے کے بڑے قوی امکانات ہیں‘اورہوسکتا ہے کہ تمہارے اسے بیان کرنے سے بہت سے لوگ جنہوں نے کبھی معتزلہ کانام بھی نہ سناہووہ معتزلی ہوکے بیٹھ جائیں ۔وہ کہیں گے کہ معتزلہ کی بات ہمیں بڑی قوی لگ رہی ہے ‘یہ توعقلی بات ہے کیونکہ ’’عوام الناس کے دربار میں توعقلی وعلمی دلائل چلتے ہیں‘‘(یہ جملہ طنزیہ ہے)۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ تم عوام الناس کواس طرح کے بکھیڑوں سے دور رکھو ۔آج کل بھی یہ مسلک ایک لحاظ سے اہم ہے ۔ یعنی کچھ باتیں علماء کے لیے ہوتی ہیں ‘کچھ باتیں عوام الناس کے لیے ہوتی ہیں ۔ ہربات عوام الناس کو بتانے کی نہیں ہوتی ۔
سوشل میڈیا کا فتنہ
آج کل اس طرح کادور ہے کہ ہرچیز ہر ایک کے لیے ہے۔یہ سوشل میڈیا کا دور ہے۔ اس میں فیس بک پرجہاںجاہل بھی پڑھ رہاہے ‘عالم بھی موجود ہے‘ آپ ایک تحریر چھوڑ دیتے ہیں جس میںبڑے دقیق قسم کے کلامی مباحث بھی ہوتے ہیں اورادھرادھرکی باتیں بھی ہوتی ہیں ۔اسے پڑھ کر عوام الناس بھٹک بھی سکتے ہیں ۔امام احمدبن حنبل ؒ کامسلک یہ تھاکہ ایسا کام نہ کرو۔لہٰذا وہ بڑااحتیاط والامسلک ہے ۔ یہی وہ مسلک ہے کہ جواب ہمیں سمجھ میں نہیں آسکتااوراگر کوئی اس طرح کی بات بھی کرے گاتوہم کہیں گے کہ یہ توآزادیٔ رائے ‘آزادیٔ فکر‘ free thinkingیااس طرح کی مروجہ اعلیٰ اقدار کے خلاف ہے۔ مغرب کے سو ڈیڑھ سوسال آنے سے پہلے تک یہ طرزعمل تھاکہ مستندعلماء بتایاکرتے تھے کہ یہ کتاب پڑھنی ہے اوریہ نہیں پڑھنی ۔یعنی عوام الناس کے لیے ایک نصاب بنایاجاتا تھا۔ انہوں نے ہر کتاب نہیں پڑھنی کہ جومرضی اٹھاکرپڑھ لواورگمراہ ہوجائوبلکہ یہ یہ کتابیں پڑھو جن میں صحیح قسم کی باتیں بیان کی گئی ہیں۔جب تمہیں علم میں کوئی پختگی حاصل ہوجائے گی تواس کے بعد تم آگے چلنا۔اب یہ ہوتا ہے کہ علم میں پختگی ‘بنیادوں میں کوئی پختگی حاصل نہیں ہوتی۔ نہ اصول دین کاعلم ہوتاہے ‘نہ اصول فقہ کاعلم ہے ‘نہ دین کی گہرائی کے ساتھ سمجھ بوجھ ہے اوربڑی بڑی چیزیں پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ فلاں کی بات ‘ ادھرکی بات اورپھرسمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کی دلیل توبڑی قوی ہے ۔حالانکہ یہ منہج علمی نہیں ہے ۔ اس سے کوئی علم حاصل نہیں ہوتا۔یعنی اپنی بنیادیں راسخ کیے بغیر جہاں بھرکی چیزیں پڑھناشروع کردیتے ہیں توپھرکچھ پتا نہیں چلتا۔نہ کوئی معیار ہوتا ہے جس پر دلائل کو پرکھ سکیں۔ پہلے اپنے روایتی علوم میں گہرائی پید اکی جائے ‘اس کے بعد دنیا بھر کے فلسفے پڑھ لیں۔ اگر ہماری گہرائی اتنی ہوکہ گرامر کی کوئی چھوٹی سی کتاب پڑھ لی‘ دوچار اورچیزیں پڑھ لیں‘اس کے بعد کہیں کہ اب ہم مغربی فلسفیوں کو پڑھناشروع کرتے ہیں اورپھر ہم مغرب کاردّ کردیں گے تو اس سے ہوتا کچھ بھی نہیں ہے ۔ وہی آپ کو متاثر کردیتے ہیں۔پھرآپ جوردّ کرنے بیٹھتے ہیں تواس میں ردّ پہلے اسلام پرہورہا ہوتاہے ۔یعنی اسلام کی دھجیاں بکھیری جارہی ہوتی ہیں۔ اس کے مسلّمات اورقطعیات کوظنیات میں بدل رہے ہوتے ہیں اور اپنے خیال میں ساتھ احیاء اسلام بھی کررہے ہوتے ہیں ۔ یہ پتانہیں کس طرح کا احیاء اسلام ہے کہ جس میں پہلے قدیم اسلام کو مارناضروری ہے تاکہ نیااسلام زندہ ہوسکے ۔ بہرحال یہ سب باتیں منہج سلف کے خلاف ہیں لیکن آج کل لوگوں کوسمجھ نہیں آتیں۔ وہ ہرچیز پڑھنابھی چاہتے ہیں اورہرچیز پڑھنے کے بعد انہیں کچھ بھی نہیں پتا ہوتا۔
دقائق علم اور جلائل علم
قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے :
{وَلٰــکِنْ کُوْنُــوْا رَبّٰنِـیّٖنَ بِمَا کُنْتُمْ تُـعَلِّمُوْنَ الْـکِتٰبَ } (آل عمران:۷۹) 

’’بلکہ (وہ تو یہی دعوت دے گا کہ) اللہ والے بن جائو اس وجہ سے کہ تم لوگوں کو کتاب کی تعلیم دیتے ہو۔ ‘‘
اس میں ربّانی کی تعریف حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے یہ کی ہے:الذی یُرَبِّی الناس بجلائل علم قبل دقائق۔وہ لوگوںکی تربیت کرتاہے ۔علم کے جلائل یعنی جوواضح علوم ہیں‘جوبنیادیں ہیں ان کوپہلے دیتاہے ‘ پھر دقائق پربعد میں آتاہے ۔ دقیق باتیں بعد میں بیان کرتاہے‘ پہلے علم کی بنیادیں پختہ کرتاہے ۔آج کل لوگوں کاطرزعمل یہ ہوتا ہےکہ ابھی ترجمہ شروع ہوا ہے اورترجمے میں بھی آپ المّ سے کچھ آگے ہی پہنچے ہوں گے توایک سوال داغ دیاجائے گاکہ وحدت الوجود کس کو کہتے ہیں؟ دقائق علم ‘یعنی ان سے طہار ت کے مسائل پوچھ لو تونہیں پتاکہ یہ کس طرح ہوتی ہے اوروضو کے آداب‘فرائض ‘سنن اورشرائط کیاہیں‘ کیاپتانہیں ہے ۔البتہ وحدت الوجود کاپتاچل جائے ‘فلاں کشف کس کو کہتے ہیں‘ وغیرہ وغیرہ۔ یہ بالکل ایک باطل منہج علمی ہے اوراس سے ہمیں نجات حاصل کرنی چاہیے ۔ پہلے کچھ علوم میں پختگی کریں۔وہ علوم آلی ہوتے ہیں۔ یعنی عالیہ میں جوعلوم مقصدیہ ہیں‘جواصل علوم ہیں ‘جوقرآن وحدیث ہے‘ اس تک پہنچنے کے لیے بھی کچھ علوم آلی جوانسٹومینٹل سائنسز ہیں ان میں پختگی حاصل کرنی پڑے گی وگرنہ وہاں بھی نہیں پہنچ سکتے ۔لہٰذا مقصد قرآن وحدیث ہی ہوتاہےلیکن وہاں تک پہنچنے کے لیے آپ کو کچھ علوم چاہئیں۔ان علوم میں علم لغت ‘بلاغت‘صرف‘نحو‘اصول فقہ‘اصول حدیث اوراصول تفسیر شامل ہیں ۔یہ سب علوم مقاصد کے لیے ہیں۔یہ بات ذہن میں رکھیں توامام احمدبن حنبل ؒکے مسلک پرآپ کھڑے ہوں اوروہ مسلک یہی ہے ۔بس اتنی بات مانیے کہ کلام اللّٰہ غیر المخلوق۔اس کے بعداللہ سبحانہ وتعالیٰ کے اس قول پرتوجہ دیجیے :
{اَفَبِہٰذَا الْحَدِیْثِ اَنْتُمْ مُّدْہِنُوْنَ (۸۱)} (الواقعۃ)
’’تو کیا تم لوگ اس کتاب کے بارے میں مداہنت کر رہے ہو؟‘‘
اس کاکلام اللہ ہونااور تَنْزِیْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ ہونا ثابت ہوچکاہے ۔کلامی مباحث سے بڑھ کریہ بات غوروفکر کے قابل ہے کہ میراکلام اللہ سے کیاتعلق ہے ‘میری قرآن مجید سے کتنی مناسبت ہے اورقرآن مجید مجھ پرکتنی تاثیر رکھتاہے ۔قرآن مجید پڑھ کرمیں واقعی اللہ کاقرب محسوس کرتا ہوں یانہیں ۔ یہ ساری باتیں غور کرنے کی ہیں ۔ باقی کلام اللہ کی باریکیوںمیں چلے جائیں‘کلامی مباحث کوکھول کھول کربیان بھی کر دیں‘ گہرائی میں اتر کرسمجھ بھی لیں اورکلام اللہ سے مناسبت پیدا نہ ہوسکے تویہ کچھ بھی نہیں ہے ۔کلام اللہ آپ کے لیے اجنبی نہ ہو۔ کلام اللہ سے آپ کو کوئی اوٹ اورحجاب محسوس نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
{وَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ جَعَلْنَا بَیْنَکَ وَبَیْنَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ حِجَابًا مَّسْتُوْرًا(۴۵)}(بنی اسرائیل)
’’اور جب آپؐ قرآن پڑھتے ہیں تو ہم آپؐ کے اور اُن لوگوں کے درمیان جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے‘ ایک مخفی پردہ حائل کر دیتے ہیں۔‘‘
جب آپ قرآن پڑھتے ہیں توہم آپؐ کے اورایمان نہ رکھنے کے درمیان حجاب پیدا فرمادیتے ہیں۔یہ جوقرآن سے حجاب ہے اس کو قرآن میں جابجابیان کیاگیا:
{وَجَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِہِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَہُوْہُ} (بنی اسرائیل:۴۶)
’’ہم نے ایک حجاب ان کے دلوں میں ڈال دیاہے کہ کہیں یہ اسے سمجھ نہ لیں ۔‘‘
یعنی ہم نہیں چاہتے کہ یہ عالی شان کلام ان گھٹیالوگوں کی سمجھ میں آجائے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لَّا یَمَسُّہٗٓ اِلَّا الْمُطَہَّرُوْنَ(۷۹) } (الواقعۃ)
قرآن تک پہنچنے کے لیے ‘اس کی گہرائی میں اترنے کے لیے ‘ اس میں غوطہ زنی کے لیے اپنے آپ کو پاک صاف کیاجائے ۔ دل سے رذائل نکالے جائیں اور کلام اللہ کی عظمت کااحساس اپنے دلوں میں پیدا کیا جائے اور پھر کلام اللہ پڑھاجائے۔
تلاوت قرآن کے ظاہری و باطنی آداب
امام غزالیؒ کی’’ احیاء العلوم‘‘ میں سے ایک کتاب ہے جس کا نام ہے :کتاب آداب تلاوۃ القرآن!قرآن مجید کی تلاوت کے آداب کابیان ۔انہوں نے اس میں دس آداب ظاہری اوردس آداب باطنی بیان کیے ہیں ۔اس میں پہلا باب امام صاحب ہمیشہ فضیلت پرقائم کرتے ہیں کہ قرآن کی فضیلت‘قرآن کی تلاوت کی فضیلت ۔یہ سب آپ جانتے ہیں یہ بتانے کی حاجت بھی نہیں ہے ۔ دوسرا باب انہوں نے قائم کیاجس میں آدابِ ظاہرہ کا بیان ہے ۔قاری وضوکے ساتھ بیٹھاہو‘قرآن کی تلاوت کتنی کرنی ہے ‘ہفتہ میں کتناپڑھاجائے۔پھریہ کہ ترتیل کے ساتھ پڑھاجائے‘پڑھتے ہوئے رویاجائے۔ اسی طرح فرماتے ہیںکہ آیات کا حق ادا کیاجائے ‘سجدے کی آیت پرگزرے توسجدہ کرے‘ عذاب والی آیت ہے توپناہ مانگے ‘جنت والی آیت ہے توجنت کاسوال کرے۔ اسی طرح اعوذ باللّٰہ سے شروع کرے اوربالجہر یعنی اتنی بلند آواز سے تلاوت کرے کہ کم ازکم اپنے آپ کوسنائی دے ۔ باقیوں کو نہ جگائے ۔ صحابہ ؓ نےبیان کیا کہ رسول اللہﷺ تہجد میں اتنی آواز سے پڑھتے تھے کہ جاگنے والاسن لیتاتھا اورسونے والاجاگتا نہیں تھا۔پھرفرماتے ہیں کہ اچھی آواز میں یعنی ترتیل اورتحسین کے ساتھ پڑھے۔ یہ ساری باتیں ظاہری آداب میں سے ہیں ۔ان پرعمل کرناضروری ہے ۔ قرآن مجید کواچھی آواز سے پڑھنااوراچھی آواز سے سننا قرآن سے مناسبت پید اکرنے کے لیے اورقرآن سے حجاب دور کرنے کے لیے لازم ہے‘وگرنہ قرآن مجید ایک اجنبی شے رہتی ہے۔ اگرآپ اچھی آواز سے سننے کاذوق رکھتے ہیں تواس کی دل پر تاثیرہوتی ہے‘ چاہے آپ سمجھ رہے ہیں یانہیں سمجھ رہے ۔اسی طرح اچھی آواز سے پڑھنے کی تاثیر ہوتوپھرقرآن مجید سے حجاب نہیں رہتا۔
ہمیں بچوں کی تربیت کے حوالے سے اس پرخصوصی توجہ دینی چاہیے ۔ اگر بچپن سے ان کے اندر مزاج پیدا کریںگے قرآن سننے کااورپڑھنے کا‘اچھی آواز کے ساتھ اوربڑے بڑے قراء کاان کے اندر ذوق پیدا کیاجائے تویقیناً قرآن سے ایک مناسبت پیدا ہوجاتی ہے ۔ بعد میںترجمہ اورپھرحفظ کرنے میں بھی بہت آسانی ہوجاتی ہے۔ہمارے نانامحترم ڈاکٹر اسرار احمدؒ کو قرآن مجید کی تلاوت اچھی آواز کے ساتھ سننے کاخصوصی ذوق حاصل تھاتواللہ کے فضل سے اس میں سے کچھ حصہ ہم لوگوں کو بھی ملا‘اوریہ بہت بڑا احسان ہےاس اعتبارسے کہ اگر یہ نہ ہوتا توشاید قرآن سے وہ مناسبت پید انہیں ہوسکتی تھی ۔ جیساکہ ایک اورعالم نے کہا کہ اگر قرآن سننے کا ذوق ہو تو پھر یہ بحث فضول ہوتی ہے کہ موسیقی حلال ہے کہ حرام ‘اس لیے کہ آپ موسیقی سن ہی نہیں پاتے۔قرآن مجید کے حسن صوت سے آپ کی ایسی مناسبت ہوجاتی ہے کہ حلال بھی ہوتونہیں سننی ۔وہ ایک اضافی بحث ہے ۔بہرحال اس طرح کا کوئی ذوق پیدا ہوجائے اورہم بچوں میں بھی پیدا کرسکیں توبہت اچھاہے ‘وگرنہ آج کل یہ ہونہیں رہا۔ مجھے یاد ہے کہ کچھ عرصے پہلے تک چھوٹے بچوں میں زیادہ ہوتا تھالیکن جب سے یہ فضول چیزیں آناشروع ہوگئیں تواب واقعی وہ ذوق نہیں ہے ۔اب وہ موویز دیکھ رہے ہیں ۔ سیزنز ہیں جولمبے لمبے چل رہے ہیں ۔ا سی طریقے پر قرآن کی تلاوت لمبے عرصے کے لیے بیٹھ کے سننا‘ کیسٹس کاہونا‘وہ کیسٹس بھی چلی گئیں۔ جیسے جیسے کوئی شے آسانی سے ملناشروع ہوجاتی ہے‘ اپنی وقعت کھودیتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ میں موٹرسائیکل یاسائیکل پراردو بازار جا کر کیسٹیں خرید کرلاتا تھاکہ فلاںقاری صاحب کی کیسٹ وہاں سےملے گی۔اتنی ساری کیسٹس جمع کی تھیں اور پھر ان کو اہتمام سے سناجاتا تھاکیونکہ اتنی مشکل سے انہیں حاصل کیاگیا ہوتاتھا۔ اب یوٹیوب پرہرچیز دستیاب ہے ۔ ایک لحاظ سے توبڑی سہولت ہے یعنی وہ تلاوات کہ جوبڑی نادر تھیں اورہمیں ناز تھاکہ ہمارے پاس اس کی کیسٹ ہے ‘فخرکرتے تھے‘اب وہ سب یوٹیوب پر آگیا۔البتہ جس توجہ سے بیٹھ کر کیسٹ کوسناجاتا تھااورجس طرح اس کی قدر ہوتی تھی وہ تاثیر اب نہیں ہے۔ یوٹیوب پر سب کچھ موجود توہےلیکن سال ہاسال گزر جاتے ہیں لیکن وہ معمول نہیں بنتاکہ روزانہ بیٹھ کر ادب آداب کے ساتھ تلاوت سنی جائے ۔ ادب آداب اوراس طرح کی چیزیں تویوٹیوب نے ویسے ہی ختم کردی ہیں ۔
فہم عظمت کلام و متکلم
پہلا ادب باطنی ہے :ہم نے اس میں سے ایک چیز پڑھنی ہے جوکلام کی حقیقت پردلیل ہے ۔وہ کہتے ہیں :کلام کے جوآداب باطنہ ہیں ان میں سب سے پہلی شے کلام کی حقیقت کاجاننا‘کلام کی تعظیم کرنااورپھرمتکلم کی تعظیم ہے۔کہتے ہیں:فہم عظمۃ الکلام !کلام کی عظمت کا ادراک کر لینا۔وعلوہ!اوراس کے علو کا۔ وفضل اللّٰہ سبحانہ وتعالیٰ ولطفہ بخلقہ فی نزولہ من عرش جلالہ الی درجۃ افہام خلقہ!اوراس بات کا ادراک کرناکہ اللہ کاکیالطف ہوااپنی مخلوق پرکہ اس نے اپنے جلال کے عرش سے نزول فرمایامخلوق کوسمجھانے کے لیے ۔ یعنی وہ کہاں اور تم کہاں!کہہ رہے ہیںکہ یہ اللہ کا فضل بھی کتنابڑا ہے کہ وہ خالق جو لیس کمثلہ شیء‘ جواس کل وجود کاجس وجود کی انتہا بھی ہمیں معلوم نہیں ‘اس کے خالق نے میرے سے رابطہ کیااورمجھے بتایاکہ یہ کرو اوریہ نہ کرواورکرنے میں بھلائی ہے اور نہ کرنے میں نقصان۔ بہرحال وہ کہہ رہے ہیں کہ ذرا اس کاادراک انسان پہلے کرلے کس کاکلام ہے جو وہ پڑھنے جارہا ہے ۔
کہتے ہیں : فلینظر کیف لطف بخلقہ فی ایصال معانی کلامہ الذی ھو صفۃ قدیمۃ بذاتہ الی افہام خلقہ۔اللہ کے لطف کودیکھو‘مہربانی کودیکھوجواس کی مخلوق پرہوئی کہ اس نے اپنے کلام کے معانی کو پہنچادیا۔وہ کلام کہ جوصفت قدیمہ ہے‘قائمہ بذاتہ ہے ۔الی افہام خلقہ۔اپنی مخلوقات کے فہموں تک پہنچادیا۔ وکیف تجلت لھم تلک الصفۃ فی طی حروف و اصوات ھی صفات البشرکیسے اللہ کی وہ صفت متجلی ہوگئی ان حروف اوراصوات کے پردوں میں جوصفات بشر ہیں ۔یعنی آواز اورحرف توانسانی خواص ہیں جبکہ اللہ کی صفت قدیمہ اور کلام قدیم‘وہ کیسے صفاتِ بشر کے پردے میں جلوہ گر ہوگئی ۔
کہتے ہیں: اذ یعجز البشر عن الوصول الی فھم صفات اللّٰہ عزوجل الا بوسیلۃ صفات نفسہ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اللہ کی صفات کافہم حاصل کرنے سے عاجز ہے مگر اپنی صفات کے فہم کے وسیلے سے ۔ تواپنی صفات کے فہم کے وسیلے سے خدا کی صفات کافہم حاصل ہوتاہے ۔میں حرف اورصوت کے پردے کے بغیرخداکی صفت تک نہیں پہنچ سکتا۔اس کی اوربھی تفصیلات ہیں جوایک دوسری کتاب میں انہوں نے بیان کی ہیں۔اب اس کے بعد کلام کی عظمت کاادراک جوہروقت ہمارے گھر میں موجود ہے ‘پڑھ بھی سکتے ہیں ۔ پھرہفتہ ڈیڑھ ہفتہ گزرجاتاہے کہ وہ کلام کھولنے کی نوبت نہیں آتی ۔
فرماتے ہیں: ولو لا استتار کنہ کلامہ جلالۃ کلامہ بکسرۃ الحروف لما ثبت سماع الکلام عرش ولا تری۔اگر اللہ کے کلام کاجلال اوراس کی کنہ حروف کی چادروں (کسوۃ لحروف) میں چھپی نہ ہوتی تو اللہ کے کلام کو سننے کی تاب نہ لاتے نہ عرش نہ فرش‘نہ عرش نہ پاتال۔ کوئی شے اللہ کے کلام کوسننے کی تاب نہیں لاسکتی تھی اگر اللہ کاکلام ان حروف کے پردوں اورچادر میں چھپ کرنہ اترتا۔کہتے ہیں: ولتلاشی ما بینھما من عظمۃ سلطانہ وسبحات نورہ۔اوراگر اللہ کاکلام بغیرپردوں کے اُتر جاتاتواللہ کی بادشاہی کی عظمت سے اورا س کے نورکی تپش سے کائنات کی ہرشے متلاشی ہوجاتی‘عدم کاشکار ہوجاتی۔کوئی شے اس کی تاب نہ لاسکتی تھی۔ سبحات نورہ میںاس حدیث کی طرف اشارہ ہے جس میں رسول اللہﷺ نے فرمایا:((حجابہ النور)) اللہ کا حجاب نور ہے۔((لوکشفہ))اگر اللہ اسے اٹھادے ((لاحرقت سبحات وجھہ ما انتھی الیہ بصرہ من خلقہ)) (صحیح مسلم‘حدیث۴۴۵) تواللہ کے چہرے کی تاب تمام مخلوقات کوفناکردے گی ۔ یہی اللہ کاکلام بھی ہے‘ کیونکہ اللہ کاکلام صفت قدیمہ ہے ۔ فرمایاکہ یہ حروف کے پردوں میں اتری ہے وگرنہ توآپ سن نہیںسکتے تھے۔ ٹھہر نہیں سکتے تھے ۔ بہرحال یہ وہی کلام ہے جس کے بارے میںارشاد باری تعالیٰ ہے :
{لَــوْ اَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَاَیْـتَہٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَۃِ اللہِ ط} (الحشر:۲۱)
’’اگر ہم اس قرآن کو اُتار دیتے کسی پہاڑ پر تو تم دیکھتے کہ وہ دب جاتا اور پھٹ جاتا اللہ کے خوف سے۔‘‘
یہ قرآن جوحروف کے پردوں میں آرہاہے ‘پردوں میں اترتاتب بھی پہاڑ تاب نہ لاتے۔ اس سے اللہ کے نبیﷺ کی عظمت پربھی علماء نے استدلال کیاکہ وہی کلام جوپہاڑ پراترتاتو وہ دکاًدکا ہوجاتاوہی کلام :
{وَاِنَّہٗ لَتَنْزِیْلُ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(۱۹۲) نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِیْنُ(۱۹۳) عَلٰی قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِیْنَ(۱۹۴) بِلِسَانٍ عَرَبِیٍّ مُّبِیْنٍ(۱۹۵)} (الشعراء)
’’اور یقیناً یہ (قرآن) تمام جہانوں کے پروردگار کی طرف سے نازل کردہ ہے ۔ اُترے ہیں اسے لے کر روح الامین ( جبریل ِامین علیہ السلام )‘ آپؐ کے دل پر تا کہ آپؐ ہو جائیں خبردار کرنے والوں میں سے۔ (یہ نازل ہوا ہے) واضح عربی زبان میں۔‘‘
کہہ رہے ہیں :
ولولا تثبیت اللّٰہ عزوجل لموسیٰ علیہ السلام لما اطاق لسماع کلامہ کما لم یطق الجبل مبادی تجلیہ حیث صار دکاً دکاً
’’اگر اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام کو جمانہ دیتاتوآپؑ اس کلام کوسن نہ پاتے کہ جس طرح اللہ کی تجلی سے پہاڑ پاش پاش ہوگیا۔‘‘
پھرفرماتے ہیں :
ولا یمکن تفہیم عظمۃ الکلام الا بامثلۃ علی حد فھم الخلق
’’اللہ کے کلام کی عظمت کی تفہیم نہیں ہوسکتی مگر مخلوق کے فہم کے اعتبار سے کچھ مثالوں کے ذریعے ۔ ‘‘
اب اس کے بعد ایک مثال بیان کرتے ہیں صرف سمجھانے کے لیے کہ: ان کل حرف من کلام اللّٰہ عزوجل فی لوح محفوظ اعظم من جبل قاف۔اللہ کے کلام کاہرحرف لوحِ محفوظ میں کوہ قاف سے بڑا ہے۔یہ ایک تمثیل ہے ۔ اس سے یہ سمجھ لیجیے گاکہ فزیکل شے ہے۔ پھرفرمایا: وان الملائکۃ علیہم السلام لو اجتمعت علی الحرف الواحد ان یقلّوہ ما اطاقوہ حتی یاتی اسرافیل فیرفعہ۔اگر تمام فرشتے جمع ہوکرایک ایک حرف اللہ کے کلام کااٹھاناچاہیں تونہیں اٹھا سکتے‘ یہاں تک کہ اسرافیل آتے ہیں تووہ اٹھالیتے ہیں ۔ فیقلہ باذن اللّٰہ عزوجل ورحمتہ لا بقوۃ وطاقتہ۔اللہ کے اذن اورقوت سے وہ اللہ کے کلام کواٹھانے کی قدرت رکھتے ہیں ۔یعنی یہ صفت قدیمہ کی بات نہیں ہورہی‘ وہ صفت قدیمہ جوحروف اوراصوات کے پردے میں اُتر چکی ہے لوح محفوظ میں ۔ {بَلْ ھُوَ قُرْاٰنٌ مَّجِیْدٌ فِیْ لَوْحٍ مَّحْفُوْظٍ}۔ علماء نے کہاکہ لوحِ محفوظ میںبھی صفت قدیمہ نہیں ہے بلکہ وہ پردے میںہے ‘وہاںبھی حروف اوراصوات ہیں ۔
امام غزالی ؒکے کلام کی تاثیر
اگر امام غزالی ؒ کااپناکلام پڑھاجائے تواس کے اندر ایک الگ تاثیر ہوتی ہے اورجب ترجمہ کیاجائے تواس میں وہ تاثیر باقی نہیں رہتی کیونکہ یہ امام صاحب کاکلام نہیں۔امام صاحب جب یہ کتاب لکھ رہے تھے تواس وقت ان کی حالت اورقلبی کیفیات یقیناً ان کے قلم کے ذریعے قرطاس پرمنتقل ہوگئیں۔ جس نے ترجمہ کیاہوگاتویہ تواس کی ایک علمی حرکت ہے ‘وہ ترجمہ کرتے وقت امام صاحب کی قلبی کیفیات تومنتقل نہیں کرسکتاجوانہیں اپنی عظمت میں حاصل تھیں۔لہٰذا چاہے آپ ترجمہ بہت ہی اچھا کردیں‘اس میں امام صاحب کاعکس نہیں آئے گا‘خصوصاًان کے قلب کاعکس جواُس وقت ان کی تحریر میں تھا۔یہ بات میں اس لیے کہہ رہاہوں تاکہ لوگ عربی سیکھیں ۔ جب کسی بھی بڑے عالم کو ان کی اپنی اصلی زبان میں پڑھتے ہیں اورپھرجب اس کا ترجمہ پڑھتے ہیں توزمین آسمان کافرق ہوتاہے ۔کئی دفعہ معانی تووہی ہوتے ہیں لیکن محسوس ہوتاہے کہ تاثیررخصت ہوگئی‘وہ تاثیر نہیں ہے اس کی۔ جیسے کلام اللہ کا بھی کوئی ترجمہ کرلیتاہے توترجمہ پڑھ کے آپ کو وہ تاثیرمحسوس نہیں ہو سکتی جو کلام اللہ کوسننے اورپڑھنے میں ہے ۔اسی پرقیاس کرلیں۔ امام صاحب توپرانے آدمی ہیں‘ دورِ حاضر میں سیدقطب شہید کی ’’فی ظلال القرآن‘‘ ایک تفسیر ہے ۔سیدقطب ایک ادیب تھے ۔ مصر کےبعض علماء نے ان کے بارے میں کہاکہ سیدقطب اگر اخوان المسلمون کے غلط سلط کام (جوان کے خیال میں تھے) میں نہ پڑ جاتے توشاید مصر کے بڑے ادباء میں ان کاشمار ہوجاتا۔یعنی ان کاقلم اتنازور آور تھا۔ ’’فی ظلال القرآن‘‘ کی تحریر کے اندر تاثیر ہے‘ ادبیت ہے‘ چونکہ وہ واقعی قرآن کے عاشق اور مخلص تھے ۔ جب ہم ’’فی ظلال القرآن‘‘ کاترجمہ پڑھتے ہیں تووہ تاثیر ختم ہوجاتی ہے ۔ لہٰذا سیدقطب ؒ کے خیالات اورافکار سے اختلاف ہوتے ہوئے بھی جب آپ ان کی تفسیر پڑھتے ہیں توتاثیر محسو س کیے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ان کی اتنی قوی تاثیر ہے ۔ ان کی اپنی تحریر میں وہ تاثیر بعدمیں نہیں ملتی ۔لہٰذا جس مصنف نے جس زبان میںکتاب لکھی ہے اوروہ مصنف واقعی کوئی اللہ والا تھاتواس کی جو للہیت اس کے کلام میں ظاہر ہوتی ہے وہ ترجمہ میں نہیں ہوتی۔ امام غزالی علیہ الرحمہ کے حوالے سےیہ معاملہ آپ بدرجہ اتم دیکھیں گے ۔یہ کتاب اس نوسالہ عرصے میں لکھی گئی جب وہ اللہ کے لیے اوراپنے دل کی اصلاح کے لیے‘ سب کچھ چھوڑ کر‘یہاں تک کہ اس وقت کی سب سے بڑی یونیورسٹی جومدرسہ نظامیہ ہے ‘اس کے وہ ڈین تھے‘ یہ سب چھوڑ کے چلے گئے توان کی کیا کیفیات ہوں گے ! کیاللہیت ہوگی ‘کیااخلاص ہوگا! وہ للہیت اوراخلاص ان کے کلام میں نظرآئے گا ۔ لیکن جب اس کاترجمہ کریں گے تویقیناًوہ بات نہیں رہے گی۔
خالق و مخلوق میں فرق و تفاوت لامحدود ہے
وہ کہہ رہے ہیںکہ سمجھ لویہ صرف تمثیل کے لیے ہے ۔یہ تمثیل اس لیے ہے کہ اس میں انسان اوردوسرا جووجود آئے گااس میں فرق و تفاوت محدود ہے جبکہ انسان اوراس کے خالق میں ایک لامحدود فرق وتفاوت ہے ۔ کہتے ہیں :جس طرح تم بہت حکیمانہ زبان رکھتے ہواورتم ادیب ہو‘ تمہارے اندر بہت کمال ہے ‘زبان پرتمہیں عبور ہے لیکن پھربھی جب تم نے اپنے کسی جانور کوکوئی بات پہنچانی ہوتی ہے توتم اپنی فصاحت وبلاغت سے نزول کرکے اس کی سطح پراُتر کرکچھ سیٹیوں میں اور کچھ تالی بجاکر اسے کلام سمجھاتے ہیں۔ بس اسی طرح سمجھ لوکہ جس طرح تم اتنانزول فرماتے ہوتوبلاتمثیل اوربلاتکلیف اللہ سبحانہ وتعالیٰ اورتمہارے درمیان فرق وتفاوت اس فرق وتفاوت سے جوتمثیل میں ہمارے سامنے آیا ‘ کہیں زیادہ ہے ‘اورکوئی تشبیہ نہیں ہے بلاتشبیہ۔ توکہاں اللہ کی وہ ذات تھی اورکہاں تم تھے کہ اپنی زبان میں اللہ کی صفت کلام کوسمجھ پاتے۔ بس دیکھ لوکہ اللہ کاکتنالطف ہوا ہے اوراللہ نے تمہارا کتنااکرام کیاہے ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے ـ:
{وَلَقَدْ کَرَّمْنَا بَنِیْٓ اٰدَمَ} (الاسراء:۷۰)
’’ہم نے بنی آدم کی بڑی عزت کی ہے ۔‘‘
توکتنااکرام ہے کتنالطف ہے ‘مہربانی ہے ‘شفقت کامظاہرہ کیاہے تمہارے اوپرکہ تمہاری زبان ‘تمہارے حروف اصوات میں اپنی صفت کلام چھپاکرتمہارے سامنے پیش کردیا۔ فرماتے ہیںکہ اس طریقے پرجب تک تم کلام کی حقیقت نہیں سمجھتے ‘اورقرآن کھول کربیٹھ جائوگے توشایداللہ سبحانہ وتعالیٰ کے کلام کی عظمت کاادراک نہ کرسکو۔ اس کلام کی عظمت کاادراک کرواور پھر متکلم پرغور کرو کہ وہ کون ہے‘یعنی جس نے یہ کلام کیا ۔ توتعظیم کلام اورتعظیم متکلم:اللہ سبحانہ وتعالیٰ ۔یہ پہلی دوباطنی شرطیں یاآداب ہیں قرآن مجید کی تلاوت کی ۔
صفت ِکلام کا اثر قرآن مجید سے تعلق ہے
بہرحال یہ کلام اللہ کے حوالے سے کچھ بنیادی باتیں تھیں۔اس میں کوشش یہی کی گئی ہے کہ کلامی مباحث تھوڑے کم رہیں اور تذکیری بات زیادہ ہو ‘کیونکہ کلامی مباحث کئی دفعہ تاثیر میں کچھ کمی بھی کردیتے ہیں ۔ ہمارے لیے کلام اللہ ایک زندہ کتاب ہونی چاہیے ۔وہ صرف کلامی مباحث والی کتاب نہیں ہے ۔ ہم ہرصفت میں دیکھ رہے تھے کہ اس کاہمارے اندر کیااثر ہوناچاہیے ۔ صفت ِکلام کااثریہی ہے کہ قرآن سے تعلق‘ یعنی تعلق بالقرآن اورقرآن کی تاثیر کو محسو س کرنا‘اس کی عظمت کاادراک کرنااور متکلم کی عظمت کاادراک کرنا۔اس صفت ِکلام کے توسط سےیہ سب باتیں ہمیں حاصل ہونی چاہئیں ۔ اگر یہ حاصل ہوگئیں اورآپ کوکلامِ نفسی اورکلامِ لفظی کافرق معلوم نہ ہوسکاتوخیرہے ‘کوئی فرق نہیں پڑتا۔پوری زندگی بھی گزر جائے اوریہ فرق معلوم نہ ہوتوکوئی ایسی بڑی بات نہیں ہے ۔البتہ پوری زندگی گزرجائے اورکلام اللہ سے تعلق نہ ہوتویہ بہت بڑی بات ہے ۔ ہم سب کویہ سوچناچاہیے ‘اس لیے کہ ہم سب کادعویٰ بھی یہی ہے کہ کلام اللہ ہی اصل علوم کامنبع اور سب سے بڑا علم ہے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:((خَیْرُکُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَہٗ)) اور خیریت کےبہترین ہونے کامعیا ربھی یہی ہے۔
اس کے بعد ہم ذرا اپنی ترجیحات پرغور کرلیں توپتاچل جائے گاکہ ہمارے قول وفعل میں کافی تضاد ہے ۔ یعنی بڑے بڑے لو گ اپنے ذہین بچوں کے لیے بھی اگر ترجیحات قائم کریںگے تووہ ترجیح یہ نہیں ہوتی کہ کبھی علوم قرآنیہ میں کوئی مہارت حاصل ہوجائے ‘یاعربی زبان میں مہارت حاصل کرکے کچھ سیکھ لیں اور قرآن کوسمجھ سکیں ۔ یہ چیزیں ہمارے لیےثانوی ہیں ۔ ہوگایہی کہ علوم دنیا بڑے ضروری ہیں اوراصل علم یہی ہے لیکن تم نے یہ علم حاصل کرناہے ۔بالآخر ان ترجیحات سے پتاچل جائے گاکہ ہم جھوٹے ہیں ۔ محسوس یہ ہوتاہے کہ ہمیں قرآن کی عظمت کا ادراک نہیں ہے ۔ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آپ کے سامنے ایک ہیرا اورپتھرپڑے ہوںاورآپ ہیرے کے فضائل بیان کرکے اٹھائیں پتھر۔ یہ ممکن نہیں ہے ۔ اگر ہیرے کی حقیقی معرفت حاصل ہوتی توہاتھ ہیرے کی طر ف ہی بڑھتا۔میں یہ نہیں کہہ رہاکہ ہمارا ایمان نہیں ہے لیکن ہمیں غور کرناچاہیے کہ قرآن مجیدا وراس کے علوم پرہم کتناوقت صرف کرتے ہیں اوراس کوسمجھنے میں ہم نے کتناوقت گزارا ہے ۔ جیسے ڈاکٹر صاحب ؒنےقرآن مجید کے حقوق والی کتاب میں بیان کیاکہ ۱۸‘۲۰سال مختلف زبانیں ا ورعلوم سیکھنے میں وقت گزار لیتے ہیں لیکن اتنانہیں ہوتاکہ اللہ کے کلام کی زبان اس قدر سیکھ لیں کہ بغیرترجمہ کے سمجھ آجائے ۔اس حوالے سے غور کیجیے ۔ رجوع الی القرآن کورس بھی شروع ہورہاہے ۔اپنے اعزہ واقربا کواس میں داخلے کی دعوت دیں۔ڈاکٹر صاحبؒ نے یہ کورسز شروع کرتے وقت یہی بات بیان کی تھی کہ جودنیاوی علوم کے اعتبار سے پڑھے لکھے ہیں جبکہ دینی علوم کے حوالے سے اَن پڑھ ہیں ‘وہ ’’پڑھے لکھے اَن پڑھ‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتے تھے ‘وہ لوگ آئیں اور قرآن سیکھیں۔عربی زبان سیکھیں اوربنیادی علم حاصل کریں۔اس کے بعداگران کومحسوس ہوکہ اس علم میں وہ ترقی حاصل کرناچاہتے ہیں توپھرایک بنیاد مل جائے گی آگے بڑھتے چلے جانےکے لیے ۔اگر عربی زبان آجائے تو علومِ اسلامیہ کے دروازے کھل جاتے ہیں۔