(فہم القرآن) ترجمہ ٔ قرآن مجید،مع صرفی ونحوی تشریح - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

8 /

ترجمہ ٔ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُورۃُ النَّحلآیات ۱ تا ۹{اَتٰٓی اَمْرُ اللہِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ ط سُبْحٰنَہٗ وَتَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۱) یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ(۲) خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ط تَعٰلٰی عَمَّا یُشْرِکُوْنَ(۳) خَلَقَ الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ فَاِذَا ہُوَ خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ(۴) وَالْاَنْعَامَ خَلَقَہَاج لَـکُمْ فِیْہَا دِفْ ئٌ وَّمَنَافِعُ وَمِنْہَا تَاْکُلُوْنَ(۵) وَلَکُمْ فِیْہَا جَمَالٌ حِیْنَ تُرِیْحُوْنَ وَحِیْنَ تَسْرَحُوْنَ(۶) وَتَحْمِلُ اَثْقَالَکُمْ اِلٰی بَلَدٍ لَّمْ تَـکُوْنُوْا بٰلِغِیْـہِ اِلَّا بِشِقِّ الْاَنْفُسِ ط اِنَّ رَبَّکُمْ لَرَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ(۷) وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْکَبُوْہَا وَزِیْنَۃًط وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ (۸) وَعَلَی اللہِ قَصْدُ السَّبِیْلِ وَمِنْہَا جَآئِرٌط وَلَوْ شَآئَ لَہَدٰىکُمْ اَجْمَعِیْنَ(۹)}

ن ط ف
نَطَفَ یَنْطُفُ (ن) نَطْفًا : پانی کا تھوڑا تھوڑا بہنا ‘ ٹپکنا۔
نُطْفَۃٌ : پانی کی بوند ۔ زیر مطالعہ آیت۴۔
د ف ء
دَفُؤَ یَدْفُؤُ (ک) دَفْئًا : گرمی پانا‘ گرمی محسوس کرنا۔
دِفْءٌ : گرمی حاصل کرنے یعنی سردی سے بچنے کا سامان۔ زیر مطالعہ آیت۵۔
ب غ ل
بَغَلَ یَبْغَلُ (ف) بَغْلًا : کسی کو دوغلا ٹھہرانا۔
بَغْلٌ (ج بِغَالٌ ) : خچر ۔ زیر مطالعہ آیت۸۔
ترجمہ
اَتٰٓی : پہنچا

اَمْرُ اللہِ: اللہ کا حکم
فَلَا تَسْتَعْجِلُوْہُ : پس تم لوگ جلدی مت مچائو اس کی

سُبْحٰنَہٗ:پاکیزگی اُس کی ہے
وَتَعٰلٰی : اور وہ بلند ہوا

عَمَّا: اس سے جو
یُشْرِکُوْنَ : یہ لوگ شریک کرتے ہیں

یُنَزِّلُ: وہ اتارتا ہے
الْمَلٰٓئِکَۃَ : فرشتوں کو

بِالرُّوْحِ : روح (یعنی وحی) کے ساتھ
مِنْ اَمْرِہٖ :اپنے حکم سے

عَلٰی مَنْ: اس پر جس پر
یَّشَآئُ : وہ چاہتا ہے

مِنْ عِبَادِہٖٓ: اپنے بندوں میں سے
اَنْ اَنْذِرُوْٓا : کہ تم لوگ خبردار کرو

اَنَّہٗ :(کہ) حقیقت یہ ہے کہ
لَآ اِلٰہَ : کوئی بھی الٰہ نہیں ہے

اِلَّآ اَنَا :سوائے اس کے کہ میں ہوں 
فَاتَّقُوْنِ : پس تم لوگ میرا تقویٰ کرو

خَلَقَ: اُس نے پیدا کیا
السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کو

وَالْاَرْضَ: اور زمین کو
بِالْحَقِّ : حق کے ساتھ

تَعٰلٰی : وہ بلند ہوا
عَمَّا :اس سے جو

یُشْرِکُوْنَ : یہ لوگ شریک کرتے ہیں
خَلَقَ :اُس نے پیدا کیا

الْاِنْسَانَ: انسان کو
مِنْ نُّطْفَۃٍ : پانی کی ایک بوند سے

فَاِذَا ہُوَ : تو جب ہی وہ

خَصِیْمٌ مُّبِیْنٌ : واضح طور پر ہمیشہ بحث کرنے والا ہے

وَالْاَنْعَامَ: اور چوپایوں کو
خَلَقَہَا: اُ س نے پیدا کیا ان کو

لَـکُمْ فِیْہَا : تمہارے لیے ان میں 
دِفْءٌ: سردی سے بچنے (گرم رہنے) کا سامان ہے

وَّمَنَافِعُ : اور کچھ (دوسرے) منافع ہیں
وَمِنْہَا : اور ان میں سے (بعض کو)

تَاْکُلُوْنَ :تم لوگ کھاتے ہو
وَلَکُمْ فِیْہَا : اور تمہار ےلیے ان میں 

جَمَالٌ : دل فریبی ہے
حِیْنَ : جب

تُرِیْحُوْنَ : شام کو واپس لاتے ہو
وَحِیْنَ : اور جب

تَسْرَحُوْنَ: چرنے کے لیے چھوڑتے ہو
وَتَحْمِلُ :اور وہ اٹھاتے ہیں 

اَثْقَالَکُمْ :تمہارے بوجھ
اِلٰی بَلَدٍ :کسی شہر کی طرف

لَّمْ تَـکُوْنُوْا :تم لوگ نہیں تھے
بٰلِغِیْـہِ :پہنچنے والے اس تک

اِلَّا: مگر
بِشِقِّ الْاَنْفُسِ :جانوں کی مشقت سے

اِنَّ رَبَّکُمْ : بے شک تمہارا رب
لَرَئُ وْفٌ : یقیناً بہت نرمی کرنے والا ہے

رَّحِیْمٌ :ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
وَّالْخَیْلَ : اور (اس نے پیدا کیا) گھوڑوں کو

وَالْبِغَالَ :اور خچروں کو
وَالْحَمِیْرَ :اور گدھوں کو

لِتَرْکَبُوْہَا : تاکہ تم لوگ سواری کرو ان پر
وَزِیْنَۃً : اور زینت کے لیے

وَیَخْلُقُ :اور وہ پیدا کرے گا
مَا : اس کو جو

لَا تَعْلَمُوْنَ:تم لوگ نہیں جانتے
وَعَلَی اللہِ : اور اللہ پر (یعنی اُس تک) ہے

قَصْدُ السَّبِیْلِ : راستے کا اعتدال
وَمِنْہَا : اور اس سے

جَآئِرٌ: کوئی بھٹکنے والا ہے
وَلَوْ شَآئَ : اور اگر چاہتا

لَہَدٰىکُمْ : تو ضرور ہدایت دیتا تم کو
اَجْمَعِیْنَ: سب کے سب کو

نوٹ۱: اَتٰی ماضی کا صیغہ ہے اور اس کے معنی یہی ہیں کہ ’’وہ پہنچا‘‘۔ اس لیے ترجمہ میں اسی کو اختیار کیا گیا ہے۔ لیکن عربی کا ایک انداز یہ بھی ہے کہ مستقبل میں ہونے والی کسی بات کو یقینی بنانے کے لیے مستقبل کے بجائے ماضی کا صیغہ استعمال کرتے ہیں۔ (دیکھیں البقرۃ:۲۷‘نوٹ۳) یہاں آیت ۱ میں اَتٰی اسی انداز میں آیا ہے۔ اس کی توثیق آیت کے اگلے حصے فَلَا تَسْتَعْجِلُوْنَ سے ہو رہی ہے۔ اس لیے یہاں اَتٰی کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کا حکم لازماً پہنچے گا۔
نوٹ۲:آیت۵ میں چوپایوں کا ذکر کر کے ان کے فوائد میں سے ایک اہم فائدہ ان کا گوشت کھانا قرار دیا۔ پھر ان سے الگ کر کے آیت۸ میں گھوڑوں‘ خچروں اور گدھوں کی تخلیق کا ذکر کیا۔ ان کے فوائد میں سواری اور زینت کا ذکر کیا لیکن گوشت کھانے کا ذکر نہیں کیا۔ اس میں یہ دلیل پائی جاتی ہے کہ گھوڑے ‘ خچر اور گدھے کا گوشت حلال نہیں ہے۔ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہونے پر اتفاق ہے اور ایک حدیث میں ان کی حرمت کا صراحتاً ذکر بھی ہے‘ مگر گھوڑے کے معاملہ میں دو حدیثیں ہیں۔ ایک سے حلال اور دوسری سے حرام ہونا معلوم ہوتا ہے۔ اس لیے اس مسئلہ میں اختلافِ رائے ہے۔ امام ابوحنیفہؒ نے اس کو مکروہ قرار دیا ہے۔ (معار ف القرآن)
نوٹ۳:آیت۸ میں سواری کے تین جانور گھوڑے‘ خچر اور گدھے کا خاص طور سے بیان کرنے کے بعد فرمایا:’’اور وہ پیدا کرے گا وہ چیزیں جن کو تم نہیں جانتے‘‘۔ اس میں وہ تمام نوایجاد سواریاں بھی داخل ہیں جن کا پرانے زمانے میں کوئی تصوّر بھی نہیں تھا‘مثلاً ریل‘ موٹر‘ ہوائی جہاز‘ وغیرہ‘ جو اب تک ایجاد ہو چکے ہیں اور وہ تمام چیزیں بھی اس میں داخل ہیں جو آئندہ ایجاد ہوں گی۔ (معارف القرآن)
نوٹ۴:توحید‘ رحمت اور ربوبیت کے دلائل پیش کر کے آیت۹ میں نبوت کی بھی ایک دلیل پیش کر دی گئی ہے۔ اس کو سمجھ لیں۔دنیا میں انسان کے لیے فکر و عمل کے بہت سے مختلف راستے ممکن ہیں اور عملاً موجود بھی ہیں۔ ظاہر ہے یہ سارے راستے بیک وقت حق نہیں ہو سکتے۔ سچائی توایک ہی ہے اور صحیح نظریہ حیات صرف وہی ہو سکتا ہے جو اس سچائی کے مطابق ہو اور عمل کے بے شمار ممکن راستوں میں سے صحیح راستہ بھی صرف وہی ہو سکتا ہے جو صحیح نظریۂ حیات پر مبنی ہو۔
اس صحیح راہِ عمل سے واقف ہونا انسان کی اصل اور بنیادی ضرورت ہے‘ کیونکہ دوسری تمام چیزیں تو انسان کی صرف ان ضرورتوں کو پورا کرتی ہیں جو ایک بلند درجے کا جانور ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہوا کرتی ہیں‘ مگر یہ ایک ضرورت ایسی ہے جو انسان ہونے کی حیثیت سے اس کو لاحق ہے۔ یہ اگر پوری نہ ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کی ساری زندگی ہی ناکام ہو گئی۔
اب غور کرو کہ جس خدا نے تمہیں وجود میں لانے سے پہلے تمہارے لیے یہ کچھ سروسامان مہیا کر کے رکھا اور جس نے وجود میں لانے کے بعد تمہاری حیوانی زندگی کی ایک ایک ضرورت پورا کرنے کا اتنےبڑے پیمانے پر انتظام کیا‘ کیا اس سے تم یہ توقع رکھتے ہو کہ اس نے تمہاری انسانی زندگی کی اس اصلی ضرورت کو پورا کرنے کا بندوبست نہ کیا ہو گا؟ یہ بندوبست نبوت کے ذریعہ سے کیا گیا ہے۔ اگر تم نبوت کو نہیں مانتے تو بتائو کہ تمہارے خیال میں خدا نے انسان کی ہدایت کے لیے اور کون سا انتظام کیا ہے؟اس کے جواب میں تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ خدا نے ہمیں راستہ تلاش کرنے کے لیے عقل و فکر دے رکھی ہے‘ کیونکہ انسانی عقل و فکر پہلے ہی بے شمار مختلف راستے ایجاد کر بیٹھی ہے جو راہِ راست کی صحیح دریافت میں اس کی ناکامی کا کھلا ثبوت ہے‘ اور نہ تم یہ کہہ سکتے ہو کہ خدا نے ہماری رہنمائی کا کوئی انتظام نہیں کیا ہے۔خدا کے ساتھ اس سے بڑھ کر بدگمانی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ وہ جانور ہونے کی حیثیت سے تو تمہاری پرورش کا اتنا مکمل انتظام کرے‘ مگر انسان ہونے کی حیثیت سے تم کو بھٹکنے کے لیے چھوڑ دے۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۱۰ تا ۱۷{ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَّمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْنَ(۱۰) یُـنْبِتُ لَـکُمْ بِہِ الزَّرْعَ وَالزَّیْتُوْنَ وَالنَّخِیْلَ وَالْاَعْنَابَ وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ(۱۱) وَسَخَّرَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّہَارَلا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَط وَالنُّجُوْمُ مُسَخَّرٰتٌ  بِاَمْرِہٖ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ(۱۲) وَمَا ذَرَاَ لَکُمْ فِی الْاَرْضِ مُخْتَلِفًا اَلْوَانُہٗ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّذَّکَّرُوْنَ(۱۳) وَہُوَ الَّذِیْ سَخَّرَ الْبَحْرَ لِتَاْکُلُوْا مِنْہُ لَحْمًا طَرِیًّا وَّتَسْتَخْرِجُوْا مِنْہُ حِلْیَۃً تَلْبَسُوْنَہَاج وَتَرَی الْفُلْکَ مَوَاخِرَ فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ(۱۴) وَاَلْقٰی فِی الْاَرْضِ رَوَاسِیَ اَنْ تَمِیْدَ بِکُمْ وَاَنْہٰرًا وَّسُبُلًا لَّعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ(۱۵) وَعَلٰمٰتٍ ط وَبِالنَّجْمِ ہُمْ یَہْتَدُوْنَ(۱۶) اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ ط اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ(۱۷) }
ط ر و
طَرَا یَطْرُو (ک) طَرَاوَۃً : نرم اور تروتازہ ہونا۔
طَرِیٌّ : فَعِیْلٌ کے وزن پر صفت ہے۔ تروتازہ۔ زیر مطالعہ آیت۱۴
م خ ر
مَخَرَ یَمْخَرُ (ف) وَمَخَرَ یَمْخُرُ (ن) مَخْرًا : پانی کو آواز کے ساتھ چیرنا۔
مَاخِرَۃٌ ج مَوَاخِرُ (اسم الفاعل) : پانی چیرنے والی۔ زیر مطالعہ آیت۱۴
ترکیب
(آیت۱۱) وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ عطف ہے یُنْبِتُ پر ۔ (آیت۱۲) وَسَخَّرَ کے مفعول وَالْقَمَرَ پر ختم ہو گئے۔ آگے نیا جملہ ہے جس میں وَالنُّجُوْمُ مبتدأ ہے اور مُسَخَّرٰتٌ  اس کی خبر ہے‘ اس لیے دونوں حالت ِ رفع میں ہیں۔ (آیت۱۳) مُخْتَلِفًا اسم الفاعل ہے اور حال ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے جبکہ اَلْوَانُ اس کا فاعل ہونے کی وجہ سے حالت رفع میں ہے۔ (آیت۱۴) تَرَی کا مفعول ہونے کی وجہ سے اَلْفُلْکَ حالت ِنصب میں ہے جبکہ مَوَاخِرَ حال ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہے۔ یہ اَلْفُلْکَ کی صفت نہیں ہو سکتا کیونکہ  اَلْفُلْکَ معرف باللّام ہے جبکہ مَوَاخِرَ نکرہ آیا ہے۔ فِیْہِ کی ضمیر اَلْبَحْرَ کے لیے ہے۔ (آیت۱۵) رَوَاسِیَ، اَنْھٰرًا، سُبُلًا اور عَلٰمٰتٍ یہ سب اَلْقٰی کا مفعول ہونے کی وجہ سے حالت ِنصب میں ہیں۔
ترجمہ:
ہُوَ الَّذِیْٓ : وہ وہی ہے جس نے

اَنْزَلَ : اتارا
مِنَ السَّمَآئِ :آسمان سے

مَآئً :کچھ پانی
لَّکُمْ :تمہارے لیے

مِّنْہُ: اس میں سے
شَرَابٌ : پینے کی چیز ہے

وَّمِنْہُ : اور اس میں سے
شَجَرٌ : ایسے درخت ہیں 

فِیْہِ: جن میں 
تُسِیْمُوْنَ : تم لوگ مویشی چراتے ہو

یُـنْبِتُ : وہ اُگاتا ہے
لَـکُمْ : تمہارے لیے

بِہِ الزَّرْعَ:اس سے کھیتی کو
وَالزَّیْتُوْنَ : اور زیتون کو

وَالنَّخِیْلَ: اورکھجوروں کو
وَالْاَعْنَابَ : اور انگوروں کو

وَمِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ :اور تمام پھلوں میں سے (بھی اُگاتاہے)
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ :بے شک اس میں

لَاٰیَۃً : یقیناً ایک نشانی ہے
لِّقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لیے جو

یَّتَفَکَّرُوْنَ : غور و فکر کرتے ہیں
وَسَخَّرَ :اور اس نے مطیع کیا

لَکُمُ : تمہارے لیے
الَّیْلَ : رات کو

وَالنَّہَارَ : اور دن کو
وَالشَّمْسَ : اور سورج کو

وَالْقَمَرَ :اور چاند کو
وَالنُّجُوْمُ : اور تمام ستارے

مُسَخَّرٰتٌ: مطیع کیے گئے ہیں

بِاَمْرِہٖ: اُس کے حکم سے

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ:بے شک اس میں 
لَاٰیٰتٍ : یقیناً نشانیاں ہیں

لِّقَوْمٍ :ایسے لوگوں کے لیے جو
یَّعْقِلُوْنَ : سوچ سمجھ سے کام لیتے ہیں

وَمَا:اور اس میں (بھی نشانیاں ہیں) جو
ذَرَاَ :اُس نے بکھیرا

لَکُمْ : تمہارے لیے
فِی الْاَرْضِ : زمین میں 

مُخْتَلِفًا: مختلف ہوتے ہوئے
اَلْوَانُہٗ :ان کے رنگ

اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ :بے شک اس میں 
لَاٰیَۃً : یقیناً ایک نشانی ہے

لِّقَوْمٍ : ایسے لوگوں کے لیے جو
یَّذَّکَّرُوْنَ: نصیحت پکڑتے ہیں 

وَہُوَ الَّذِیْ:اور وہ وہی ہے جس نے
سَخَّرَ : مطیع کیا

الْبَحْرَ : سمندر کو
لِتَاْکُلُوْا : تاکہ تم لوگ کھائو

مِنْہُ :اس میں سے
لَحْمًا طَرِیًّا :کچھ تازہ گوشت

وَّتَسْتَخْرِجُوْا : اور تاکہ تم لوگ نکالو
مِنْہُ :اس میں سے

حِلْیَۃً : کچھ ایسے زیور
تَلْبَسُوْنَہَا: تم لوگ پہنتے ہو جن کو

وَتَرَی : اور تو دیکھتا ہے
الْفُلْکَ :کشتیوں کو

مَوَاخِرَ :پانی چیرنے والی ہوتے ہوئے
فِیْہِ :اس میں

وَلِتَبْتَغُوْا: اور تاکہ تم لوگ تلاش کرو
مِنْ فَضْلِہٖ : اس کے فضل میں سے

وَلَعَلَّکُمْ : اور شاید تم لوگ
تَشْکُرُوْنَ: احسان مانو

وَاَلْقٰی :اور اُس نے ڈالے
فِی الْاَرْضِ : زمین میں 

رَوَاسِیَ : کچھ پہاڑ
اَنْ : کہ کہیں

تَمِیْدَ بِکُمْ : وہ لرزے تمہارے ساتھ
وَاَنْہٰرًا :اور کچھ نہریں

وَّسُبُلًا :اور کچھ راستے
لَّعَلَّکُمْ :شاید تم لوگ

تَہْتَدُوْنَ: راہ پائو
وَعَلٰمٰتٍ : اور کچھ علامتیں (بھی ڈالیں)

وَبِالنَّجْمِ :اور اس ستارے سے
ہُمْ : وہ لوگ

یَہْتَدُوْنَ: راہ پاتے ہیں 
اَفَمَنْ : تو کیا وہ جو

یَّخْلُقُ :پیدا کرتا ہے
کَمَنْ :اس کی مانند ہے جو

لَّا یَخْلُقُ :پیدا نہیں کرتا
اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ : تو کیا تم لوگ نصیحت نہیں پکڑو گے ؟
نوٹ: اس سورہ کی ابتدا شرک کی نفی سے ہوئی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سے بہت بلند ہے جن کو لوگ اُس کی ذات و صفات میں شریک کرتے ہیں۔ اس کے بعد آیت۱۶ تک آفاق و انفس کی بہت سی نشانیاں پے در پے بیان کی گئی ہیں۔ ان سے یہ ذہن نشین کرانا مقصود ہے کہ انسان اپنے وجود سے لے کر زمین و آسمان کے گوشے گوشے تک جدھر چاہے نظر دوڑا کر دیکھ لے‘ ہر چیز پیغمبرؐ کے بیان کی تصدیق کر رہی ہے۔ کہیں سے بھی شرک یا دہریت کی تائید میں کوئی شہادت فراہم نہیں ہوتی۔
پھر آیت۱۷ میں سوال کیا گیا کہ اگر تم مانتے ہو (جیسا کہ فی الواقع مکہ کے مشرکین بھی مانتے تھے اور دنیا کے دوسرے مشرکین بھی مانتے ہیں) کہ خالق اللہ ہی ہے اور اس کائنات میں تمہارے ٹھہرائے ہوئے شریکوں میں سے کسی کا کچھ بھی پیدا کیا ہوا نہیں ہے‘ تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ غیر خالق ہستیوں کی حیثیت خود خالق کے برابر ہو یا کسی طرح بھی اس کے مانند ہو۔ کیسے باور کیا جا سکتا ہے کہ خالق اور غیر خالق کی صفات ایک جیسی ہوں گی‘ یا وہ ایک جنس کے افراد ہوں گے‘ حتیٰ کہ ان کے درمیان باپ اور اولاد کا رشتہ ہو گا ؟ (تفہیم القرآن)
آیات ۱۸ تا ۲۵{وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَۃَ اللہِ لَا تُحْصُوْہَاط اِنَّ اللہَ لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۸) وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تُسِرُّوْنَ وَمَا تُعْلِنُوْنَ(۱۹) وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّہُمْ یُخْلَقُوْنَ(۲۰) اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَآئٍ ج وَمَا یَشْعُرُوْنَ لا اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ(۲۱) اِلٰہُکُمْ اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ ج فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُہُمْ مُّنْکِرَۃٌ وَّہُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ(۲۲) لَا جَرَمَ اَنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ط  اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ(۲۳) وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ مَّاذَآ اَنْزَلَ رَبُّکُمْ لا قَالُوْٓا اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ(۲۴) لِیَحْمِلُوْٓا اَوْزَارَہُمْ کَامِلَۃً یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِلا وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ط اَلَاسَآئَ مَا یَزِرُوْنَ(۲۵)}
ترکیب
(آیت۲۰) یَدْعُوْنَ کا فاعل اس میں شامل ھُمْ کی ضمیر ہے اور وَالَّذِیْنَ اس کا مفعول مقدم ہے۔ (آیت۲۱) اَمْوَاتٌ خبر ہے۔ اس کا مبتدأ ھُمْ محذوف ہے۔ اسی طرح غَیْرُ اَحْیَاءٍ بھی خبر ہے اور اس کا بھی مبتدأ ھُمْ محذوف ہے۔ (آیت۲۳) اِنَّہٗ کو ضمیر الشان ماننا بہتر ہے۔ (آیت۲۵) لِیَحْمِلُوْا پر جو لام ہے اسے لامِ کَیْ کے بجائے لامِ عاقبت (بمعنی آخر کار) ماننا بہتر ہے۔ یُضِلُّوْنَ کا فاعل اس میں شامل ھُمْ کی ضمیر ہے اور اس کا مفعول الَّذِیْنَ مقدم ہے۔ یُضِلُّوْنَ کے ساتھ ھُمْ کی ضمیر اَلَّذِیْنَ کی ضمیر عائد ہے۔
ترجمہ:
وَاِنْ :اور اگر

تَعُدُّوْا : تم لوگ گنتی کرو گے
نِعْمَۃَ اللہِ : اللہ کی نعمت کی

لَا تُحْصُوْہَا : تو شمار پورا نہ کر پائوگے اس کا
اِنَّ اللہَ :بے شک اللہ

لَغَفُوْرٌ:یقیناً بے انتہا بخشنے والا ہے
رَّحِیْمٌ :ہر حال میں رحم کرنے والا ہے

وَاللہُ یَعْلَمُ:اور اللہ جانتا ہے
مَا : اس کو جو

تُسِرُّوْنَ :تم لوگ چھپاتے ہو
وَمَا :اوراس کو جو

تُعْلِنُوْنَ :تم لوگ اعلان کرتے ہو
وَالَّذِیْنَ : اور وہ لوگ جن کو

یَدْعُوْنَ :یہ لوگ پکارتے ہیں 
مِنْ دُوْنِ اللہِ :اللہ کے علاوہ

لَا یَخْلُقُوْنَ:وہ پیدا نہیں کرتے
شَیْئًا :کوئی چیز

وَّہُمْ :اور وہ (تو خود)
یُخْلَقُوْنَ : پیدا کیے گئے ہیں 

اَمْوَاتٌ:(وہ لوگ) مردہ ہیں 
غَیْرُ اَحْیَآئٍ : کسی جان کے بغیر ہیں

وَمَا یَشْعُرُوْنَ: اور وہ شعور نہیں رکھتے
اَیَّانَ :کہ کب

یُبْعَثُوْنَ : وہ اٹھائے جائیں گے
اِلٰہُکُمْ : تم لوگوں کا الٰہ

اِلٰــہٌ وَّاحِدٌ : واحد الٰہ ہے
فَالَّذِیْنَ : پس وہ لوگ جو

لَا یُؤْمِنُوْنَ :ایمان نہیں رکھتے
بِالْاٰخِرَۃِ:آخرت پر

قُلُوْبُہُمْ:ان کے دل

مُّنْکِرَۃٌ : انکار کرنے والے ہیں

وَّہُمْ: اور وہ لوگ
مُّسْتَکْبِرُوْنَ :بڑائی چاہنے والے ہیں

لَا جَرَمَ :کوئی شک نہیں ہے
اَنَّ اللہَ :کہ اللہ

یَعْلَمُ:جانتا ہے
مَا :اس کو جو

یُسِرُّوْنَ : یہ لوگ چھپاتے ہیں
وَمَا : اور اس کو جو

یُعْلِنُوْنَ : یہ لوگ اعلان کرتے ہیں
اِنَّہٗ :حقیقت یہ ہے کہ

لَا یُحِبُّ : وہ پسند نہیں کرتا
الْمُسْتَکْبِرِیْنَ : بڑائی چاہنے والوں کو

وَاِذَا:اور جب بھی
قِیْلَ لَہُمْ :کہا جاتاہے ان سے

مَّاذَآ اَنْزَلَ: کیا اتارا
رَبُّکُمْ :تمہارے ربّ نے

قَالُوْٓا :تو وہ کہتے ہیں
اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ :پہلے لوگوں کے افسانے ہیں

لِیَحْمِلُوْٓا :انجام کار وہ اٹھائیں گے
اَوْزَارَہُمْ :اپنے بوجھ

کَامِلَۃً : پورے پورے
یَّوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن

وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ: اور ان کے بوجھوں میں سے
یُضِلُّوْنَہُمْ:انہوں نے گمراہ کیا جن کو

بِغَیْرِ عِلْمٍ:کسی علم کے بغیر
اَلَا :خبردار!

سَآئَ مَا : برا ہے وہ جو
یَزِرُوْنَ :یہ لوگ اٹھائیں گے


نوٹ۱: آیت۲۰۔۲۱ کے الفاظ بتا رہے ہیں کہ یہاں جن بناوٹی معبودوں کی تردید کی جا رہی ہے وہ فرشتے یا جِن یا شیاطین یا لکڑی پتھر کی مورتیاں نہیں ہیں بلکہ اصحابِ قبور ہیں۔ اس لیے کہ فرشتے اور شیاطین تو زندہ ہیں‘ ان پر اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَاءٍ کے الفاظ کا اطلاق نہیں ہو سکتا۔ اور لکڑی پتھر کی مورتیوں کے معاملہ میں بعث بعد الموت کا کوئی سوال نہیں ہے‘ اس لیے مَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ کے الفاظ انہیں بھی خارج از بحث کر دیتے ہیں۔ اب لامحالہ اس میں اَلَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ سے مراد وہ انبیاء‘ اولیاء‘ شہداء اور صالحین ہیں جن کو غالی معتقدین اپنی حاجت روائی کے لیے پکارنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر کوئی یہ کہے کہ عرب میں اس نوعیت کے معبود نہیں پائے جاتے تھے تو یہ جاہلیت ِعرب کی تاریخ سے ان کی ناواقفیت کا ثبوت ہے۔عرب کے متعدد قبائل میں کثرت سے عیسائی اور یہودی پائے جاتے تھے اور یہ دونوں مذاہب بری طرح انبیاء‘ اولیاءـ اور شہداء کی پرستش سے آلودہ تھے۔ پھر مشرکین ِعرب کے بہت سے معبودگزرے ہوئے انسان ہی تھے جنہیں بعد کی نسلوں نے خدا بنا لیا تھا۔ صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی روایت ہے کہ ود‘ سواع‘ یغوث‘ یَعوق‘ نسر‘ یہ سب صالحین کے نام ہیں جنہیں بعد کے لوگ بت بنا بیٹھے۔ بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے اِساف اور نائلہ دونوں انسان تھے۔ اسی طرح کی روایات لات‘ مناۃ اور عُزّٰی کے بارے میں بھی موجود ہیں۔ (تفہیم القرآن)
نوٹ۲: آیت۲۵ میں وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِیْنَ یُضِلُّوْنَہُمْ کے الفاظ سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ کوئی شخص قیامت کے دن اس بنیاد پر‘ کہ دوسرے نے اسے گمراہ کیا ہے‘ اپنی ذمہ داری سے کلیۃً بری نہیں ہو گا‘ بلکہ اسے بھی اپنی گمراہی کا خمیازہ بھگتنا ہوگا‘کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خود اُس کو جو عقل و بصیرت عطا فرمائی تھی اس نے اس سے کام کیوں نہیں لیا۔ اس وجہ سے جس طرح اس کو گمراہ کرنے والا اپنی حد تک اس کی گمراہی کا ذمہ دار ٹھہرے گا‘ اسی طرح یہ بھی اپنی حد تک اپنی گمراہی کا ذمہ دار قرار پائے گا اور اس کا خمیازہ بھگتے گا۔ (تدبر قرآن)
مزید وضاحت کے لیے ابراہیم:۲۱‘ نوٹ ۱ دوبارہ پڑھ لیں۔
آیات ۲۶ تا ۲۹{قَدْ مَکَرَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ فَاَتَی اللہُ بُنْیَانَہُمْ مِّنَ الْقَوَاعِدِ فَخَرَّ عَلَیْہِمُ السَّقْفُ مِنْ فَوْقِہِمْ وَاَتٰىہُمُ الْعَذَابُ مِنْ حَیْثُ لَا یَشْعُرُوْنَ(۲۶) ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ یُخْزِیْہِمْ وَیَقُوْلُ اَیْنَ شُرَکَآءِیَ الَّذِیْنَ کُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ فِیْہِمْ ط قَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ اِنَّ الْخِزْیَ الْیَوْمَ وَالسُّوْٓئَ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ(۲۷) الَّذِیْنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الْملٰٓئِکَۃُ ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ ص فَاَلْقَوُا السَّلَمَ مَا کُنَّا نَعْمَلُ مِنْ سُوْٓئٍ ط بَلٰٓی اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌم بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۲۸) فَادْخُلُوْٓا اَبْوَابَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیْنَ فِیْہَاط فَلَبِئْسَ مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ(۲۹)}
س ق ف
سَقَفَ یَسْقَفُ (ف) وَسَقَفَ یَسْقُفُ (ن) سَقْفًا : مکان پر چھت ڈالنا۔
سَقْفٌ ج سُقُفٌ : چھت۔ زیر مطالعہ آیت۲۶۔
ترکیب
(آیت۲۸) ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ مضاف‘ مضاف الیہ مل کر تَتَوَفّٰىہُمُ میں ھُمْ (مفعول) کا حال ہے‘ الْمَلٰئِکَۃُ  کا نہیں ہے۔
ترجمہ:
قَدْ مَکَرَ : چالبازی کر چکے ہیں

الَّذِیْنَ:وہ لوگ جو
مِنْ قَبْلِہِمْ :ان سے پہلے تھے

فَاَتَی اللہُ :تو پہنچا اللہ
بُنْیَانَہُمْ :ان کی عمارت پر

مِّنَ الْقَوَاعِدِ:بنیادوں سے
فَخَرَّ عَلَیْہِمُ : پس گر پڑی ان پر

السَّقْفُ :چھت
مِنْ فَوْقِہِمْ :ان کے اوپر سے

وَاَتٰىہُمُ:اور پہنچا ان پر
الْعَذَابُ :عذاب

مِنْ حَیْثُ :جہاں سے
لَا یَشْعُرُوْنَ: وہ شعور نہیں رکھتے تھے

ثُمَّ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ :پھر قیامت کے دن
یُخْزِیْہِمْ :وہ رسوا کرے گا ان کو

وَیَقُوْلُ :اور کہے گا
اَیْنَ :کہاں ہیں 

شُرَکَآئِ یَ الَّذِیْنَ :میر ے وہ شرکاء
کُنْتُمْ تُشَآقُّوْنَ : تم لوگ مخالفت کرتے تھے

فِیْہِمْ:جن (کے بارے) میں 
قَالَ الَّذِیْنَ :کہیں گے وہ لوگ جنہیں

اُوْتُوا الْعِلْمَ:دیا گیا علم
اِنَّ الْخِزْیَ :یقیناً ساری رسوائی

الْیَوْمَ :آج کے دن
وَالسُّوْٓئَ :اور ساری برائی (بھی)

عَلَی الْکٰفِرِیْنَ:انکار کرنے والوں پرہے
الَّذِیْنَ :وہ لوگ

تَتَوَفّٰىہُمُ :جان قبض کرتے ہیں جن کی
الْملٰٓئِکَۃُ :فرشتے

ظَالِمِیْٓ اَنْفُسِہِمْ:اپنے آپ پر ظلم کرنے والے ہوتے ہوئے

فَاَلْقَوُا: تو وہ لوگ ڈالتے ہیں 

السَّلَمَ :مکمل اطاعت
مَا کُنَّا نَعْمَلُ :(اور کہتے ہیں)ہم عمل نہیں کرتے تھے

مِنْ سُوْٓئٍ:کسی بھی برائی کا
بَلٰٓی :(فرشتے کہتے ہیں) کیوں نہیں

اِنَّ اللہَ: یقیناً اللہ
عَلِیْمٌ :جاننے والا ہے

بِمَا:اس کو جو
کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ :تم لوگ کرتے تھے

فَادْخُلُوْٓا :پس (اب ) داخل ہو جائو
اَبْوَابَ جَہَنَّمَ :جہنم کے دروازوں میں

خٰلِدِیْنَ :ہمیشہ رہنے والے ہوتے ہوئے
فِیْہَا :اس میں 

فَلَبِئْسَ : تو یقیناً کتنا برا ہے
مَثْوَی الْمُتَکَبِّرِیْنَ :گھمنڈ کرنے والوں کا ٹھکانہ