(فہم القرآن) سُوْرَۃُ النَّحل - افاداتِ حافظ احمد یارؒ

9 /

ترجمہ ٔ قرآن مجید
مع صرفی و نحوی تشریح

افادات : حافظ احمد یار مرحوم
ترتیب و تدوین:لطف الرحمٰن خان مرحوم
سُوْرَۃُ النَّحل
آیات ۹۰تا ۹۴

{اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَاَیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْہٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ ج یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ(۹۰) وَاَوْفُوْا بِعَہْدِ اللہِ اِذَا عٰـہَدْتُّمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا ط اِنَّ اللہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ(۹۱)وَلَا تَکُوْنُوْا کَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَہَا مِنْ بَعْدِ قُوَّۃٍ اَنْکَاثًاط تَتَّخِذُوْنَ اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ اَنْ تَکُوْنَ اُمَّۃٌ ہِیَ اَرْبٰی مِنْ اُمَّۃٍط اِنَّمَا یَبْلُوْکُمُ اللہُ بِہٖ ط وَلَیُبَیِّنَنَّ لَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ مَا کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ (۹۲) وَلَوْ شَآئَ اللہُ لَجَعَلَکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّلٰــکِنْ یُّضِلُّ مَنْ یَّشَآءُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ ط وَلَتُسْئَلُنَّ عَمَّا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ(۹۳) وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ دَخَلًا بَیْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌ  بَعْدَ ثُبُوْتِہَا وَتَذُوْقُوا السُّوْٓءَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللہِ ج وَلَکُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۹۴)}
وک د
وَکَدَ یَکِدُ (ض) وَکُوْدًا : کسی جگہ اقامت کرنا۔ کسی کام کی مشق کرنا۔
وَکَّدَ (تفعیل) تَوْکِیْدًا : معاہدہ کو پکا کرنا۔ زیر مطالعہ آیت۹۱۔
غ ز ل
غَزَلَ یَغْزِلُ (ض) غَزْلًا : سوت یا اون بٹنا‘ کاتنا۔
غَزْلٌ : کاتا ہوا سوت ۔ زیر مطالعہ آیت۹۲۔
ترکیب
(آیت۹۰) اِیْتَآیِٔ دراصل بابِ افعال کا مصدر اِیْتَاءٍ ہے۔ مضاف ہونے کی وجہ سے تنوین ختم ہوئی ہے اور ’’ی‘‘ محض ہمزئہ مکسورہ کی کرسی ہے جو پڑھی نہیں جاتی۔ بِالْعَدْلِ کی با پر عطف ہونے کی وجہ سے اِیْتَاءِ حالت ِ جر میں ہے۔ (آیت۹۲) اُمَّۃٍ مؤنث لفظ ہے‘ لیکن اس پر مِنْ داخل ہوا ہے اس لیے افعل تفضیل کا مؤنث رُبْوٰی کے بجائے مذکر اَرْبٰی آیا ہے۔ (آیت۹۴) فَا سببیہ ہونے کی وجہ سے فَتَزِلَّ حالت ِنصب میں ہے۔ قَدَمٌ مؤنث سماعی ہے اس لیے واحد مؤنث کا صیغہ تَزِلَّ آیا ہے۔ فَا سببیہ پر عطف ہونے کی وجہ سے تَذُوْقُوْا حالت ِ نصب میں ہے۔
ترجمہ:
اِنَّ اللہَ : بے شک اللہ

یَاْمُرُ: حکم دیتا ہے
بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ : عدل کا اور احسان کا

وَاِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی : اور قرابت والے کو پہنچانے کا
وَیَنْہٰی : اور وہ منع کرتا ہے

عَنِ الْفَحْشَآئِ: بے حیائی سے
وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ :اور برائی سے اور سرکشی سے

یَعِظُکُمْ :وہ نصیحت کرتا ہے تم کو
لَعَلَّکُمْ : شاید تم لوگ

تَذَکَّرُوْنَ : نصیحت حاصل کرو
وَاَوْفُوْا :اور تم لوگ پورا کرو

بِعَہْدِ اللہِ : اللہ کے عہد کو
اِذَا عٰـہَدْتُّمْ :جب بھی تم لوگ باہم معاہدہ کرو

وَلَا تَنْقُضُوا : اور مت توڑو
الْاَیْمَانَ :قسموں کو

بَعْدَ تَوْکِیْدِہَا :ان کو پکا کیے جانے کے بعد
وَقَدْ جَعَلْتُمُ:اس حال میں کہ تم لوگ بنا چکے ہو

اللہَ : اللہ کو
عَلَیْکُمْ :اپنے آپ پر

کَفِیْلًا : ایک ضامن
اِنَّ اللہَ : بے شک اللہ

یَعْلَمُ :جانتا ہے
مَا تَفْعَلُوْنَ : اس کو جو تم لوگ کرتے ہو

وَلَا تَکُوْنُوْا : اور تم لوگ مت ہونا
کَالَّتِیْ : اس عورت کی مانند جس نے

نَقَضَتْ :توڑا
غَزْلَہَا : اپنے کاتے ہوئے سوت کو

مِنْ  بَعْدِ قُوَّۃٍ: قوت دیے جانے کے بعد

اَنْکَاثًا :ریزے ریزے

تَتَّخِذُوْنَ :تم لوگ بناتے ہو
اَیْمَانَکُمْ : اپنی قسموں کو

دَخَلًا :باعث ِفساد
بَیْنَکُمْ :اپنے مابین

اَنْ تَکُوْنَ : تاکہ ہو جائے
اُمَّۃٌ :ایک گروہ

ہِیَ اَرْبٰی :(کہ) وہی زیادہ بڑھنے والا ہو
مِنْ اُمَّۃٍ :دوسرے گروہ سے

اِنَّمَا:کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
یَبْلُوْکُمُ اللہُ :آزماتا ہے تم کو اللہ

بِہٖ : اس سے
وَلَیُبَیِّنَنَّ :اور وہ لازماً واضح کر ے گا

لَکُمْ :تمہارے لیے
یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ : قیامت کے دن

مَا :اس کو
کُنْتُمْ فِیْہِ تَخْتَلِفُوْنَ : تم لوگ اختلاف کرتے تھے جس میں 

وَلَوْ:اور اگر
شَآئَ اللہُ :چاہتا اللہ

لَجَعَلَکُمْ: تو وہ بنا دیتا تم سب کو
اُمَّۃً وَّاحِدَۃً :ایک(ہی) اُمّت

وَّلٰــکِنْ :اور لیکن
یُّضِلُّ :وہ گمراہ کرتا ہے

مَنْ یَّشَآئُ :اس کو جس کو وہ چاہتا ہے
وَیَہْدِیْ :اور وہ ہدایت دیتا ہے

مَنْ یَّشَآئُ :اس کو جس کو وہ چاہتا ہے
وَلَتُسْئَلُنَّ :اور تم سے لازماً پوچھا جائے گا

عَمَّا :اس کے بارے میں جو
کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ :تم لوگ عمل کرتے تھے

وَلَا تَتَّخِذُوْٓا:اور تم لوگ مت بنائو
اَیْمَانَکُمْ : اپنی قسموں کو

دَخَلًا:باعث ِفساد
بَیْنَکُمْ :اپنے مابین

فَتَزِلَّ: نتیجتاً پھسل جائے
قَدَمٌ : کوئی قدم

بَعْدَ ثُبُوْتِہَا : اس کے جمے رہنے کے بعد
وَتَذُوْقُوا : اور نتیجتاً تم لوگ چکھو

السُّوْٓ ئَ:بُرائی کو
بِمَا :بسبب اس کے جو

صَدَدْتُّمْ :تم نے روکا (لوگوں کو)
عَنْ سَبِیْلِ اللہِ :اللہ کی راہ سے

وَلَکُمْ :اور تمہارے لیے
عَذَابٌ عَظِیْمٌ:ایک بڑا عذاب ہے

نوٹ۱: آیت۹۰ قرآن کریم کی جامع ترین آیات ہے جس میں پوری اسلامی تعلیمات کو چند الفاظ میں سمو دیا گیا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کو قرآن کی جامع ترین آیت فرمایا اور حضرت اکثم بن صیفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی آیت کی بنا پر اسلام میں داخل ہوئے۔ جب رسول اللہﷺ نے یہ آیت ولید بن مغیرہ کے سامنے تلاوت فرمائی تو اس نے اپنی قوم قریش کے سامنے اپنا جو تاثر بیان کیا وہ یہ تھا: ’’خدا کی قسم! اس (قرآن) میں ایک خاص حلاوت ہے اور اس کے اوپر ایک خاص رونق اور نور ہے۔ اس کی جڑ سے شاخیں اور پتے نکلنے والے ہیں اور شاخوں پر پھل لگنے والا ہے۔ یہ کسی انسان کا کلام ہرگز نہیں ہو سکتا۔‘‘ (معارف القرآن)
نوٹ۲: آیت۹۰ میں جن چیزوں کو کرنے یا چھوڑنے کا حکم تھا‘ آیت۹۱ میں ان کے تقاضوں میں سے اب خاص طور سے ایفائے عہد کی تاکید کی گئی ہے۔ یہ چیز بذاتِ خود بھی ایک بہت بڑی خوبی ہے‘لیکن اس کا مسلم قوم کی عروج و ترقی پر بے انتہا اثر پڑنے والا تھا۔ اسی لیے حکم دیا کہ جب اللہ کا نام لے کر معاہدے کرتے ہو تو اللہ کے نام کی حرمت قائم رکھو۔ کسی قوم یا کسی شخص سے معاہدہ ہو (بشرطیکہ خلافِ شرع نہ ہو) تو مسلمان کا فرض ہے کہ اسے پورا کرے خواہ اس میں کتنی ہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے۔ یہ سمجھنا چاہیے کہ قسم کھانا گویا اللہ کو اس کا گواہ یا ضامن بنانا ہے۔ پھر اگلی آیت میں بتایا کہ عہدباندھ کر توڑنا ایسی حماقت ہے جیسے کوئی عورت دن بھر سوت کاتے اور شام کو اسے توڑکر پارہ پارہ کر دے۔ یہ سخت ناعاقبت اندیشی ہے‘ کیونکہ اگر اعتبار نہ رہے تو دنیا کا نظام مختل ہو جائے گا۔ (تفسیر عثمانی سے ماخوذ)
نوٹ۳: ’’کاتے ہوئے سوت کو توڑنا‘‘ عربی کامحاورہ ہے۔ اس کا مفہوم اردو کے اس محاورے سے ادا ہوتا ہے کہ اپنے سارے کیے کرائے پر پانی پھیرنا۔ اب سوال یہ ہے کہ کوئی شخص‘ ادارہ یا قوم اگروعدہ خلافی یا عہد شکنی کرتی ہے تو اس کے سارے کیے کرائے پر پانی کیسے پھر جاتا ہے؟ یہ بات انگریزی کی ایک کہاوت سے سمجھ میں آتی ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر دولت چلی گئی تو کچھ نہیں گیا‘ اگر صحت چلی گئی تو کچھ گیا اوراگر reputation چلی گئی تو سب کچھ چلا گیا۔ اور آدمی مدتوں کی محنت سے اپنی جو اچھی شہرت اور ساکھ ( reputation )بناتا ہے وہ کسی ایک وعدہ خلافی یا عہد شکنی سے جاتی رہتی ہے۔
آیات ۹۵ تا ۱۰۰وَلَا تَشْتَرُوْا بِعَہْدِ اللہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا ط اِنَّمَا عِنْدَ اللہِ ہُوَ خَیْرٌ لَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ(۹۵) مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللہِ بَاقٍ ط وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۶) مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃًج وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ اَجْرَہُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ(۹۷) فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ(۹۸) اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ(۹۹) اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ(۱۰۰)
ن ف د
نَفِدَ یَنْفَدُ (س) نَفَادًا : ختم ہونا‘ فنا ہونا۔ زیرمطالعہ آیت۹۶۔
ترکیب
(آیت۹۵) اِنَّمَا عِنْدَ اللہِ میں اِنَّمَا کلمۂ حصر نہیں ہے بلکہ اِنَّ کے اسم مَا کو اس کے ساتھ ملا کرلکھا گیا ہے اور عِنْدَ اللہِ اس کی خبر ہے۔ (دیکھو البقرۃ:۱۱۔۱۲ ‘نوٹ۲) ۔ (آیت۹۷) عَمِلَ کا مفعول عَـمَلًا محذوف ہےاور صَالِحًا اس کی صفت ہے۔ نُحْیِیَنَّ کا مفعول ہٗ کی ضمیر ہے اور حَیٰوۃً طَیِّبَۃً مفعول مطلق ہے۔ یہاں بابِ افعال کے مصدرکے بجائے ثلاثی مجرد کا مصدر حَیٰوۃً مفعول مطلق کے طور پر آیا ہے اور طَیِّبَۃً اس کی صفت ہے۔
ترجمہ:
وَلَا تَشْتَرُوْا : اور تم لوگ مت خریدو

بِعَہْدِ اللہِ: اللہ کے عہد کے بدلے
ثَمَنًا قَلِیْلًا : تھوڑی سی قیمت

اِنَّمَا عِنْدَ اللہِ :بے شک وہ جو اللہ کے پاس ہے
ہُوَ خَیْرٌ : وہ (ہی) بہتر ہے

لَّـکُمْ:تمہارے لیے
اِنْ کُنْتُمْ : اگر تم لوگ

تَعْلَمُوْنَ :جانتے ہو
مَا عِنْدَکُمْ : وہ جو تم لوگوں کے پاس ہے

یَنْفَدُ:فنا ہو جائے گا
وَمَا عِنْدَ اللہِ : اور وہ جو اللہ کے پاس ہے

بَاقٍ :باقی رہنے والا ہے
وَلَنَجْزِیَنَّ : اور ہم لازماً پورا پورا دیں گے

الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا :ان کو جو ثابت قدم رہے
اَجْرَہُمْ : ان کا اجر

بِاَحْسَنِ :اس کے بہترین کے مطابق
مَاکَانُوْا یَعْمَلُوْنَ : جووہ عمل کرتے تھے

مَنْ عَمِلَ : جس نے عمل کیا
صَالِحًا : کوئی نیک (عمل)

مِّنْ ذَکَرٍ :کسی مرد میں سے
اَوْ اُنْثٰی :یا کسی عورت میں سے

وَہُوَ : اس حال میں کہ وہ
مُؤْمِنٌ : صاحب ِایمان ہو

فَلَنُحْیِیَنَّہٗ :تو ہم لازماً جِلائیں گے اس کو
حَیٰوۃً طَیِّبَۃً : جیسے پاکیزہ جینا ہوتا ہے

وَلَنَجْزِیَنَّہُمْ:اور ہم لازماً پورا پورا دیں گے ان کو
اَجْرَہُمْ : ان کا اجر

بِاَحْسَنِ : اس کے بہترین کے مطابق
مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ : جو وہ عمل کرتے تھے

فَاِذَا : پس جب کبھی

قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ : آپؐ پڑھیں قرآن

فَاسْتَعِذْ بِاللہِ : تو پناہ مانگ لیں اللہ کی
مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ: دھتکارے ہوئے شیطان سے

اِنَّہٗ:حقیقت یہ ہے کہ
لَیْسَ لَہٗ : نہیں ہے اس کے لیے

سُلْطٰنٌ : کوئی اختیار
عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا: ان لوگوںپر جو ایمان لائے

وَعَلٰی رَبِّہِمْ :اور اپنے ربّ پر ہی
یَتَوَکَّلُوْنَ : وہ لوگ بھروسا کرتے ہیں

اِنَّمَا :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
سُلْطٰنُہٗ : اس کا اختیار

عَلَی الَّذِیْنَ:ان پر ہے جو
یَتَوَلَّوْنَہٗ :دوست بناتے ہیں اس کو

وَالَّذِیْنَ ہُمْ:اور ان پر بھی (یعنی بالخصوص) جو
بِہٖ :اس (یعنی شیطان ) کے سبب سے

مُشْرِکُوْنَ :شرک کرنے والے ہوتے ہیں
نوٹ: پاکیزہ زندگی مال و دولت اور دنیوی عیش و آرام کے ساتھ بھی ہو سکتی ہے اور ان کے بغیر بھی۔ ان چیزوں کا زندگی کی پاکیزگی سے کوئی ربط نہیں ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں ایسے بھی تھے جن پر اکثر فاقے گزرتے رہتے تھے اور وہ بھی تھے جن کی دولت کا حساب نہیں تھا۔ لیکن تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جیسی پاکیزہ زندگی گزار گئے ہیں وہ تو پھر تابعین کو بھی نصیب نہیں ہوئی۔ ہم لوگ تو کسی شمار و قطار میں نہیں ہیں۔
جن لوگوں کو پاکیزہ زندگی کی ایک ہلکی سی رمق بھی نصیب ہو جاتی ہے ان کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی کوئی چیز اگر چھن جائے تو انسان ہونے کے ناطے افسوس تو ان کو بھی ہوتا ہے لیکن ان کا افسوس یاس اور ناامیدی میں تبدیل نہیں ہوتا بلکہ وہ بہت جلد اپنے افسوس پر قابو پا لیتے ہیں۔ اور اگر کوئی چیز ان کو مل جائے تو خوشی تو ان کو بھی ہوتی ہے لیکن اس خوشی میں وہ آپے سے باہر نہیں ہوتے اور جلد ہی اپنی خوشی پر قابو پا لیتے ہیں۔ گویا ان کی زندگی سورۃ الحدید کی آیت۲۳ کی ہدایت کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہوتی ہے۔ اس خصوصیت کی تاثیر یہ ہوتی ہے کہ ان کی زندگی ماضی کے پچھتاووں اور مستقبل کے اندیشوں سے پاک ہوتی ہے۔ پھر اس تاثیر کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے سینے بغض و عداوت اور حرص و ہوس کی اُس آگ سے پاک ہوتے ہیں جس کو قرآن مجید میں {الَّتِیْ تَطَّلِعُ عَلَی الْاَفْئِدَۃِ(۷) } (الھمزۃ) کہا گیا ہے۔ یعنی جو انسان کے ہوش و حواس پر چھا جاتی ہے اور اچھے بھلے آدمی کی مت مار دیتی ہے۔
پاکیزہ زندگی کی یہ باطنی کیفیت اس دنیا کی جنت ہے جس کے لیے امام ابن تیمیہؒ کہا کرتے تھے کہ میری جنت میرے سینے میں ہے۔ یہ جنت ان لوگوں کا نقد انعام ہے جو حالت ِایمان میں نیک اعمال کرتے ہیں اور آخرت میں ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق دیا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی‘ اسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔‘‘ (تفہیم القرآن) رسول اللہﷺ کا ارشا دہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے مؤمن بندے پر ظلم نہیں کرتا بلکہ اس کی نیکی کا بدلہ دنیا میں عطا فرماتا ہے اور آخرت کی نیکیاں بھی اسے دیتا ہے۔ ہاں کافر اپنی نیکیوں کا بدلہ دنیا میں ہی پا لیتا ہے‘ آخرت میں اس کے ہاتھ میں کوئی نیکی باقی نہیں رہتی۔ (بحوالہ مسلم‘ منقول از ابن کثیر)
آیات ۱۰۱ تا ۱۰۵وَاِذَا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَّکَانَ اٰیَۃٍلا وَّاللہُ اَعْلَمُ بِمَا یُنَزِّلُ قَالُوْٓا اِنَّمَآ اَنْتَ مُفْتَرٍط بَلْ اَکْثَرُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۱۰۱) قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ مِنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ لِیُثَبِّتَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہُدًی وَّبُشْرٰی لِلْمُسْلِمِیْنَ(۱۰۲) وَلَقَدْ نَعْلَمُ اَ نَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌط لِسَانُ الَّذِیْ یُلْحِدُوْنَ اِلَیْہِ اَعْجَمِیٌّ وَّہٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ(۱۰۳) اِنَّ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ لا لَا یَہْدِیْہِمُ اللہُ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) اِنَّمَا یَفْتَرِی الْکَذِبَ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِ اللہِ ج وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ(۱۰۵)
ع ج م
عَجُمَ یَعْجُمُ (ک) عُجْمَۃً : لکنت کا ہونا‘ ہکلانا۔
اَعْجَمُ: اَفْعَلُ الوان و عیوب کے وزن پر صفت ہے لیکن اس کی جمع اَفْعَلُ التفضیل کے اوزان پر آتی ہے‘ یعنی اَعْجَمُوْنَ اور اَعَاجِمُ (۱) صاف بیان نہ کرنے والا‘ خواہ عربی ہو (۲) غیر عربی‘ خواہ فصیح عربی بولتا ہو۔ {وَلَوْ نَزَّلْنٰـہُ عَلٰی بَعْضِ الْاَعْجَمِیْنَ(۱۹۸)} (الشعراء) ’’اور اگر ہم نازل کرتے اس کو غیر عربی لوگوں کے کسی پر۔‘‘
اَعْجَمِیٌّ (اسم نسبت ہے) : غیر عرب سے نسبت والی کوئی چیز ۔ زیر مطالعہ آیت ۱۰۳۔
ترجمہ:
وَاِذَا بَدَّلْنَآ:اور جب کبھی ہم تبدیل کرتے ہیں

اٰیَۃً: کسی آیت کو
مَّکَانَ اٰیَۃٍ :کسی آیت کی جگہ

وَّاللہُ : اور اللہ
اَعْلَمُ : سب سے زیادہ جاننےوالا ہے

بِمَا یُنَزِّلُ : اس کو جو وہ نازل کرتا ہے
قَالُوْٓا : تو وہ لوگ کہتے ہیں 

اِنَّمَآ اَنْتَ : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ آپؐ
مُفْتَرٍ : گھڑنے والے ہیں

بَلْ اَکْثَرُہُمْ:بلکہ ان کے اکثر
لَا یَعْلَمُوْنَ :علم نہیں رکھتے

قُلْ نَزَّلَہٗ: آپؐ کہیے اُتارا اس کو
رُوْحُ الْقُدُسِ:روح القدس (یعنی جبرئیلؑ) نے

مِنْ رَّبِّکَ :آپؐ کے رب (کی طرف) سے
بِالْحَقِّ :حق کے ساتھ

لِیُثَبِّتَ :تاکہ وہ جما دے
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا :ان کو جو ایمان لائے

وَہُدًی :اور ہدایت ہوتے ہوئے
وَّبُشْرٰی :اور بشارت ہوتے ہوئے

لِلْمُسْلِمِیْنَ: فرمانبرداری کرنے والوں کے لیے
وَلَقَدْ نَعْلَمُ:اور بے شک ہم نے جان لیاہے

اَنَّہُمْ یَقُوْلُوْنَ :کہ یہ لوگ کہتے ہیں 
اِنَّمَا :کچھ نہیں سوائے اس کے کہ

یُعَلِّمُہٗ : سکھاتا ہے انؐ کو
بَشَرٌ :ایک بشر

لِسَانُ الَّذِیْ :اُس کی زبان
یُلْحِدُوْنَ: یہ لوگ مائل (یعنی اشارہ) کرتے ہیں

اِلَیْہِ:جس کی طرف
اَعْجَمِیٌّ : غیر عربی ہے

وَّہٰذَا لِسَانٌ: اور یہ زبان ہے
عَرَبِیٌّ مُّبِیْنٌ : واضح عربی

اِنَّ الَّذِیْنَ :بے شک جو لوگ

لَا یُؤْمِنُوْنَ : ایمان نہیں لاتے

بِاٰیٰتِ اللہِ :اللہ کی آیتوں پر
لَا یَہْدِیْہِمُ اللہُ : ہدایت نہیں دے گا ان کو اللہ

وَلَہُمْ:اور ان کے لیے
عَذَابٌ اَلِیْمٌ :ایک دردناک عذاب ہے

اِنَّمَا:کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
یَفْتَرِی الْکَذِبَ :گھڑتے ہیں جھوٹ کو

الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ: وہ لوگ جو ایمان نہیں لاتے
بِاٰیٰتِ اللہِ :اللہ کی آیتوں پر

وَاُولٰٓئِکَ:اور وہ لوگ
ہُمُ الْکٰذِبُوْنَ : ہی جھوٹ کہنے والے ہیں

نوٹ: آیات کے منسوخ ہونےاور اس کی حکمت کا ذکر سورۃ البقرۃ کی آیت۱۰۶ میں آ چکا ہے اور اس کے نوٹ میں اس کی وضاحت کی جا چکی ہے۔ یہاں آیات کی تبدیلی سے مراد احکام کی تبدیلی ہے۔ ہم اس کی دو مثالیں دے رہے ہیں جو تفسیر عثمانی سے ماخوذ ہیں۔ سورۃ المزمل کی ابتدائی تین آیات میں حکم تھا کہ رات کا تقریباً آدھا حصہ نماز پڑھیں۔ یہ تہجد کی نماز تھی۔ رسول اللہﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم اس پر عمل پیرا تھے۔ پھر ایک سال بعد (بحوالہ تفسیر نعیمی) اسی سور ہ میں آیت ۲۰ نازل ہوئی جس کے مطابق تہجد فرض کے بجائے نفل ہو گئی اور وقت کی مقدار لوگوں کی سہولت پر چھوڑ دی گئی ۔ اسی طرح مکہ میں قتال سے ممانعت اور ہاتھ روکے رکھنے کا حکم تھا۔ پھر سورۃ الحج میں اس کی اجازت دی گئی اور بعد میں قتال فی سبیل اللہ فرضِ کفایہ ہو گیا۔
آیات ۱۰۶ تا ۱۱۰مَنْ کَفَرَ بِاللہِ مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَلٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللہِ ج وَلَہُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ(۱۰۶) ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ لا وَاَنَّ اللہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ(۱۰۷) اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہُ عَلٰی قُلُوْبِہِمْ وَسَمْعِہِمْ وَاَبْصَارِہِمْ ج وَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ(۱۰۸) لَا جَرَمَ اَنَّہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ(۱۰۹) ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا مِنْ م بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جٰہَدُوْا وَصَبَرُوْٓالا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ م بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ (۱۰)
ترجمہ:
مَنْ کَفَرَ : جس نے انکار کیا

بِاللہِ : اللہ کا
مِنْ م بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ : اپنے ایمان کے بعد

اِلَّا مَنْ:سوائے اس کے جس کو
اُکْرِہَ :مجبور کیا گیا

وَقَلْبُہٗ :اس حال میں کہ ا س کا دل
مُطْمَئِنٌّ :مطمئن ہو

بِالْاِیْمَانِ :ایمان پر
وَلٰکِنْ :اور لیکن

مَّنْ شَرَحَ :جس نے کشادہ کیا
بِالْکُفْرِ صَدْرًا : کفر سے سینے کو

فَعَلَیْہِمْ :تو ان لوگوں پر
غَضَبٌ : ایک غضب ہے

مِّنَ اللہِ :اللہ (کی طرف) سے
وَلَہُمْ : او ر ان کے لیے

عَذَابٌ عَظِیْمٌ: ایک بڑا عذاب ہے
ذٰلِکَ بِاَنَّہُمُ :یہ اس سبب سے کہ انہوں نے

اسْتَحَبُّوا :ترجیح دی
الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا :نزدیکی زندگی کو

عَلَی الْاٰخِرَۃِ :آخری (زندگی) پر
وَاَنَّ اللہَ :اور یہ کہ اللہ

لَا یَہْدِی :نہیں ہدایت دیتا
الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ :انکار کرنے والے لوگوںکو

اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ :یہ وہ لوگ ہیں
طَبَعَ اللہُ :چھاپ لگا دی اللہ نے

عَلٰی قُلُوْبِہِمْ:جن کے دلوں پر
وَسَمْعِہِمْ :اور جن کی سماعت پر

وَاَبْصَارِہِمْ:اور جن کی بصارتوں پر
وَاُولٰٓئِکَ :اور یہ لوگ

ہُمُ الْغٰفِلُوْنَ : ہی غافل ہیں 
لَا جَرَمَ :کوئی شک نہیں 

اَنَّہُمْ:کہ یہ لوگ
فِی الْاٰخِرَۃِ :آخرت میں

ہُمُ الْخٰسِرُوْنَ : ہی خسارہ پانے والے ہیں
ثُمَّ :پھر (بھی)

اِنَّ رَبَّکَ :بے شک آپؐ کا ربّ
لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے

ہَاجَرُوْا : ہجرت کی
مِنْ م بَعْدِ مَا :اس کے بعد کہ جو

فُتِنُوْا:انہیں آزمائش میں ڈالا گیا
ثُمَّ جٰہَدُوْا :پھر انہوں نے جہاد کیا

وَصَبَرُوْٓا :اور ڈٹے رہے
اِنَّ رَبَّکَ :(تو) بے شک آپؐ کا رب

مِنْ بَعْدِہَا :اس کے بعد
لَغَفُوْرٌ :یقیناً بے انتہا بخشنے والا ہے

رَّحِیْمٌ : ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
نوٹ:آیت۱۰۶ سے ثابت ہوا کہ جس شخص کو کلمہ ٔکفر کہنے پر اس طرح مجبور کر دیا گیا کہ اگر وہ کلمہ نہ کہے تو اس کو قتل کر دیا جائے تو ایسے اکراہ کی حالت میں اگر وہ زبان سے کلمۂ کفر کہہ دے مگر اس کا دل ایمان پر جما ہوا ہو تو اس پر کوئی گناہ نہیں۔ یہ رخصت کا پہلو ہے‘ جبکہ عزیمت یہ ہے کہ جان دے دے لیکن کلمۂ کفر نہ کہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں دونوں مثالیں ہیں۔ حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کلمۂ کفر کہنے سے انکار کرنے پر قتل کردیا گیا‘ جبکہ ان کے صاحب زادے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جان بچانے کی خاطر کلمۂ کفر کہہ دیا۔ دشمنوں سے رہائی پا کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر واقعہ بیان کیا۔ آپﷺ نے پوچھا کہ اس وقت تمہارے دل کا کیا حال تھا؟ انہوں نے کہا کہ دل تو ایمان پر جما ہوا تھا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا کہ تم پر اس کا کوئی وبال نہیں۔ آپﷺ کے اس فیصلہ کی تصدیق میں یہ آیت نازل ہوئی۔(معارف القرآن سے ماخوذ)
آیات ۱۱۱ تا ۱۱۵یَوْمَ تَاْتِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَّفْسِہَا وَتُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ(۱۱۱) وَضَرَبَ اللہُ مَثَلًا قَرْیَۃً کَانَتْ اٰمِنَۃً مُّطْمَئِنَّۃً یَّاْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَدًا مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللہِ فَاَذَاقَہَا اللہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ(۱۱۲) وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ فَکَذَّبُوْہُ فَاَخَذَہُمُ الْعَذَابُ وَہُمْ ظٰلِمُوْنَ(۱۱۳) فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللہُ حَلٰلًا طَیِّبًا ص وَّاشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ(۱۱۴) اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَمَآ اُہِلَّ لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ ج فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ اللہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۱۵)
ترکیب
(آیت۱۱۱) وَفّٰی کے دو مفعول آتے ہیں‘ کس کو دیا اور کیا چیز دی۔ تُوَفّٰی فعل مجہول ہے۔ اس کا پہلا مفعول کُلُّ نَفْسٍ ہے اور نائب فاعل ہونے کی وجہ سے حالت ِرفع میں ہے۔ اس کا مفعول ثانی مَا ہے اور محلًا حالت ِ نصب میں ہے۔ (آیت۱۱۲) ضَرَبَ کا مفعول ہونے کی وجہ سے مَثَلًا حالت ِنصب میں ہے اور قَرْیَۃً اس کا بدل ہونے کی وجہ سے منصوب ہوا ہے۔ کَانَتْ کا اسم اس میں شامل ھِیَ کی ضمیرہے جو قَرْیَۃً کے لیے ہے‘ جب کہ کَانَتْ کی خبر ہونے کی وجہ سے اٰمِنَۃً اور مُطْمَئِنَّۃً حالت ِنصب میں ہیں۔ رَغَدًا حال ہے۔ (آیت۱۱۴) فَکُلُوْا کا مفعول محذوف ہے جو شَیْئًا یا اَکْلًا ہو سکتا ہے۔ حَلٰلًا اور طَیِّبًا فعل محذوف کی صفت ہے۔
ترجمہ:
یَوْمَ تَاْتِیْ :جس دن آئے گی

کُلُّ نَفْسٍ :ہر ایک جان
تُجَادِلُ : بحث کرتی ہوئی

عَنْ نَّفْسِہَا :اپنی جان کی طرف سے
وَتُوَفّٰی :اور پورا پورا دیا جائے گا

کُلُّ نَفْسٍ :ہر ایک جان کو
مَّا عَمِلَتْ :وہ جو اس نے عمل کیا

وَہُمْ:اور ان لوگوں پر
لَا یُظْلَمُوْنَ :ظلم نہیں کیا جائے گا

وَضَرَبَ اللہُ:اور بیان کی اللہ نے
مَثَلًا :ایک مثال

قَرْیَۃً:ایک بستی کی
کَانَتْ اٰمِنَۃً :وہ تھی امن میں 

مُّطْمَئِنَّۃً:مطمئن
یَّاْتِیْہَا :پہنچتا تھا اس کو

رِزْقُہَا : اس کا رزق
رَغَدًا :بافراغت

مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ: ہر ایک جگہ سے
فَکَفَرَتْ : اس نے پھر ناشکری کی

بِاَنْعُمِ اللہِ :اللہ کی نعمتوں کی
فَاَذَاقَہَا اللہُ : تو چکھایا اس کو اللہ نے

لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ : خوف اور بھوک کے لباس کا مزہ
بِمَا : بسبب اس کے جو

کَانُوْا یَصْنَعُوْنَ : وہ لوگ کاریگری کرتے تھے
وَلَقَدْ جَآئَ ہُمْ : حالانکہ آ چکا تھا ان کے پاس

رَسُوْلٌ مِّنْہُمْ :ایک رسول ان میں سے
فَکَذَّبُوْہُ : پھر انہوں نے جھٹلایا اس کو

فَاَخَذَہُمُ : تو پکڑا ان کو
الْعَذَابُ :عذاب نے

وَہُمْ :اس حال میں کہ وہ لوگ

ظٰلِمُوْنَ : ظلم کرنے والے تھے

فَکُلُوْا مِمَّا : پس تم لوگ کھائو اس میں سے جو
رَزَقَکُمُ اللہُ : عطا کیا تم کو اللہ نے

حَلٰلًا طَیِّبًا :حلال (کھانا) پاک (کھانا)
وَّاشْکُرُوْا : اور شکر ادا کرو

نِعْمَتَ اللہِ :اللہ کی نعمت کا
اِنْ کُنْتُمْ :اگر تم لوگ

اِیَّاہُ:اس کی ہی
تَعْبُدُوْنَ : بندگی کرتے ہو

اِنَّمَا:کچھ نہیں سوائے اس کے کہ
حَرَّمَ عَلَیْکُمُ :اس نے حرام کیا تم لوگوں پر

الْمَیْتَۃَ: مردار کو
وَالدَّمَ : اور خون کو

وَلَحْمَ الْخِنْزِیْرِ : اور سور کے گوشت کو
وَمَآ اُہِلَّ : اور اس کو پکارا گیا

لِغَیْرِ اللہِ بِہٖ:غیر اللہ کے لیے جس کو
فَمَنِ اضْطُرَّ : پس جو مجبور کیا گیا

غَیْرَ بَاغٍ: بغاوت کرنے والا ہوئے بغیر
وَّلَا عَادٍ:اور نہ حد سے گزرنےو الا ہوتے ہوئے

فَاِنَّ اللہَ: تو بے شک اللہ
غَفُوْرٌ : بے انتہا بخشنے والا ہے

رَّحِیْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
نوٹ: یہاں جس بستی کی مثال پیش کی گئی ہے اس کی کوئی نشاندہی نہیں کی گئی۔ بظاہر ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہی کا یہ قول صحیح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں نام لیے بغیر خود مکہ کو مثال کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس صورت میں خوف اور بھوک کی جس مصیبت کے چھا جانے کا یہاں ذکر کیا گیا ہے‘ ا س سے مراد وہ قحط ہو گا جو نبیﷺ کی بعثت کے بعد ایک مدت تک اہل مکہ پر مسلط رہا۔ (تفہیم القرآن)
آیات ۱۱۶ تا ۱۱۹وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللہِ الْکَذِبَ ط اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ(۱۱۶) مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ص وَّلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۱۷) وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا حَرَّمْنَا مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ مِنْ قَبْلُ ج وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ وَلٰکِنْ کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۸) ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓئَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْٓالا اِنَّ رَبَّکَ مِنْ م بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌرَّحِیْمٌ(۱۱۹)
ترکیب
(آیت۱۱۶) تَقُوْلُوْا کا مفعول لِمَا ہے اور محلًّا منصوب ہے۔(۱) لِمَا کا بدل ہونے کی وجہ سے اَلْکَذِبَ حالت ِنصب میں ہے(۲)۔ لِتَفْتَرُوْا پر جو لام ہے اس کو لامِ کَیْ کے بجائے لامِ عاقبت ماننا زیادہ بہتر ہے۔ (حافظ احمد یار صاحب ؒ) ترجمہ میں ہم اسی کو ترجیح دیں گے۔ (آیت۱۱۷) مَتَاعٌ قَلِیْلٌ خبر ہے‘ اس کا مبتدأ ھٰذَا محذوف ہے۔
ترجمہ:
وَلَا تَقُوْلُوْا : اور تم لوگ مت کہو

لِمَا تَصِفُ :اس کو جو صفت بیان کرتی ہیں
اَلْسِنَتُکُمُ : تمہاری زبانیں

الْکَذِبَ :جو جھوٹ ہے
ہٰذَا حَلٰلٌ : (کہ) یہ حلال ہے

وَّہٰذَا حَرَامٌ :(کہ) یہ حرام ہے
لِّتَفْتَرُوْا :نتیجتاً تم لوگ گھڑو گے

عَلَی اللہِ الْکَذِبَ : اللہ پر جھوٹ
اِنَّ الَّذِیْنَ :بے شک وہ لوگ جو

یَفْتَرُوْنَ : گھڑتے ہیں
عَلَی اللہِ الْکَذِبَ :اللہ پر جھوٹ

لَا یُفْلِحُوْنَ : وہ لوگ فلاح نہیں پائیں گے
مَتَاعٌ قَلِیْلٌ :(یہ) تھوڑا سا سامان ہے

وَّلَہُمْ:اور ان کے لیے
عَذَابٌ اَلِیْمٌ :ایک دردناک عذا ب ہے

وَعَلَی الَّذِیْنَ ہَادُوْا: اور ان پر جو یہودی ہوئے
حَرَّمْنَا مَا :ہم نے حرام کیا اس کو جو

قَصَصْنَا عَلَیْکَ : ہم نے بیان کیا آپؐ پر
مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے

وَمَا ظَلَمْنٰہُمْ :اور ہم نے ظلم نہیں کیا ان پر
وَلٰکِنْ :اور لیکن

کَانُوْٓا اَنْفُسَہُمْ یَظْلِمُوْنَ:وہ اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے
ثُمَّ :پھر (بھی)

اِنَّ رَبَّکَ : بے شک آپ ؐ کا رب
لِلَّذِیْنَ : ان کے لیے جنہوں نے

عَمِلُوا السُّوْٓئَ :عمل کیا برا
بِجَہَالَۃٍ :کسی نادانی کے سبب سے

ثُمَّ تَابُوْا :پھر انہوں نے توبہ کی
مِنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ :اس کے بعد

وَاَصْلَحُوْٓا: اور انہوں نے (اپنی) اصلاح کی

اِنَّ رَبَّکَ : (تو) بے شک آپؐ کا رب

مِنْ م بَعْدِہَا :اس کے بعد
لَغَفُوْرٌ:یقیناً بے انتہا بخشنے والا ہے

رَّحِیْمٌ: ہمیشہ رحم کرنے والا ہے
نوٹ: آیت ۱۱۸ کے الفاظ مَا قَصَصْنَا عَلَیْکَ میں سورۃ الانعام کی آیت۱۴۶ کی طرف اشارہ ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ یہودیوں پر ان کی نافرمانیوں کے باعث کون کون سی چیزیں حرام کی گئی تھیں (تفہیم القرآن)۔ یہود اپنی سرکشی کے باعث ان چیزوں سے محروم کیے گئے تھے‘ لہٰذا یہ چیزیں ان پر حرام رہیں اور ہماری شریعت میں یہ چیزیں حلال ہیں ۔ (تفسیر نعیمی۔ بحوالہ سورۃ الانعام‘ آیت۱۴۶)
آیات ۱۲۰ تا ۱۲۴اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِّلہِ حَنِیْفًاط وَلَمْ یَکُ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۲۰) شَاکِرًا لِّاَنْعُمِہٖ ط اِجْتَبٰىہُ وَہَدٰىہُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ(۱۲۱) وَاٰتَیْنٰہُ فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃًط وَاِنَّہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ(۱۲۲) ثُمَّ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ اَنِ اتَّبِعْ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا ط وَمَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ(۱۲۳) اِنَّمَا جُعِلَ السَّبْتُ عَلَی الَّذِیْنَ اخْتَلَفُوْا فِیْہِ ط وَاِنَّ رَبَّکَ لَیَحْکُمُ بَیْنَہُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فِیْمَا کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ(۱۲۴)
ترکیب
(آیت۱۲۰) کَانَ کی خبر ہونے کی وجہ سے اُمَّۃً حالت ِنصب میں ہے۔ قَانِتًا اور حَنِیْفًا کی نصب کے تین امکانات ہیں۔ اَولاًیہ کہ انہیں اُمَّۃً کی صفت یا بدل مانا جائے۔ ثانیاً یہ کہ انہیں س کا حال مانا جائے۔ ثالثاً یہ کہ انہیں بھی کَانَ کی خبر مانا جائے‘ یعنی ان سےپہلے وَکَانَ محذوف مانا جائے۔ ترجمہ میں ہم تیسرے امکان کو ترجیح دیں گے۔ (آیت۱۲۱) شَاکِرًا سے پہلے کَانَ محذوف ہے جس کی خبر ہونے کی وجہ سے یہ حالت ِ نصب میں ہے۔ اِجْتَبٰہُ اور ھُدٰىہُ کا فاعل ان میں شامل ھُوَ کی ضمیریں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں جبکہ ان کے ساتھ ہُ کی ضمیر مفعولی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے ہے۔
ترجمہ:
اِنَّ اِبْرٰہِیْمَ :بے شک ابراہیم (علیہ السلام )

کَانَ اُمَّۃً :تھے (اپنی ذات میں) ایک اُمّت
قَانِتًا :اطاعت کرنے والے تھے

لِّلہِ حَنِیْفًا :اللہ کے لیے یکسو تھے
وَلَمْ یَکُ :اور وہ تھے ہی نہیں

مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ : شرک کرنے والوں میں
شَاکِرًا :(وہ تھے) شکر ادا کرنے والے

لِّاَنْعُمِہٖ: اُس کی نعمتوں کا
اِجْتَبٰىہُ :اُس (یعنی اللہ ) نے چنا انؑ کو

وَہَدٰىہُ :اور اُس نے ہدایت دی انؑ کو
اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ:ایک سیدھے راستے کی طرف

وَاٰتَیْنٰہُ :اور ہم نے دی انؑ کو
فِی الدُّنْیَا : دنیا میں

حَسَنَۃً: بھلائی
وَاِنَّہٗ : اور بے شک وہ

فِی الْاٰخِرَۃِ : آخرت میں
لَمِنَ الصّٰلِحِیْنَ :یقیناً صالحین میں سے ہیں

ثُمَّ اَوْحَیْنَآ:پھر ہم نے وحی کیا
اِلَیْکَ :آپؐ کی طرف

اَنِ اتَّبِعْ :کہ آپؐ پیروی کریں
مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ : ابراہیمؑ کے دین کی

حَنِیْفًا : یکسو ہوتے ہوئے
وَمَا کَانَ :اور وہؑ نہیں تھے

مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ:شرک کرنےوالوں میں سے
اِنَّمَا : کچھ نہیں سوائے اس کے کہ

جُعِلَ السَّبْتُ : مقرر کیا گیا ہفتہ کا دن
عَلَی الَّذِیْنَ : ان پر جنہوں نے

اخْتَلَفُوْا فِیْہِ : اختلاف کیا اس میں
وَاِنَّ رَبَّکَ :اور بے شک آپؐ کا ربّ

لَیَحْکُمُ :یقیناً فیصلہ کرے گا

بَیْنَہُمْ : ان کے مابین

یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ: قیامت کے دن
فِیْمَا :جس میں (کہ)

کَانُوْا فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ: وہ لوگ اختلاف کرتے تھے
نوٹ: لفظ اُمّت چند معانی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مشہور معنی جماعت اور قوم کے ہیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے اس جگہ (یعنی آیت ۱۲۰ میں) یہی معنی منقول ہیں۔ مراد یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام تنہا ایک فرد‘ ایک اُمّت اور قوم کے کمالات و فضائل کے جامع ہیں۔ (معار ف القرآن) جیسے اردو میں ہم کہتے ہیں کہ وہ شخص تو خود اپنی ذات میں ایک انجمن ہے۔ اسی مفہوم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک اُمّت کہا گیا ہے۔ اس بات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو نظر یہ آتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے کارِ رسالت میں ہاتھ بٹانے والے حضرت ہارون علیہ السلام کے علاوہ قبیلہ کے بڑے سردار بھی تھے جن میں سے ستّر کو چُن کر موسیٰ علیہ السلام میقات پر لے گئے تھے (الاعراف:۱۵۵)۔ عیسیٰ علیہ السلام کے حواری تھے۔ رسول اللہﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی جماعت تھی۔ لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنا کارِ رسالت تن تنہا سرانجام دیا اور اس طرح دیا کہ آج دنیا کے تین بڑے مذاہب یعنی یہود‘ نصاریٰ اور مسلمان انؑ کو اپنا امام اور پیشوا تسلیم کرتے ہیں۔
آیات ۱۲۵ تا ۱۲۸اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَجَادِلْہُمْ بِالَّتِیْ ہِیَ اَحْسَنُ ط اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَہُوَ اَعْلَمُ بِالْمُہْتَدِیْنَ(۱۲۵) وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ ط وَلَئِنْ صَبَرْتُمْ لَہُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ(۱۲۶) وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللہِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَیْہِمْ وَلَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ(۱۲۷) اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّالَّذِیْنَ ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ(۱۲۸)
ترجمہ:
اُدْعُ :آپؐ دعوت دیں

اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ:اپنے ربّ کے راستے کی طرف
بِالْحِکْمَۃِ :دانائی کے ساتھ

وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ:اور بھلی نصیحت کے ساتھ
وَجَادِلْہُمْ : اور آپؐ بحث کریں ان سے

بِالَّتِیْ : اس کے ساتھ جو کہ
ہِیَ اَحْسَنُ : و ہی سب سے خوبصورت ہو

اِنَّ رَبَّکَ :بے شک آپؐ کا ربّ
ہُوَ اَعْلَمُ :ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے

بِمَنْ ضَلَّ :اس کو جو گمراہ ہوا
عَنْ سَبِیْلِہٖ :اُس کے راستے سے

وَہُوَ اَعْلَمُ:اور و ہی سب سے زیادہ جاننے والا ہے
بِالْمُہْتَدِیْنَ : ہدایت پانے والوں کو

وَاِنْ عَاقَبْتُمْ : اور اگر تم لوگ بدلہ لو
فَعَاقِبُوْا :تو بدلہ لو

بِمِثْلِ مَا:اس کے جیسی سے
عُوْقِبْتُمْ بِہٖ : تم سے زیادتی کی گئی جیسی

وَلَئِنْ :اور بے شک اگر
صَبَرْتُمْ:تم لوگ صبر کرو

لَہُوَ خَیْرٌ :تو یقیناً یہ بہتر ہے
لِّلصّٰبِرِیْنَ :صبر کرنے والوں کے لیے

وَاصْبِرْ : اور آپؐ صبر کریں
وَمَا صَبْرُکَ : اور آپؐ کا صبر نہیں ہے

اِلَّا بِاللہِ : مگر اللہ (کی توفیق) سے
وَلَا تَحْزَنْ :اور آپؐ غمگین نہ ہوں

عَلَیْہِمْ : ان لوگوں پر
وَلَا تَکُ :اور آپؐ مت ہوں

فِیْ ضَیْقٍ :کسی تنگی میں
مِّمَّا :اس سے جو

یَمْکُرُوْنَ:یہ لوگ چالبازی کرتے ہیں
اِنَّ اللہَ :بے شک اللہ

مَعَ الَّذِیْنَ :ان کے ساتھ ہے جنہوں نے
اتَّقَوْا :تقویٰ اختیار کیا

وَّالَّذِیْنَ:اور ان کے ساتھ ہے جو کہ
ہُمْ مُّحْسِنُوْنَ : و ہی خوب کار ہیں

نوٹ۱: تفسیر قرطبی میں ہے کہ حضرت برام بن حیانؒ کی موت کا وقت آیا تو عزیزوں نے درخواست کی کہ ہمیں کچھ وصیت فرمایئے۔ انہوں نے فرمایا کہ وصیت تو لوگ اموال کی کیا کرتے ہیں ‘ وہ میرے پاس ہے نہیں‘ لیکن میں تم کو اللہ کی آیات خصوصاً سورۃ النحل کی آخری آیتوں کی وصیت کرتا ہوں کہ ان پر مضبوطی سے قائم رہو۔ وہ یہی زیرمطالعہ آیات ہیں۔ ان آیات میں دعوت و تبلیغ کے اصول اور آداب کی تفصیل چند کلمات میں سموئی ہوئی ہے۔
لفظ ’’حکمت ‘‘ قرآن کریم میں بہت سے معانی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ اس جگہ ائمہ تفسیر نے اس کی متعدد تفاسیر بیان کی ہیں۔ ’’روح المعانی‘‘ نے بحوالہ ’’بحرمحیط‘‘ حکمت کی تفسیر یہ کی ہے کہ حکمت اس درست کلام کا نام ہے جو انسان کے دل میں اُترجائے۔اس تفسیر میں تمام اقوال جمع ہوجاتے ہیں۔ اور صاحبِ ’’روح المعانی‘‘ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ حکمت سے مراد وہ بصیرت ہے جس کے ذریعے انسان حالات کے تقاضوں کو سمجھ کر اس کے مناسب کلام کرے۔ وقت اور موقع ایسا تلاش کرے کہ مخاطب پر بار نہ ہو۔ نرمی کی جگہ نرمی اور سختی کی جگہ سختی اختیار کرے۔ جہاں یہ سمجھے کہ صراحتاً کہنے میں مخاطب کو شرمندگی ہو گی وہاں کوئی ایسا عنوان تلاش کرے کہ مخاطب کو شرمندگی نہ ہو۔
’’وعظ ‘‘کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کسی کی خیر خواہی کی بات کو اس طرح کہا جائے کہ اس سے مخاطب کا دل قبولیت کے لیے نرم ہو جائے‘ مثلاً اس کے ساتھ قبول کرنے کے فوائد اور نہ کرنے کے نقصانات ذکر کیے جائیں‘ مگر خیر خواہی کی بات کبھی دل خراش انداز میں بھی کہی جاتی ہے۔ اس طریقہ کو چھوڑنے کے لیے لفظ ’’حَسَنَۃ‘‘ کا اضافہ کردیا گیا۔اگر دعوت میں کہیں بحث و مناظرہ کی ضرورت پیش آ جائے تو وہ بھی اچھے طریقہ سے ہونا چاہیے‘ یعنی گفتگو میں لطف و نرمی اختیار کی جائے۔
آج کل اوّل تو دعوت و اصلاح کی طرف دھیان ہی نہیں رہا اور جو اس میں مشغول ہیں انہوں نے صرف بحث و مباحثہ‘ مخالف پر الزام تراشی‘ فقرے چست کرنے اور تحقیر و توہین کو دعوت و تبلیغ سمجھ لیا ہے جو خلافِ سُنّت ہونے کی وجہ سے کبھی مؤثر و مفید نہیں ہوتا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اسلام کی بڑی خدمت کی ہے اور حقیقت میں وہ لوگوں کو اسلام سے متنفر کرنے کا سبب بن رہے ہوتے ہیں ۔ امام غزالیؒ نے فرمایا کہ دعوتِ حق میں مشغول رہنے والا یا تو صحیح اصولوں کے تابع اور مہلک خطرات سے بچ کر سعادتِ ابدی حاصل کر لیتا ہے یا پھر اس مقام سے گرتا ہے تو شقاوتِ ابدی کی طرف جاتا ہے‘ اس کا درمیان میں رہنا بہت مشکل ہے۔
رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے کہ ’’علم دین اس غرض سے نہ سیکھو کہ اس کے ذریعے دوسرے علماء کے مقابلہ میں فخر وعزت حاصل کرو یا کم علم لوگوں سے جھگڑا کرویا اس کے ذریعے لوگوں کی توجہ اپنی طرف کر لو‘اور جو ایسا کرے گا وہ آگ میں ہے۔‘‘
امام مالکؒ نے فرمایا کہ علم میں جھگڑا اور جدال نورِ علم کو انسان کے قلب سے نکال دیتا ہے۔ کسی نے پوچھا کہ ایک شخص جس کو سُنّت کا علم ہو گیا وہ حفاظت ِ سُنّت کے لیے جدال کر سکتا ہے؟ فرمایا: نہیں! بلکہ اس کو چاہیے کہ مخاطب کو صحیح بات سے آگاہ کر دے۔ پھر وہ قبول کر لے تو بہتر ورنہ سکوت اختیار کرے۔ (معارف القرآن‘ جلد پنجم‘ صفحات ۴۰۷ تا ۴۱۹ سے ماخوذ)
نوٹ۲: اسلام میں بدلہ لینے کی اجازت ہے لیکن یہ اجازت مشروط ہے۔ شرط یہ ہے کہ جتنی زیادتی ہم سے کی گئی ہے جواب میں ہم بس اتنی ہی زیادتی کر سکتے ہیں‘ زیادہ نہیں کر سکتے۔ اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ کسی نے اگر ہمیں ایک تھپڑ مارا ہے تو ہم بھی اسے ایک تھپڑ مار سکتے ہیں‘ دو نہیں مار سکتے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ بدلہ لینے میں برابر کی زیادتی کرنے کے لیے ہم کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتے۔ مثلاً کسی نے اگر زبردستی ہمیں شراب کا ایک گھونٹ پلا دیا ہے تو جواب میں ہم اسے ایک گھونٹ شراب بھی نہیں پلا سکتے ـ(معارف القرآن‘ ج۷‘ ص ۷۰۷) کیونکہ سورۃالبقرۃ کی آیت ۱۹۴ میں بدلہ میں برابر کی زیادتی کرنے کی اجازت کے ساتھ ہی حکم بھی دیا گیا ہے : {وَاتَّقُوا اللہَ}’’اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرو‘‘ یعنی بدلہ لینے کی اجازت کو اللہ کے کسی حکم کو پامال کرنے کا ذریعہ مت بنائو۔ اور تیسرا مطلب یہ ہے کہ جس نے زیادتی کی ہے صرف اس سے ہی بدلہ لیا جا سکتا ہے‘ اس کے کسی عزیز و اقارب سے نہیں۔مثلاً کسی نے ہمارے بیٹے کو قتل کر دیا ہے تو جواب میں ہم اس کے بیٹے کو قتل نہیں کر سکتے۔ کسی نے اگر ہماری خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی ہے تو بدلہ میں ہم اس کی خواتین سے بدتمیزی نہیں کر سکتے۔ (تفہیم القرآن‘ ج۴‘ ص ۵۱۲) کیونکہ اس کے بیٹے اور خواتین نے جرم نہیں کیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارا خالق ہے اور ہماری نس نس سے واقف ہے۔ وہ خوب جانتا ہے کہ یہ عام لوگوں کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ بدلہ لینے کی شرائط کا لحاظ رکھیں۔اس لیے زیر مطالعہ آیت ۱۲۶ میں ہمیں بتا دیا کہ اگر تم لوگ صبر کرو تو یہ یقیناً صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ مظلوم اگر صبر کرے گا تو اس میں ظالم کا کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ اس میں فائدہ مظلوم کا ہی ہے۔ اس بات کو سمجھ لیں۔ فرض کریں کہ کسی نے آپ کو ایک تھپڑ مارا ہے اور آپ نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا تو غالب امکان یہی ہے کہ شرط آپ کو یاد نہ رہے اور جواب میں آپ اسے چار پانچ تھپڑ مار دیں اور بازی اُلٹ جائے۔جو پہلے ظالم تھا وہ اب مظلوم ہو گیا اور آپ جو پہلے مظلوم تھے اب ظالم ہو گئے۔ پہلے پوزیشن یہ تھی کہ میدانِ حشر میں اس کی نیکیاں آپ کو دی جانی تھیں لیکن اب آپ کی نیکیاں اس کو دی جائیں گی۔ اس لیے یہ بات ذہن نشین رہنی چاہیے کہ صبر کرنا صبر کرنے والوں کے حق میں ہی بہتر ہے‘ اس میں زیادتی کرنے والے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔